چہرہ نمائی کا شوق
گزشتہ کئی ماہ سے سیاسی قائدین میں عمران خان واحد قومی رہنما ہیں جو الیکٹرک و پرنٹ میڈیا میں سب سے زیادہ نظرآ رہے ہیں
PESHAWAR:
گزشتہ کئی ماہ سے سیاسی قائدین میں عمران خان واحد قومی رہنما ہیں جو الیکٹرک و پرنٹ میڈیا میں سب سے زیادہ نظرآ رہے ہیں۔ جنھیں دیکھ کر پی ٹی آئی کے رہنماؤں کو بھی میڈیا پر زیادہ نظر آنے کا شوق ہی نہیں بڑھا بلکہ اس سلسلے میں ان کی دوسروں سے ہی نہیں بلکہ اپنوں سے بھی ناراضی اور تو تکرار تک ہو چکی ہے، جو میڈیا نے بھی نمایاں کر کے قوم کو دکھائی ہے۔
حال ہی میں پی ٹی آئی کے دو رہنماؤں نعیم الحق اور فواد چوہدری میں اس وقت ناراضی کا اظہار ہوا جب سپریم کورٹ میں فواد چوہدری نے میڈیا پر آ کر بریفنگ دینی شروع کر دی جس پر نعیم الحق نے آ کر فواد پر برہمی کا اظہارکیا کہ میرا انتظار کر لیا ہوتا۔ اس سے قبل بھی سپریم کورٹ میں میڈیا سے پہلے باتیں کرنے کے شوق میں پی ٹی آئی کے ترجمان نعیم الحق کا عوامی تحریک کے جنرل سیکریٹری گنڈا پور کے ساتھ ٹھیک ٹھاک جھگڑا ہوا تھا، جب نعیم الحق نے عمران خان کے لیے گنڈا پور کو ہٹانے اور میڈیا سے بات کرنے سے روکنے کی کوشش کی تھی۔ اس سلسلے میں دونوں رہنماؤں کا جھگڑا میڈیا نے قوم کو دکھایا تھا اور شیخ رشید احمد نے دونوں رہنماؤں کا جھگڑا ختم کرایا تھا۔
اس موقعے پر نعیم الحق نے یہ جواز پیش کیا تھا کہ وہ عوامی تحریک کے مرکزی جنرل سیکریٹری کو پہچانتے نہیں تھے اور وہ عمران خان کی پریس بریفنگ کرانا چاہتے تھے۔ پی ٹی آئی اور عوامی تحریک کے طویل دھرنوں میں زیادہ تر تو عمران خان یا ڈاکٹر طاہر القادری ہی تقریر کرتے نظر آتے تھے اور ان کی غیر موجودگی میں دونوں پارٹیوں کے دیگر مرکزی رہنما بھی میڈیا پر آنے کا موقع ضایع نہیں کرتے تھے۔ اس لیے یہ کیسے ممکن تھا کہ پی ٹی آئی کے ترجمان پاکستان عوامی تحریک کے مرکزی جنرل سیکریٹری کو نہ پہچانتے ہوں۔
وہ بھی دور تھا کہ جب ملک میں پی ٹی وی کے علاوہ نجی چینل نہیں تھے اور دو بڑی نیوز ایجنسیاں سرکاری طور پر اے پی پی اور غیر سرکاری پی پی آئی نیوز ایجنسی تھی۔ سرکاری تقریبات کی کوریج تو پی ٹی وی اور اے پی پی کے نمایندوں کی ڈیوٹی لگتی تھی جب کہ قومی رہنما پی پی آئی کی خدمات حاصل کیا کرتے تھے۔ اُس وقت پی ٹی وی مکمل طور پر حکومتی خبریں نشرکرتا تھا اور اپوزیشن کے کسی رہنما کی حکومت مخالف خبر پی ٹی وی پر نہیں چلتی تھی اور اگر کوئی اپوزیشن سے تعلق رکھنے والا رہنما حکومت کے حق میں بات کر دیتا تھا وہ پی ٹی وی ضرور نشر کر دیتا تھا۔ تین عشروں سے قبل اپوزیشن اتنی مضبوط ہوتی تھی نہ حکومت کے خلاف عمران خان جیسی سخت اپوزیشن رہنما کبھی کبھی حکومتی اقدام پر پسندیدگی کا اظہار بھی کر دیتے تھے۔
سابق وزیراعظم بھٹوکے من مانے اور اپوزیشن کے خلاف سخت اقدامات سے اپوزیشن متحد ہوئی اور 1977ء کے انتخابات میں حکومتی دھاندلی کے خلاف نو جماعتی اتحاد قائم ہوا اور انھوں نے ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف بھرپور تحریک چلائی۔ بھٹو صاحب سے قبل ایوب خان کے دور میں بھی اپوزیشن حکومت کی مخالفت میں متحد ہوتی تھی اور نوابزادہ نصر اﷲ خان اپوزیشن کو متحد کرنے میں اہم کردار ادا کیا کرتے تھے مگر وہ بھی شائستگی کا دامن کبھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے اور شاعرانہ انداز میں بھی حکومت پر تنقید کر جاتے تھے۔
بھٹو حکومت کے خلاف اپوزیشن کی خبریں مخصوص اخبارات میں شایع ہوتی تھیں جس پر متعدد اخبارات بھی حکومت نے بند کیے جس کی وجہ سے حکومت مخالف اتحاد بی بی سی سے رابطوں میں رہتا اور بی بی سی کی خبریں سننے والوں کا ہر جگہ ہجوم ملتا اور بی بی سی کا نمایندہ مارک ٹیلی اپوزیشن کی ضرورت تھا۔ نو پارٹیوں کے اتحاد اور وزیراعظم بھٹو کے درمیان مذاکرات بھی ہوئے مگر 1977ء میں مارشل لاء لگ گیا اور میڈیا پر سنسر شپ بھی عائد ہوئی۔
راقم کو بھی تحریک استقلال کے سربراہ اصغر خان کے ساتھ بلوچستان جانے کا موقع ملا تھا اور وہ بھی پی پی آئی کے رپورٹرکو خاص طور پر بلوچستان لے کر گئے تھے اور لوگ پی ٹی وی کی خبروں پر اعتماد نہیں کرتے تھے اور خبرنامہ کو سرکار نامہ قرار دیا کرتے تھے اور اے پی پی کے بجائے پی پی آئی کی خبروں پر اعتماد کیا جاتا تھا۔ 1988ء میں جنرل ایوب کے پریس آرڈیننس کی منسوخی سے اخبارات کو کچھ آزادی ملی اور اخبارات و رسائل کے نئے ڈکلیریشن آسانی سے ملنے لگے تھے اور بعد میں جنرل پرویز کے دور میں پی ٹی وی کے علاوہ نجی چینل بھی میدان میں آ گئے اور پی ٹی وی کی اجارہ داری ختم ہو گئی اور سیاسی رہنماؤں کے علاوہ دیگر لوگوں میں بھی میڈیا پر آنے کا شوق بڑھا اور ایسی ایسی خبریں میڈیا خصوصاً بریکنگ نیوز میں آنے لگیں جن کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔
میڈیا پر چہرہ نمائی کا شوق اتنا بڑھ چکا ہے کہ اگرکوئی رہنما یا سرکاری عہدیدار میڈیا سے گفتگو کر رہا ہو تو اس کے جاننے والوں کی بھی کوشش ہوتی ہے کہ وہ بھی اپنے صاحب کے ساتھ یا اس کے آگے پیچھے نظر آئیں اور نظر آنے کے لیے وہ آگے آنے کی کوشش کرتے ہیں اور پیچھے ہوں تو ایڑی کے زور پر قد بڑھا کر میڈیا پر نظر آنے کی بھرپورکوشش کی جاتی ہے۔
اب میڈیا بھی محدود نہیں رہا، پرنٹ میڈیا والے عوامی مقامات پر کم نظر آتے تھے مگر اب الیکٹرانک میڈیا کے لوگ کیمرے لیے ہرجگہ خصوصاً شاہراہوں، مارکیٹوں اور ایسی تقریبات میں بھی نظر آتے ہیں جنھیں پرنٹ میڈیا کبھی اہمیت نہیں دیا کرتا تھا۔ الیکٹرونک میڈیا کے بعد پرنٹ میڈیا کی اہمیت ختم نہیں ہوئی، سرکولیشن ضرور متاثر ہوئی ہے، پی ٹی وی کی اجارہ داری میں ٹی وی پر نظر آنا ایک اعزاز سمجھا جاتا تھا مگر اب تو مٹی پلید ہوگئی ہے۔ پہلے پی ٹی وی پر بمشکل ہی کسی آئی جی پولیس کی خبر نشر ہوتی تھی مگر اب نجی ٹی وی چینلوں پر نظر آنے کے شوقین چھوٹے پولیس افسروں کی بھرمار نظر آتی ہے۔
سیاست دانوں نے تو سپریم کورٹ کو بھی نہیں بخشا۔ پاناما لیکس کی سماعت کے موقعے پر متعلقہ فریق پارٹیوں کے ہر رہنما نے میڈیا پر اپنی چہرہ نمائی اپنا فرض اولین بنائے رکھا اورعدالتی کارروائی باہر آ کر میڈیا پر جس طرح بتائی جاتی رہی جسے وہ عدالت عظمیٰ اور فاضل ججوں کے ترجمان ہوں۔ ایک فاضل جج نے سپریم کورٹ کو اس سلسلے میں استعمال کرنے پر برہمی کا اظہارکیا تو عمران خان نے میڈیا بریفنگ چھوڑ دی مگر اپنے رہنماؤں کو نہیں روکا اور دوسرے بھی باز نہیں آئے اور آتے جاتے ایسے ہاتھ لہراتے ہوئے میڈیا پر نظر آئے جیسے مقدمہ جیت کر اظہار مسرت کر رہے ہوں اور ان کے روزانہ کے اسٹائل میڈیا پر مختلف ہی نظر آتے رہے۔
گزشتہ کئی ماہ سے سیاسی قائدین میں عمران خان واحد قومی رہنما ہیں جو الیکٹرک و پرنٹ میڈیا میں سب سے زیادہ نظرآ رہے ہیں۔ جنھیں دیکھ کر پی ٹی آئی کے رہنماؤں کو بھی میڈیا پر زیادہ نظر آنے کا شوق ہی نہیں بڑھا بلکہ اس سلسلے میں ان کی دوسروں سے ہی نہیں بلکہ اپنوں سے بھی ناراضی اور تو تکرار تک ہو چکی ہے، جو میڈیا نے بھی نمایاں کر کے قوم کو دکھائی ہے۔
حال ہی میں پی ٹی آئی کے دو رہنماؤں نعیم الحق اور فواد چوہدری میں اس وقت ناراضی کا اظہار ہوا جب سپریم کورٹ میں فواد چوہدری نے میڈیا پر آ کر بریفنگ دینی شروع کر دی جس پر نعیم الحق نے آ کر فواد پر برہمی کا اظہارکیا کہ میرا انتظار کر لیا ہوتا۔ اس سے قبل بھی سپریم کورٹ میں میڈیا سے پہلے باتیں کرنے کے شوق میں پی ٹی آئی کے ترجمان نعیم الحق کا عوامی تحریک کے جنرل سیکریٹری گنڈا پور کے ساتھ ٹھیک ٹھاک جھگڑا ہوا تھا، جب نعیم الحق نے عمران خان کے لیے گنڈا پور کو ہٹانے اور میڈیا سے بات کرنے سے روکنے کی کوشش کی تھی۔ اس سلسلے میں دونوں رہنماؤں کا جھگڑا میڈیا نے قوم کو دکھایا تھا اور شیخ رشید احمد نے دونوں رہنماؤں کا جھگڑا ختم کرایا تھا۔
اس موقعے پر نعیم الحق نے یہ جواز پیش کیا تھا کہ وہ عوامی تحریک کے مرکزی جنرل سیکریٹری کو پہچانتے نہیں تھے اور وہ عمران خان کی پریس بریفنگ کرانا چاہتے تھے۔ پی ٹی آئی اور عوامی تحریک کے طویل دھرنوں میں زیادہ تر تو عمران خان یا ڈاکٹر طاہر القادری ہی تقریر کرتے نظر آتے تھے اور ان کی غیر موجودگی میں دونوں پارٹیوں کے دیگر مرکزی رہنما بھی میڈیا پر آنے کا موقع ضایع نہیں کرتے تھے۔ اس لیے یہ کیسے ممکن تھا کہ پی ٹی آئی کے ترجمان پاکستان عوامی تحریک کے مرکزی جنرل سیکریٹری کو نہ پہچانتے ہوں۔
وہ بھی دور تھا کہ جب ملک میں پی ٹی وی کے علاوہ نجی چینل نہیں تھے اور دو بڑی نیوز ایجنسیاں سرکاری طور پر اے پی پی اور غیر سرکاری پی پی آئی نیوز ایجنسی تھی۔ سرکاری تقریبات کی کوریج تو پی ٹی وی اور اے پی پی کے نمایندوں کی ڈیوٹی لگتی تھی جب کہ قومی رہنما پی پی آئی کی خدمات حاصل کیا کرتے تھے۔ اُس وقت پی ٹی وی مکمل طور پر حکومتی خبریں نشرکرتا تھا اور اپوزیشن کے کسی رہنما کی حکومت مخالف خبر پی ٹی وی پر نہیں چلتی تھی اور اگر کوئی اپوزیشن سے تعلق رکھنے والا رہنما حکومت کے حق میں بات کر دیتا تھا وہ پی ٹی وی ضرور نشر کر دیتا تھا۔ تین عشروں سے قبل اپوزیشن اتنی مضبوط ہوتی تھی نہ حکومت کے خلاف عمران خان جیسی سخت اپوزیشن رہنما کبھی کبھی حکومتی اقدام پر پسندیدگی کا اظہار بھی کر دیتے تھے۔
سابق وزیراعظم بھٹوکے من مانے اور اپوزیشن کے خلاف سخت اقدامات سے اپوزیشن متحد ہوئی اور 1977ء کے انتخابات میں حکومتی دھاندلی کے خلاف نو جماعتی اتحاد قائم ہوا اور انھوں نے ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف بھرپور تحریک چلائی۔ بھٹو صاحب سے قبل ایوب خان کے دور میں بھی اپوزیشن حکومت کی مخالفت میں متحد ہوتی تھی اور نوابزادہ نصر اﷲ خان اپوزیشن کو متحد کرنے میں اہم کردار ادا کیا کرتے تھے مگر وہ بھی شائستگی کا دامن کبھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے اور شاعرانہ انداز میں بھی حکومت پر تنقید کر جاتے تھے۔
بھٹو حکومت کے خلاف اپوزیشن کی خبریں مخصوص اخبارات میں شایع ہوتی تھیں جس پر متعدد اخبارات بھی حکومت نے بند کیے جس کی وجہ سے حکومت مخالف اتحاد بی بی سی سے رابطوں میں رہتا اور بی بی سی کی خبریں سننے والوں کا ہر جگہ ہجوم ملتا اور بی بی سی کا نمایندہ مارک ٹیلی اپوزیشن کی ضرورت تھا۔ نو پارٹیوں کے اتحاد اور وزیراعظم بھٹو کے درمیان مذاکرات بھی ہوئے مگر 1977ء میں مارشل لاء لگ گیا اور میڈیا پر سنسر شپ بھی عائد ہوئی۔
راقم کو بھی تحریک استقلال کے سربراہ اصغر خان کے ساتھ بلوچستان جانے کا موقع ملا تھا اور وہ بھی پی پی آئی کے رپورٹرکو خاص طور پر بلوچستان لے کر گئے تھے اور لوگ پی ٹی وی کی خبروں پر اعتماد نہیں کرتے تھے اور خبرنامہ کو سرکار نامہ قرار دیا کرتے تھے اور اے پی پی کے بجائے پی پی آئی کی خبروں پر اعتماد کیا جاتا تھا۔ 1988ء میں جنرل ایوب کے پریس آرڈیننس کی منسوخی سے اخبارات کو کچھ آزادی ملی اور اخبارات و رسائل کے نئے ڈکلیریشن آسانی سے ملنے لگے تھے اور بعد میں جنرل پرویز کے دور میں پی ٹی وی کے علاوہ نجی چینل بھی میدان میں آ گئے اور پی ٹی وی کی اجارہ داری ختم ہو گئی اور سیاسی رہنماؤں کے علاوہ دیگر لوگوں میں بھی میڈیا پر آنے کا شوق بڑھا اور ایسی ایسی خبریں میڈیا خصوصاً بریکنگ نیوز میں آنے لگیں جن کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔
میڈیا پر چہرہ نمائی کا شوق اتنا بڑھ چکا ہے کہ اگرکوئی رہنما یا سرکاری عہدیدار میڈیا سے گفتگو کر رہا ہو تو اس کے جاننے والوں کی بھی کوشش ہوتی ہے کہ وہ بھی اپنے صاحب کے ساتھ یا اس کے آگے پیچھے نظر آئیں اور نظر آنے کے لیے وہ آگے آنے کی کوشش کرتے ہیں اور پیچھے ہوں تو ایڑی کے زور پر قد بڑھا کر میڈیا پر نظر آنے کی بھرپورکوشش کی جاتی ہے۔
اب میڈیا بھی محدود نہیں رہا، پرنٹ میڈیا والے عوامی مقامات پر کم نظر آتے تھے مگر اب الیکٹرانک میڈیا کے لوگ کیمرے لیے ہرجگہ خصوصاً شاہراہوں، مارکیٹوں اور ایسی تقریبات میں بھی نظر آتے ہیں جنھیں پرنٹ میڈیا کبھی اہمیت نہیں دیا کرتا تھا۔ الیکٹرونک میڈیا کے بعد پرنٹ میڈیا کی اہمیت ختم نہیں ہوئی، سرکولیشن ضرور متاثر ہوئی ہے، پی ٹی وی کی اجارہ داری میں ٹی وی پر نظر آنا ایک اعزاز سمجھا جاتا تھا مگر اب تو مٹی پلید ہوگئی ہے۔ پہلے پی ٹی وی پر بمشکل ہی کسی آئی جی پولیس کی خبر نشر ہوتی تھی مگر اب نجی ٹی وی چینلوں پر نظر آنے کے شوقین چھوٹے پولیس افسروں کی بھرمار نظر آتی ہے۔
سیاست دانوں نے تو سپریم کورٹ کو بھی نہیں بخشا۔ پاناما لیکس کی سماعت کے موقعے پر متعلقہ فریق پارٹیوں کے ہر رہنما نے میڈیا پر اپنی چہرہ نمائی اپنا فرض اولین بنائے رکھا اورعدالتی کارروائی باہر آ کر میڈیا پر جس طرح بتائی جاتی رہی جسے وہ عدالت عظمیٰ اور فاضل ججوں کے ترجمان ہوں۔ ایک فاضل جج نے سپریم کورٹ کو اس سلسلے میں استعمال کرنے پر برہمی کا اظہارکیا تو عمران خان نے میڈیا بریفنگ چھوڑ دی مگر اپنے رہنماؤں کو نہیں روکا اور دوسرے بھی باز نہیں آئے اور آتے جاتے ایسے ہاتھ لہراتے ہوئے میڈیا پر نظر آئے جیسے مقدمہ جیت کر اظہار مسرت کر رہے ہوں اور ان کے روزانہ کے اسٹائل میڈیا پر مختلف ہی نظر آتے رہے۔