لمحے کی غلطی‘ صدیوں کی سزا
لمحاتی ابال میں چند خود ساختہ انقلابیوں کی گھن گرج ہمیں صدیوں تک پھیلی سزا کا حقدار بنا دے گی۔
وہ شعر واقعی بہت شاندار ہے جو مختصر الفاظ میں سمجھانے کی کوشش کرتا ہے کہ لمحاتی اُبال میں کی جانے والی چند خطائیں صدیوں لمبی سزائوں کا سبب بن جاتی ہیں۔ ہمارا ملک بھی اس وقت لمحاتی ابال کی کیفیت میں مبتلا ہے۔ پاکستان چھوڑ کر ملکہ برطانیہ سے وفاداری کا حلف اٹھانے کے بعد ہمارے ایک ٹوپی والے قادری کینیڈا کے شہری بن گئے تھے۔
اپنے نئے ملک میں پانچ سال تک وہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے مارکیٹنگ والے تمام ہتھیار استعمال کرتے ہوئے مغربی دنیا کے فیصلہ ساز اداروں کے سامنے خود کو ایک روشن خیال علامہ کے طور پر پیش کرتے رہے۔ یورپ اور شمالی امریکا میں مقیم پاکستانیوں کے لیے انھوں نے صوفیوں والا روپ دھارا اور بے پناہ چندہ اکٹھا کرتے ہوئے بڑی خاموشی مگر یکسوئی کے ساتھ پاکستان میں اپنی تنظیم بناتے اور پھیلاتے رہے۔ بالآخر23 دسمبر2012ء آ گیا۔ موصوف مینار پاکستان پر نموردار ہوئے اور ایک انقلابی تحریک کا اعلان کر دیا۔
پاکستانی سیاست کو گزشتہ 30 برس سے 24/7 کی بنیادوں پر دیکھتے ہوئے میں بڑے یقین کے ساتھ یہ دعویٰ کر سکتا ہوں کہ و ہ خلقِ خدا کی بہتری کے لیے کوئی انقلاب نہ لا پائیں گے۔ ان کی تحریک اور اس کے ذریعے 14جنوری 2013ء کو اسلام آباد میں رچایا جانے والا دھرنا ہمیں ایک ایسی صورت حال میں ضرور دھکیل سکتا ہے جہاں ''میرے عزیز ہم وطنو'' کہنے کے سوا کوئی راستہ ہی باقی نہ رہے۔
مجھے خوب علم ہے کہ ہمارے ہاں غیر ملکی یونیورسٹیوں سے پڑھے ایسے ''ماہرین'' کی بہت بڑی تعداد موجود ہے جو بڑی شدت کے ساتھ یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ پاکستان کم از کم دو سال کے لیے ''اہل، ایماندار اور محب الوطن ٹیکنوکریٹس'' کی حکومت قائم کرنے کے بعد ہی ترقی اور خوشحالی کے راستے پر رواں ہو سکتا ہے۔ ایسی حکومت نظر بظاہر غیر آئینی ہو گی۔
مگر فوج کی چھتری تلے بنی تو کوئی خاص مسئلہ نہیں ہو گا۔ گزشتہ پانچ برسوں سے ہمہ وقت مستعد اور بے باک میڈیا اور عدلیہ نے بہرحال ہمارے سوچنے سمجھنے والے شہریوں کی اکثریت کو ''چوروں، لٹیروں اور جعلی ڈگریوں والے'' سیاستدانوں سے بیزار کر دیا ہے۔ وہ آئین اور جمہوریت وغیرہ سے چڑ گئے ہیں۔ عوام کی موجودہ نظام سے لاتعلقی کے باوجود ٹیکنوکریٹس والی غیر آئینی حکومت اس وقت تک کچھ نہ کر پائے گی جب تک ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف وغیرہ اس کی پشت پناہی کو تیار نہ ہوں۔ واشنگٹن کی سرگرم حمایت کے بغیر یہ پشت پناہی میسر نہ ہو گی۔
ٹیکنوکریٹس حکومت کا چورن بیچنے والے بڑی سنجیدگی سے یہ سوچ رہے ہیں کہ امریکا اس حکومت کے سر پر دست شفقت رکھنے پر مجبور ہو گا۔ وہ 2014ء میں افغانستان سے ا پنی افواج کو واپس بلانا چاہتا ہے۔ اس کے فوجیوں اور جنگی سامان کی خیر خیریت سے واپسی اس وقت تک ممکن نہ ہو گی جب تک پاکستان کی عسکری قیادت انخلاء کے اس عمل میں پوری طرح ساتھ دینے پر آمادہ نہ ہو۔
نظر بظاہر ان کی یہ سوچ درست نظر آتی ہے۔ جنرل ایوب سے لے کر جنرل مشرف نے جو کچھ چاہا اسی لیے ممکن ہو سکا کہ ان کا ادارہ امریکا کی Strategic ضرورت بن گیا تھا۔ ستمبر 2005ء کے بعد سے لیکن حالات بد ل گئے ہیں۔ امریکی فیصلہ سازوں کی اکثریت اب ہمارے عسکری اداروں پر اعتماد نہیں کرتی۔ اپنی انتخابی مہم کے دوران ٹیلی وژن پر دکھائے ایک مباحثے کے دوران صدر اوبامہ تو برملا کہہ بیٹھے کہ اگر وہ اسامہ کو مارنے کے لیے کیے جانے والے آپریشن سے پہلے پاکستان کو اعتماد میں لیتے تو شاید ایبٹ آباد میں پانچ برس سے مقیم ان کا شکار کہیں دائیں بائیں ہو جاتا۔
ان کی جانب سے بداعتمادی کے اس واشگاف اظہار سے پہلے نومبر2011ء میں سلالہ بھی تو ہوا تھا۔ ہم نے اس واقعے کے خلاف احتجاجاََ سات ماہ تک پاکستانی راستوں سے افغانستان میں مقیم امریکی اور نیٹو افواج کی رسد روکے رکھی۔ امریکنوں نے اس رسد کو بحال کرانے کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہ کی۔ بالآخر خود اپنی معاشی مصیبتوں کی وجہ سے پاکستان ہی اس بات پر مجبور ہوا کہ ایک کمزور سی معذرت قبول کرنے کے بعد وہ رسد بحال کردے اور Coalition Support Fund کے رکے 800 ملین ڈالر وصول کر لے جو یقیناً ہمارے دیے گئے بل سے تقریباََ ایک چوتھائی کم تھے۔
ہماری حکومت یہ منصوبہ بنائے بیٹھی تھی کہ اگر ایک ارب ڈالر سے زیادہ رقم مل جائے تو وہ اس کے ذریعے بجلی پیدا کرنے والوں کے بقایا جات ادا کرتے ہوئے لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے بعد نئے ا نتخابات کا اعلان کر دے گی۔ اس کا یہ منصوبہ بری طرح ناکام ہو گیا ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ کینیڈا سے آئے قادری کے دھرنے کے نتیجے میں ٹیکنوکریٹس کی حکومت بنی تو امریکا اس کے مدد کرنے کے لیے کڑی شرائط عائد کرے گا۔ غیر آئینی حکومت انھیں پورا کرنے کو تیار ہو گئی تو ہمارے ہاں مزید دھماکے اور خودکش حملے ہوں گے۔ ''آزاد میڈیا'' پر کڑی پابندیاں لگا کر کچھ عرصے کے لیے ''بری خبروں'' کو ٹی وی اسکرینوں پر نظر آنے سے یقیناً روکا جا سکتا ہے۔ مگر انٹرنیٹ، فیس بک اور ٹویٹر کے اس دور میں ایسی پابندیاں موثر نہ ثابت ہو پائیں گی۔
شام سات بجے سے رات بارہ بجے تک سیاپا فروش اینکروں کی اکثریت ایک حوالے سے لوگوں کے غم و غصے کو Cathartic عمل سے گزار کر کافی حد تک کم کر دیتی ہے۔ ان کی اسکرینوں سے عدم موجودگی اس غصے کے اظہار کے خطرناک راستے بھی بنا سکتی ہے جسے ہمار ے دشمن اپنے مقاصد کے حصول کے لیے ہر صورت میں استعمال کریں گے۔ شمالی وزیرستان اور بلوچستان کے موجودہ حالات ایسے راستوں کی واضح نشان دہی کر رہے ہیں۔ ان حالات میں لوگوں کو اپنے جذبات کے بھر پور اظہار کے لیے نئے انتخابات کرانا ایک بڑا ہی مناسب طریقہ ہو سکتا ہے۔
کینیڈا سے آئے قادری دراصل میرے ملک اور اس کے عوام کو اس موقعہ سے محروم رکھنا چاہتے ہیں۔ مگر ان کا راستہ صحیح معنوں میں صرف دو سیاسی جماعتیں۔ پاکستان مسلم لیگ نواز اور تحریک انصاف۔ روک سکتی ہیں اور وہ دونوں ان دنوں ذہنی اعتبار سے پسماندہ اور عملی طور پر مفلوج نظر آ رہی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ موجودہ حالات اس بات کا شدت سے تقاضا کر رہے ہیں کہ میاں محمد نواز شریف اور عمران خان کے درمیان ایک ملاقات ہو۔ ان دونوں کو ایک دوسرے کے ساتھ دوستی کا ڈھونگ رچانے کی کوئی ضرورت نہیں۔
اتفاق رائے صرف اس بات پر ہو کہ نئے انتخابات کن دنوں میں کرائے جائیں اور کونسا وزیر اعظم اور اس کی بنائی حکومت ان انتخابات کی نگرانی کرے۔ ان دونوں میں اتفاق ہو گیا تو موجودہ حکومت ان کی شرائط کو تھوڑی بہت تبدیلیوں کے بعد منظور کرنے پر مجبور ہو گی۔ نواز شریف اور عمران خان نے پیش قدمی نہ کی تو اصل نقصان آصف علی زرداری یا ان کی جماعت کا نہیں پورے ملک کا ہو گا۔ لمحاتی ابال میں چند خود ساختہ انقلابیوں کی گھن گرج ہمیں صدیوں تک پھیلی سزا کا حقدار بنا دے گی۔