مشاہدے کی ترغیب اور سائنسی حقائق

قرآن ہمیں جہاں جدید سائنسی ترقی کی دعوت دیتا ہے، وہاں خود اس میں قدرتی حوادث سے متعلق بہت سے مشاہدات و شواہد ملتے ہیں


[email protected]

قرآن ہمیں جہاں جدید سائنسی ترقی کی دعوت دیتا ہے، وہاں خود اس میں قدرتی حوادث سے متعلق بہت سے مشاہدات و شواہد ملتے ہیں اور اس میں ایسی تشریحی تفصیلات موجود ہیں جو جدید سائنسی مواد سے مطابقت رکھتی ہیں۔

مفسر قرآن، معروف محدث اور مورخ علامہ جلال الدین سیوطی ابوبکر بن العربی کی کتاب قانون التاویل کے حوالے سے لکھتے ہیں۔ قرآن حکیم ستتر ہزار چار سو پچاس (77,450) علوم پر مشتمل ہے، یہ عدد قرآنی کلمات کو چار سے ضرب دینے سے حاصل ہوتا ہے، اس لیے کہ قرآن کریم کے ہر کلمے کی چار حالتیں ہیں۔ ایک اس کا ظاہر و باطن ہے اور ایک حد و مطلع، یہ اس حالت میں ہے کہ جب کلمات قرآن کو انفرادی اعتبار سے بدون ترکیب دیکھا جائے، اگر کتاب کے باہمی اختلاط و ترکیب پر نگاہ ڈالی جائے، تو ان کی تعداد حد و حساب سے باہر ہو جاتی ہے۔ قرآن حکیم کی کل 6,666 آیات میں سے 756 آیات ایسی ہیں، جن میں غور و فکر، بصیرت و تدبر اور مشاہدے کی ترغیب یا حکم دیا گیا ہے۔

دنیا سورج سمیت اور دائرہ میں گردش کررہی ہے۔ یہ گردش تقریباً پچاس کروڑ سال میں مکمل ہوتی ہے اس طرح سائنسی نکتہ نظر سے کائنات کے تخلیقی نظام کے سلسلے میں دو باتیں کھل کر سامنے آتی ہیں۔ (1) محوری گردش (2) جڑواں قوت۔

ان سائنسی حقائق کا اظہار قرآن کریم نے چودہ سو سال پہلے کردیا تھا لیکن قرآنی معجزات کے رازوں کی خصوصاً ''جوڑوں'' کے سلسلے میں ایسی مثالیں ڈھونڈ نکالی ہیں جوکہ کل تک نہیں جانتے تھے، لیکن اس سے پہلے یہ دیکھتے ہیں ''محوری گردش'' کے بارے میں قرآن کیا کہتا ہے۔ ارشاد ہے:

وہ ایسا ہے کہ اس نے رات اور دن اور سورج اور چاند بنائے۔ ہر ایک دائرہ میں تیر (گردش) رہے ہیں۔ (الانبیاء آیت نمبر33)

اس سے دو باتیں سامنے آئی ہیں، ایک تو یہ کہ سب سیارے ستارے ایک ہی دائرہ میں نہیں ہیں بلکہ ہر ایک کا دائرہ الگ ہے، دوسری یہ کہ دائرہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس میں سیاروں کو کھونٹوں کی طرح جوڑ دیا گیا ہو اور دائرہ خود انھیں لیے گھوم رہا ہو، بلکہ دائرہ گرد و غبار یا فضا یا خلا کی نوعیت کی چیز ہے جس میں ان تمام سیارے، ستارے اور سیارچے کی حرکت تیرنے کے عمل سے مشابہت رکھتی ہے۔ اس کی ایک اور مثال کہ ہم نے تمام چیزوں کو جوڑوں میں پیدا کیا۔ قرآن کریم اس سلسلے میں ایک پنہاں پیغام دیتا ہے، ارشاد ہوتا ہے۔

''پاک ہے وہ ذات جس نے جملہ اقسام کے جوڑے پیدا کیے، خواہ وہ زمین کی نباتات میں سے ہوں یا خود ان کی اپنی جنس (یعنی نوع انسانی) میں سے یا ان اشیا میں سے جن کو یہ جانتے تک نہیں ہیں''۔ (یاسین، آیت نمبر63)

اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ کائنات میں قدرت نے بے پناہ چیزیں بنائی ہیں لیکن ہر ایک چیز ایک دوسرے سے مربوط ہے، جس کی بندش نہایت چست ہے۔ اس سلسلے میں زمین اور سورج کی باہمی بندش کو لے لیں تو کائنات کی ایک باقاعدہ تحقیق اور منظم منصوبہ بندی نظر آئے گی۔ زمین کی جسامت، ترکیبی، شب و روز کی گردش اور سورج سے اس کی دوری کائنات میں باقاعدہ ایک قدرتی جامع منصوبہ بندی کو ظاہر کرتی ہے جو وحدانی قوت کی ایک روشن دلیل ہے جس کی وجہ سے زمین پر زندگی کی نشوونما کے لیے ایک متوازن ماحول میسر آتا ہے۔

ان حقائق کی صداقت کو سائنس نے نظام شمسی میں زمین کی پوزیشن کا تعین کرنے کے بعد درست ثابت کردیا ہے۔ زمین کی اس پوزیشن کی وجہ سے یہ سورج تقریباً 150 ملین کلومیٹر دوری پر ہے۔ یہ فاصلہ زمین کو سورج سے زیادہ قریب کرتا ہے اور نا ہی زیادہ دور، اگر زمین سورج سے بہت زیادہ قریب ہوتی (جیسا کہ سیارہ مرکری ہے) تو گرمی اور درجہ حرارت شدید نوعیت کی ہوتی (تقریباً ایف 640) نتیجے میں سمندر کا تمام پانی جوش کھاکر آبی بخارات بن جاتا اور اگر زمین سورج سے بہت زیادہ فاصلے پر ہوتی (جیسا کہ پلوٹو) تو زمین پر درجہ حرارت نقطہ انجماد سے کہیں نیچے چلاجاتا۔ (نقطہ انجماد سے 350درجہ نیچے) اور یوں زمین برفستان میں تبدیل ہوجاتی۔ زمین اور اوسطاً درجہ حرارت 57 درجہ ایف ہی وہ متناسب درجۂ حرارت ہے جو مخلوق کی زندگی کی ضامن بن سکتی ہے۔

پھر زمین کا اپنے مدار پر 24 گھنٹے کی گردش قدرت کی منظم منصوبہ بندی کی ایک اور روشن مثال ہے، کیونکہ اس گردش کی وجہ سے ہمیں ہر 12 گھنٹے کے بعد رات اور دن کا سامنا کرنا پڑتا، چنانچہ 24 گھنٹے کا وقت روشنی اور تاریکی کی مناسبت سے ایک متوازن وقت ہے۔ نیشنل اکیڈمی آف سائنس کی ایک رپورٹ کے مطابق اگر یہ وقت سیارہ مشتری کی طرح 88 دنوں کا ہوجائے تو دن کے وقت لمبے وقفے کی وجہ سے حرارت کی کثیر مقدار زمین تک پہنچ کر مرکوز ہوتی رہے گی یا پھر بہت ہی زیادہ حرارت کا زیاں ہوجائے گا۔

یہی وجہ ہے کہ زمین اور چاند تقریباً سورج سے یکساں فاصلے پر ہونے کے باوجود چاند پر دن 14 دنوں پر مشتمل ہوتا جس کی وجہ سے درجہ حرارت میں 214 ڈگری ایف اضافہ ہوتا ہے، جہاں عام حالت میں زندگی ناممکن ہے، البتہ بعض مخصوص ماحول اور درجہ حرارت میں پروان چڑھنے والے نامیے زندہ رہ سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں کائنات میں زمین کا اپنے محوری زاویہ جھکاؤ کی مقدار بھی قدرت کی ایک عظیم تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرتا ہے۔ زمین اپنے محور پر 2/1 زاویے پر جھکی ہوئی ہے، اس کا یہ جھکاؤ ہی زمین پر موسموں کی تبدیلیوں کا باعث بنتا ہے، سال کے چھ ماہ کے دوران یعنی گرمی اور بہار میں ہر کرہ کا جھکاؤ سورج کی جانب ہوتا ہے جب کہ چھ ماہ کے دوران یعنی سردی اور خزاں میں کرہ کا جھکاؤ سورج کے مخالف ہوتا ہے۔

اس قدرتی عمل سے زمین پر موسمیاتی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں، موسمیاتی تبدیلیاں بارش کا باعث بھی بنتی ہیں، سمندر کا پانی بخارات میں تبدیل ہوکر بادلوں کی صورت برساکر سمندروں کو وہ پانی واپس لوٹادیتا ہے، اس طرح پانی دوبارہ بارش کے بعد سمندر میں شامل ہوتا ہے۔اس طرح آبی چکر کائنات میں موجود سمندر کو ایک متوازن ماحول مہیا کرتا ہے، دوسری چیز جو کائنات کی تخلیق کے بارے میں بتائی گئی ہے وہ کائنات کے تمام اجزا باہم مربوط ہونے کے ساتھ ان میں کمال درجے کا تناسب بھی پایا جاتا ہے۔

یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ قرآن کریم نے تقریباً 165 مقامات پر آسمان اور زمین کا لفظ جوڑوں کی صورت میں استعمال کیا ہے، ان تمام مقامات پر کتاب مقدس نے ''وسمٰوت والارض'' کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اور ساتھ ہی قیامت کی نشاندہی بھی بتائی گئی ہے وہاں توحید ملکیت، نعمتوں، سلطنت، توازن اور تناسب کا تذکرہ ملتا ہے۔ غور و فکر کرنے والوں کے لیے ایک توجہ طلب بات ہے، لیکن سب سے توجہ طلب مسئلہ یہ ہے کہ سائنس نے اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ کائنات کے قدرتی تناسب اور توازن میں بڑی تیزی کے ساتھ فرق پیدا ہو رہا ہے، آخر کیوں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر کائنات کے اطراف (آسمان+ زمین+ سمندر) مختلف گیسوں، عناصر اور کیمائی مرکبات کی قدرتی فیصد تناسب اور بندش میں کسی وجہ سے بھی اضافہ یا کمی ہوجائے تو ہماری کائنات کا قدرتی ماحول غیر متوازن ہوکر خطرناک حد تک آلودگی اور کثافت کی زد میں آجائے گا، بلکہ آچکا ہے، لہٰذا یہ تمام صورتحال ہمیں مزید دعوت فکر فراہم کرتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں