دستک
مائیکل جیکسن بھی بحرین کے محلات میں آخری دنوں میں مقیم رہے۔
فلمیں بھی ہماری زندگی کی عکاس ہوتی ہے، جو کچھ ہمارے اردگرد ہورہا ہوتا ہے وہ فلموں میں بھی شامل کیا جاتا ہے اور ان تلخ حقیقتوں سے فلم کا ہیرو، ہیرو بن جاتا ہے۔ ایک فلم میں سلطان راہی آدھی رات کو عدالت کی دیوار پھلانگتے ہوئے پکڑا گیا، پکڑنے پر بتایا کہ ''انصاف لینے آیا ہوں'' جواب اس کو ملتا ہے کہ ''عدالت تو دن کے وقت لگتی ہے'' اسیر سلطان راہی جواب دیتے ہیں ''جج صاحب بہادر، ظلم24 گھنٹے تے انصاف صرف دن میں 8 گھنٹے، تے نالے ہفتہ اتوار انصاف دی دکان بند۔ جواب میں سلطان راہی کو توہین عدالت کے جرم میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جاتا ہے اور آج تک انصاف جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند۔
آج کل بھی یہی کچھ ہورہا ہے، کیسز چل رہے ہیں۔ ثبوت لاؤ، کیس چکاؤ، میڈیا ٹاک، الزامات، ثبوت اور پتا نہیں کیا کیا، کہیں کوئی توہین عدالت نہ ہوجائے، خیال رہے! فلم کا ہیرو نہایت مضبوط، ہر فن مولا، حسن میں یکتا، ایک نظر ڈالے تو فتح کرلیں، خواب میں خواتین کو آکر تنگ کریں، ایک ہاتھ گھمائے تو 50 کو گرائے، اب ہم فلم کے ہیرو اور ہیروئن سے بے انتہا متاثر، ایک اینکر صاحب کا بننا کبھی شاہ رخ خان، کبھی سلمان خان، چہرے کے تاثرات، لہجے کی جذباتیت، الفاظوں کا چناؤ، واﷲکبھی بھاگ بھاگ کر انعامات کی بوچھاڑ، کبھی خواتین Celebrity کے ساتھ شاندار فلرٹ، کبھی رمضان میں ہلا گلا اور کبھی توہین رسولؐ پر آہ و زاری، آنکھوں میں آنسو، چہرہ شدت غم سے نڈھال، کبھی سیاسی بیانات، کبھی حب الوطنی کی تقاریر، پورا مکمل پیکیج، کم ہی ہیں ایسے زبردست ہیرو جو مکمل پروڈیوسر کو فائدہ ہی فائدہ دیتے ہیں۔ نام ہی کافی ہے۔
اتنے شدید اثرات فلموں کے مرتب ہوتے ہیں کہ نرگس جیسی شاندار ماڈرن جب مدر انڈیا کرتی ہے تو چاروں طرف سے واہ واہ اور ایوارڈز کی بوچھاڑ ہوتی ہے نواب پٹودی، شرمیلا ٹیگور کو بیاہ کر لاتے ہیں اور بھی کئی لازوال محبت کی داستانیں ہمارے ارد گرد ہالی ووڈ کے 007 سے لے کر مینا کماری تک، ٹام کروز سے لے کر انجلینا جولی تک، یہ کامیاب اداکار ہماری زندگیوں میں چھا جاتے ہیں۔
مائیکل جیکسن نے Thriller گاکر نیا فیشن بھی متعارف کروایا، سفید موزے اونچی پینٹ، مون واک ڈانس ایک ہنگامہ برپا کردیا، 80's کو شاہکار بنادیا۔ جارج مائیکل نے Careless Whisper گاکر سب کو ہلادیا۔ میڈونا نے Like a virgin کریسٹ کرکے ہنگامہ برپا کردیا اور آج تک ہم اس سحر سے باہر نہ آسکے۔
محبتوں کے انداز بدل دیے ان ہنگامی لوگوں نے، فیشن کے انداز بدل دیے، ہسٹری بنادی اور ابھی تک کوئی ان کو چیلنج نہ کرسکا، ہم نے بھی بہت کچھ سیکھ لیا، فیشن کرنا، محبت کرنا، فلرٹ کرنا، لبرل معاشرہ اچھا لگنے لگا ہم سب کو، سب سے ملنا اچھا لگنے لگا، گھر میں رہنے والی خاتون سے لے کر کام کرنے والی خاتون نے بھی اپنے اپنے طور پر اپنے اپنے مشاغل چن لیے، مشاغل چنے گئے مقاصد نہیں۔ لندن کی شہزادی ڈیانا اور چارلس کی شادی بھی ایک تاریخ کا حصہ ہے۔
شہزادی ڈیانا کی محل کی زندگی اور آخری لمحے تک تاریخ کا حصہ ہے، شادی کی خوشی بھی دنیا نے منائی اور آخری زندگی کا لمحہ بھی شہزادی ڈیانا کا دنیا کے 2 ارب لوگوں نے دیکھا۔ ہر کوئی غم سے نڈھال، حالانکہ ان کی موت ایک مسلمان مرد کے ساتھ واقع ہوئی۔ اور کہا جارہاتھا کہ وہ اس مسلمان مرد سے شادی کرنا چاہتی تھی، اعلان کرنے والی تھی اور ایک ایکسیڈنٹ، سب ختم مگر تاریخ لکھی گئی اور زندہ رہے گی۔
مائیکل جیکسن بھی بحرین کے محلات میں آخری دنوں میں مقیم رہے، نعت بھی پڑھی، حیرت انگیز بات ہم ان کے انداز اور آزادی کے متوالے اور دلدادہ اور یہ ہمارے دین کے پیروکار بن جائے، ہمارا اپنا سب کچھ ہے مگر اپنانے کو تیار نہیں، یہ ہمارے اپنے کو اپناتے ہیں اور تاریخ رقم کرتے ہیں۔
بے شک ﷲ جس کو چاہے اس کو عزت دے، اﷲ عالیشان ہر مخلوق کا رب ہے، وہ ہر انسان کا اﷲ ہے، وہ سب کے دلوں میں بستا ہے اور ایک ایک دھڑکن کو جانتا ہے، دلوں کی کالک نور کی چمک سے منور کردیتا ہے اور کبھی چمکتے ہوئے دلوں کو سیاہی کی طرف موڑ دیتا ہے۔ دنیا کی رنگینیاں غلاظت، گناہوں کو زندگی کا حصہ بنادیتا ہے اور حکم کرتا ہے کہ مجھ سے ہی ہدایت مانگو، میں صرف میں ہی تمہارے لیے کافی ہوں، میں ہی ہوں جو تم پر رحم و کرم کرسکتا ہوں۔
اس آواز کے باوجود آنکھیں بند، کان بند، عقل پر گمراہی کے پہرے، لالچ سے بھرے ہوئے مکروہ دماغ۔
نہ ہم تاریخ سے سیکھنا چاہتے ہیں نہ حال کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور مستقبل تو صرف اﷲ ہی جانتاہے۔
بس جی، چاروں طرف سے دھکیلے جاؤں لوگوں کو، جذبات میں، گمراہی میں، اپنی ڈیڑھ انچ کی مسجدوں میں، اپنی اپنی سوچوں اور نظریات میں۔
خلفائے راشدین سے زیادہ ذہین ہیں کیا یہ لوگ، وہ تو اس لیے امر ہیں کہ صرف اﷲ کے بتائے گئے راستے اور اصولوں پر چلتے تھے، تم اور ہم کس کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے ہیں؟ پیسہ سب کچھ خرید رہا ہے، خریدتا رہا ہے، سوچ، نظریات، ایمان، مذہب، معاشرہ اور نہ جانے کیا کیا، کیوںکہ ہم نے جگہ خالی کردی ہے، ہم اپنی جگہ کو بھرنے کو تیار نہیں، ہم اپنے اصول بنانا چاہتے ہیں، ہم صرف اپنی بات کرنا چاہتے ہیں، جب کہ اﷲ کہتا ہے کہ حقوق العباد ضروری ہے، اس کا حساب ہوگا، معاف نہیں کیے جائیںگے خود بھوکے رہو دوسروں کو کھلادو۔
نبیوں نے شمعیں بجھا کر اپناکھانا مہمانوں کی نذر کیا، اﷲ نے ان کو امر کردیا، روشن راہوں کی مثالیں بنادیا گیا، حضرت عمرؓ کا انصاف، حضرت علیؓ کی بہادری، حضرت عائشہ ؓ کا علم، حضرت فاطمہؓ کا صبر اور رسول پاکؐ کی حیات طیبہ، حضرت عثمانؓ کی دولت، حضرت خدیجہؓ کا کاروبار، سب کچھ اﷲ نے دیا اور اﷲ ہی کی رضا کے لیے صرف ہوا۔ قیامت تک کے لیے روشن ہستیاں، روشن مثالیں، ہاں صرف اﷲ اوراس کا رسولؐ، اس کی محبت، انصاف، قانون باقی سب میلہ اور کھیل تماشا۔
آج کل بھی یہی کچھ ہورہا ہے، کیسز چل رہے ہیں۔ ثبوت لاؤ، کیس چکاؤ، میڈیا ٹاک، الزامات، ثبوت اور پتا نہیں کیا کیا، کہیں کوئی توہین عدالت نہ ہوجائے، خیال رہے! فلم کا ہیرو نہایت مضبوط، ہر فن مولا، حسن میں یکتا، ایک نظر ڈالے تو فتح کرلیں، خواب میں خواتین کو آکر تنگ کریں، ایک ہاتھ گھمائے تو 50 کو گرائے، اب ہم فلم کے ہیرو اور ہیروئن سے بے انتہا متاثر، ایک اینکر صاحب کا بننا کبھی شاہ رخ خان، کبھی سلمان خان، چہرے کے تاثرات، لہجے کی جذباتیت، الفاظوں کا چناؤ، واﷲکبھی بھاگ بھاگ کر انعامات کی بوچھاڑ، کبھی خواتین Celebrity کے ساتھ شاندار فلرٹ، کبھی رمضان میں ہلا گلا اور کبھی توہین رسولؐ پر آہ و زاری، آنکھوں میں آنسو، چہرہ شدت غم سے نڈھال، کبھی سیاسی بیانات، کبھی حب الوطنی کی تقاریر، پورا مکمل پیکیج، کم ہی ہیں ایسے زبردست ہیرو جو مکمل پروڈیوسر کو فائدہ ہی فائدہ دیتے ہیں۔ نام ہی کافی ہے۔
اتنے شدید اثرات فلموں کے مرتب ہوتے ہیں کہ نرگس جیسی شاندار ماڈرن جب مدر انڈیا کرتی ہے تو چاروں طرف سے واہ واہ اور ایوارڈز کی بوچھاڑ ہوتی ہے نواب پٹودی، شرمیلا ٹیگور کو بیاہ کر لاتے ہیں اور بھی کئی لازوال محبت کی داستانیں ہمارے ارد گرد ہالی ووڈ کے 007 سے لے کر مینا کماری تک، ٹام کروز سے لے کر انجلینا جولی تک، یہ کامیاب اداکار ہماری زندگیوں میں چھا جاتے ہیں۔
مائیکل جیکسن نے Thriller گاکر نیا فیشن بھی متعارف کروایا، سفید موزے اونچی پینٹ، مون واک ڈانس ایک ہنگامہ برپا کردیا، 80's کو شاہکار بنادیا۔ جارج مائیکل نے Careless Whisper گاکر سب کو ہلادیا۔ میڈونا نے Like a virgin کریسٹ کرکے ہنگامہ برپا کردیا اور آج تک ہم اس سحر سے باہر نہ آسکے۔
محبتوں کے انداز بدل دیے ان ہنگامی لوگوں نے، فیشن کے انداز بدل دیے، ہسٹری بنادی اور ابھی تک کوئی ان کو چیلنج نہ کرسکا، ہم نے بھی بہت کچھ سیکھ لیا، فیشن کرنا، محبت کرنا، فلرٹ کرنا، لبرل معاشرہ اچھا لگنے لگا ہم سب کو، سب سے ملنا اچھا لگنے لگا، گھر میں رہنے والی خاتون سے لے کر کام کرنے والی خاتون نے بھی اپنے اپنے طور پر اپنے اپنے مشاغل چن لیے، مشاغل چنے گئے مقاصد نہیں۔ لندن کی شہزادی ڈیانا اور چارلس کی شادی بھی ایک تاریخ کا حصہ ہے۔
شہزادی ڈیانا کی محل کی زندگی اور آخری لمحے تک تاریخ کا حصہ ہے، شادی کی خوشی بھی دنیا نے منائی اور آخری زندگی کا لمحہ بھی شہزادی ڈیانا کا دنیا کے 2 ارب لوگوں نے دیکھا۔ ہر کوئی غم سے نڈھال، حالانکہ ان کی موت ایک مسلمان مرد کے ساتھ واقع ہوئی۔ اور کہا جارہاتھا کہ وہ اس مسلمان مرد سے شادی کرنا چاہتی تھی، اعلان کرنے والی تھی اور ایک ایکسیڈنٹ، سب ختم مگر تاریخ لکھی گئی اور زندہ رہے گی۔
مائیکل جیکسن بھی بحرین کے محلات میں آخری دنوں میں مقیم رہے، نعت بھی پڑھی، حیرت انگیز بات ہم ان کے انداز اور آزادی کے متوالے اور دلدادہ اور یہ ہمارے دین کے پیروکار بن جائے، ہمارا اپنا سب کچھ ہے مگر اپنانے کو تیار نہیں، یہ ہمارے اپنے کو اپناتے ہیں اور تاریخ رقم کرتے ہیں۔
بے شک ﷲ جس کو چاہے اس کو عزت دے، اﷲ عالیشان ہر مخلوق کا رب ہے، وہ ہر انسان کا اﷲ ہے، وہ سب کے دلوں میں بستا ہے اور ایک ایک دھڑکن کو جانتا ہے، دلوں کی کالک نور کی چمک سے منور کردیتا ہے اور کبھی چمکتے ہوئے دلوں کو سیاہی کی طرف موڑ دیتا ہے۔ دنیا کی رنگینیاں غلاظت، گناہوں کو زندگی کا حصہ بنادیتا ہے اور حکم کرتا ہے کہ مجھ سے ہی ہدایت مانگو، میں صرف میں ہی تمہارے لیے کافی ہوں، میں ہی ہوں جو تم پر رحم و کرم کرسکتا ہوں۔
اس آواز کے باوجود آنکھیں بند، کان بند، عقل پر گمراہی کے پہرے، لالچ سے بھرے ہوئے مکروہ دماغ۔
نہ ہم تاریخ سے سیکھنا چاہتے ہیں نہ حال کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور مستقبل تو صرف اﷲ ہی جانتاہے۔
بس جی، چاروں طرف سے دھکیلے جاؤں لوگوں کو، جذبات میں، گمراہی میں، اپنی ڈیڑھ انچ کی مسجدوں میں، اپنی اپنی سوچوں اور نظریات میں۔
خلفائے راشدین سے زیادہ ذہین ہیں کیا یہ لوگ، وہ تو اس لیے امر ہیں کہ صرف اﷲ کے بتائے گئے راستے اور اصولوں پر چلتے تھے، تم اور ہم کس کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے ہیں؟ پیسہ سب کچھ خرید رہا ہے، خریدتا رہا ہے، سوچ، نظریات، ایمان، مذہب، معاشرہ اور نہ جانے کیا کیا، کیوںکہ ہم نے جگہ خالی کردی ہے، ہم اپنی جگہ کو بھرنے کو تیار نہیں، ہم اپنے اصول بنانا چاہتے ہیں، ہم صرف اپنی بات کرنا چاہتے ہیں، جب کہ اﷲ کہتا ہے کہ حقوق العباد ضروری ہے، اس کا حساب ہوگا، معاف نہیں کیے جائیںگے خود بھوکے رہو دوسروں کو کھلادو۔
نبیوں نے شمعیں بجھا کر اپناکھانا مہمانوں کی نذر کیا، اﷲ نے ان کو امر کردیا، روشن راہوں کی مثالیں بنادیا گیا، حضرت عمرؓ کا انصاف، حضرت علیؓ کی بہادری، حضرت عائشہ ؓ کا علم، حضرت فاطمہؓ کا صبر اور رسول پاکؐ کی حیات طیبہ، حضرت عثمانؓ کی دولت، حضرت خدیجہؓ کا کاروبار، سب کچھ اﷲ نے دیا اور اﷲ ہی کی رضا کے لیے صرف ہوا۔ قیامت تک کے لیے روشن ہستیاں، روشن مثالیں، ہاں صرف اﷲ اوراس کا رسولؐ، اس کی محبت، انصاف، قانون باقی سب میلہ اور کھیل تماشا۔