ٹرمپ نے آسٹریلوی وزیراعظم سے گفتگو کو بدترین ٹیلی فون کال قرار دیدیا
امریکی صدر اور آسٹریلوی وزیرِ اعظم کے درمیان ایک گھنٹے بات ہونا تھی لیکن ٹرمپ نے 25 منٹ بعد ہی کال ختم کردی۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور آسٹریلوی وزیرِاعظم میلکلم ٹرن بُل کے درمیان تارکینِ وطن پر ہونے والی ٹیلیفونک گفتگو ٹرمپ نے انتہائی نامناسب انداز میں ختم کردی اور اسے کسی سربراہِ مملکت کی''بدترین'' کال قرار دیا ہے۔
امریکی اور یورپی ذرائع ابلاغ کے مطابق ٹرمپ نے آسٹریلوی وزیراعظم سے اس گفتگو کو بدترین ٹیلی فون کال قرار دیتے ہوئے کال ختم کرنے کا بھی اعتراف کیا ہے۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق ٹرمپ نے آسٹریلوی وزیراعظم سے اوباما دور میں ہونے والے معاہدے پر گفتگو کی۔
صدر اوباما کے دور میں امریکا اور آسٹریلیا کے درمیان تارکینِ وطن کے درمیان ایک معاہدہ ہوا تھا جس کے تحت آسٹریلیا میں پناہ لینے والے 1250 غیرملکیوں کو امریکا میں آباد کیا جانا چاہیے تھا۔ معاہدے کے تحت آسٹریلیا نے ایک ہزار سے زائد تارکینِ وطن کو قبول کرنے سے انکار کردیا تھا جن میں عراق، ایران اور افغانستان کے مرد شامل تھے اور اب وہ ساحل سے دور مراکز اور پاپوانیوگنی میں رکھے گئے ہیں۔ اس کے بعد صدر اوباما نے انہیں امریکا لانے کی حامی بھری تھی۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے اس معاملے پر آسٹریلوی وزیرِاعظم سے بات کی اور طویل کال کو درمیان میں ختم کردیا، امریکی صدر اور آسٹریلوی وزیرِ اعظم کے درمیان ایک گھنٹے بات ہونا تھی لیکن ٹرمپ نے 25 منٹ بعد ہی کال ختم کردی جب کہ انہوں نے اپنی ٹویٹ میں اس معاہدے کو ''احمقانہ'' قرار دیتے ہوئے اس پر نظر ثانی کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
ٹرمپ حکومت کے بعد آسٹریلیا امریکا سے دوبارہ اس معاہدے کی تصدیق کا خواہاں تھا اور یہ فون کال اسی سلسلے میں کی گئی تھی کیونکہ امریکا کی جانب سے 7 اسلامی ممالک کے باشندوں پر پابندی عائد کیے جانے کے بعد یہ معاہدہ بھی کھٹائی میں پڑسکتا تھا۔
امریکی اور یورپی ذرائع ابلاغ کے مطابق ٹرمپ نے آسٹریلوی وزیراعظم سے اس گفتگو کو بدترین ٹیلی فون کال قرار دیتے ہوئے کال ختم کرنے کا بھی اعتراف کیا ہے۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق ٹرمپ نے آسٹریلوی وزیراعظم سے اوباما دور میں ہونے والے معاہدے پر گفتگو کی۔
صدر اوباما کے دور میں امریکا اور آسٹریلیا کے درمیان تارکینِ وطن کے درمیان ایک معاہدہ ہوا تھا جس کے تحت آسٹریلیا میں پناہ لینے والے 1250 غیرملکیوں کو امریکا میں آباد کیا جانا چاہیے تھا۔ معاہدے کے تحت آسٹریلیا نے ایک ہزار سے زائد تارکینِ وطن کو قبول کرنے سے انکار کردیا تھا جن میں عراق، ایران اور افغانستان کے مرد شامل تھے اور اب وہ ساحل سے دور مراکز اور پاپوانیوگنی میں رکھے گئے ہیں۔ اس کے بعد صدر اوباما نے انہیں امریکا لانے کی حامی بھری تھی۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے اس معاملے پر آسٹریلوی وزیرِاعظم سے بات کی اور طویل کال کو درمیان میں ختم کردیا، امریکی صدر اور آسٹریلوی وزیرِ اعظم کے درمیان ایک گھنٹے بات ہونا تھی لیکن ٹرمپ نے 25 منٹ بعد ہی کال ختم کردی جب کہ انہوں نے اپنی ٹویٹ میں اس معاہدے کو ''احمقانہ'' قرار دیتے ہوئے اس پر نظر ثانی کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
ٹرمپ حکومت کے بعد آسٹریلیا امریکا سے دوبارہ اس معاہدے کی تصدیق کا خواہاں تھا اور یہ فون کال اسی سلسلے میں کی گئی تھی کیونکہ امریکا کی جانب سے 7 اسلامی ممالک کے باشندوں پر پابندی عائد کیے جانے کے بعد یہ معاہدہ بھی کھٹائی میں پڑسکتا تھا۔