شکاریات کی ناقابل فراموش داستانیں
جنگل کا ایک اپنا سحر ہوتا ہے اور جو اس سحر میں پھنس گیا وہ کبھی اس سے نکل نہیں سکتا
کہتے ہیں جنگل کا ایک اپنا سحر ہوتا ہے اور جو اس سحر میں پھنس گیا وہ کبھی اس سے نکل نہیں سکتا۔ جنگل میں رات کا منظر بہت مسحورکن ہوتا ہے۔ سورج غروب ہونے کے ساتھ ساتھ بہت سے پرندے جو سارا دن جھاڑیوں میں چھپے رہتے ہیں، باہر نکل آتے ہیں اور ان کے چہچہوں سے جنگل کی فضا گونج اٹھتی ہے۔ جنگلی مرغ کی اچانک آوازیں اس حقیقت کی غمازی کرتی ہیں کہ سورج ڈوب رہا ہے۔ افق کی سرخی خاکستری رنگ میں بدل جاتی ہے۔ پھر آہستہ آہستہ اندھیرا چھانے لگتا ہے اور دن کے پرندے شب باشی کے لیے اپنے گھونسلوں میں چلے جاتے ہیں۔
ان کی جگہ رات کے پرندے اپنا راگ الاپنے لگتے ہیں۔ پھر جوں جوں رات کے سائے گہرے ہوتے جاتے ہیں شب بیدار جانور باہر نکل آتے ہیں۔ چاند نکل کر درختوں کی چوٹیوں سے سرکتا ہوا کھلے آسمان پر آجاتا ہے اور جب اس کی روشنی چھن چھن کر نیچے آتی ہے تو زمین پر روشنی اور سائے مل کر عجیب نقش ونگار بنا دیتے ہیں۔ ایسے میں کچھ آوازیں بلند ہوتی ہیں۔ ہر آواز اپنے اندر ایک داستان لیے ہوتی ہے۔ کچھ آوازیں خوف سے پر ہوتی ہیں، بعض محبت سے بھری ہوتی ہیں، دل دوز ہوتی ہیں۔
کچھ سے پتہ چلتا ہے کہ بھوک ستا رہی ہے اورکچھ سے یوں لگتا ہے جیسے کسی کو اپنے ساتھی کی تلاش ہے۔یہ آوازیں شکاریوں کو پکارتی ہیں اوروہ سحر زدہ ان کی طرف دوڑتے ہیں۔ شکاریوں کی دنیا شوق اور مہم جوئی کی دنیا ہے۔اس میں کامیابی اور ناکامی کا موقع برابر ہی ہے۔ شکاریوں نے اپنے اس شوق اور اس مہم جوئی میں معرکے بھی سرکیے ہیں اور ان کی داستان بھی بیان کی ہے۔ یہ داستانیں بڑی دلچسپ ہیں۔ان کے لکھنے والے خود شکاری بھی ہیں۔ان کی تحریروں میں فسانہ آرائی کی آمیزش تو ہے لیکن زیادہ ترحقیقی واقعات بیان ہوئے ہیں۔ برصغیر میں شکاریات پر جوتحریریں لکھی گئی ہیں وہ بیشتر پچھلی صدی کے ابتدائی زمانے کی ہیں۔ ان میں حیرت انگیز واقعات بیان ہوئے جن سے لکھنے والوں کے حوصلے، ہمت اور اولوالعزمی کا ثبوت ملتا ہے۔
راشد اشرف کا یہ ایک اورکارنامہ ہے کہ انھوں نے ان تحریروں کو جمع کیا اور ''شکاریات کی ناقابل فراموش داستانیں'' کے عنوان سے کتابی شکل میں شایع کیا۔ کتاب کے تعارف میں وہ لکھتے ہیں ''ان شکاریوں میں جن کی یہ تحریریں ہیں جم کوربٹ، کینتھ اینڈرسن، کرنل پیٹرسن، جے ای کیرنگٹن، شوکت ہاشمی، باقی نقوی، نواب قطب یار جنگ اور تہورعلی خاں جیسے نامور شکاری شامل ہیں۔ یہ سچی کہانیاں ہیں جو اپنے طرز تحریر کی خوبی کی بنا پراچھے اچھے افسانوں کو مات کرتی ہیں۔ ان تحریروں میں جنگل کی پراسرار فضا اپنی تمام تر رنگینیوں کے ساتھ جلوہ افروز ہے۔'' ایک اورخاص بات اس کتاب کی یہ ہے کہ اس میں یہ اہتمام کیا گیا ہے کہ انتخاب بہترین کہانیوں پر مشتمل ہو۔
شکاریات ادب کے بارے میں ڈاکٹر سلمان باقر نے اپنے مضمون میں جو راشد اشرف کی کتاب میں شامل ہے لکھا ہے کہ شکار اور شکاری کی دنیا بڑی انوکھی اور جان جوکھم کی دنیا ہے۔ بہت سے شکاری اپنے شکارکے ہاتھوں خود شکار ہوگئے۔ بے شمار شکاری ایسے ہیں جنھوں نے پراسرار اور ہیبت ناک جنگلوں میں اپنے اس شوق کے ہاتھوں جانیں گنوائیں یا اپاہج اور معذور ہوگئے۔ کچھ شکاری ایسے ہیں جنھوں نے اپنے شکار کے حیرت انگیز قصے اورکہانیاں لکھیں۔ بیک وقت شکاری اور مصنف ہونا ایک ہنر اور اعزاز ہے۔ ان شکاری لکھاریوں میں انگریز شکاریوں کے نام ناقابل فراموش ہیں۔ ان کی طرح تہور علی خاں ہیں جو شکاری بھی ایسے تھے کہ آدم خور شیر ہو، ہاتھی ہو، چیتا ہو یا تیندوا اور چاہے کتنا ہی مکار اور چالباز ہو، ان سے بچ کر نہیں جاسکتا تھا۔ ان کے شکار کی تحریر کردہ داستانیں آج بھی مقبول ہیں۔
شکاریات کے ادب میں جم کوربٹ کی کتابوں کا بڑا نام ہے، وہ ہمالیہ کی ترائی کے علاقے میں آدم خور شیر اور چیتے کے شکارکی وجہ سے مشہور ہوئے۔ ان دو خونخوار جانوروں نے گاؤں کے علاقے میں بڑی دہشت پھیلائی ہوئی تھی اور بہت سی انسانی جانوں کا ضیاع ہو رہا تھا۔ اپنی کتاب میں انھوں نے یہ بتایا ہے کہ جانوروں میں انسانی گوشت کھانے کا رجحان کیسے پیدا ہوتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں ''آدم خور شیر وہ ہوتا ہے جو ایسے حالات کے دباؤ سے مجبور ہوکر جو اس کے اختیار سے باہر ہوں، غیر مانوس غذا کھانے لگتا ہے۔ دس میں سے نو حالات میں یہ دباؤ زخموں کی بنا پر ہوتا ہے۔ آدمی شیرکا فطری شکار نہیں۔ شیر اسی وقت انسانی گوشت کھانے پر مجبور ہوجاتا ہے جب وہ زخموں یا بڑھاپے کی وجہ سے ناکارہ ہوگیا ہو۔
شکاریات کی منتخب کہانیاں جو راشد اشرف کی کتاب کا حصہ ہیں، بڑی دلچسپ ہیں۔ ان میں سنسنی خیز، ناقابل یقین اورغیر متوقع واقعات کا ایسا بیان ہے جو ان لوگوں کو بھی جنھیں شکار وغیرہ سے کوئی دلچسپی نہیں، پڑھنے پر مجبورکردیتا ہے۔ کینتھ اینڈرسن کی کہانی 'کیلوں کے باغ کا آدم خور' اور گول پور کا شیطان، تہورعلی خاں کی کہانی 'عبدالغفورکی داستان' اور 'موت کا جزیرہ، کرنل ہنری وڈ کی کہانی ''مست ہاتھی کا شکار''، کرنل پیٹرسن کی کہانی ''ساؤ کے شیر'' ، شوکت ہاشمی کی کہانی ''فورٹ منرو کا آدم خور''، قمر نقوی کی کہانی ''کھنڈرکا بھوت'' اور جم کوربٹ کی کہانی '' موہن کا آدم خورشیر'' دلچسپ کہانیاں ہیں۔
اس کتاب میں ایک سفرکی کہانی جس کا شکار سے تعلق نہیں ''شملہ سے موری تک'' شامل ہے۔ یہ حکیم محمد اقبال حسین کی تحریر ہے۔ سیر وسفر میں چار افراد شریک تھے۔ ان میں حکیم اقبال کے علاوہ ہمدرد کے حکیم عبدالحمید بھی تھے۔ اس سفر کا حال بیان کرتے ہوئے حکیم اقبال لکھتے ہیں ''اس سفر میں نہ کوئی خاص بات قابل ذکر تھی اور نہ اس کے لکھنے سے کوئی خاص فائدہ ہے۔ ہاں اس سفر سے مجھے اور حکیم صاحب کو غیر معمولی فائدہ ہوا۔ مجھے تو اس قدر فائدہ ہوا کہ شاید دس سال بھی علاج کرتا تو میری جسمانی اور عصبی کمزوری دور نہ ہوتی۔ حکیم عبدالحمید صاحب کو یہ فائدہ ہوا کہ ان کے جسم میں چربی زیادہ ہوگئی تھی وہ ٹھکانے لگ گئی۔ان کا پیٹ جو پہلے بڑھا ہوا تھا بالکل پٹخ گیا۔
دوسرا فائدہ ان کو اپنے فن کے اعتبار سے ہوا، یعنی یہ کہ اس سفر میں انھوں نے بے شمار بوٹیوں کی جانچ پڑتال کی اور بوٹیوں کا ایک ایسا گروپ دریافت کیا جس سے زخموں اور چوٹوں کے علاج کے لیے مرہم بنایا جاسکے۔راشد اشرف کہتے ہیں ''شیرکا شکار اب خواب و خیال ہوا۔ اب انسانوں کا شکارکیا جاتا ہے اور اس پر فخر بھی کیا جاتا ہے۔ دنیا کے بیشتر جنگل فنا ہوچکے ہیں اور ہریالی کی جگہ کنکریٹ کے جنگل سر اٹھا چکے ہیں۔ ایسے میں شکار اور بالخصوص شیرکے شکار کی ان داستانوں کو صرف کتابوں ہی میں پڑھا جاسکتا ہے۔ کچھ دیر ہی کے لیے سہی مصائب سے بھری زندگیوں کے لیے یہ ایک عمدہ تفریح کہلائی جاسکتی ہے۔''