بارِ فرض
جن معاشروں میں ذاتی مفاد کو اولین ترجیح حاصل ہو وہاں فکر کا ہر دائرہ ’’ذات‘‘ کے گرد ہی گھومتا ہے۔
اخلاق اور قانون کے تقاضے پورے کرنے کو ذمے داری سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ احساس ذمے داری سے مراد ہے کہ کوئی بھی فرد خود کو نظریاتی سطح پر اس بات کا پابند تصور کرتا ہو کہ ذاتی مفاد سے بالا تر ہو کر اپنے فرائض ادا کیے جائیں، چاہے اس کے لیے ذاتی نقصان ہی کیوں نہ برداشت کرنا پڑے۔ عموماً جب ہم فرض یا احساس ذمے داری کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد ملک و ملت سے تعلق کے تقاضوں کی بجاآوری ہوتی ہے اور یہ ہماری مملکت کا ہم پر سب سے بڑا حق ہے۔1961ء میں اپنی حلف برداری کے بعد پہلے خطاب میں جان ایف کینیڈی نے اپنے استاد کا یہ قول دہرایا ''یہ مت پوچھو کہ ملک نے تمھیں کیا دیا، سوال یہ کرو کہ تم ملک کے لیے کیا کرسکتے ہو'' یہ اسی جانب اشارہ ہے۔
نو گیارہ کے بعد قومی، نسلی،گروہی اور مذہبی شناخت مباحث کا مرکزی سوال بن گئی۔ دہشتگردی پہلے ہی مرض کی صورت اختیار کرچکی تھی جس نے مسلم سماج کی دراڑوں کو مزید گہرا کردیا۔کچھ ممالک نے اسی سیاق و سباق میں ''حریت پسندوں'' پر بھی دہشتگردی کا لیبل چسپاں کردیا۔ حبس زدہ ماحول میں، شکست خوردگی اور مایوسی، ردّعمل کے لاوے میں بدل گئی اور ''عرب بہار'' کی صورت میں آتش فشاں پھٹ پڑا۔کئی عرب ممالک انتشار کی لپیٹ میں آئے، اوسط درجے کی قیادت جو وراثت میں ملی حکمرانی کے مزے لوٹ رہی تھی، حالات کو قابو کیا کرتی اپنی حماقتوں سے، اس نے تباہی میں کئی گنا اضافہ کردیا۔
القائدہ کے فکری گہوارے سے اور بھی وحشت ناک صورت میں داعش(آئی ایس) نے جنم لیا۔ کسی بھی ہوش مند، عدل کے اصولوں پر کاربند سیاسی سماج میں، قیادت کا یہ اولین فریضہ ہوتا ہے کہ وہ اخلاق کی پاسداری کے لیے خود کو مثال بنائے۔ اپنے ہم وطنوں کو احساس تحفظ فراہم کرنے کے لیے یہ اصول اتنا اہم ہے کہ اس پر کسی بھی ذاتی یا خاندانی تعلق، عزیر رشتوں اور مال و متاع کو قربان کیا جاسکتا ہے۔
جن معاشروں میں ذاتی مفاد کو اولین ترجیح حاصل ہو وہاں فکر کا ہر دائرہ ''ذات'' کے گرد ہی گھومتا ہے۔ اس میں جمہوریت کا کوئی دوش نہیں۔ یہاں پارٹیاں، چاہے سیکیولرازم کی پرچارک ہوں یا مذہب کی علم بردار، بدعنوان اور نااہل لیڈر ان کی صفوں میںموجود ہیں۔ ہماری اشرافیہ، جس میں افواج اور بیوروکریسی بھی شامل ہے، صرف اپنی مفادات کے لیے فکرمند رہتے ہیں۔ مقامی حکومتوں کا بااختیار نہ بنانا خالص جاگیردارانہ سوچ کی عکاسی ہے۔
نااہلی اور بد دیانتی کے اسی گٹھ جوڑ نے ریاست کو شہریوں کی داد رسی کے قابل ہی نہیں چھوڑا۔ سیاسی معاشیات کے پروفیسر البیرٹو ایم پیڈرا نے اس پوری صورت حال کو جامع انداز میں بیان کیا ہے''جب اقتدار ''جمہوری'' طور پر منتخب ہونے والی بددیانت قیادت کے ہاتھ میں آجائے تو اس سے جنم لینے والے مرض کی پہلی علامت یہ ہے کہ ریاست کے بنیادی ادارے صرف اہل اقتدار کی فرماں برداری ہی میں مصروف رہتے ہیں۔'' حتی کے باوردی افراد بھی ''قانونی'' اور ''غیر قانونی'' احکامات کی تمیز نہیں کرپاتے۔
قیادت اسی کو زیب دیتی ہے جو قوم اور سماج کی فلاح کی خاطر اپنے ذاتی مفادات قربان کرنے کے لیے تیار ہو۔ ہمارے سیاست داں(چند ایک اچھی مثالوں کو چھوڑ کر) اقتدار میں رہنے کے لیے فریب دہی اور کذب بیانی سمیت ہر راستہ اپنانے کو تیار ہیں اور ایک بڑی تعداد مجرمانہ ماضی رکھتی ہے۔ ارکانِ پارلیمنٹ کو قانونی سازی سے کوئی دل چسپی نہیں، ان کی توجہ ایسی ترامیم کی جانب رہتی ہے جس میں ان کا مفاد ہو، جیسے مراعات اور تنخواہوں میں اضافے جیسے امور۔
فوج کی بروقت اور بے باک کارروائی سے کرپشن کا خاتمہ ممکن تھا لیکن فوجی عدالتوں کو لپیٹ دیا گیا۔ مشرف کے این آر او نے بدعنوانی کو ''ادارہ'' بنا دیا، کرپٹ منتخب نمایندوں کو چھوٹ ملی، جب انھیں اقتدار ملا تو قومی خزانے کو لوٹا اور کرپشن کے خاتمے کے لیے صرف زبانی جمع خرچ سے کام لیا۔ بے لگام کرپشن زرداری کے پانچ سالہ دور میں اپنے عروج کو پہنچ گئی۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق اس عرصے میں کثیر قومی دولت کرپشن کی نذر ہوئی۔ قومی سطح کی کسی بھی(اخلاقی، شہری یا قانونی) ذمے داری کا عملاً کوئی تصور باقی نہیں رہا اور جواب دہی یا احتساب کا تو سوال ہی کیا۔کرپشن، منظم جرائم اور دہشتگردی کے واضح گٹھ جوڑ کے باوجود کسی فرد یا گروہ کے خلاف براہ راست کارروائی کرنے سے غفلت برتی گئی۔
اقربا پروری اور بدعنوانی صرف سیاست دانوں تک محدود نہیں، اعلیٰ عسکری حلقے، بیوروکریٹ، صنعت کار اور سماجی لیڈر بھی ذاتی مفاد پر قومی مفاد قربان کرنے کے مرتکب ہیں۔ پانامہ گیٹ نے غیر قانونی طور پر ملک سے سرمائے کی منتقلی اور ٹیکس چوری کے راز عیاں کیے اور اس جرم میں تمام ہی پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہیں۔ جرنیل برسراقتدار آکر تطہیر کا بیڑا اٹھاتے ہیں لیکن اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے جب وہ سیاسی سمجھوتے کرتے ہیں تو اپنے پیشرو سیاست دانوں سے بھی بدتر ثابت ہوتے ہیں۔
ریٹائرڈ ہونے والے کئی جرنیل اور افسران، ادارے کی جانب سے متعدد بار مراعات میں اضافے کے باوجود، کیا اپنی طرز زندگی اور معلوم ذرایع آمدن میں مطابقت ثابت کرسکتے ہیں؟ افواج کو عہدہ و منصب کی تمیز کیے بغیر خود احتسابی کا عمل تیزی سے شروع کرنا چاہیے۔ جو مجرم قانون کے شکنجے میں آئے بھی وہ ہتھیائی گئی قومی دولت کا کچھ فیصد پلی بارگین جیسے قانون کا فائدہ اٹھاتے ہوئے واپس کرکے دوبارہ عہدوں پر براجمان ہوگئے، اور پھر سے کرپشن میں مصروف ہیں۔ مجرموں کو، قانون میں یہ ترمیم کرکے، راہِ فرار فراہم کرنے کا سہرا بھی میاں نوازشریف کی حکومت کے سر ہے۔
قائد اعظم محمد علی جناح نے 11اگست 1947ء کو مجلس دستور ساز سے اپنے خطاب میں فرمایا تھا ''اگر ہم پاکستان کی عظیم ریاست کو مستحکم اور خوش حال دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں پوری توجہ عوام اور بالخصوص غریب طبقے کی فلاح پر مرکوز کرنا ہوگی۔'' ہمارے حکمراں اپنی بقا کے لیے مذہب اور نظریے کو استعمال کرنے سے دریغ نہیں کرتے۔ اسلام کا نظام انصاف، قانون کی نظر میں برابری کی بنیاد پر کھڑا ہے اور پاکستان میں یہ تصور سرے سے موجود ہی نہیں۔
پانامہ گیٹ کے مقدمے نے عدالت کو ایک عجب صورت حال سے دوچار کردیا ہے۔ عوام کی نظر میں، وہ ملزم نہیں جن کے خلاف مقدمہ چلایا جارہا ہے بلکہ جنھیں فیصلہ دینا ہے ان کی ساکھ داؤ پر لگی ہے۔ ورلڈ بینک کے معتبر قانونی مشیر کے مطابق ''سرکاری عہدیدار کو حاصل استثنیٰ ذاتی نہیں بلکہ صرف اس کے سرکاری کاموں کے لیے ہوتا ہے۔ جرائم یا غیر قانونی کام استثنیٰ کے دائرے میں نہیں آتے، چاہے وہ عہدے پر فائز ہونے سے پہلے یا بعد میں انجام دیے گئے ہوں۔''
قابل احترام ججوں کو دل گہرائیوں سے اپنی ذمے داری کا احساس ہے(ہم جسٹس عظمت سعید کی صحت یابی کے لیے دعا گو ہیں)۔ ٹھوس حقائق سے بے اعتنائی کے ساتھ قانونی اصولوں کا، کڑے انداز میں، ظاہری اطلاق قومی مستقبل کو متاثر کرسکتا ہے۔ جانبین کے وکلا کو یہ ثابت کرنا ہے کہ بیرون ملک منتقل کی گئی اربوں کی رقم (جسے قطر سے آنے والے بیان میں بھی تسلیم کیا گیا ہے) پر ٹیکس ادا کیا گیا یا نہیں؟
بادی النظر میں شواہد کی موجودگی کے باوجود، حکمران خاندان کی کارستانیوں کو اگر نظر انداز کیا گیا تو مستقبل میں آنے والے لیڈروں کے حوصلے بھی بڑھیں گے، ماضی میں جس کا بھرپور مظاہر زرداری صاحب کرچکے۔ بد عنوان عناصر کی حوصلہ شکنی نہ کی گئی تو یہ ٹولہ قوم کی اخلاقی و قانوی اقدار اور بنیادیں تباہ کر دے گا۔ قوم کے درماندہ و افلاس کے شکار عوام کی جانب سے عدالت عظمیٰ پر یہ اخلاقی فرض عاید ہوتا ہے کہ وہ یقینی بنائے، ان کے حکمراں بھی اپنے مناصب کے قانونی و اخلاقی تقاضے پورے کرتے ہیں اور اس کے لیے انھیں اپنی اہلیت ثابت کرنا ہو گی۔
نو گیارہ کے بعد قومی، نسلی،گروہی اور مذہبی شناخت مباحث کا مرکزی سوال بن گئی۔ دہشتگردی پہلے ہی مرض کی صورت اختیار کرچکی تھی جس نے مسلم سماج کی دراڑوں کو مزید گہرا کردیا۔کچھ ممالک نے اسی سیاق و سباق میں ''حریت پسندوں'' پر بھی دہشتگردی کا لیبل چسپاں کردیا۔ حبس زدہ ماحول میں، شکست خوردگی اور مایوسی، ردّعمل کے لاوے میں بدل گئی اور ''عرب بہار'' کی صورت میں آتش فشاں پھٹ پڑا۔کئی عرب ممالک انتشار کی لپیٹ میں آئے، اوسط درجے کی قیادت جو وراثت میں ملی حکمرانی کے مزے لوٹ رہی تھی، حالات کو قابو کیا کرتی اپنی حماقتوں سے، اس نے تباہی میں کئی گنا اضافہ کردیا۔
القائدہ کے فکری گہوارے سے اور بھی وحشت ناک صورت میں داعش(آئی ایس) نے جنم لیا۔ کسی بھی ہوش مند، عدل کے اصولوں پر کاربند سیاسی سماج میں، قیادت کا یہ اولین فریضہ ہوتا ہے کہ وہ اخلاق کی پاسداری کے لیے خود کو مثال بنائے۔ اپنے ہم وطنوں کو احساس تحفظ فراہم کرنے کے لیے یہ اصول اتنا اہم ہے کہ اس پر کسی بھی ذاتی یا خاندانی تعلق، عزیر رشتوں اور مال و متاع کو قربان کیا جاسکتا ہے۔
جن معاشروں میں ذاتی مفاد کو اولین ترجیح حاصل ہو وہاں فکر کا ہر دائرہ ''ذات'' کے گرد ہی گھومتا ہے۔ اس میں جمہوریت کا کوئی دوش نہیں۔ یہاں پارٹیاں، چاہے سیکیولرازم کی پرچارک ہوں یا مذہب کی علم بردار، بدعنوان اور نااہل لیڈر ان کی صفوں میںموجود ہیں۔ ہماری اشرافیہ، جس میں افواج اور بیوروکریسی بھی شامل ہے، صرف اپنی مفادات کے لیے فکرمند رہتے ہیں۔ مقامی حکومتوں کا بااختیار نہ بنانا خالص جاگیردارانہ سوچ کی عکاسی ہے۔
نااہلی اور بد دیانتی کے اسی گٹھ جوڑ نے ریاست کو شہریوں کی داد رسی کے قابل ہی نہیں چھوڑا۔ سیاسی معاشیات کے پروفیسر البیرٹو ایم پیڈرا نے اس پوری صورت حال کو جامع انداز میں بیان کیا ہے''جب اقتدار ''جمہوری'' طور پر منتخب ہونے والی بددیانت قیادت کے ہاتھ میں آجائے تو اس سے جنم لینے والے مرض کی پہلی علامت یہ ہے کہ ریاست کے بنیادی ادارے صرف اہل اقتدار کی فرماں برداری ہی میں مصروف رہتے ہیں۔'' حتی کے باوردی افراد بھی ''قانونی'' اور ''غیر قانونی'' احکامات کی تمیز نہیں کرپاتے۔
قیادت اسی کو زیب دیتی ہے جو قوم اور سماج کی فلاح کی خاطر اپنے ذاتی مفادات قربان کرنے کے لیے تیار ہو۔ ہمارے سیاست داں(چند ایک اچھی مثالوں کو چھوڑ کر) اقتدار میں رہنے کے لیے فریب دہی اور کذب بیانی سمیت ہر راستہ اپنانے کو تیار ہیں اور ایک بڑی تعداد مجرمانہ ماضی رکھتی ہے۔ ارکانِ پارلیمنٹ کو قانونی سازی سے کوئی دل چسپی نہیں، ان کی توجہ ایسی ترامیم کی جانب رہتی ہے جس میں ان کا مفاد ہو، جیسے مراعات اور تنخواہوں میں اضافے جیسے امور۔
فوج کی بروقت اور بے باک کارروائی سے کرپشن کا خاتمہ ممکن تھا لیکن فوجی عدالتوں کو لپیٹ دیا گیا۔ مشرف کے این آر او نے بدعنوانی کو ''ادارہ'' بنا دیا، کرپٹ منتخب نمایندوں کو چھوٹ ملی، جب انھیں اقتدار ملا تو قومی خزانے کو لوٹا اور کرپشن کے خاتمے کے لیے صرف زبانی جمع خرچ سے کام لیا۔ بے لگام کرپشن زرداری کے پانچ سالہ دور میں اپنے عروج کو پہنچ گئی۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق اس عرصے میں کثیر قومی دولت کرپشن کی نذر ہوئی۔ قومی سطح کی کسی بھی(اخلاقی، شہری یا قانونی) ذمے داری کا عملاً کوئی تصور باقی نہیں رہا اور جواب دہی یا احتساب کا تو سوال ہی کیا۔کرپشن، منظم جرائم اور دہشتگردی کے واضح گٹھ جوڑ کے باوجود کسی فرد یا گروہ کے خلاف براہ راست کارروائی کرنے سے غفلت برتی گئی۔
اقربا پروری اور بدعنوانی صرف سیاست دانوں تک محدود نہیں، اعلیٰ عسکری حلقے، بیوروکریٹ، صنعت کار اور سماجی لیڈر بھی ذاتی مفاد پر قومی مفاد قربان کرنے کے مرتکب ہیں۔ پانامہ گیٹ نے غیر قانونی طور پر ملک سے سرمائے کی منتقلی اور ٹیکس چوری کے راز عیاں کیے اور اس جرم میں تمام ہی پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہیں۔ جرنیل برسراقتدار آکر تطہیر کا بیڑا اٹھاتے ہیں لیکن اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے جب وہ سیاسی سمجھوتے کرتے ہیں تو اپنے پیشرو سیاست دانوں سے بھی بدتر ثابت ہوتے ہیں۔
ریٹائرڈ ہونے والے کئی جرنیل اور افسران، ادارے کی جانب سے متعدد بار مراعات میں اضافے کے باوجود، کیا اپنی طرز زندگی اور معلوم ذرایع آمدن میں مطابقت ثابت کرسکتے ہیں؟ افواج کو عہدہ و منصب کی تمیز کیے بغیر خود احتسابی کا عمل تیزی سے شروع کرنا چاہیے۔ جو مجرم قانون کے شکنجے میں آئے بھی وہ ہتھیائی گئی قومی دولت کا کچھ فیصد پلی بارگین جیسے قانون کا فائدہ اٹھاتے ہوئے واپس کرکے دوبارہ عہدوں پر براجمان ہوگئے، اور پھر سے کرپشن میں مصروف ہیں۔ مجرموں کو، قانون میں یہ ترمیم کرکے، راہِ فرار فراہم کرنے کا سہرا بھی میاں نوازشریف کی حکومت کے سر ہے۔
قائد اعظم محمد علی جناح نے 11اگست 1947ء کو مجلس دستور ساز سے اپنے خطاب میں فرمایا تھا ''اگر ہم پاکستان کی عظیم ریاست کو مستحکم اور خوش حال دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں پوری توجہ عوام اور بالخصوص غریب طبقے کی فلاح پر مرکوز کرنا ہوگی۔'' ہمارے حکمراں اپنی بقا کے لیے مذہب اور نظریے کو استعمال کرنے سے دریغ نہیں کرتے۔ اسلام کا نظام انصاف، قانون کی نظر میں برابری کی بنیاد پر کھڑا ہے اور پاکستان میں یہ تصور سرے سے موجود ہی نہیں۔
پانامہ گیٹ کے مقدمے نے عدالت کو ایک عجب صورت حال سے دوچار کردیا ہے۔ عوام کی نظر میں، وہ ملزم نہیں جن کے خلاف مقدمہ چلایا جارہا ہے بلکہ جنھیں فیصلہ دینا ہے ان کی ساکھ داؤ پر لگی ہے۔ ورلڈ بینک کے معتبر قانونی مشیر کے مطابق ''سرکاری عہدیدار کو حاصل استثنیٰ ذاتی نہیں بلکہ صرف اس کے سرکاری کاموں کے لیے ہوتا ہے۔ جرائم یا غیر قانونی کام استثنیٰ کے دائرے میں نہیں آتے، چاہے وہ عہدے پر فائز ہونے سے پہلے یا بعد میں انجام دیے گئے ہوں۔''
قابل احترام ججوں کو دل گہرائیوں سے اپنی ذمے داری کا احساس ہے(ہم جسٹس عظمت سعید کی صحت یابی کے لیے دعا گو ہیں)۔ ٹھوس حقائق سے بے اعتنائی کے ساتھ قانونی اصولوں کا، کڑے انداز میں، ظاہری اطلاق قومی مستقبل کو متاثر کرسکتا ہے۔ جانبین کے وکلا کو یہ ثابت کرنا ہے کہ بیرون ملک منتقل کی گئی اربوں کی رقم (جسے قطر سے آنے والے بیان میں بھی تسلیم کیا گیا ہے) پر ٹیکس ادا کیا گیا یا نہیں؟
بادی النظر میں شواہد کی موجودگی کے باوجود، حکمران خاندان کی کارستانیوں کو اگر نظر انداز کیا گیا تو مستقبل میں آنے والے لیڈروں کے حوصلے بھی بڑھیں گے، ماضی میں جس کا بھرپور مظاہر زرداری صاحب کرچکے۔ بد عنوان عناصر کی حوصلہ شکنی نہ کی گئی تو یہ ٹولہ قوم کی اخلاقی و قانوی اقدار اور بنیادیں تباہ کر دے گا۔ قوم کے درماندہ و افلاس کے شکار عوام کی جانب سے عدالت عظمیٰ پر یہ اخلاقی فرض عاید ہوتا ہے کہ وہ یقینی بنائے، ان کے حکمراں بھی اپنے مناصب کے قانونی و اخلاقی تقاضے پورے کرتے ہیں اور اس کے لیے انھیں اپنی اہلیت ثابت کرنا ہو گی۔