نوجوان بالغ نظر ہو گئے

حکومت ابھی تک ’’اسٹیٹس کو‘‘ سے چمٹی ہوئی ہے جب کہ نوجوان ’’پریورتن‘‘ چاہتے ہیں… یعنی مکمل تبدیلی۔


Kuldeep Nayar January 03, 2013

مجھے اپنے زندہ رہنے کی کس قدر خوشی ہو رہی ہے کہ میں نوخیز جوانوں کو اپنی قوت آزماتے دیکھ رہا ہوں، حتیٰ کہ صاحب ثروت گھرانوں کے بیٹے اور بیٹیاں بھی احتجاج میں شرکت کر رہے ہیں۔ مجھے 1942ء کا وہ دور یاد آیا جب مہاتما گاندھی کی کال پر انگریزحکومت کے خلاف ''انڈیا چھوڑ دو'' تحریک شروع ہوئی تھی جس میں تمام نوجوان گھروں سے باہر نکل آئے تھے۔ اس تحریک میں قربانی دینے کا عزم جھلکتا تھا اور تحریک کے ساتھ ان کے دل کی لگن شامل تھی۔ اس مرتبہ بھی 23 سالہ لڑکی کی اجتماعی مجرمانہ حملے میں موت کو ہر ایک نے اپنا ذاتی خسارا سمجھا ہے۔

نوجوانوں کے چہرے ہاتھوں میں اٹھائی موم بتیوں کی روشنی میں دمک رہے ہیں، جس سے بھارت کے اس خواب کی تکمیل ہوتے لگتی ہے جس میں ذات پات اور دین دھرم کا کوئی امتیاز نہیں۔ یہ پورے ملک کی طرف سے وطن کی قابل فخر بیٹی کی ہلاکت پر متحدہ سوگ تھا۔ ایسا لگتا ہے جیسے اس گینگ ریپ نے قوم کو عورتوں کے خلاف ہونے والے ظلم و ستم پر اور حکمرانوں کی عدم کارکردگی پر بیدار کر دیا ہے اور یہ بات کہ لاٹھی چارج اور پانی کے گولوں کے باوجود مظاہرے پر امن رہے جو مظاہرین کی بالغ نظری کی دلیل ہے۔

حکمرانوں کو اس بات کا کوئی ادراک نہیں کہ حکومت کے خلاف اس قدر بھرپور احتجاج کیوں ہوا اور اس کا مداوا کس طور ہو گا۔ بنیادی طور پر تو حکمرانوں نے باہر نکل کر کسی اجتماع سے خطاب کرنے کی جرات ہی نہیں کی کیونکہ ان کا طلبہ کے ساتھ کوئی رابطہ ہی نہیں تھا۔ حکمران ٹولے میں سے کسی نے بھی عوامی غیظ و غضب کو ٹھنڈا کرنے کی کوئی کوشش نہ کی۔ پھر لیڈروں میں افراتفری پھیل گئی اور دہلی کی وزیراعلیٰ شیلا ڈکشت نے جنتر منتر کے مقام پر طلبہ سے بات کرنے کی کوشش کی۔ واضح رہے جنتر منتر کو بھارت کے ہائیڈ پارک کا درجہ حاصل ہے۔

لیکن وزیراعلیٰ کو طلبہ نے اندر آنے کی اجازت ہی نہ دی۔ وزیر داخلہ سوشیل کمار نے کافی تاخیر سے سیاسی پارٹیوں کو تجاویز مرتب کرنے کے لیے کہا جس سے ظاہر ہو گیا کہ منموہن سنگھ حکومت خسارے میں چلی گئی ہے، جس نے بعجلت ایک تحقیقاتی کمیٹی قائم کر دی، ساتھ ہی عدالتی کمیشن بھی بنا دیا جسے نئے اور زیادہ سخت قوانین مرتب کرنے کے لیے کہا گیا۔ بھارت کے سابق چیف جسٹس جے سی ورما کو اس کمیشن کا سربراہ نامزد کیا گیا۔ میری خواہش ہے کہ یہ کام پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے بعد کیا جاتا جس کا اپوزیشن نے مطالبہ کیا ہے۔ تب اراکین کی طرف سے پیش کی جانے والی تجاویز کو مجوزہ قانون میں شامل کیا جا سکتا تھا۔ قانونی ڈھانچے کو درست کرنے کی کوشش بجا ہے مگر جس چیز کا حکومت کو احساس نہیں وہ یہ کہ اس کی سوچ فرسودہ ہو چکی ہے۔

حکومت ابھی تک ''اسٹیٹس کو'' سے چمٹی ہوئی ہے جب کہ نوجوان ''پریورتن'' چاہتے ہیں... یعنی مکمل تبدیلی۔ ملکی نظام اس قدر ناکارہ ہے کہ وہ قانون کی بالادستی کو بحال نہیں کروا سکتا اور نہ ہی سب لوگوں کے تحفظ کی ضمانت فراہم کر سکتا ہے۔ بالخصوص عورتوں کے معاملے میں تو یہ بالکل ہی بے کار ہے۔ حکومت کا اپنا ریکارڈ خاصا کمزور ہے۔ اس نے کرپشن پر قابو پانے کے لیے کچھ نہیں کیا، جو چند ماہ پہلے تک اسمبلی کی تقاریر میں سب سے نمایاں موضوع تھا۔ اور کچھ نہیں تو مرکزی حکومت کم از کم سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی) کو ہی آزاد اور خود مختار کر دیتی۔

یہ ادارہ بدستور حکمرانوں کی خواہشات کی تکمیل میں مصروف ہے۔ حالیہ احتجاجی مظاہروں میں جس چیز سے مجھے حیرت ہوئی وہ یہ تھی کہ نوجوان مکمل طور پر غیر سیاسی تھے۔ ''عام آدمی کی پارٹی'' کا بھی کوئی نوٹس نہیں لیا گیا جس کی تشکیل انا ہزارے کے کرپشن کے خلاف احتجاج اور لوک پال (یعنی محتسب) کے ادارے کے قیام کی خاطر کی گئی تھی۔ نوجوان کسی سیاسی پارٹی کا سہارا لینے کے بجائے عوامی تحریک کو ترجیح دے رہے ہیں۔

میں نے دیکھا کہ سیاسی جماعتوں میں بھی اب کچھ بیداری پیدا ہو رہی ہے۔ انھوں نے اپنے کردار کا جائزہ لینا شروع کر دیا ہے۔ ان کی طرف سے جو بیانات چھپے ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ عورتوں پر تشدد کے خلاف پارٹی مفادات سے بالاتر ہو کر کام کرنا چاہتے ہیں۔ اس سے یہ امید پیدا ہوتی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن میں خواتین کی حرمت کے تحفظ کے اعتبار سے کوئی اتفاق رائے ہو جائے گا اور عورتوں سے چھیڑ چھاڑ کرنے یا ان پر آوازے کسنے کے خلاف بھی کوئی قانون بنا لیا جائے گا۔ مرد و زن کے معاملے میں اصل مسئلہ مرد کا ہے۔

اس کے ''مائنڈ سیٹ'' کو تبدیل کیے بغیر عورت مرد کی برابری کا معاملہ حل نہیں ہو سکتا۔ وہ اب بھی عورت کو ایک کھلونا سمجھتا ہے۔ اس کی مردانہ شاونیت میں سالہا سال گزرنے کے باوجود کوئی کمی نہیں آئی جس کا اندازہ بعض عوامی لیڈروں اور اراکین اسمبلی کے بیانات سے ہوتا ہے جو انھوں نے اس گینگ ریپ کے بعد دیے۔ معاشرہ غصے سے کھول رہا ہے اور فوری انصاف چاہتا ہے لیکن اس کے لیے نہ پولیس تیار ہے اور نہ ہی عدلیہ۔

سیاستدانوں کی نئی نسل ممکن ہے اس آلودگی کو صاف کر سکے۔ اور یہ دیکھنا بہت دلپذیر ہے کہ پاکستان میں پیپلز پارٹی کی زمام بلاول بھٹو کو منتقل کر دی گئی ہے، جو اب پاکستان پیپلز پارٹی کا چیئرمین ہے جو ذوالفقار علی بھٹو نے قائم کی تھی۔ اپنی والدہ بینظیر بھٹو کی پانچویں برسی پر بلاول کی تقریر سے 24 سال کی عمر میں اس کی ذہنی بلوغت کا اندازہ ہوتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ تقریر خود اسی نے لکھی تھی جس میں اس نے دہشتگردی کے ساتھ آمریت کی بھی مذمت کی جس کی وجہ سے پاکستان اپنی صحیح عمر کو نہ پہنچ پایا۔

اس ضمن میں یہ کہنا کہ کیا اس کی بہن اس سے بہتر نہیں ہو گی ایسا ہی ہے جس طرح بھارت میں راہول گاندھی کو اس کی بہن پریانکا پر ترجیح دیتے ہوئے نامزد کر دیا گیا تھا۔ میری خواہش ہے کہ راہول گاندھی بلاول کی کتاب میں سے ایک ورق پھاڑ لے جو اپنے نظریات کے حوالے سے بہت واضح اور دو ٹوک ہے، جن کی بنیاد آزاد خیالی کی قدروں اور جمہوریت پر ہے۔ اس کی طرف سے اقلیتوں کے حقوق کا خصوصی ذکر ماضی کی تنگ نظری اور انتہا پسندی سے بالکل مختلف ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ راہول آزاد خیال یا جمہوریت پسند نہیں ہے، لیکن اس کی پانچ پانچ منٹ کی مختصر تقریروں میں اس کی اصل سوچ اور مستقبل کے بارے میں اس کے خیالات کا پتہ نہیں چلتا۔ حالانکہ یہ بہت ضروری ہے کیونکہ وہ 2014ء کے عام انتخابات میں وزارت عظمیٰ کے لیے کانگریس کا امید وار ہے۔

راہول اور بلاول کو بھارت اور پاکستان کی صنف نازک کے خلاف ہونے والے ظالمانہ سلوک کے خلاف لڑائی کرنی چاہیے۔ دونوں ملکوں کے عوام غنڈہ عناصر کے سامنے خود کو بے بس محسوس کرتے ہیں۔ ایک لڑکی پر بھارت میں مجرمانہ حملہ ہوا، اسے وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنا کر ہلاک کر دیا گیا اور قوم اس لڑکی کی جان نہ بچا سکی۔ ملالہ یوسفزئی کو طالبان سے جان بچانے کی خاطر ملک سے نکل جانا پڑا۔ وہ عورتوں کی تعلیم کا مطالبہ کر رہی تھی جو طالبان کے نظریے کے خلاف ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ملالہ علاج کے لیے بھارت آنا چاہتی تھی مگر بھارتی حکومت اسے ملک میں داخلے کی اجازت دینے سے خوفزدہ تھی۔ اسے لندن پرواز کرنا پڑی۔

خواتین کے حقوق کی جنگ بہت طویل اور بے حد کٹھن ہے جس کے لیے صبروتحمل' جرات اور قربانی کا جذبہ درکار ہے۔ معاشرہ چاہتا ہے کہ اب نوجوان قیادت کریں کیونکہ سیاسی پارٹیاں ناکام ہو چکی ہیں۔ اس کے لیے ایک ایسی تحریک درکار ہے جو عورتوں کو برابری دلانے کے لیے کام کرے۔ دہلی میں ایک لڑکی کی اجتماعی بے حرمتی اور پاکستان میں ملالہ پر حملے سے عوام دہشت زدہ ہو گئے ہیں۔ کیا راہول اور بلاول مردوں اور عورتوں کی برابری کے دل سے قائل ہیں؟ اپنی حمایت کے لیے اب وہ نوجوانوں پر بھروسہ کر سکتے ہیں جو بلوغت کی منزل پر آن پہنچے ہیں۔

(ترجمہ: مظہر منہاس)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں