عوامی اسمبلی بمقابلہ قومی اسمبلی

اگر افلاس سے نہ مرا تو گولی سے مارا گیا، ورنہ اغواء برائے تاوان لے گیا، جمہوریت کے ثمرات!


Anis Baqar January 03, 2013
[email protected]

پاکستان کی سیاسی تاریخ کا جو حشر ہم دیکھ رہے ہیں یہ کسی فرد یا عوام یا کسی خاص جماعت کا دیا ہوا تحفہ نہیں بلکہ یہ حشر پاکستان کے سیاست دانوں، سیاسی مشینری، بیوروکریسی اور اسٹیبلشمنٹ کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ قیام پاکستان کے بعد ملک میں موجود ریاستوں کو معاہدوں کے باوجود یکسر ختم کیا گیا مثلاً ریاست خیرپور، ریاست بھاولپور، ریاست سوات اور ریاست قلات، مگر ملک میں موجود استحصالی قوتوں کی سرغنہ قوتوں کو ختم نہ کیا گیا جس کی بنیاد جاگیرداری سسٹم ہے حالانکہ ریاستوں کا وجود اتنا پیچیدہ نہ تھا جس قدر غیر انسانی یہ جاگیرداری سماج کی فرسودہ دیواریں عوام پر کھڑی ہیں۔

ذوالفقار علی بھٹو نے زرعی اصلاحات کے خدوخال وضع کیے تھے، مگر ان پر عملدرآمد نہ ہوسکا جب کہ بھارت کے اول وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے اپنے پہلے ہی دور میں یہ کر دکھایا اسی لیے بھارت آج سو ارب سے زیادہ لوگوں کو ہم سے سستا اناج مہیا کردیتا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد ٹریڈ اور انڈسٹری کی بنیاد رکھی گئی جدید خطوط پر ملک کو چلانے کی کوشش کی گئی مگر جلد ہی صورت حال ایسی ہوگئی کہ جن سیاست دانوں سے پاکستان کے وڈیرے ناخوش ہوئے انھیں ملک چھوڑنا پڑا، جن میں آزادی پاک وہند کے مشہور اور صاحب طرز شاعر حسرت موہانی اور سید سجاد ظہیر یہ دو اتنے اہم نام ہیں جو محض 2 افراد نہیں بلکہ نظریاتی رہنما بھی تھے۔ یہ وڈیرے اپنے وسائل اور رسوخ کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ میں گھس جاتے تھے۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جاگیرداروں کا یہ دائرہ وسیع تر ہوتا گیا اور پھر ایک ایسا وقت آیا کہ سید سجاد ظہیر کو واہگہ بارڈر سے بھارت واپس جانا پڑا، سید الاحرار حسرت موہانی کو پاکستان چھوڑنا پڑا، ان جاگیرداروں نے حب الوطنی اور ملک دشمن ہونے کی اپنی اصطلاحات وضع کر رکھی تھیں، پھر ون یونٹ کے سہارے بنگال کو زیر کرنے کی کوشش ایوب خان کے ذریعے کی اور اکثریت کو اقلیت نے نکال باہر کیا۔ یہ ہے ملک کے کلیدی پوزیشن پر بیٹھے ہوئے لوگوں کی کارستانی، مگر تاریخ کا مطالعہ موروثی سیاست کی ریشہ دوانیاں بالآخر بیورو کریسی بھی واقف ہوگئی اور اب ملک میں نئے صوبوں کی باتیں بھی کی جارہی ہیں، مگر یہ باتیں حقیقت نہیں بلکہ عوام کو فریب دینا مقصود ہے۔ تقسیم پاکستان کے بعد پاکستان کے عوام لیڈروں کی اصل غرض و غایت سے آگاہ ہوچکے ہیں۔

1968 میں دنیا میں انقلاب کی بازگشت سنائی دے رہی تھی۔ پاکستان بھی اسی بازگشت کی لپیٹ میں تھا اگر اس موقع پر کوئی بھی لیڈر عنان حکومت تھامتا تو وقت کے تقاضوں کو پورا کرتا لہٰذا 1970 کا انتخاب مغربی پاکستان میں روٹی، کپڑا، مکان پر اور مشرقی پاکستان میں معروضی حالات کی وجہ سے 6 نکات پر لڑا گیا، اور پھر دیگر معاملات تھے، مگر مغربی پاکستان کے ناپختہ سیاستدانوں کی وجہ سے پاکستان اپنے ایک بازو سے محروم ہوگیا اب صرف یہی ایک حصہ ہے ہمارے پاس۔

1970 میں مشرقی اور مغربی پاکستان کی کل آبادی تقریباً 12.5 کروڑ تھی۔ اب صرف مغربی پاکستان کی آبادی 18 کروڑ نفوس سے زیادہ ہے۔ مسائل بڑھے، آئل اور گیس کی تلاش نہ کی گئی بڑے بند یعنی ڈیم نہ بنائے گئے، پاکستان برسات کے موسم میں ہر سال ڈوبتا ہے اور یہ پانی عوام کو دکھ دیتا ہوا سمندر برد ہوتا ہے، سیل آب کا کوئی انتظام نہیں، بھوک افلاس کا بڑھنا جاری ہے، بجلی کے نرخ میں ہر سال کئی بار اضافہ کیونکہ خرچ زیادہ پیداوار کم اور ان سب سے بڑھ کر ایک اور مصیبت 2012 میں نازل کی گئی وہ ہے سی این جی کی گاڑیوں میں استعمال۔

ایک عام گھر جس میں 7 یا 8 افراد رہتے ہیں، کھانا پکانے کے لیے چند سو روپے کی گیس خرچ ہوتی ہے، مگر اب کراچی سے پشاور اور حیدر آباد یا شہر میں چلنے والی بسیں کئی ہزار روپے کی گیس خرچ کر رہی ہیں، پھر یہ بھرم کھلا کہ ان بے جا اخراجات نے انڈسٹری کا دیوالیہ نکال دیا ہے۔ سی این جی فیکٹری کے لیے تو نہیں ہے اور اگر صورت حال یہی رہی تو پھر گھروں پر کھانا پکانے کا انتظام درہم برہم ہونے والا ہے، آخر اس غیر فکری منصوبہ بندی کا ذمے دار کون ہے، ہماری انڈسٹری کے کاٹن ایکسپورٹ ویلیو ایڈڈ (Value Added) پروڈکٹس کے آرڈر پورے نہیں کیے جاسکتے، بڑے بڑے سی این جی اسٹیشنز کا افتتاح ہوا، سی این جی کٹس امپورٹ کی گئیں، محدود فائدے کے لیے بڑے فائدے پر خنجر چلایا گیا، ہوتے ہوتے جمہوریت کے 5 برس تو پورے ہوگئے ۔

مگر ہر شعبہ روبہ زوال ہوتا گیا اور قانون کی حکمرانی کا خواب تو دور رہ گیا۔ اپنے ہی ملک میں پیدا ہوئے پاکستانی جب برس ہا برس کے بعد اپنے ملک آتے ہیں تو ایئرپورٹ پر سے گھر آتے ہوئے لٹ جاتے ہیں، کتنے اغواء برائے تاوان کی نذر ہوجاتے ہیں، جمہوریت کی اس سوغات سے کون واقف نہیں، پانچ برسوں میں ایک ایسی مفاد پرست جمہوریت فورس پیدا ہوگئی ہے جو عوام کو خوب لوٹ رہی ہے اور اس کو ہر قسم کا عیش حاصل ہے، کرنسی، اقتصادیات روبہ زوال، معاشرتی اقدار روبہ زوال، جرائم روبہ کمال، اس کے باوجود وہ طبقہ جو جمہوریت کی بات کر رہا ہے کیا اس کو یہ معلوم نہیں کہ اس طریقے سے جمہوریت اگر رہ بھی گئی تو رہ گئی، مگر ریاست کیسے قائم رہے گی؟ ہر شخص بے یقینی کی کیفیت میں دن گزار رہا ہے، یہ ایک دو روز کی بات ہو تو عام آدمی طرح دے دے، مگر یہ تو گھر گھر کی کہانی ہے خصوصاً کراچی میں تو یہ ہر روز کا معاملہ ہے، لہٰذا لوگ جمہوریت کے اس ثمر سے تنگ آگئے ہیں، کرائے پر خریدے ہوئے لوگ جو جمہور کی آبرو اور حرمت سے ناواقف ہیں، ووٹ کی باتیں کرتے ہیں۔

ایسی بے معنی جمہوریت کی باتیں کرتے ہیں، پاکستان کی دو بڑی پارٹیاں عوام کے لیے کیا پروگرام رکھتی ہیں، عالمی پیمانے پر کیا ہورہا ہے؟ معاشی اور صنعتی پالیسی کیا ہوگی؟ بجلی، گھی اور انرجی کی قلت کا کیا حل ہے؟ انسان کی جان، مال، عزت آبرو کا کون ذمے دار ہے، حکمرانوں نے عوام پر درندے چھوڑ دیے ہیں جو عوام کو زندہ درگور کر رہے ہیں اور اب استدلال کے بجائے یہ سخنور اینکر حاکموں سے یہ سوال کیوں نہیں کرتے کہ انھیں جمہوریت کے لیے کس قدر خون درکار ہے؟کب بند ہوگی یہ خون ریزی؟ کیسے زندہ رکھو گے اس جنتا کو؟ تعلیم کی مد میں خرچ کب کروگے؟ اور کہاں سے۔

کیا کسی پارٹی حاکم سے انھوں نے یہ پوچھا کہ تم مزید کتنا مال کھاؤ گے؟ طاہر القادری کی آمد پر یہ پریشان ہورہے ہیں کہ یہ کیوں آئے ہیں، کس نے بھیجا ہے؟ میرے دوست کوئی بھی مغربی ملک سے ایسا نمایندہ پاکستان نہیں آئے گا جو اتحاد بین المسلمین کا حامی ہو، ان کو ایسا بندہ چاہیے جو عوام کو تقسیم کرسکے، فرقوں میں بانٹ سکے، شور ہے جمہوریت ڈی ریل ہوجائے گی، ارے! تمہاری پوری اصل ریل ہی ڈی ریل ہوگئی، تمہیں اس کا غم نہ ہوا؟ انگریز کی ڈالی ہوئی ریلوے لائن کتنی استعمال ہورہی ہے، کس صدی کے ہیں یہ لوگ؟ کس کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں، البتہ ایک خطرہ اب جو 14 جنوری کے بعد پیدا ہوگا وہ لوٹی ہوئی رقوم کا ہے یا ملک کی اقتصادی پالیسی کا۔

مولانا طاہر القادری کی آمد کے خطرات شکوک پیدا کر رہے ہیں کہ الیکشن پر کیوں آئے؟ انتخابات کو موخر کرانے کی چال نظر آتی ہے،غیرملکی ایجنڈا ہے، کبھی غور سے دیکھا کہ دراصل غیرملکی حکمران پاکستان کی حکومت سے اپنے ایجنڈے پر عمل کرا رہے ہیں اور لوگوں کی ہلاکت اس قدر بڑھ چکی ہے کہ دس پانچ لوگوں کا مرنا تو کوئی معنی نہیں رکھتا۔

اگر افلاس سے نہ مرا تو گولی سے مارا گیا، ورنہ اغواء برائے تاوان لے گیا، جمہوریت کے ثمرات! شیر خوار بچوں کو دودھ پینے کی رقم غریب آبادیوں میں نہیں، وہاں نصف دودھ اور نصف پانی یا 80 فیصد پانی 20 فیصد دددھ، یہ جمہوری دور کی سوغات ہیں، مفاد پرست ٹولہ اس وقت خوف میں ہے کہ واقعی کوئی جمہوری تبدیلی نہ آجائے کہ لوٹ مار کے دھن کی جانچ پڑتال ہو۔ اب وقت آگیا ہے کہ ریاست کو بچانے کے لیے اہم فیصلے کرنے ہوں گے۔ ؎

بول کہ تیری خدمت کی ہے
بول کہ تیرا کام کیا ہے
بول کہ تیرے پھل کھائے ہیں
بول کہ تیرا دودھ پیا ہے
بول کہ ہم نے حشر اٹھایا
بول کہ ہم سے حشر اٹھا ہے
بول اری او دھرتی بول
راج سنگھا سن ڈانوا ڈول

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔