ہم نے اپنے ’محافظوں‘ کو کیا پیغام دیا

اگر ہمارے جوان سرحد پر جان کی بازی لگا سکتے ہیں تو ہم بھی ان کی خاطر بھارتی فلموں سے خود کو دور رکھ سکتے ہیں۔

افسوس کہ آج ہم سیاسی، معاشی، معاشرتی طور پر اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ دشمن کے مقابلے میں اپنے کئے گئے فیصلے پر 3 ماہ بھی قائم نہیں رہ سکتے۔ فوٹو: فائل

GUJRANWALA:
پاکستان اور بھارت دو ایسی حقیقتیں ہیں جو باہمی سخت ترین تناؤ بلکہ یوں کہیے کہ مسلسل سرد و گرم جنگ کے ساتھ بھی موجود ہیں۔ مسئلہِ کشمیر ایک ایسا معاملہ ہے جس کی وجہ سے دونوں ممالک نے جنگوں کا سامنا بھی کیا اور آج لگ بھگ 70 برس گزر جانے کے باوجود بھی اپنے اپنے موقف پر قائم ہیں، لیکن دونوں ممالک کے درمیان اختلاف صرف مسئلہِ کشمیر پر ہی نہیں بلکہ دیگر مسائل بھی درپیش ہیں، خاص طور پر سرحدوں پر بھارت کی جانب سے مسلسل شرانگیزی کی کارروائیاں ہیں جن میں سینکڑوں شہری و فوجی جام شہادت نوش کرچکے ہیں۔ اِس ساری صورتحال پر ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ ہم بطور پاکستانی اپنے وطن کی حفاظت کی خاطر دشمن سے مقابلہ کرنے کے لئے ہر وقت تیاری کریں اور کسی بھی مشکل صورتحال میں اپنے محافظوں کی مدد کے لئے حاضر رہیں، مگر افسوس کہ آج ہم سیاسی، معاشی، معاشرتی طور پر اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ دشمن کے مقابلے میں اپنے کئے گئے فیصلے پر 3 ماہ بھی قائم نہیں رہ سکتے اور فیصلے بھی اُس پسِ منظر کے جو اپنے ہی ملک کی فوج کی قربانیوں اور معصوم شہریوں کی بہیمانہ شہادت کے تناظر میں کیا گیا ہو۔

جب ہم پاک فوج کے چیف جنرل جاوید قمر باجوہ کا ایک تازہ ترین بیان دیکھتے ہیں کہ سرحد پار سے کسی بھی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کے لئے تیار ہیں، تو بڑا فخر، اطمینان و سکون ملتا ہے مگر ساتھ ہی یومِ یکجہتی کشمیر کے موقع پر حکومتی پالیسی کو دیکھتے ہیں تو ہمیں جماعتہ الدعوۃ کے امیر حافظ محمد سعید کی نظر بندی اور دوسری جانب اگلے ہی دن بھارتی فلموں کی پاکستان میں نمائش کی اجازت دینے جیسے فیصلے دیکھنے کو ملتے ہیں۔

بھارت میں اِس وقت ایک ایسا وزیراعظم بیٹھا ہے جس کے ہاتھ ہزاروں مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں اور جو مسلسل مسلمانوں کے خلاف صرف زہر نہیں اُگل رہا بلکہ عملی اقدامات بھی اُٹھا رہا ہے، مگر دوسری جانب ہماری طرف سے دو قومی نظریے کو روندتے ہوئے کبھی امن کی آشا کے گیت گائے گئے تو کبھی آلو، پیاز، چینی کی تجارت اور پاک بھارت دوستی اور ''کلچرل ایکسچینج'' کے لاحاصل راگ الاپے جارہے ہیں۔

بھارتی افواج کے ہاتھوں کشمیری نوجوان طالب علم برہان مظفر وانی کی بہیمانہ شہادت کے بعد ہم نے دیکھا کہ آج کئی ماہ بعد بھی سات لاکھ قابض بھارتی افواج کشمیر میں صورتحال پر قابو پانے میں ناکام رہی ہے۔ بھارتی مظالم کے خلاف جب مقامی لوگوں نے اُڑی سیکٹر پر حملہ کیا تو وہاں افواج کی جانب سے ردعمل پر بھارتی سُبکی اتنی بڑھی کہ اُس نے پاکستان کی سرحدوں پر جارحیت بھرے اقدامات تواتر سے شروع کردیئے۔ یہ معاملہ یہاں نہیں رُکا بلکہ اِس دوران بھارت میں مختلف پراجیکٹس پر کام کرنے والے پاکستانی فنکاروں کو جب مجبور کیا گیا کہ وہ بھارت میں پاکستان کے خلاف بیان دیں اور ایسا کرنے میں اُنہیں کامیابی نہیں ہوئی تو اُنہوں نے ایسے تمام پاکستانی فنکاروں کو بھارت سے باہر نکالا اور ایک بار پھر جنگ پروپیگنڈا شروع کردیا گیا۔

1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران اور بعد کے حالات میں بھی پاکستان میں بھارتی فلموں کی نمائش پر پابندی تھی اور اُس وقت یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ بھارتی فلموں کو نمائش کی اجازت دی جاسکے۔ اِس پابندی کے ذیلی اثرات میں وی سی آر، لیڈ، ڈش اینٹینا، کیبل اور انٹرنیٹ کے ذریعہ بھارتی مواد کا بے قابو جن باہر آگیا۔ پاکستان کی سماجیات پر بھارتی فلموں، ڈراموں نے بدترین اثرات مرتب کئے، لیکن اعداد و شمار اور حقائق بتاتے ہیں کہ 1980ء کی دِہائی تک بالخصوص پاکستانی ڈراموں اور فلموں نے بھارتی ثقافت کے بدترین اثرات کا بھرپور مقابلہ کیا۔ اِن ڈراموں اور فلموں میں 'خدا کی بستی'، 'شمع'، 'انکل عرفی'، 'ان کہی'، 'دھوپ کنارے'، 'پرچھائیاں'، 'سونا چاندی'، 'اندھیرا اُجالا'، 'آنگن ٹیڑھا'، 'تنہائیاں'، 'وارث'، 'الف نون'، 'فیملی فرنٹ'، 'خواجہ اینڈ سنز' سرِ فہرست تھے جنہوں نے بھارتی فلموں کو ہر اعتبار سے بہت پیچھے لا کھڑا کردیا تھا۔

یہی صورتحال کارگِل جنگ کے بعد بھی دیکھنے کو ملی جب پاکستانی حکومت نے بھارتی پروپیگنڈے کے اثرات کو روکنے کے لئے کیبل نیٹ ورک پر بھارتی نیوز چینلز پر پابندی لگادی تھی، تاہم تفریحی چینلز کے ذریعہ جو زہر اُگلا جاتا رہا اُس نے پاکستانی معاشرے کو اتنا آلودہ کردیا ہے کہ اُن اثرات پر کئی شمارے بھی شائع کئے جائیں تو کم ہیں۔

1990ء کی دہائی سے بالخصوص پاکستان فلم انڈسٹری اور بالعموم ڈرامہ انڈسٹری اپنا اثر بتدریج کھوتی چلی گئی۔ نجی ٹی وی چینلز کی بھر مار کی صورت میں اُمید تو یہ تھی کہ مزید اچھے ڈرامے بنیں گے جو پاکستانی ثقافت کی بھرپور ترویج کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کریں گے لیکن افسوس کہ معاملہ الٹ ہوگیا۔ درحقیقت ایک ٹھوس نظریاتی ملک نے اپنے میڈیا کے ذریعہ اپنے ہی نظریہ کو روندنے کا جو منفرد کام انجام دیا اُس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔


ایک وقت تھا جب پاکستانی ڈراموں کی کہانی نہ صرف مضبوط ہوا کرتی تھی بلکہ اُس کا اسکرپٹ اِس قدر مضبوط ہوتا تھا کہ ٹی وی کے سامنے بیٹھے رہنے سے وقت کا زیاں نہیں ہوتا تھا بلکہ انسان کچھ نہ کچھ سیکھتا ہی تھا، مگر نجی ٹی وی چینلز نے ساس بہو کلچر کو فروغ دیتے ہوئے پہلے بھارتی ڈراموں کو خرید خرید کر نشر کیا پھر مزید دلدل میں گرتے ہوئے ''عشق ممنوعہ'' کی حدوں کو پہنچ گئے اور ترکی ڈراموں کا سہارا بھی لے لیا۔ پاکستانی و ہندوستانی ڈراموں کے شائقین کا اب بھی کہنا ہے کہ مجموعی طور پر پاکستانی ڈراموں کا معیار بھارتی ڈراموں سے بہتر ہے اور بھارت میں اب بھی پاکستانی ڈرامے زیادہ پسند کئے جاتے ہیں۔

ایسا ہرگز نہیں کہ موجودہ دور میں ہر چینل یا ہر ڈرامہ اپنی اہمیت کھو چکا ہے، نہیں بالکل بھی نہیں بلکہ اب بھی صورتحال کچھ یہ ہے کہ نجی چینلز پر نشر ہونے والے ڈرامے ہمسفر، مری ذات ذرہ بے نشاں، زندگی گلزار ہے، بشر مومن، داستان، لا حاصل، شہرِ ذات و دیگر نے بھارت میں اس حد تک اپنے کام کو منوایا کہ بھارت کو اپنی کمرشل ضروریات پوری کرنے کے لئے فواد خان اور ماہرہ خان کی ضرورت آن پڑی۔ اس ضمن میں معین اختر مرحوم، عمر شریف، شکیل صدیقی، رؤف لالہ، غلام علی، مہدی حسن، نصرت فتح علی خان، شفقت امانت علی، راحت فتح علی خان، علی ظفر، عاطف اسلم و دیگر بھی اپنے فن کا لوہا منوانے والے نمایاں نام ہیں۔

اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ نظریاتی و سرحدی تناؤ کو بھلا دینا چاہیئے تو آپ کے لئے ہم ایسا بھی کرلیتے ہیں، لیکن کیا آپ کو معلوم ہے کہ جس بھارت کے لئے ہم اپنے تمام اصول اور نظریات چھوڑنے کو تیار ہیں، وہ بھارت آج بھی ہمارے ساتھ کرکٹ کھیلنے کو آمادہ نہیں، وہاں آج بھی پاکستانی فلم کو نمائش کی اجازت نہیں، وہاں آج بھی پاکستانی فن کاروں کو جانے کی اجازت نہیں، اور وہاں آج بھی پاکستان کا کوئی چینل نہیں چلنے دیا جاتا۔ یہ سب جانتے ہوئے صرف چند سینماؤں کے کاروبار کے تحفظ کے لئے وزارتِ اطلاعات کا کردار کیا سوالیہ نشان نہیں ہے؟

درحقیقت معاملہ یہ ہے کہ پاکستان ہو یا بھارت، وہ ٹھیک ہوں یا غلط، اِس سے قطع نظر دونوں ممالک اپنے اپنے موقف پر قائم ہیں، اور ایسا صرف اِسی لئے ہے کہ یہ دونوں ممالک خود کو درست سمجھتے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ اگر یہ دونوں ممالک اپنے موقف کو ٹھیک سمجھتے ہیں تو پھر اِس حوالے سے وہ کتنے سنجیدہ ہیں۔ جہاں تک بھارت کی بات ہے تو وہ نہ صرف پاکستان سے نفرت کا اظہار کرتا ہے بلکہ عملی طور پر اِس کا اظہار بھی کرتا ہے جس کی چند مثالیں مندرجہ بالا بیان کی گئی ہیں، کہ وہ نہ پاکستان کے ساتھ کرکٹ کھیلنے کے لئے تیار ہے، نہ پاکستانی فلموں کو نمائش کی اجازت دے رہا ہے، نہ پاکستانی فنکاروں کو اپنے یہاں کام کرنے کے لئے اچھا ماحول فراہم کررہا ہے، غرض بھارت کوئی بھی ایسا کام کرنے کے لئے تیار نہیں جس سے پاکستان کو فائدہ ہو، لیکن ہمارا طرزِ عمل کیا ہے؟

کیا سرحد پر فوجی اور شہری بھارتی دہشتگردی کے نتیجے میں شہید نہیں ہورہے؟ کیا کشمیر میں بھارت روزانہ کی بنیاد پر ظلم و ستم نہیں کررہا؟ کیا بھارتی وزیراعظم پوری دنیا میں پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش نہیں کررہے؟ اگر سب یہ سب کچھ ہورہا ہے تو ہم کیوں اپنے فیصلوں پر عمل کرنے سے گھبرا جاتے ہیں؟ ایسا کیوں نہیں ہوتا کہ پاکستان میں ایسی فلمیں بننا شروع ہوجائیں جن میں پاکستان کی اصل ترجمانی کی جاسکے اور وہ اِس قدر اچھے طریقے سے فلمائی گئی ہوں کہ لوگ جوق در جوق سینما گھروں کا رخ کریں۔ کون کہتا ہے کہ فلموں کے ذریعے منفی پیغام ہی پہنچایا جاسکتا ہے؟ جس طرح 80ء کی دہائی میں پاکستانی ڈرامے لوگوں کی تربیت کا سامان تھے تو آج کیوں پاکستانی فلمیں یہ کردار ادا نہیں کرسکتیں؟

میں اب بھی پاکستانی حکومت اور دیگر پُراثر حلقوں سے مطالبہ کرتا ہوں کہ پاکستان سے متعلق بھارتی پالیسسیز کو سمجھیئے اور پاکستان میں بھارتی فلموں سے اُٹھنے والی پابندی کو دوبارہ لگادی جائے تاکہ ثقافتی طور پر بھی ہم بھارت کا مقابلہ کرسکیں اور اپنے فوجیوں کو بھی یہ پیغام دے سکیں کہ اگر آپ ہماری حفاظت کے لئے سرحد پر جان کی بازی لگاسکتے ہیں تو ہم بھی آپ کی خاطر بھارتی فلموں سے خود کو دور رکھ سکتے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں
Load Next Story