برس کی آخری شام ضیاء محی الدین کے نام

ساون بھادوں بھی تو دلی کی تہذیب میں رچ بس کر کیا سے کیا بن گئے تھے۔

rmvsyndlcate@gmail.com

لیجیے ہم نے یا یوں کہیے ہم آپ نے مل جل کر اور مر گر کر 2012ء کا ستم گر سال بھی گزار لیا۔ مر گر کر کی تفصیل یہ ہے کہ دہشت گردوں کے حملے بھی ہوتے رہے۔ ٹارگٹ کلنگ بھی جاری رہی۔ اس عمل میں کتنے مر کٹ گئے۔ کتنے اب بھی جی رہے ہیں۔ اس سب کچھ کے باوجود

اپنی ہمت ہے کہ ہم پھر بھی جئے جاتے ہیں

اب آگے 13ء ہے۔ یعنی اب تین تیرہ کا مرحلہ درپیش ہے۔ اس گرداب سے جو نکل پائے گا اور ٹارگٹ کلنگ سے بھی بچا رہے گا، وہ اکیسویں صدی کا چودھواں سال دیکھے گا۔ درمیان میں طبعی موت آلے تو اس کا تو کوئی توڑ ہے ہی نہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ہم اب اس طرح جیتے ہیں کہ ہمارے اردگرد ملک الموت کے ہرکارے اپنا کھیل کھیلتے رہتے ہیں۔

کتنوں کو تو وہ پہلے سے تاک لیتے ہیں۔ پھر قضا کا تیر اس طرح چلتا ہے کہ نشانے پر جا کر لگتا ہے۔ لیکن وہ جو بھرے بازار میں، میلے ٹھیلے میں، کسی عرس میں، کسی محرم کے جلوس میں، کسی مسجد میں بم پھٹتا ہے یا بدن پر بم باندھے کوئی مائی کا لال ان کے بیچ کود پڑتا ہے تو اس میں تو خودکش بمبار کی کوئی خطا نہیں ہے۔ وہ تو اپنی جان پر کھیل کر وہاں کودا تھا۔ تمہیں کس حکیم نے نسخہ لکھ کر دیا تھا کہ تم وہاں گئے۔ ارے نہ جاتے مسجد میں نماز پڑھنے یا عرس میں دھمال ڈالنے، یا جلوس محرم میں ماتم کرنے، تو اپنی موت کے تم خود ذمے دار ہو۔

اچھا چھوڑیں اس قصے کو۔ یہ ایک دن کا رونا تھوڑا ہی ہے۔ یہ زندگی موت کا کھیل تو اب ہماری تقدیر میں لکھا گیا۔ سال کے بارہ مہینے چلتا رہتا ہے۔ یا قسمت یا نصیب کا معاملہ ہے۔ جو زد میں آ گیا، وہ گیا۔ جو بارہ مہینے تک زد سے بچا رہا وہ خوش نصیب ہے۔

ہم خوش نصیب تھے کہ سال کی آخری شام بھی ایک بھری محفل میں گئے اور واپس سلامت گھر آ گئے۔ ارے کیسے نہ جاتے۔ سال میں ایک ہی شام تو ایسی آتی ہے کہ ایک محفل اس طور کی سجتی ہے کہ وہ کہیں اور سنا کرے کوئی۔ ضیاء محی الدین کراچی سے چل کر یہاں پہنچتے ہیں اور اردو نثر سنا کر ہمیں نہال کر دیتے ہیں۔ مشاعرے تو آئے دن ہوتے رہتے ہیں اور یہ مشاعرہ اس رنگ سے ہوتا ہے کہ اچھی بری غزلیں سنتے جائو اور انتظار کرتے رہو کہ اس بیچ دو چار بھلے شاعر بھی آئیں گے اور اچھے شعروں سے تمہیں نوازیں گے۔

مگر یہ مشاعرہ نہیں، اسے مناثرہ کہو، یا نثر کی محفل اور ایک فردی نثر کی محفل، ضیاء محی الدین اردو نثر کے دفتروں کی ورق گردانی کر کے کچھ پچھلے نثر نگاروں کے یہاں سے کچھ آج کے نثر نگاروں کے نثر پاروں کے بیچ سے موتی چنتے ہیں۔ یہ نثر پارے سنو اور ان کے حسن انتخاب کی داد دو۔ ہر ہر نثر پارہ اپنی جگہ جواہر ریزہ، سنتے جائو اور واہ واہ کرتے جائو، منہ کا مزہ بدلنے کے لیے بیچ بچی میں اکا دکا نظم، یعنی غزل ندارد، وہ مشاعرے میں جا کر سنو، یہاں تمہاری تواضع نظم آزاد سے ہو گی۔ راشد کی یا فیض کی کوئی نظم کوئی مضائقہ نہیں کہ انگریزی کی بھی کوئی نظم سننے کو مل جائے۔


آخر ضیاء محی الدین کو اس کا لحاظ کرنا پڑتا ہے کہ ان کے مداح جو ان کا نام سن کر یہاں دوڑے آتے ہیں وہ انگریزی گود میں پلے بڑھے ہیں۔ اولاً ان کی انگریزی کے دلدادہ ہیں ضیاء محی الدین کی خاطر کو آج اردو بھی سہی۔ وہ سال میں ایک مرتبہ اردو نثر سنتے ہیں۔ ضیاء محی الدین کے ہونٹوں سے نکل کر اس میں بھی ان کے لیے انگریزی کا ذائقہ پیدا ہو جاتا ہے۔

باقی اردو میں بھی شاعری کا معاملہ یہ ہے کہ ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے۔ اور شاعری تو خود بھی اپنے لب و لہجہ کا اعلان کرتی ہے۔ مگر نثر کے لب و لہجہ کو اس کے ادا شناس ہی جان پاتے ہیں۔ ایسے ادا شناس نایاب مال ہیں۔ ہمارے زمانے میں ایسا نایاب مال ضیاء محی الدین کی شکل میں دستیاب ہے۔ سو انھیں سنو اور ان کی قدر کرو اور اس مال کی بھی جو وہ اس موقعے پر پیش کرتے ہیں۔

سو چھوٹتے ہی انھوں نے جو مال پیش کیا۔ وہ لاجواب تھا۔ یعنی ڈپٹی نذیر احمد کی کہانی، مرزا فرحت الٰہ بیگ کی زبانی، مرزا فرحت الٰہ بیگ بھی صاحب اسلوب نثر نگار گزرے ہیں۔ ان کا نثری اسلوب اور اس میں مزاح کی چاشنی، ان کا رنگ مزاح اور پھر وہ شائستہ اردو میں رچا بسا اور اسے پڑھنے والا ضیاء محی الدین۔ سمجھ لو کہ محفل نے آغاز کرتے ہی ہمیں لوٹ لیا۔

کل تک یہ مال بازار میں نایاب تھا۔ لیکن اب تو آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے اسے شایع کر دیا ہے۔ ان کے مضامین کو اجمل کمال نے سلیقہ سے مرتب کیا ہے اور ایک معقول دیباچے کے ساتھ جس میں مصنف سے قارئین کو متعارف کرایا گیا ہے۔ پانچ جلدوں میں یہ مضامین شایع کیے گئے ہیں۔ سمجھ لو کہ کوزے میں دریا کو بند کیا ہے۔ پھر بھی پورا دریا کہاں سما پایا ہے۔ مگر جتنا یہاں پیش ہو گیا ہے اسے بہت سمجھو۔ بقیہ مال بھی چند جلدوں میں آ جائے گا۔

مرزا فرحت اللہ بیگ اپنی دو حیثیتوں سے ممتاز ہیں۔ ایک تو وہ بہت منجھے ہوئے مزاح نگار تھے۔ آج کے پڑھنے والوں نے تو بالعموم پطرس بخاری سے شروع ہو کر مشتاق یوسفی تک کے مزاج کا ذائقہ چکھا ہے۔ یہ ذائقہ اپنی جگہ خوب ہے۔ مگر فرحت الٰہ بیگ ان سے بہت پہلے اپنے مزاح کے تیر و نشتر چلا کر گزر گئے تھے۔ ڈپٹی نذیر احمد کے شاگرد رہے تھے۔

جس نے نثر کا سبق ڈپٹی نذیر احمد سے پڑھا ہو سمجھ لو کہ اس کی نثر کیسی ہو گی۔

دوسری ان کی حیثیت یہ تھی کہ وہ دلی کی تہذیب کے راویوں میں سے تھے۔ دلی کی تہذیب کے راوی بھی کیسے کیسے لوگ تھے، خواجہ حسن نظامی، ناصر نذیر فراق، منشی فیض الدین، اشرف صبوحی، شاہد احمد دہلوی ارے کتنے نام گنائیں۔ ہر ایک نے اس تہذیب کو کس کس رنگ سے بیان کیا ہے۔ مغل شہزادیوں کے آنسو دیکھنے ہوں تو خواجہ حسن نظامی سے رجوع کرو۔ وہ کیا کیا کھیل کھیلتی تھیں اور باغوں میں کیا کیا جھولے جھولتی تھیں۔ یہ جاننا ہو تو منشی فیض الدین کو پڑھو۔ لو ہم اس سلسلے میں مرزا فرحت اللہ بیگ کو تو بھولے جا رہے ہیں۔ انھوں نے کم سماں باندھا ہے۔

ساون بھادوں بھی تو دلی کی تہذیب میں رچ بس کر کیا سے کیا بن گئے تھے۔ اس رت کی پھوار دیکھنی ہو تو مرزا فرحت اللہ بیگ کو پڑھو۔ پھول والوں کی سیر کا نام ہم سب نے سنا ہے۔ اس کا بھرا پرا نقشہ دیکھنا ہو تو مرزا فرحت اللہ بیگ ہی تمہیں یہ نقشہ دکھائیں گے۔ ہاں اگر کھانے وانے سے آپ کو رغبت ہے تو لال قلعہ کے دسترخوان کی رنگارنگی دیکھو۔ منشی فیض الدین ایک ایک ڈش اور ایک ایک مٹھائی کی سنائیں گے کہ آپ ہونٹ چاٹیں گے۔ جامع مسجد کی سیڑھیوں پر کھلنے والی دیگوں کا مزہ چکھنا ہو تو پھر اشرف صبوحی سے رجوع کیجیے۔ مگر ہم تو اس وقت مرزا فرحت اللہ بیگ کی بات کر رہے ہیں۔ فی الحال اس ذائقہ کو دیکھو جو ان کی تحریروں میں دستیاب ہے۔
Load Next Story