اسلام امن محبت اور اتحاد کا علم بردار
تمہارے لیے تمہارا دین اور میرے لیے میرا دین۔
دنیا میں بہت سے مذاہب ہیں اور بہت سی قومیں آباد ہیں لیکن آپس میں اتحاد و اتفاق اور محبّت کی تعلیم سب سے زیادہ اسلام دیتا ہے۔
اسلام کی یہ خوبی ایک ایسی خوبی ہے کہ مسلمانوں کو اس پر فخر کرنا چاہیے اور اس کی تعلیمات کے مطابق اپنے اختلافات کو ختم کرکے، تفریق کو مٹا کر، ایک خدا کا بندہ بن کر، میل جول اور محبت سے زندگی گزارنا چاہیے۔
کوئی امیر اپنے آپ کو دولت کی وجہ سے اونچا نہ سمجھے، کوئی مفلس غربت کی وجہ سے اپنے آپ کو کم زور اور ذلیل خیال نہ کرے، رنگ، نسل اور بولی کے فخر کو ختم کردیا جائے اور ہر ایک اپنے آپ کو ایک خدا کا بندہ اور حضرت محمد ﷺ کا اُمتی سمجھے اور ہر ایک دین کی پابندی کرکے خدا کے یہاں اپنا مقام بلند کرنے کی کوشش کرے، اور ایک دوسرے کی مدد کرنے اور مصیبت میں کام آنے کا جذبہ پیدا کیا جائے۔
جب نبی کریم ﷺ مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ پہنچے اور آپؐ نے مکہ کے مہاجرین کو مدینے کے انصار کا بھائی بنایا تو وہ ایک دوسرے سے اتنی محبت کرنے لگے کہ مدینے کے مسلمانوں نے اپنے مہاجر بھائیوں کو اپنے کاروبار میں شریک کرلیا، اپنی زمینیں تقسیم کردیں، اپنے مکان دے دیے اور ہر طرح ان کی مدد کی، اور مہاجر اپنے انصار بھائیوں سے اتنی محبت کرتے تھے کہ اپنی کمائی ہوئی دولت تک ان کے سپرد کردیتے تھے۔
اسلام کی تاریخ کا ہر واقعہ اتحاد و اتفاق کی مثال پیش کرتا ہے اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ اس اتحاد و اتفاق ہی کی برکت سے عرب کے گندے ماحول میں اسلام پھیلا اور مسلمانوں نے عزت حاصل کی، بڑی طاقتوں کا مقابلہ کیا اور ہمیشہ کام یاب ہوئے۔
اتحاد سے جو قوت حاصل ہوتی ہے، اُس کو اس مثال سے سمجھا جاسکتا ہے کہ جب بہت سے تنکوں کوایک جگہ باندھ کر جھاڑو بنادیا جاتا ہے تو وہ جھاڑو پورے مکان کو کوڑے وغیرہ سے صاف کردیتا ہے۔ لیکن اگر ان تنکوں کو علیحدہ کرکے مکان صاف کرنے کی کوشش کی جائے تو مکان کبھی صاف نہیں ہوسکتا بل کہ ہر ایک تنکا ٹوٹ کر یا پھر ہوا میں اُڑ کر ختم ہوجائے گا۔ بالکل اسی طرح مسلمان اتحاد و اتفاق کے ساتھ آپس میں ایک ہوکر بڑی قوت بن جاتے ہیں اور اپنے عظیم مکان یعنی اسلام کو دشمنوں سے بچا لیتے ہیں۔ لیکن اگر ان میں اختلاف پیدا ہوجائے اور وہ ایک دوسرے سے علیحدہ اور دور ہوجائیں تو خود ختم ہوجاتے اور دشمن کی نذر ہوجاتے ہیں۔
لہٰذا مسلمانوں کو اسلام کی حفاظت اور اپنی عزت و آبرو کے لیے اپنے ہر اختلاف کو دور کرکے اپنے اند ر اتحاد و اتفاق اور محبت پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اسلام نے اتحاد و اتفاق سے رہنے کا حکم صرف مسلمانوں ہی کے ساتھ نہیں دیا بل کہ دوسرے مذاہب کے لوگوں کے ساتھ بھی اسلام مِل جُل کر رہنے کی تعلیم دیتا ہے۔ اسلام میں دوسری قوموں کو ستانے یا ان کو ذلیل سمجھنے کی ہرگز اجازت نہیں۔
جس طرح ربّ تعالیٰ اپنے نہ ماننے والوں کو بھی دنیا کی تمام نعمتیں دیتا ہے، اسی طرح وہ یہ پسند فرماتا ہے کہ اس کے ماننے والے بھی کسی کو پریشان نہ کریں، بل کہ ہر ایک کو امن و سکون اور آرام سے زندگی گزارنے دیں۔ کسی باغ کا مالک ہرگز یہ نہیں پسند کرتا کہ کوئی اس کے لگائے ہوئے درختوں، پھولوں یا پھلوں کو خراب کردے۔ یہ ساری دنیا خدا کا لگایا ہوا باغ ہے، اس باغ کا مالک حقیقی یہ بات پسند نہیں فرماتا کہ اس میں رہنے والے آپس میں لڑائی جھگڑا کریں، ایک دوسرے کو قتل کریں یا ایک دوسرے کے مال پر قبضہ کریں۔ اسی لیے اﷲ تعالیٰ نے فرمایا، ترجمہ: اﷲ کا دیا ہوا کھاؤ اور پیو اور زمین میں لڑائی جھگڑا مت کرتے پھرو۔'' ( البقرۃ )
غیر اقوام کے ساتھ اتحاد و اتفاق کی تعلیم دینے ہی کے لیے حضور اکرم ﷺ اور صحابہ کرامؓ
کو یہ حُکم دیا گیا کہ مکہ کے کافروں نے تمہیں ستایا اور تمہیں پریشان کیا۔ یہاں تک کہ تمہیں کعبہ میں عبادت بھی نہ کرنے دی۔ لیکن تم اس دشمنی کی وجہ سے ان پر کوئی زیادتی اور ظلم مت کرنا۔
غیر قوموں کے ساتھ اتحاد کا رشتہ قائم کرنے ہی کے لیے اﷲتعالیٰ نے حضور ﷺ کو یہ حکم دیا کہ یہود یوں اور عیسائیوں سے کہیے کہ وہ مسلمانوں سے اس بات پر صلح کرلیں کہ اﷲ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں، اﷲ کا شریک کسی کو نہ بنائیں، اﷲ کے سوا کسی کو اپنا رب نہ سمجھیں۔ ہاں اگر یہ لوگ اتنی بات بھی ماننے کے لیے تیار نہ ہوں تو ان سے کہہ دو کہ ہم تو اس کے حکموں کو مانتے ہیں اور مسلمان ہیں۔ (خلاصہ آیت سورۂ آل عمرآن)
کیوں کہ یہ باتیں تو ایسی ہیں کہ جن کی تعلیم صرف قرآن کریم نے ہی نہیں بل کہ حضرت موسٰیؑ تورات میں اور حضرت عیسٰیؑ انجیل میں یہی تعلیم لے کر آئے تھے۔ غیر قوموں کے ساتھ اس اتحاد ہی کو باقی رکھنے کے لیے بتوں کی پوجا کرنے والوں (کافروں) سے بھی یہ ہی کہا گیا، یا تو تم ہمارے دین کو قبول کرلو اور اگر نہیں کرنا چاہتے تو
'' تمہارے لیے تمہارا دین اور میرے لیے میرا دین۔ ''
یعنی پھر تمہاری مرضی ہے، ہم لڑکر یا جھگڑ کر کسی کو اپنا دین قبول کرنے پر مجبور نہیں کرتے، دین کے معاملے میں کوئی دباؤ اور مجبوری ہو ہی نہیں سکتی۔
اﷲ تعالیٰ نے فرمایا، ترجمہ: '' دین میں کوئی دباؤ نہیں، ہدایت اور گم راہی کو ظاہر کردیا گیا۔'' (سورہ بقرہ)
یعنی جس طرح رات ہوجانے کے بعد کسی عقل مند کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ رات سونے کے لیے ہوتی ہے اور سورج نکل آنے کے بعد کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں کہ دن کاروبار کے لیے ہوتا ہے۔ اسی طرح ہدایت اور گم راہی، اچھائی اور بُرائی قرآن کریم اور حضرت محمد مصطفی ﷺ کے ذریعے ظاہر کردیے گئے۔ اب اسلام یہ اجازت نہیں دیتا کہ کوئی کسی پر دباؤ ڈالے اور آپس میں فساد اور جھگڑا پیدا کرے۔ ہر انسان کو اپنی عقل سے کام لے کر اچھے دین اور سیدھے راستے کو قبول کرلینا چاہیے۔
تاریخ اسلام سے بھی یہ بات بالکل روشن ہے کہ مسلمانوں نے ہمیشہ غیر قوموں کے ساتھ مل جل کر رہنے اور اُن کا پورا پورا حق ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔
نبی کریم ﷺ جب مکہ میں حکم ران بن کر داخل ہوئے تو آپؐ نے مکہ کے اُن کافر دشمنوں کو معاف کردیا، جنہوں نے آپؐ کو اور دوسرے مسلمانوں کو مکہ سے نکال دیا تھا۔ اس موقع پر کسی مسلمان کواپنے دشمن سے بدلہ لینے کی اجازت نہیں دی گئی۔ صرف اسی لیے کہ اسلام تو سب کے ساتھ اتحاد، امن اور سکون سے رہنے کی تعلیم دیتا ہے۔
یہ بات قابل غور ہے کہ یہودی صرف حضرت موسیؑ کو مانتے اور عیسائی صرف حضرت عیسیؑ کو مانتے ہیں، لیکن اسلام جس طرح حضرت محمد ﷺ پر ایمان لانے کا حکم دیتا ہے اسی طرح حضرت موسٰیؑ اور حضرت عیٰسیؑ پر بھی ایمان لانے اور ان کی عزت کرنے کا حکم دیتا ہے۔ ہندو، مسلمانوں کو اچھوت سمجھتے ہیں، ان کے ہاتھ کا پانی تک نہیں پیتے لیکن مسلمان ان کو اچھوت نہیں سمجھتے، مسلمانوں کی شریعت کے مطابق ان کی پکائی ہوئی چیزیں کھانا جائز ہیں۔ ہاں اسلام نے صرف اتنی پابند ی لگائی ہے کہ مذہبی معاملات میں کسی سے نہ دوستی باقی رہتی ہے اور نہ رشتے داری۔
قرآن کریم میں ہے: '' مسلمان کافروں کو اپنا دوست نہ بنالیں، مسلمانوں کے سوا۔''
(آل عمران )
اس دوستی کا مطلب مذہبی معاملات میں دوستی ہے۔ یعنی اگر کسی دوسرے مذہب کا ماننے والا مسلمان کو نماز سے روکے تو دوستی کا لحاظ کرکے نماز نہیں چھوڑی جاسکتی۔ کوئی مسلمان سے شراب پینے، جوا کھیلنے، زنا کرنے کو کہے تو دوستی کا خیال کرکے ان کاموں کو نہیں کیا جاسکتا۔ کوئی مسلمانوں کو کلمہ پڑھنے، قرآن حکیم پڑھنے، اور اسلام کے دوسرے احکامات پر عمل کرنے سے روکے تو پھر دوستی کا خیال نہیں کیا جاسکتا اور جب کوئی مسلمانوں کی حکومت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرے تو دوستی کا لحاظ نہیں کیا جاسکتا۔
اسلام کی تاریخ سے یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ مسلمانوں نے صرف انہی صورتوں میں جنگ کی اور غیر قوموں کا مقابلہ کیا ہے اور ایسی صورت میں اﷲتعالیٰ نے مسلمانوں کو جہاد کرنے کا حکم دیا ہے۔ گویا اپنی اور اپنے دین کی حفاظت کے لیے جہاد کا حکم ہے۔ لیکن کسی قوم کو ستانے، پریشان کرنے، کسی کے ملک پر قبضہ کرنے یا کاروباری معاملات میں غیر مسلموں سے علیحدگی، غیر مذاہب کے لوگوں کو ذلیل سمجھنے کی ہرگز اجازت نہیں دی گئی۔ مسلمانوں کو اتحاد و اتفاق کی اس اسلامی تعلیم پر عمل کرتے ہوئے آپس میں محبت پیدا کرنے اور غیر مسلموں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس لیے کہ اسلام کی تعلیمات محبت و امن کی پرچارک ہیں۔
اسلام کی یہ خوبی ایک ایسی خوبی ہے کہ مسلمانوں کو اس پر فخر کرنا چاہیے اور اس کی تعلیمات کے مطابق اپنے اختلافات کو ختم کرکے، تفریق کو مٹا کر، ایک خدا کا بندہ بن کر، میل جول اور محبت سے زندگی گزارنا چاہیے۔
کوئی امیر اپنے آپ کو دولت کی وجہ سے اونچا نہ سمجھے، کوئی مفلس غربت کی وجہ سے اپنے آپ کو کم زور اور ذلیل خیال نہ کرے، رنگ، نسل اور بولی کے فخر کو ختم کردیا جائے اور ہر ایک اپنے آپ کو ایک خدا کا بندہ اور حضرت محمد ﷺ کا اُمتی سمجھے اور ہر ایک دین کی پابندی کرکے خدا کے یہاں اپنا مقام بلند کرنے کی کوشش کرے، اور ایک دوسرے کی مدد کرنے اور مصیبت میں کام آنے کا جذبہ پیدا کیا جائے۔
جب نبی کریم ﷺ مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ پہنچے اور آپؐ نے مکہ کے مہاجرین کو مدینے کے انصار کا بھائی بنایا تو وہ ایک دوسرے سے اتنی محبت کرنے لگے کہ مدینے کے مسلمانوں نے اپنے مہاجر بھائیوں کو اپنے کاروبار میں شریک کرلیا، اپنی زمینیں تقسیم کردیں، اپنے مکان دے دیے اور ہر طرح ان کی مدد کی، اور مہاجر اپنے انصار بھائیوں سے اتنی محبت کرتے تھے کہ اپنی کمائی ہوئی دولت تک ان کے سپرد کردیتے تھے۔
اسلام کی تاریخ کا ہر واقعہ اتحاد و اتفاق کی مثال پیش کرتا ہے اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ اس اتحاد و اتفاق ہی کی برکت سے عرب کے گندے ماحول میں اسلام پھیلا اور مسلمانوں نے عزت حاصل کی، بڑی طاقتوں کا مقابلہ کیا اور ہمیشہ کام یاب ہوئے۔
اتحاد سے جو قوت حاصل ہوتی ہے، اُس کو اس مثال سے سمجھا جاسکتا ہے کہ جب بہت سے تنکوں کوایک جگہ باندھ کر جھاڑو بنادیا جاتا ہے تو وہ جھاڑو پورے مکان کو کوڑے وغیرہ سے صاف کردیتا ہے۔ لیکن اگر ان تنکوں کو علیحدہ کرکے مکان صاف کرنے کی کوشش کی جائے تو مکان کبھی صاف نہیں ہوسکتا بل کہ ہر ایک تنکا ٹوٹ کر یا پھر ہوا میں اُڑ کر ختم ہوجائے گا۔ بالکل اسی طرح مسلمان اتحاد و اتفاق کے ساتھ آپس میں ایک ہوکر بڑی قوت بن جاتے ہیں اور اپنے عظیم مکان یعنی اسلام کو دشمنوں سے بچا لیتے ہیں۔ لیکن اگر ان میں اختلاف پیدا ہوجائے اور وہ ایک دوسرے سے علیحدہ اور دور ہوجائیں تو خود ختم ہوجاتے اور دشمن کی نذر ہوجاتے ہیں۔
لہٰذا مسلمانوں کو اسلام کی حفاظت اور اپنی عزت و آبرو کے لیے اپنے ہر اختلاف کو دور کرکے اپنے اند ر اتحاد و اتفاق اور محبت پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اسلام نے اتحاد و اتفاق سے رہنے کا حکم صرف مسلمانوں ہی کے ساتھ نہیں دیا بل کہ دوسرے مذاہب کے لوگوں کے ساتھ بھی اسلام مِل جُل کر رہنے کی تعلیم دیتا ہے۔ اسلام میں دوسری قوموں کو ستانے یا ان کو ذلیل سمجھنے کی ہرگز اجازت نہیں۔
جس طرح ربّ تعالیٰ اپنے نہ ماننے والوں کو بھی دنیا کی تمام نعمتیں دیتا ہے، اسی طرح وہ یہ پسند فرماتا ہے کہ اس کے ماننے والے بھی کسی کو پریشان نہ کریں، بل کہ ہر ایک کو امن و سکون اور آرام سے زندگی گزارنے دیں۔ کسی باغ کا مالک ہرگز یہ نہیں پسند کرتا کہ کوئی اس کے لگائے ہوئے درختوں، پھولوں یا پھلوں کو خراب کردے۔ یہ ساری دنیا خدا کا لگایا ہوا باغ ہے، اس باغ کا مالک حقیقی یہ بات پسند نہیں فرماتا کہ اس میں رہنے والے آپس میں لڑائی جھگڑا کریں، ایک دوسرے کو قتل کریں یا ایک دوسرے کے مال پر قبضہ کریں۔ اسی لیے اﷲ تعالیٰ نے فرمایا، ترجمہ: اﷲ کا دیا ہوا کھاؤ اور پیو اور زمین میں لڑائی جھگڑا مت کرتے پھرو۔'' ( البقرۃ )
غیر اقوام کے ساتھ اتحاد و اتفاق کی تعلیم دینے ہی کے لیے حضور اکرم ﷺ اور صحابہ کرامؓ
کو یہ حُکم دیا گیا کہ مکہ کے کافروں نے تمہیں ستایا اور تمہیں پریشان کیا۔ یہاں تک کہ تمہیں کعبہ میں عبادت بھی نہ کرنے دی۔ لیکن تم اس دشمنی کی وجہ سے ان پر کوئی زیادتی اور ظلم مت کرنا۔
غیر قوموں کے ساتھ اتحاد کا رشتہ قائم کرنے ہی کے لیے اﷲتعالیٰ نے حضور ﷺ کو یہ حکم دیا کہ یہود یوں اور عیسائیوں سے کہیے کہ وہ مسلمانوں سے اس بات پر صلح کرلیں کہ اﷲ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں، اﷲ کا شریک کسی کو نہ بنائیں، اﷲ کے سوا کسی کو اپنا رب نہ سمجھیں۔ ہاں اگر یہ لوگ اتنی بات بھی ماننے کے لیے تیار نہ ہوں تو ان سے کہہ دو کہ ہم تو اس کے حکموں کو مانتے ہیں اور مسلمان ہیں۔ (خلاصہ آیت سورۂ آل عمرآن)
کیوں کہ یہ باتیں تو ایسی ہیں کہ جن کی تعلیم صرف قرآن کریم نے ہی نہیں بل کہ حضرت موسٰیؑ تورات میں اور حضرت عیسٰیؑ انجیل میں یہی تعلیم لے کر آئے تھے۔ غیر قوموں کے ساتھ اس اتحاد ہی کو باقی رکھنے کے لیے بتوں کی پوجا کرنے والوں (کافروں) سے بھی یہ ہی کہا گیا، یا تو تم ہمارے دین کو قبول کرلو اور اگر نہیں کرنا چاہتے تو
'' تمہارے لیے تمہارا دین اور میرے لیے میرا دین۔ ''
یعنی پھر تمہاری مرضی ہے، ہم لڑکر یا جھگڑ کر کسی کو اپنا دین قبول کرنے پر مجبور نہیں کرتے، دین کے معاملے میں کوئی دباؤ اور مجبوری ہو ہی نہیں سکتی۔
اﷲ تعالیٰ نے فرمایا، ترجمہ: '' دین میں کوئی دباؤ نہیں، ہدایت اور گم راہی کو ظاہر کردیا گیا۔'' (سورہ بقرہ)
یعنی جس طرح رات ہوجانے کے بعد کسی عقل مند کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ رات سونے کے لیے ہوتی ہے اور سورج نکل آنے کے بعد کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں کہ دن کاروبار کے لیے ہوتا ہے۔ اسی طرح ہدایت اور گم راہی، اچھائی اور بُرائی قرآن کریم اور حضرت محمد مصطفی ﷺ کے ذریعے ظاہر کردیے گئے۔ اب اسلام یہ اجازت نہیں دیتا کہ کوئی کسی پر دباؤ ڈالے اور آپس میں فساد اور جھگڑا پیدا کرے۔ ہر انسان کو اپنی عقل سے کام لے کر اچھے دین اور سیدھے راستے کو قبول کرلینا چاہیے۔
تاریخ اسلام سے بھی یہ بات بالکل روشن ہے کہ مسلمانوں نے ہمیشہ غیر قوموں کے ساتھ مل جل کر رہنے اور اُن کا پورا پورا حق ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔
نبی کریم ﷺ جب مکہ میں حکم ران بن کر داخل ہوئے تو آپؐ نے مکہ کے اُن کافر دشمنوں کو معاف کردیا، جنہوں نے آپؐ کو اور دوسرے مسلمانوں کو مکہ سے نکال دیا تھا۔ اس موقع پر کسی مسلمان کواپنے دشمن سے بدلہ لینے کی اجازت نہیں دی گئی۔ صرف اسی لیے کہ اسلام تو سب کے ساتھ اتحاد، امن اور سکون سے رہنے کی تعلیم دیتا ہے۔
یہ بات قابل غور ہے کہ یہودی صرف حضرت موسیؑ کو مانتے اور عیسائی صرف حضرت عیسیؑ کو مانتے ہیں، لیکن اسلام جس طرح حضرت محمد ﷺ پر ایمان لانے کا حکم دیتا ہے اسی طرح حضرت موسٰیؑ اور حضرت عیٰسیؑ پر بھی ایمان لانے اور ان کی عزت کرنے کا حکم دیتا ہے۔ ہندو، مسلمانوں کو اچھوت سمجھتے ہیں، ان کے ہاتھ کا پانی تک نہیں پیتے لیکن مسلمان ان کو اچھوت نہیں سمجھتے، مسلمانوں کی شریعت کے مطابق ان کی پکائی ہوئی چیزیں کھانا جائز ہیں۔ ہاں اسلام نے صرف اتنی پابند ی لگائی ہے کہ مذہبی معاملات میں کسی سے نہ دوستی باقی رہتی ہے اور نہ رشتے داری۔
قرآن کریم میں ہے: '' مسلمان کافروں کو اپنا دوست نہ بنالیں، مسلمانوں کے سوا۔''
(آل عمران )
اس دوستی کا مطلب مذہبی معاملات میں دوستی ہے۔ یعنی اگر کسی دوسرے مذہب کا ماننے والا مسلمان کو نماز سے روکے تو دوستی کا لحاظ کرکے نماز نہیں چھوڑی جاسکتی۔ کوئی مسلمان سے شراب پینے، جوا کھیلنے، زنا کرنے کو کہے تو دوستی کا خیال کرکے ان کاموں کو نہیں کیا جاسکتا۔ کوئی مسلمانوں کو کلمہ پڑھنے، قرآن حکیم پڑھنے، اور اسلام کے دوسرے احکامات پر عمل کرنے سے روکے تو پھر دوستی کا خیال نہیں کیا جاسکتا اور جب کوئی مسلمانوں کی حکومت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرے تو دوستی کا لحاظ نہیں کیا جاسکتا۔
اسلام کی تاریخ سے یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ مسلمانوں نے صرف انہی صورتوں میں جنگ کی اور غیر قوموں کا مقابلہ کیا ہے اور ایسی صورت میں اﷲتعالیٰ نے مسلمانوں کو جہاد کرنے کا حکم دیا ہے۔ گویا اپنی اور اپنے دین کی حفاظت کے لیے جہاد کا حکم ہے۔ لیکن کسی قوم کو ستانے، پریشان کرنے، کسی کے ملک پر قبضہ کرنے یا کاروباری معاملات میں غیر مسلموں سے علیحدگی، غیر مذاہب کے لوگوں کو ذلیل سمجھنے کی ہرگز اجازت نہیں دی گئی۔ مسلمانوں کو اتحاد و اتفاق کی اس اسلامی تعلیم پر عمل کرتے ہوئے آپس میں محبت پیدا کرنے اور غیر مسلموں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس لیے کہ اسلام کی تعلیمات محبت و امن کی پرچارک ہیں۔