اسلامی تعلیم و تربیت کیوں اور کیسے

قرآن پاک کی تعلیمات فطرتِ انسانی کو مدنظر رکھ کر حقیقتاً عقل، وجدان اور شعور کی تربیت کا ساماں پیدا کرتی ہیں۔

میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں، ایک اللہ کی کتاب اور دوسری اپنی سنت، حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم۔ فوٹو : فائل

تربیت سے محض انسان کے ظاہری اعمال کی اصلاح ہی مراد نہیں بلکہ باطنی اعمال کی اصلاح بھی تربیت کے دائرہ کار میں داخل ہے۔ اس لیے اگر محض انسانی اعضاء سے صادر ہونے والے اعمال کی اصلاح کر دی جائے لیکن اس کی فکر و نظر اور خواہشات کا دائرہ کار متعین نہ کیا جائے تو اس کو اسلامی نقطہ نظر سے تربیت نہیں کہہ سکتے۔ پس جب بھی نظام تربیت پر غور و فکر ہو گا تو اس سے مراد ظاہری اور باطنی دونوں قسم کے اعمال کا صحیح خطوط پر استوار کرنا ہی ہوگا۔

تربیت کے بنیادی ماخذ
اسلامی تعلیمات کی روشنی میں تربیت کے دو بنیادی ماخذ ہیں۔

۱۔ قرآن ۲۔ سنت و سیر ت نبویؐ
ذیل میں ہم ان دونوں ماخذ تربیت پر بالترتیب روشنی ڈالتے ہیں ۔

قرآنی اصول تربیت
٭ قرآن پاک کی تعلیمات فطرتِ انسانی کو مدنظر رکھ کر حقیقتاً عقل، وجدان اور شعور کی تربیت کا ساماں پیدا کر تی ہیں۔ قرآن پاک قلبِ انسان کا اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کر کے اس میں طہارت وتقویٰ اس حد تک پیدا کر دیتا ہے کہ اس کا ہر شعوری و لاشعوری عمل صاف اور پاکیزہ ہو جاتا ہے۔قرآن مجید کا یہ معجزہ ہے کہ ایک طر ف اس کی تلاوت اگر انسان کو سرور اور روحانی خوشی دیتی ہے تو دوسری طرف وہ اس کے شعور کو تازگی اور فکر کو جلا بخشتی ہے ۔

۲۔ نبوی اصولِ تربیت
حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنے تلامذہ اور صحابہ کرام ؓ کی ایسی حکیمانہ انداز سے تربیت فرمائی کہ ان میں سے ہر شخص مربی و معلم بن گیا۔ نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ '' میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں، ایک اللہ کی کتاب اور دوسری اپنی سنت، اگر ان کو تھامے رہو گے تو گمراہ نہیں ہوگے۔''
( مستدرک للحاکم ص:271،ج:۱)
آپ ﷺ ہر انسان کی، اس کی عقل اور سمجھ بوجھ کے مطابق تربیت فرمایا کر تے اور اس بات کی بھی کوشش فرماتے کہ لوگوں کی انفرادی و اجتماعی لحاظ سے روحانی، اخلاقی، فکری، جسمانی الغرض ہر لحاظ سے تربیت کریں۔

ضرورت ِتربیت
یہ حقیقت ہے کہ تربیت انسانی ایک بہت ہی کٹھن اور مشکل کام ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب کسی ایسی اعلیٰ شخصیت کا نمونہ سامنے لایا جائے کہ جس کو بنیاد بنا کر کردار سازی کی کوشش کی جائے ۔ ایک مسلمان کی صحیح تعلیم و تربیت کے لیے اگر کوئی ہستی نمونہ کامل ہو سکتی ہے تو وہ محض نبی کریم ﷺ کی ذات ہے، جن کا اخلاق قرآن ہے۔ اس حقیقت کو قرآن نے اس طرح بیان فرمایا: '' فی الحقیقت تمہارے لیے رسول اللہ (ﷺ کی ذات ) میں نہایت ہی حسین نمونہ (حیات) ہے ۔'' ( الاحزاب: 12)
محض تعلیم سے تربیت ممکن نہیں، تعلیم سے صرف علم اور معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ جب تک صالح صحبت کے ذریعے روحانی و فکر ی تربیت نہ ہو تو اس وقت تک علم کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ عمل صالح کے داخل ہونے کا راستہ علم کے ساتھ ساتھ تربیت بھی ہے۔ تربیت عمل صالح پیدا کر تی ہے جس سے ذوق و شوق جنم لیتا ہے اور عمل صالح اس علم کو فائدہ مند علم بنا تا ہے ۔ کوئی شخص علم کا پہاڑ ہو لیکن اگر اس کے پاس عمل صالح نہ ہو تو محض علم کی کثرت اس کے لیے نجات کا باعث نہ ہو گی۔ پس صالح تربیت سے ہی تزکیہ نفس کا رجحان اور میلان پیدا ہوتا ہے اور بالاخر تزکیہ نفس سے انسان رشک ملائک بنتا ہے۔

عوامل تربیت
آئیے اُن عوامل کا جائزہ لیں جو انسان کے اخلاق، اعمال اور احوال کی اصلاح و تربیت میں اہم کردار ادا کر تے ہیں۔

۱۔ عبادت
تربیت و اصلاح میں اہم کردار عبادت کا ہے۔ اگر انسان اپنی، اپنے بچوں یا دیگر افراد کی تربیت اسلامی طریقے سے کرنے کا خواہاں ہے تو اسے دعا اور عبادات کو بہت اہمیت دینی چاہئے ۔ اسی لیے بزرگان دین تربیت میں عبادت کی اہمیت کے پیش نظر فرماتے ہیں کہ : '' تمہاری جتنی بھی زیادہ مصروفیت ہو مگر رات میں کچھ لمحات عبادت کے لیے مخصوص کرو ۔'' عبادت میں گزارے گئے یہ لمحات اس کی اپنی ذات و شخصیت کی اصلاح وتربیت کے لیے ضروری ہیں ۔
۲۔ محبت : اصلاح احوال اور سیرت و کردار سازی میں محبت، احسان اور نرمی کا کردار نمایاں ہے ۔ محبت کا اثر احسان اور نرمی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے جب کہ نفرت کا اثر سختی اور دشمنی پر منتج ہو تا ہے۔ اسلامی نقطہ نظر سے تربیت، محبت کے بغیر ممکن نہیں کیوں کہ اسی صورت میں تربیت حاصل کرنے والا اپنے آپ کو مربی کے قریب محسوس کر تا ہے اور اس کے اقوال و اعمال کی روشنی میں اپنی شخصیت کو مکمل کرنے کے عمل میں شریک ہو تا ہے ۔

۳۔ مراقبہ اور محاسبہ: تربیت کے عاملین میں سے تیسرا اہم عامل '' مراقبہ و محاسبہ'' ہے ۔ جب تک کسی انسان کو خلوت و تنہائی میں اپنی ذات و شخصیت میں موجود خامیوں پر غور وفکر کا موقع نہ ملے اس وقت تک اصلاح احوال اور تربیت اعمال و افکار کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا ۔
اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
'' اے ایمان والوں! تم اللہ سے ڈرتے رہو اور ہر شخص کو دیکھتے رہنا چاہے کہ اس نے کل ( قیامت ) کے لیے آگے کیا بھیجا ہے اور تم اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ اُن کاموں سے باخبر ہے جو تم کرتے ہو۔'' (الحشر18)
اس آیت مبارکہ میں مراقبہ اور محاسبہ کو واضح کیا گیا ہے۔ حضر ت علیؓ ارشاد فرماتے ہیں کہ '' جس نے شب وروز میں ایک دفعہ اپنا حساب کتاب نہ کیا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔'' (کافی، ج۲،ص۳۵۴)
تربیت کے مختلف پہلو
تربیت کا عمل انسانی شخصیت کے ہر پہلو پر محیط ہونا چاہیے۔ یہ نہ ہو کہ علمی و ذہنی تربیت تو ہورہی ہو مگر اخلاقی و روحانی تربیت کی طرف دھیان ہی نہ ہو۔ پس تربیت کس طرح انسانی شخصیت کا احاطہ کرے، آئیے اس کا جائزہ لیتے ہیں:
۱۔ اخلاقی تربیت
اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
''اور آپ میرے بندوں سے فرما دیں کہ وہ ایسی باتیں کیا کریں جو بہتر ہوں''۔ ( بنی اسرائیل: 35)

اخلاق و کردار نسل انسانی کا سب سے قیمتی اثاثہ ہیں، اگر قوم اخلاق سے محروم ہو جائے تو دنیا کی کوئی طاقت اسے تعمیر و ترقی سے ہمکنار نہیں کر سکتی۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: '' تم میں سب سے بہتر وہ ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں''۔ (صحیح البخاری، کتاب المناقب، باب صفتہ النبی ؐ)


جنگ عظیم دوئم میں جب فرانس کو شکست ہوئی تو اس کے صدر نے کہاکہ'' ہم اس لیے ہارے ہیں کہ ہمارا نوجوان کردار کھو چکا ہے ۔''

اخلاق و کردار کو مزین کرنے کا سب سے سنہرا دور بچپن کا ہوتا ہے ۔ اس عمر میں جسمانی نشوونما کے ساتھ ساتھ کردار بھی نشو و نما پاتا ہے۔ بعض والدین اخلاقی تربیت سے اس لیے صرفِ نظر کر جاتے ہیں کہ بچہ خود سیکھ لے گا، حالانکہ اخلاقی تربیت سے پہلو تہی کرنے سے جو مہلک نتائج برآمد ہوتے ہیں، ان کا اندازہ ایسے بچوں سے لگا یا جاسکتا ہے جو اخلاقی تربیت سے محروم ہیں۔

ایک ڈاکو کو ڈاکا زنی کے جرم میں سزائے موت کا حکم سنایا گیا۔ مقتل کی طرف روانگی سے پہلے اس نے درخواست کی کہ مجھے والدہ سے ملنے دیا جائے، چناں چہ ملاقات کا بندوبست کیا گیا۔ ماں جب جم غفیر سے روتی ہوئی اپنے بیٹے سے آخری ملاقات کے لیے آگے بڑھی تو بیٹا بھی بڑے تپاک سے ماں سے لپٹ گیا اور اس کا کان کاٹ لیا۔ پوچھنے پر بتایا کہ اسی ماں کی بدولت آج مجھے پھانسی پر چڑھایا جارہا ہے کیونکہ جب میں بچہ تھا تو پڑوسی کے گھر سے سیب چرا کر لایا تھا اور اس نے وہ سیب خوشی خوشی رکھ لیا تھا، پس یہیں سے مجھے چوری کی عادت پڑ گئی ۔



اس کے برعکس حضور غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کی تربیت بھی ملاحظہ فرمائیں، جنہوں نے ڈاکوئوں کو اپنی صدری میں چھپی ہوئی اشرفیاں بتا دیں۔ ڈاکوئوں نے جب پوچھا کہ '' یہ اشرفیاں تو اس لیے چھپائی گئی تھیں کہ چور یا ڈاکو انہیں پا نہ سکے ۔ آخر تم نے ہمیں صاف صاف کیوں بتا دیا؟ تم چاہتے تو جھوٹ بول کر انہیں بچا سکتے تھے''۔ آپؒ نے جواب دیا: '' سفر پر روانہ ہوتے وقت میر ی ماں نے مجھے نصیحت کی تھی کہ بیٹا چاہے کچھ بھی ہو جائے جھوٹ مت بولنا۔'' آپ ؒ کی اس بات کا ڈاکوئوں پر اس قدر اثر ہوا کہ انہوں نے اپنے جرم سے توبہ کر لی کہ یہ بچہ اپنی ماں کے احکامات پر عمل پیرا ہے اور ہم رب کائنات کے احکامات کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ انہوں نے لوٹا ہوا سارا مال واپس کیا اور نیکی کی راہ اختیار کرلی۔ یہ ماحول اور تربیت کا اثر ہی ہے جو کسی کو ڈاکو اور چور بنا دیتا ہے اور کسی کو سیرت و کردار کا پیکر بنا کر وقت کا امام بنا دیتا ہے۔ اگر بچپن سے بچے کی عادات و اطوار کو درست سمت میں ڈھالا جائے تو اچھے نتائج برآمد ہوتے ہیں۔

۲۔ معاشرتی تربیت: ایک سال کی عمر سے لے کر بلوغت تک وہ قیمتی دور ہے جس میں بچے کی معاشرتی تربیت کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ سماجی سرگرمیوں میں صحیح طور پر حصہ لے سکے۔ اس عمر میں معاشرتی خوبیاں یا معاشرتی نقائص نشوونما پاتے ہیں۔ اس لیے کوشش کرنی چاہئے کہ ذاتی دلچسپیوں کے ساتھ ساتھ بچوں کی دلچسپیوں کو بھی مدنظر رکھا جائے۔ اس عمر میں بچوں کی معاشرتی تربیت کے سلسلے میں مندرجہ ذیل باتوں کو خاص طور پر مد نظر رکھا جائے۔

٭ اس عمر میں بچہ اپنے آپ کو بہت اہم سمجھنے لگتا ہے، اس میں خو د غرضی کا رجحان پیدا ہوتا ہے۔ اس لیے بچوں کو دوسروں کے ساتھ رہنے، کھانے پینے اور کھیلنے کودنے کے وافر مواقع فراہم کیے جائیں اور دوسروں کے حقوق کی اہمیت بھی بتائی جائے۔

٭ والدین اور گھر کے افراد اپنے بچوں کی معاشرتی تربیت پر اپنے کردار کے ذریعے دور رس اثرات ڈال سکتے ہیں۔ بچہ ہر چیز میں فطرتاً دوسروں کی تقلید کر تا ہے۔ آپ اگر جھوٹ بولتے ہیں تو آپ کا بچہ سچ بولنے کا عادی نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا والدین اور گھر کے دیگر احباب اپنے اچھے کردار سے بچے کو متاثر کریں۔

٭ گھر کے ماحول کو نہایت صاف ستھرا اور خوش گوار رکھیے۔ میاں بیوی کی باہمی رنجش اور ساس بہو کے جھگڑے سے بچے کی اجتماعی زندگی پر نہایت منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

٭ بچوں کی معاشرتی تربیت میں جہاں سنجیدہ کوشش کا بڑا مقام ہے وہاں بڑی آسانی سے بعض خامیوں کو ہنسی، مزاح، شگفتہ کلامی اور بعض طفلانہ طریقوں سے دور کیا جاسکتا ہے۔ محض خشک وعظ و نصیحت بچے پر زیادہ اچھا اثر نہیں ڈالتی۔

٭ بچے کی معاشرتی تربیت میں کھیلوں کا اہم کردار ہے۔ تفریحی کیمپوں، کھیلوں کے مقابلے اور اسکائوٹنگ سے وابستہ ہو کر بچے دوسروں کو سمجھنے اور معاشرتی ذمہ داریاں نبھانے کی تربیت حاصل کر تے ہیں۔ بچوں کو کامیاب زندگی کے اصول بتائیے۔ ملاقات، چلنے پھرنے اور مجلس کے آداب سکھائیں نیز بچوں میں خوش اخلاقی، فرمان برداری، انکساری اور عفو درگزر کے جذبات پروان چڑھا کر کام یاب اجتماعی زندگی گزارنے کا عادی بنائیے۔

۳۔ ذہنی تربیت
ذہنی تربیت کے سلسلے میں اختصار سے چند باتیں سپر د قلم کی جاتی ہیں۔

٭ بچہ جب اپنا ذہن استعمال کررہا ہو تو اس کو نہ چھیڑیئے۔ مثال کے طور پر بچے نے دیکھا کہ اس کی امی نے دو تین رنگ ملا کر اپنا دوپٹہ رنگا ہے۔ اب بچہ جب پڑیاں کھول کر پانی میں دو تین رنگ ملاتا ہے تو آپ اس پر برس نہ پڑیں، اس لیے کہ وہ جان بوجھ کر نقصان نہیں کر رہا بلکہ اس کا ذہن بھی وہی تجربہ کرنا چاہتا ہے جو اس نے اپنے گھر میں ہوتا دیکھا ہے۔ اس طرح کے مواقع پر تھوڑے بہت مالی نقصانات کو نظر انداز کر دیجئے اور بچے کی ذہنی صلاحیتوں کو پروان چڑھنے دیجیے۔

٭ بچوں کو کبھی بُرا بھلا نہیں کہنا چاہئے اور نہ ہی دوسروں کے سامنے جھڑکنا چاہئے۔ ان کی تربیت کے لیے اصول تدریج و ترتیب کو مدنظر رکھیے۔

٭ بچوں کی عمر و استعداد کا خیال رکھتے ہوئے انہیں پاکیزہ رسائل اور تعمیری لٹریچر فراہم کیجئے۔

۴۔ حسی تربیت
ہر انسان میں محسوس کرنے کی مندرجہ ذیل پانچ قوتیں ودیعت کی گئی ہیں، جنہیں حواس خمسہ کہتے ہیں۔ ان میں دیکھنا، سننا، سونگھنا ، چکھنا اور چھونا شامل ہے۔

بچے میں یہ سب حواس پائے جاتے ہیں۔ وہ لال ، پیلا، نیلا اور دیگر رنگ دیکھ کر خوش ہوتا ہے۔ بچے کو ان احساسات پر بھروسہ اور اعتماد کرنا سکھائیے اور انہیں اپنے احساسات کے اظہار کے مواقع فراہم کیجئے۔ اگر بچہ کوئی گندی چیز ہاتھ میں لے تو آپ محبت سے اس کے ہاتھ سے لے لیں اور اس کی جگہ کوئی اچھی چیز دے دیں۔ ہر وہ چیز خواہ اچھی ہے یا بری بچے سے جھڑک کر نہ لیجئے کیوں کہ وہ چیز جتنی بھی قیمتی ہو بچے کے احساسات سے زیادہ قیمتی نہیں ہے ۔ بچے کو اطمینان حاصل کرلینے دیجئے کہ جو چیز اس نے حاصل کی ہے اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے۔

جذباتی و جبلی تربیت
بچپن میں جذبات کی اگر صحیح تربیت ہو جائے اور بچے کی جبلتوں کو صحیح راہ نمائی مل جائے تو بچے میں بہتر ین کردار پروان چڑھتے ہیں ۔ اگر بچے کی جبلتوں کو نہ سمجھا جائے، اس کے جذبات کا پاس و لحاظ نہ رکھا جائے تو بچے کی سیرت میں طرح طرح کی خامیاں اور خرابیاں پیدا ہو جاتی ہیں اور ایسا بچہ بڑا ہوکر بگڑ ا ہوا انسان بن جاتا ہے۔

جذباتی و جبلی تربیت کے لیے خوش گوار ماحول فراہم کیجیے۔ اچھے ہم جولی، بہترین تعلیم گاہ، کھیل اور تفریح کا سامان، متلعقین کا شفقت بھرا برتائو بچوں کی بہتر نشوونما کے لیے ضروری ہے ۔ کبھی کبھی بچے کو اپنے دوستوں اور رشتے داروں کے ہاں اپنے ہمراہ لے جائیے، گھر مدرسہ اور قرب و جوار کے ماحول کو صاف رکھیے، سامان نہایت سلیقے سے ترتیب دیجیے، بات چیت میں شائستگی، باہمی تعلقات اور خوش گواری کا اہتمام کیجیے ۔
Load Next Story