خواتین کی لڑائی بھائی نے بھائی کو بچوں سمیت قتل کر دیا
خواتین کی لڑائیبھائی نے بھائی کو بچوں سمیت قتل کر دیا
FAISALABAD:
قتل و غارت گری اور فتنہ فساد کی جڑ ، زن،زر، زمین کو قرار دیا گیا ہے اور کہاجاتا ہے یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا تاریخ بتاتی ہے کہ زوال کا سبب بھی یہی مثلث رہی ہے، انسانی فطرت میں یہ بات شامل رہی ہے کہ انسان زیادہ سے زیادہ دولت حاصل کرنے اور صنف نازک کے لیے سب کچھ قربان کرنے کے لیے تیار رہتا ہے اور اس کی خاطر پیاری سے پیاری چیز کو بھی گنوا دیتاہے ،
یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ اس کی خاطر ہر رکاوٹ، ہر جائز اور نا جائز طریقے سے دور کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیے بعض اوقات ایسے ایسے کام کر جاتا ہے کہ انسانیت کے درجے سے بھی گر جاتا ہے، بزرگانِ دین کا فرمان ہے کہ حقیقی اولاد کو جائیداد کی تقسیم اپنی زندگی میں ہی منصفانہ طریقے سے کر دینی چاہیے، تاکہ بعد میں وارثوں کے درمیان کوئی تنازعہ باقی نہ رہے اور جو لوگ بغیر تقسیم کیے اس دارِ فانی سے کوچ کر جاتے ہیں یہ جائیداد نسل در نسل دشمنی کا سبب بنتی ہے۔ زمین یہیں رہتی ہے،
ا نسان نہیں رہتا اور اس کے لیے انسان اپنا سب کچھ ختم کر لیتا ہے اور آنے والی نسلوں کے لیے دکھ اور دکھی کر دینے والی داستانیں چھوڑ جاتا ہے، اس طرح کی ایک الم ناک واردات تھانہ نیلہ کے علاقہ، پیروال میں ہوئی، جسے سن کر ہر شخص لرز کر رہ گیا، دل دہلا دینے والی اس واردات میں ایک وحشی بھائی نے نہ صرف اپنے بھائی بل کہ بھابھی ان کے پانچ بچوں کو، جن میں، تین بیٹیاں اور دو بیٹے بھی شامل ہیں کو، ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ابدی نیند سلا دیا۔ بہ ظاہر اس واردات کو عورتوں کی لڑائی کہا جا رہا ہے لیکن اس کے پس پردہ اسی مثلث کا کردار نظر آ رہا ہے۔
پیروال چکوال کا پس ماندہ گائوں ہے اس میں رہائش پذیر، دوریز اور اس کے بھائی شعیب، میں بہت پیار تھا ،دوریز نے بھائی کو اعلیٰ تعلیم دلا کر اسے اٹامک انرجی کمیشن میں ملازمت دلائی اور اس کی دھوم دھام سے شادی کرائی، دونوں بھائیوں کو گائوں میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا ،دوریز کے تین بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں، ایک بیٹا شادی شدہ تھا اور فوج میں ملازمت کرتا ہے اور اس نے اپنی فیملی کو بھی اپنے ساتھ رکھا ہوا ہے اب وہی زندہ بچ گیاہے،
باقی ساراگھرانہ قتل ہو چکا ہے، نہ جانے اس گھر کو کس کی نظر لگ گئی، دیورانی اورجیٹھانی میں بھی شروع شروع میں بہت پیار تھا لیکن کچھ عرصہ بعد دونوں میں لڑائی جھگڑا ہونے لگا اور دیورانی جیٹھانی کے خلاف اپنے خاوند کے کان بھرنے لگی اور وہ جب بھی چھٹی پر گھر آتا تو وہ شکایات کے انبار لگا دیتی جس پر شعیب نے کئی بار اپنے بڑے بھائی سے شکایت کی لیکن بھائی اسے ہمیشہ سمجھاتا اور کہتا ، عورتوں کی باتوں پر دھیان نہ دیا کرو ، دوریز نے کئی بار اپنی بیوی کو ڈانٹا لیکن اس کے باوجود ان کے درمیان جھگڑا ہوتا رہا، جو اس سانحہ کا سبب بنا ۔
روز روز کے لڑائی جھگڑوں سے شعیب تنگ آچکا تھا ، وقوعہ کے روز ،شعیب ڈیوٹی پر تھا کہ اس کی بیوی نے فون پر لڑائی کی شکایت کی اور فون پر بھابی اور بھتیجے کی گالی گلوچ بھی شعیب کو سنا دی، اس صورت حال پر وہ بہت پریشان ہو گیا، شعیب یونٹ انچارج کے پاس گیا اور اسے بتایا ، اس کی بیوی سخت بیمار ہے اور وہ گھر جانا چاہتا ہے، صبح ڈیوٹی پر حا ضر ہو جائے گا، یونٹ انچارج نے اسے نائٹ پاس پر گھر بھیج دیا، رات 10بجے وہ گھر پہنچ گیا اور اس کی بیوی نے بتایا کہ آج تو آپ کی بھابی اور بھتیجے نے انتہا کر دی ہے،
ان حالات میں وہ ا ب گھر میں نہیں رہ سکتی کیوں کہ پہلے تمہاری بھابی گالی گلوچ کرتی تھی اب تو اس کے بیٹوں نے بھی گندی گالیاں دینا شروع کر دی ہیں، اس پر شعیب اور زیادہ غصے میں آگیا اور اس نے اپنے پستول میںمیگزین لوڈ کی اور سیدھا اپنے بھائی دوریز کے گھر چلا گیا ، سب سے پہلے اس نے صحن میں سوئے ہوئے شفیق الرحمٰن کو گولیا ں مار کر قتل کر ڈالا، اس کے بعد اس نے اپنی بھابھی،
تسلیم اختر کو ہلاک کیا، اسی اثنا میں اس کا بھائی دوریز گولیوں کی آواز سن کر آ گیا تو ملزم نے اُسے بھی گولیاں مار کر ہلاک کر دیا، ملزم کا غصّہ تھا کہ ٹھنڈا ہی نہیں ہو رہا تھا، اس نے اب اپنے دوسرے بھتیجے فیصل الرحٰمن کو بھی گولیاں مار کر شدید زخمی کر دیا، جس نے بعد ازاں راول پنڈی اسپتال میں دم توڑ دیا، جب ملزم بھائی بھابھی اور دو بھتیجوں کو مار چکا تو اس نے بتایا کہ وہ آدھا گھنٹہ تک سوچتا رہا کہ ان کی یہ بیٹیاں جہاں میرے خلاف گواہی دیں گی وہاں معاشرہ میں بدنامی کا بھی سبب بنیں گی اور ملزم نے دوسرا میگزین لوڈ کیا اور یکے بعد دیگرے تینوں لڑکیوں،
جن میں 20 سالہ شمائلہ نورین ،18 سالہ، نائیلہ نورین اور 12 سالہ اُمِ ثناجو گونگی تھی اس کو بھی گولیاں مار کر قتل کر دیا، سات افراد کے قتل کا سن کر اہل دیہہ پر سکتہ طاری ہو گیا، ملزم واردات کے بعد موقع سے فرار ہو کر راتوں رات اپنے یونٹ اٹامک چھائونی پہنچ گیا، جبکہ سات افراد کے قتل کی خبر ایکسپریس چینل پر نشر ہوتے ہی تمام گائوں میں کہرام مچ گیا ،کوئی بھی شخص زبان کھولنے کے لیے تیار نہ تھا۔
ڈی پی او چکوال نے ضلع بھر کی پولیس کو ناکہ بندی کرکے ملزم کی گرفتاری کا حکم دیا۔ ڈی ایس پی صدر سرکل، چوہدری سلیم ،پولیس کی بھاری نفری لے کر ملزم کو گرفتار کرنے کے لیے نکل پڑا جبکہ نیلہ پولیس نے موقع پر پہنچ کر نعشوں کو قبضہ میں لے کر پوسٹ مارٹم کے لیے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتال پہنچا کر پوسٹ ماٹم کے بعد ورثا کے حوالے کر دیا ، سات افراد کے قتل کا مقدمہ درج ہوا۔
جب ڈی ایس پی، پولیس کے ہم راہ اٹامک یونٹ پہنچے تو ملزم شعیب یونٹ سے فرار ہو گیا تھا۔ پولیس نے بھی اس کا پیچھا کیا ملزم نے پہلے ٹاور میں چھپنے کی کوشش کی لیکن جب پولیس کو آتے دیکھا تو یہاں سے بھی فرار ہو گیا، آٹھ کلو میٹر دور ایک پولٹری فارم میں جا کر چھپ گیا، پولیس بھی اس کا پیچھا کرتی رہی اور پولٹری فارم تک پہنچ گئی، پولیس نے پولٹری فارم کو گھیرے میں لے کر ملزم کو للکارا کہ وہ اپنے آپ کو پولیس کے حوالے کر دے، کیوں کہ وہ پولیس کے نرغے میں آ چکا ہے، یہ اعلان سن کر ملزم شعیب نے بغیر کسی مزاحمت کے اپنے آپ کو پولیس کے حوالے کر دیا۔
پولیس نے دورانِ تفتیش ملزم سے آلۂ قتل بھی برآمد کر لیا، اگر پولیس ملزم کو گرفتار نہ کرتی تو اگلا ٹارگٹ اس کا وہ بھتیجا تھا جو فوج میں ملازمت کررہا ہے، اس طرح ایک ہنستا بستا گھرانہ عورتوں کی لڑائی کے باعث اجڑ گیا اور جو لوگ بغیرکسی سوچ بیچار کے عورتوں کی باتیں سن کر فیصلہ کرتے ہیں، انہیں بہت دکھ اٹھانا پڑتے ہیں، اس واردات کا عینی شاہد مر چکا ہے، اب نہ جانے عدالتوں کی طرف سے کس طرح انصاف ملے ، کیا سات افراد کا یہ قاتل اپنے منطقی انجام تک پہنچ سکے گا ۔کیا دوریز کا آخری چشم وچراغ، محفوظ رہ سکے گا، یہ ایسے سوالات ہیں جو ہر صاحب دل پوچھتا ہے،کیا عدالتیں سات افراد کے اس قاتل کو کیفر کردار تک پہنچا سکیں گی۔
قتل و غارت گری اور فتنہ فساد کی جڑ ، زن،زر، زمین کو قرار دیا گیا ہے اور کہاجاتا ہے یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا تاریخ بتاتی ہے کہ زوال کا سبب بھی یہی مثلث رہی ہے، انسانی فطرت میں یہ بات شامل رہی ہے کہ انسان زیادہ سے زیادہ دولت حاصل کرنے اور صنف نازک کے لیے سب کچھ قربان کرنے کے لیے تیار رہتا ہے اور اس کی خاطر پیاری سے پیاری چیز کو بھی گنوا دیتاہے ،
یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ اس کی خاطر ہر رکاوٹ، ہر جائز اور نا جائز طریقے سے دور کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیے بعض اوقات ایسے ایسے کام کر جاتا ہے کہ انسانیت کے درجے سے بھی گر جاتا ہے، بزرگانِ دین کا فرمان ہے کہ حقیقی اولاد کو جائیداد کی تقسیم اپنی زندگی میں ہی منصفانہ طریقے سے کر دینی چاہیے، تاکہ بعد میں وارثوں کے درمیان کوئی تنازعہ باقی نہ رہے اور جو لوگ بغیر تقسیم کیے اس دارِ فانی سے کوچ کر جاتے ہیں یہ جائیداد نسل در نسل دشمنی کا سبب بنتی ہے۔ زمین یہیں رہتی ہے،
ا نسان نہیں رہتا اور اس کے لیے انسان اپنا سب کچھ ختم کر لیتا ہے اور آنے والی نسلوں کے لیے دکھ اور دکھی کر دینے والی داستانیں چھوڑ جاتا ہے، اس طرح کی ایک الم ناک واردات تھانہ نیلہ کے علاقہ، پیروال میں ہوئی، جسے سن کر ہر شخص لرز کر رہ گیا، دل دہلا دینے والی اس واردات میں ایک وحشی بھائی نے نہ صرف اپنے بھائی بل کہ بھابھی ان کے پانچ بچوں کو، جن میں، تین بیٹیاں اور دو بیٹے بھی شامل ہیں کو، ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ابدی نیند سلا دیا۔ بہ ظاہر اس واردات کو عورتوں کی لڑائی کہا جا رہا ہے لیکن اس کے پس پردہ اسی مثلث کا کردار نظر آ رہا ہے۔
پیروال چکوال کا پس ماندہ گائوں ہے اس میں رہائش پذیر، دوریز اور اس کے بھائی شعیب، میں بہت پیار تھا ،دوریز نے بھائی کو اعلیٰ تعلیم دلا کر اسے اٹامک انرجی کمیشن میں ملازمت دلائی اور اس کی دھوم دھام سے شادی کرائی، دونوں بھائیوں کو گائوں میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا ،دوریز کے تین بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں، ایک بیٹا شادی شدہ تھا اور فوج میں ملازمت کرتا ہے اور اس نے اپنی فیملی کو بھی اپنے ساتھ رکھا ہوا ہے اب وہی زندہ بچ گیاہے،
باقی ساراگھرانہ قتل ہو چکا ہے، نہ جانے اس گھر کو کس کی نظر لگ گئی، دیورانی اورجیٹھانی میں بھی شروع شروع میں بہت پیار تھا لیکن کچھ عرصہ بعد دونوں میں لڑائی جھگڑا ہونے لگا اور دیورانی جیٹھانی کے خلاف اپنے خاوند کے کان بھرنے لگی اور وہ جب بھی چھٹی پر گھر آتا تو وہ شکایات کے انبار لگا دیتی جس پر شعیب نے کئی بار اپنے بڑے بھائی سے شکایت کی لیکن بھائی اسے ہمیشہ سمجھاتا اور کہتا ، عورتوں کی باتوں پر دھیان نہ دیا کرو ، دوریز نے کئی بار اپنی بیوی کو ڈانٹا لیکن اس کے باوجود ان کے درمیان جھگڑا ہوتا رہا، جو اس سانحہ کا سبب بنا ۔
روز روز کے لڑائی جھگڑوں سے شعیب تنگ آچکا تھا ، وقوعہ کے روز ،شعیب ڈیوٹی پر تھا کہ اس کی بیوی نے فون پر لڑائی کی شکایت کی اور فون پر بھابی اور بھتیجے کی گالی گلوچ بھی شعیب کو سنا دی، اس صورت حال پر وہ بہت پریشان ہو گیا، شعیب یونٹ انچارج کے پاس گیا اور اسے بتایا ، اس کی بیوی سخت بیمار ہے اور وہ گھر جانا چاہتا ہے، صبح ڈیوٹی پر حا ضر ہو جائے گا، یونٹ انچارج نے اسے نائٹ پاس پر گھر بھیج دیا، رات 10بجے وہ گھر پہنچ گیا اور اس کی بیوی نے بتایا کہ آج تو آپ کی بھابی اور بھتیجے نے انتہا کر دی ہے،
ان حالات میں وہ ا ب گھر میں نہیں رہ سکتی کیوں کہ پہلے تمہاری بھابی گالی گلوچ کرتی تھی اب تو اس کے بیٹوں نے بھی گندی گالیاں دینا شروع کر دی ہیں، اس پر شعیب اور زیادہ غصے میں آگیا اور اس نے اپنے پستول میںمیگزین لوڈ کی اور سیدھا اپنے بھائی دوریز کے گھر چلا گیا ، سب سے پہلے اس نے صحن میں سوئے ہوئے شفیق الرحمٰن کو گولیا ں مار کر قتل کر ڈالا، اس کے بعد اس نے اپنی بھابھی،
تسلیم اختر کو ہلاک کیا، اسی اثنا میں اس کا بھائی دوریز گولیوں کی آواز سن کر آ گیا تو ملزم نے اُسے بھی گولیاں مار کر ہلاک کر دیا، ملزم کا غصّہ تھا کہ ٹھنڈا ہی نہیں ہو رہا تھا، اس نے اب اپنے دوسرے بھتیجے فیصل الرحٰمن کو بھی گولیاں مار کر شدید زخمی کر دیا، جس نے بعد ازاں راول پنڈی اسپتال میں دم توڑ دیا، جب ملزم بھائی بھابھی اور دو بھتیجوں کو مار چکا تو اس نے بتایا کہ وہ آدھا گھنٹہ تک سوچتا رہا کہ ان کی یہ بیٹیاں جہاں میرے خلاف گواہی دیں گی وہاں معاشرہ میں بدنامی کا بھی سبب بنیں گی اور ملزم نے دوسرا میگزین لوڈ کیا اور یکے بعد دیگرے تینوں لڑکیوں،
جن میں 20 سالہ شمائلہ نورین ،18 سالہ، نائیلہ نورین اور 12 سالہ اُمِ ثناجو گونگی تھی اس کو بھی گولیاں مار کر قتل کر دیا، سات افراد کے قتل کا سن کر اہل دیہہ پر سکتہ طاری ہو گیا، ملزم واردات کے بعد موقع سے فرار ہو کر راتوں رات اپنے یونٹ اٹامک چھائونی پہنچ گیا، جبکہ سات افراد کے قتل کی خبر ایکسپریس چینل پر نشر ہوتے ہی تمام گائوں میں کہرام مچ گیا ،کوئی بھی شخص زبان کھولنے کے لیے تیار نہ تھا۔
ڈی پی او چکوال نے ضلع بھر کی پولیس کو ناکہ بندی کرکے ملزم کی گرفتاری کا حکم دیا۔ ڈی ایس پی صدر سرکل، چوہدری سلیم ،پولیس کی بھاری نفری لے کر ملزم کو گرفتار کرنے کے لیے نکل پڑا جبکہ نیلہ پولیس نے موقع پر پہنچ کر نعشوں کو قبضہ میں لے کر پوسٹ مارٹم کے لیے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتال پہنچا کر پوسٹ ماٹم کے بعد ورثا کے حوالے کر دیا ، سات افراد کے قتل کا مقدمہ درج ہوا۔
جب ڈی ایس پی، پولیس کے ہم راہ اٹامک یونٹ پہنچے تو ملزم شعیب یونٹ سے فرار ہو گیا تھا۔ پولیس نے بھی اس کا پیچھا کیا ملزم نے پہلے ٹاور میں چھپنے کی کوشش کی لیکن جب پولیس کو آتے دیکھا تو یہاں سے بھی فرار ہو گیا، آٹھ کلو میٹر دور ایک پولٹری فارم میں جا کر چھپ گیا، پولیس بھی اس کا پیچھا کرتی رہی اور پولٹری فارم تک پہنچ گئی، پولیس نے پولٹری فارم کو گھیرے میں لے کر ملزم کو للکارا کہ وہ اپنے آپ کو پولیس کے حوالے کر دے، کیوں کہ وہ پولیس کے نرغے میں آ چکا ہے، یہ اعلان سن کر ملزم شعیب نے بغیر کسی مزاحمت کے اپنے آپ کو پولیس کے حوالے کر دیا۔
پولیس نے دورانِ تفتیش ملزم سے آلۂ قتل بھی برآمد کر لیا، اگر پولیس ملزم کو گرفتار نہ کرتی تو اگلا ٹارگٹ اس کا وہ بھتیجا تھا جو فوج میں ملازمت کررہا ہے، اس طرح ایک ہنستا بستا گھرانہ عورتوں کی لڑائی کے باعث اجڑ گیا اور جو لوگ بغیرکسی سوچ بیچار کے عورتوں کی باتیں سن کر فیصلہ کرتے ہیں، انہیں بہت دکھ اٹھانا پڑتے ہیں، اس واردات کا عینی شاہد مر چکا ہے، اب نہ جانے عدالتوں کی طرف سے کس طرح انصاف ملے ، کیا سات افراد کا یہ قاتل اپنے منطقی انجام تک پہنچ سکے گا ۔کیا دوریز کا آخری چشم وچراغ، محفوظ رہ سکے گا، یہ ایسے سوالات ہیں جو ہر صاحب دل پوچھتا ہے،کیا عدالتیں سات افراد کے اس قاتل کو کیفر کردار تک پہنچا سکیں گی۔