اسلام کا نظام حیات

قرآن پاک جس دین کے نفاذ کا حکم دیتا ہے، اس میں اﷲکی حاکمیت کو تسلیم کرکے اس کی اطاعت کرنا ہے۔


Dr Salees Sultana Chughtai January 03, 2013
چار چیزیں شعائر اﷲ میں سے ہیں۔ قرآن ، پیغمبر ، کعبہ اور نماز ۔ فوٹو : اے ایف پی

اسلام ایک ایسا نظام حیات ہے جس نے دنیا کے علمی، فکری، عملی اور معاشرتی نظام میں عظیم انقلاب برپا کر دیا ہے۔ اس نظام حیات کی بنیاد اخوت، بھائی چارے، مودّت، مروت اور احترام انسانیت پر ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ دنیا بھر میں بیشتر فسادات خود غرضی اور ہوس پرستی کی وجہ سے وقوع پذیر ہوئے۔ قرآن نے اس کا واحد علاج یہ بتایا کہ مسلمان اپنی شخصی رائے اور اپنی غرض کو کسی ایک معیار کے تابع کر دے اور وہ معیار اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کے ارشادات ہیں، جن کی تعمیل میں خواہ وقتی اور عارضی طور پر کتنی ہی تکلیف اٹھانی پڑے لیکن اس کا آخری انجام یقینی طور پر آخرت کی کام یابی اور سرخروئی ہے۔

حضرت شاہ ولی اﷲ ''حجتہ اﷲ البالغہ'' میں لکھتے ہیں کہ چار چیزیں شعائر اﷲ میں سے ہیں۔

۱۔ قرآن ۲۔ پیغمبر ۳۔ کعبہ ۴۔ نماز

ان چاروں کا احترام متقی اور پرہیز گار شخص ہی کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ادب و احترام میں سب سے بڑھ کر تعظیم کی مستحق حضور اکرم ﷺ کی ذات مبارکہ ہے۔ یہ محبت و احترام ہی وہ مرکزی نقطہ ہے جس پر تمام مسلم قوم یکجا ہے اور یہی وہ ایمانی رشتہ ہے جس پر اسلامی اخوت کا نظام قائم ہے۔

حضور اکرم ﷺ کے وصال کے بعد بھی اگر کبھی مسلمانوں کی کسی جماعت میں کوئی اختلاف ہوا تو قرآن اور سنت کے مطابق اس اختلاف کو دور کرنے کی کوشش کی گئی اور مسلمان علماء و زعماء نے عدل و انصاف کے ساتھ میل ملاپ کرا دیا۔

اسلام کا معاشرتی نظام اس بات کا متقاضی ہے کہ کسی ایک کی طرف داری نہ کی جائے اور صلح و جنگ میں یہ بات ملحوظ رکھی جائے کہ حق و انصاف کا بول بالا ہو۔ جب دو مسلمان آپس میں اُلجھ پڑیں تو ان کو بے یارومددگار نہ چھوڑا جائے بلکہ اصلاح کی کوشش میں کسی کی بے جا طرف داری یا انتقامی جذبے سے گریز کیا جائے۔ آپس کے اختلاف کو موثر طریقے سے ختم کیا جائے۔ اگر ہر مسلمان اس پر سختی سے عمل پیرا ہو تو اختلافات اور دشمنیاں کبھی نہیں بڑھیں گی اور ان کا ضرر بھی کم ہوجائے گا۔ قرآن پاک انسان کے نفس کو پاکیزہ اور مطّہر بناتا ہے اور اس کے فاسد اعمال کو مٹاتا ہے۔ قرآن پاک و احادیث مبارکہ کے مطابق دنیا میں رہنے والے تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔

قرآن پاک میں مسلمانوں کو نبی کریم ﷺ کے اسوۂ حسنہ کے ذریعے باہمی آداب اور حقوق و فرائض کی تعلیم دی گئی ۔ سورۂ الحجرات میں معاشرتی خرابیوں اور اخلاقی رذائل، جو دو بندوں کے درمیان منافرت کا سبب بن سکتی ہیں، کی نشان دہی کی گئی ہے۔ عموماً یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جہاں دو افراد کا ایک دوسرے سے اختلاف ہوتو ایک دوسرے کا مذاق اڑانا اور عیب جوئی شروع ہوجاتی ہے ۔

حالاں کہ اختلاف سے پہلے دونوں ایک دوسرے کے خیر خواہ تھے۔ مگر ذرا سی غلط فہمی اختلافات کو اتنا بڑھا دیتی ہے کہ پھر حسن ظن کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی، بدگمانی اور بد ظنی میں اضافہ ہوجاتا ہے اور ایک دوسرے کے عیبوں کے پردے چاک ہوجاتے ہیں۔ کسی بھی ظاہری خوبی کو معیار کمال ٹھہرانا حماقت ہے۔ شرف و فضیلت کا اصل معیار تقویٰ اور طہارت ہے ورنہ تمام انسان برابر ہیں ۔ رنگ نسل زبان کی اسلام میں کوئی اہمیت نہیں۔ اسلام دنیا میں ایسا نظام قائم کرنا چاہتا ہے جس کی بنیاد محبت و اخوت پر ہو۔ یہ وہ انعام ہے جو خالق حقیقی نے انسان کو پیدا کرنے اور روزی دینے کے ساتھ اس کی زندگی سنوارنے کے لیے دیا۔

قرآن پاک جس دین کے نفاذ کا حکم دیتا ہے، اس میں اﷲکی حاکمیت کو تسلیم کرکے اس کی اطاعت کرنا ہے۔ اس لیے قرآن کی صرف تلاوت ہی کافی نہیں، اس کے احکامات پر عمل پیرا ہونا بھی ضروری ہے۔ اس کے علاوہ اسے رواج دینا اور عملاً نافذ بھی کیا جانا چاہیے ۔ جن چیزوں کی حرمت اﷲ تعالیٰ نے پوری شدت اور قطعیت کے ساتھ بیان کی ہے، ان کی حرمت کا قائم کرنا اقامت دین کا باعث ہوتا ہے۔ آپ ﷺ کو جو احکامات دیئے گئے ہیں، ان کے ذریعے معاشرے میں دین حق کو فکری ، اخلاقی، تہذیبی، قانونی و سیاسی حیثیت سے غالب کیا جاسکتا ہے۔

آپ ﷺ نے دین اسلام کی تبلیغ کے ذریعے نہ صرف دلوں کو مسخر کیا ، مدینے میں مکمل شرعی حکومت کا نظام قائم کیا بلکہ ایک ایسا صالح اور صاف ستھرا معاشرہ قائم کیا جہاں قرآن کی حکمرانی تھی اور جہاں صرف اور صرف مقتدر اعلیٰ اﷲ کی ذات تھی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں