تفہیم المسائل

دوسری شادی کی صورت میں عورت کا اپنے بچے کی نگہداشت کا حق ساقط ہوجاتاہے۔


Mufti Muneeburrehman January 03, 2013
ماں کی دوسریشادی اور حقیقی نانی نہ ہونے کی صورت میں بچے کی نگہداشت کا حق دادی کو حاصل ہے۔ فوٹو : فائل

حقِ پرورش کا مسئلہ

سوال:میں نے گھریلو ناچاقی کے سبب اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں، اُس سے میرا ایک بیٹا ہے۔ طلاق کے وقت میرے بیٹے کی عمر گیارہ ماہ تھی لیکن اب وہ ڈھائی سال کا ہو چکا ہے۔ میری سابقہ بیوی نے دوسری شادی کرلی ہے اور بچہ اب اُس کے مُربّی والدین کے پاس ہے۔ چونکہ میری سابقہ بیوی کے حقیقی والدین نہیں ہیں بلکہ اُنہوں نے اُسے گود لے کر پالا تھا۔ معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا اُس بچے کی پرورش کا حق منہ بولے نانا نانی کو حاصل ہے یا بچے کے حقیقی والد کو؟۔ واضح رہے کہ میرے والدین یعنی بچے کے دادا، دادی بھی حیات ہیں۔ محمد شاہد ، نیو کراچی

جواب: مسئلے کی رُو سے آپ کی سابقہ بیوی نے دوسری شادی کرلی ہے۔ عقدِ ثانی ہوجانے کے بعد اُس کا اپنے بچے کی نگہداشت کا حق ساقط ہوچکا ہے۔ شریعت کی بیان کردہ ترتیب کے مطابق بچے کی نگہداشت کا حق ماں کے بعد اُس کی نانی کو حاصل ہوتا ہے: علامہ علاؤالدین حصکفی لکھتے ہیں : ترجمہ: '' بچے کی پرورش کا حق ماں کو حاصل ہے۔'' ۔ آپ آگے چل کر لکھتے ہیں : ترجمہ: '' اگر ماں فوت ہوجائے یا بچے کو قبول نہ کرے یا اپنا حقِ حضانت (پرورش) ساقط کر دے، یا کسی ایسے شخص کے ساتھ نکاح کرلے جو بچے کے لیے اجنبی ہے، تو پھر ماں کے بعد نانی کو پرورش کا حق ہے''۔ اگر آپ کا بیان درست ہے کہ آپ کی سابقہ بیوی کے حقیقی والدین نہیں ہیں، تو بچے کو گود لینے والے میاں بیوی، بچے کے حقیقی نانا اور نانی نہیں ہیں، اِس لئے وہ بچے کی نگہداشت کا استحقاق نہیں رکھتے۔ تنویرالابصار مع الدرالمختار میں ہے : ثمّ أُمُّ الأَبِ (یعنی ماں کے عقدِ ثانی اور حقیقی نانی نہ ہونے کی صورت میں آپ کے بچے کی نگہداشت کا حق اُس کی) دادی کو حاصل ہے ، ( دارلمحتار علی الدرلمختار، جلد5ص: 210تا 216)''۔ لہٰذا شرعاً وقانوناً آپ کی والدہ یعنی بچے کی دادی بچے کی پرورش کا حق رکھتی ہیں اور وہ شرعاً وقانوناً اپنے اِس حق کا مطالبہ کرسکتی ہیں۔

سونا اور چاندی کے نصاب میں فرق
سوال: (۱) ہمارے پاس 6 تولہ سونا بصورت زیورات موجود ہے، اِس کے علاوہ کوئی نقدی، چاندی، زمین وغیرہ نہیں ہے ۔ کیا ہم شرعاً صاحبِ نصاب ہیں؟۔ سوال: (۲) سونا اور چاندی میں آج کل کس کو معیارِ نصاب بنایا جائے گا جبکہ دونوں کی قیمتوں میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔ محمد حامد رضا ، ایبٹ آباد

جواب :شریعت میں مال دار پر زکوٰۃ واجب ہے اور مال کی وہ کم ازکم مقدار جس کا مالک بننے سے آدمی شریعت کی نظر میں مال دار قرار پاتا ہے، اُسے '' نصابِ زکوٰۃ '' کہتے ہیں اور زکوٰۃ کا کم ازکم نصاب یہ ہے، حدیثِ پاک میں ہے: (۱) ترجمہ: ''حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، زہیر کہتے ہیں میرا گمان یہ ہے کہ انہوں نے یہ بات نبی ﷺ سے سن کر بیان فرمائی: یعنی ہر چالیس درہم پر ایک درہم ،اور تم پر اس وقت تک زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی جب تک کہ دو سو درہم پورے نہ ہوجائیں، پس جب مالیت دو سو درہم ہوجائے تو ان میں سے پانچ درہم زکوٰۃ واجب ہے اور جو مقدار اس سے زائد ہو اُس پر اُسی حساب سے زکوٰۃ عائد ہوگی، (سنن ابو داؤد ، جلد1، ص:220)''۔ (2) (۲) ترجمہ: ''حضرت علی رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا : جب تمہارے پاس دو سو درہم ہوں اور ان پر ایک سال گزر جائے تو ان پر پانچ درہم زکوٰۃ ہے اور سونے پر اس وقت تک زکوٰۃ نہیں ہے جب تک کہ وہ بیس دینا ر نہ ہو، پس جب سونا بیس دینا ر ہوجائے اور اس پر ایک سال گزر جائے، تو اس پر نصف دینار زکوٰۃ ہے، پھر جب سونے کی مقدار بڑھتی چلی جائے تو اُسی حساب سے زکوٰۃ عائد ہوگی۔
(سنن ابو داؤد ، جلد1، ص: 221 )''۔

اِن احادیث ِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ شریعت نے 200 درہم چاندی یا20 دینار سونے کو وجوبِ زکوٰۃ کے لئے کم ازکم نصاب قرار دیا ہے۔ ناپ تول کے موجودہ اَعشاری نظام کے اعتبار سے نصاب ِشرعی کی مقدار یہ ہے: 612.36 گرام ( یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی) یا اس کی رائج الوقت قیمت کے مساوی نقد رقم یا مالِ تجارت جو اس کی بنیادی حاجت سے زائد ہو یا 87.48 گرام (یعنی ساڑھے سات تولے سونا) یا اس کی موجودہ بازاری قیمت کے مساوی نقد رقم یا مالِ تجارت جو اس کی حاجت سے زیادہ ہو۔ ایک تولے کا وزن 11.664گرام ہوتا ہے۔ آج کل چاندی اور سونے کے نصاب کی مالیت میں بہت زیادہ فرق ہے۔ فقہائے کرام کی تصریحات کے مطابق اگر اَموال متفرق ہوں (یعنی کچھ سونا ، کچھ چاندی اور کچھ مال تجارت یا نقد رقم وغیرہ) یا صرف چاندی ہو، تو اِن تمام صورتوں میں چاندی کے نصاب کاہی اعتبار ہوگا تاکہ ناداروں کو فائدہ ہو۔

نصاب کے اس تعین کا مقصد درحقیقت یہ ہے کہ مال کی کم ازکم اتنی مقدار ہر گھرانے میں موجود رہے جس سے وہ بآسانی روزمرہ کی ضروریات زندگی حاصل کرسکے اور ایسا نہ ہو کہ دوسروں کی مدد و اعانت کرنے سے زکوٰۃ دہندہ خود محتاج ہوجائے۔ اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ترجمہ: '' بہترین صدقہ وہ ہے جس کے (دینے کے) بعد بھی آدمی مال دار رہے''۔ (صحیح بخاری، رقم الحدیث: 1426)

خلاصۂ کلام یہ کہ (۱) آپ نے جو صورت بیان کی ہے، تو آپ پر نصاب پورا نہ ہونے کے سبب 6 تولہ سونے پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے۔

(۲) اگر اَموال متفرق ہوں (یعنی کچھ سونا، کچھ چاندی اور کچھ مال تجارت یا نقد رقم وغیرہ) یا صرف چاندی ہو، تو چاندی کے نصاب کاہی اعتبار ہوگا اور ایسی صورت میں یہ متفرق اَموال مل کر 612.36 گرام چاندی کی مقدار یا اُس کی مساوی قیمت کو پہنچیں تو زکوٰۃ واجب ہوگی۔ بہت ممکن ہے کہ شارع علیہ الصلوۃ والسلام نے جب زکوٰۃ کا کم از کم نصاب مُقرر فرمایا ہو، تو اُس وقت 200درہم چاندی اور20دینار سونے کی قیمت قریب تر ہو، لیکن آج کل دونوں کی بازاری قیمت میں بہت فرق ہے۔ مگر چوں کہ نصاب کی کم ازکم مقدار مقرر کرنے کا مدار عقل پر نہیں ہے بلکہ یہ اَمرِ'' تَعَبُّدِی '' ہے اور اس کا مَدَار شارع علیہ الصلوٰۃ و السلام سے سماع پر ہے، یعنی یہ اَمرِ '' توفیقی'' ہے، اس لئے نَصّ( ٹیکسٹ آف قرآن) کو قیاس کے ذریعے ترک نہیں کیا جا سکتا ۔

اَلتَّحیات پوری پڑھ کر امام کی مُتابعت کرے

سوال: باجماعت نماز کے دوران قعدۂ اولی میں امام تشہّد پڑھ کر کھڑا ہو گیا اور ابھی مقتدی نے تشہّد پورا نہیں کیا، توکیا مقتدی پوری تشہّد پڑھ کر کھڑا ہوگا یا امام کی اِتّباع کرتے ہوئے ساتھ ہی کھڑا ہو جائے گا ؟۔
محمد عبداللہ، کراچی
جواب: مقتدی اپنی التحیات پوری کرکے کھڑا ہوگا کہ ہر قعدہ میں پوری '' اَلتَّحَیَّات '' کا پڑھناواجب ہے ۔ علامہ نظام الدین رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں :
ترجمہ: '' اورجب ( بعد میں آنے والے مقتدی نے) امام کو تَّشَہُّد میں پایا اور امام مقتدی کے (تشہُّد) پورا کرنے سے پہلے ( تیسری رکعت کے لیے کھڑا) ہوگیا یا امام نے (قعدۂ اخیرہ میں) اپنی نماز مکمل کرکے مقتدی کے تَشَہُّد پوراکرنے سے پہلے سلام پھیر دیا۔ پس مختار قول یہ ہے کہ (مقتدی) تشہدو پورا کرے، جیسا کہ ''غیاثیہ'' میں ہے اوراگر ( تَشَہُّد) پوری نہ پڑھے، (تب بھی) اُس کی ( نماز) درست ہوگی، ( فتاویٰ عالمگیری ، جلد1،ص:90)''۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں