لبرل جمہوریت کے نام پر ظلم کا جوازحصہ اول
عام طور پر یہی سمجھا جاتا ہے کہ انسان اگر عقل رکھتا ہے تو وہ تعمیری کی بجائے تخریبی عمل میں کیوں مصروف ہے؟
ارسطو کے مطابق انسان کو غیر انسان جانور کے مقابل فطرت نے عقل اور بولنے کی قوت دے کر پیدا کیا ہے جو دوسری جاندار مخلوق کے پاس نہیں ہے انسان کی قوتِ ادراک اور عقل ہی اس کوغیر انسانی جانوروں سے ممتاز کرتی ہے۔ اس کے نزدیک ہر وہ انسان سیاسی انسان ہے جو قدیم یونان کے شہر پولس (Polic)میں رہتا ہے ۔
ارسطو کے سیاسی انسان کی تعریف پر پورا اترنے کے لیے شہر میں رہنا بھی ضروری عنصر شامل ہے ، جس سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ سماج میں مختلف طبع کے لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہنے کا ہنر انسان کو سماجی انسان بناتا ہے یعنی وہ ان حقوق کو اسی وقت حاصل کرسکتا ہے جب وہ سماج کے رسم و رواج کا پابند بھی ہو اور اس کو اپنے حقوق و فرائض کا شعور ہو اسی لیے اس کے نزدیک تمام انسان سیاسی انسان نہیں ہوتے ۔جو سماج کے رسم و رواج کے مطابق خود کو ڈھالنے کے اہل نہیں ہوتے ارسطو کے نزدیک وہ نیم بشرsub -human ہوتا ہے جس کو ایک نارمل سیاسی انسان کے طور پر شناخت نہیں کیا جاسکتا۔
وہ یہ ادراک کرتا ہے کہ انسان بھی ایک جانور ہے مگر اس کی ساخت مختلف ہے اور اس کی شناخت اور خصوصیات کا بھر پور اور مکمل اظہار پولس یعنی شہر میں جو تہذیب و تمدن کا گہوارہ ہے ، میں رہتے ہوئے ہی ہو سکتا ہے۔ شہر کے ساتھ ہی ہمارے ذہن میں ایک سماج کا تصور ابھرتا ہے جو انسانوں کے تعلقاتِ باہمی اور تعاون کا نتیجہ ہے۔اس سے یہ بات بھی عیاں ہوتی ہے کہ ارسطو کا سیاسی انسان سیاسی ہی نہیں بلکہ سماجی بھی ہے۔
ارسطو نے اپنے سیاسی انسان کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے :Sub-Human, Human and Supper Human اس کا خیال ہے کہSub-human ایسے جانور ہیں جو مکمل انسان نہیں بلکہ اپنی فطرت میں جنگجو اور جھگڑالو ہیں،جو اپنے ارتقاء میں انسان سے کم تر ہیں۔ اور انسانوں کے ساتھ تعلقاتِ باہمی استوار نہیں کرسکتے کیونکہ وہ تصور کرنے اور ادراک کرنے کی قوت سے محروم ہیں دوسرے الفاظ میں سماجی نہیں ہے اگر سماجی نہیں تو پھر وہ سیاسی بھی نہیں ہوسکتے۔
ارسطو کی اس تعریف کو اگر ہم آج کی دنیا میں عملی سطح پر پرکھنے کی کوشش کریں تو ہمیں سب سے زیادہ sub human یا ابنارمل امریکی لگیں گے جو جنگوں کا جنون رکھتے ہیں اور اس کی مثال یہ ہے کہ جاپان پر پہلے ایٹمی حملے کے بعد آج تک ان کا یہ جنون کم نہیں ہوا، بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا جارہا ہے اور اس جنون کی بنیاد میں عقلی فلسفے کارفرما ہیں۔جن کو استعمال کرتے ہوئے وہ اپنے غیر انسانی اعمال کو جواز فراہم کرتا ہے۔اس کے لیے امریکا نے لبرل جمہوریت کے نام پر اپنے ظلم کو جواز فراہم کیا ہے۔
بہت سے لوگ اس بات پر اعتراض کرتے ہیں کہ ہم ہر کام کا ذمے دار آخر امریکا کو ہی کیوں ٹھہراتے ہیں؟ہم خود میں موجود خامیاں کیوں نہیں دیکھتے؟ ہم ہر بات امریکا یا مغرب ہی سے کیوں منسوب کردیتے ہیں؟ایک مخصوص قوم سے کسی بات کو منسوب کردینا بہت سے لوگوں کے نزدیک محدود سوچ کا نتیجہ ہے، مگر ایسی باتوں کی سچائی جاننے کا نام ہی تجزیاتی مطالعہ ہوتا ہے۔جس کی ہمارے سماج میں جہاں بہت قلت ہے، وہیں پر اشد ضرورت بھی ہے کہ ہمارے لوگ تقابلی جائزہ لینے کی صلاحیت اپنے آپ میں پیدا کریں۔ صرف دعوئوں پر یقین نہ کیا کریں اپنے سیاستدانوں سے لے کر امریکی استحصالیوں تک، ان کو ان کے اعمال میں پرکھو، ان کی تقریریں سن کر سراہنا چھوڑ دو، یہ دیکھو کہ یہ جو کچھ کہتے ہیں کیا اس پر عمل بھی کرتے ہیں یا نہیں اور ان کا کہا ہوا عملی سطح پر کتنا سچ یا جھوٹ ہوتا ہے۔
اسی بات کی تحقیق کرنے کا نام تجزیاتی مطالعہ ہے جو ہمیں یہ رہنمائی فراہم کرتا ہے کہ دنیا میں گنجلک واقعات کی حقیقت کی جانچ کرنا محدود سوچ کا نہیں بلکہ تجزیاتی طریقہ کار کی نمایندگی کرتا ہے۔مثال کے طور پر اگر ہم دیکھیں کہ ارسطو کس انسان کو سیاسی انسان کہتا ہے تو ہم پر یہ حقیقت کھلتی ہے کہ ارسطو کے نزدیک ایک عقل مند انسان ہی سیاسی انسان ہے، یعنی سیاست میں عقل کی بنیادی اہمیت یہاں واضح ہو جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ لبرل جمہوریت نے اپنی بنیاد تعقلی فلسفوں پر رکھی ہے اور اگر ہم یہ کہیں کہ لبرل جمہوریت عقل کا غلط استعمال کر رہی ہے تو ہمیں اس کی سچائی جاننے کے لیے لبرل جمہوریت کے تحت ہونیوالے دنیا بھر کے سیاسی معاملات کا جائزہ لینا چاہیے،اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم مغربی سیاسی تاریخ پرتجزیاتی نظر ڈالیں، تجزیاتی فہم ہمیں اس قابل بناتی ہے کہ ہم ہائپوتھیسس کی حقیقت کو جان سکیں،جیسا کہ کارل پوپر کہتا ہے کہ ہم کسی مفروضے کی فرض کی ہوئی حیثیت کو اس وقت تک نہیں جھٹلا سکتے جب تک کہ اس کو غلط ثابت نہ کر دیں۔
کارل پوپر کی اس سوچ کا بذاتِ خود تعقلی فلسفے غلط استعمال یوں کرتے ہیں کہ عقل سے کام لیتے ہوئے غیر عقلی اقدامات کو ایک جواز فراہم کرتے ہیں تاکہ رائے عامہ ان کے خلاف نہ ہو، مثال کے طور پر افغانستان پر جنگ مسلط کرنے کے لیے اُسامہ بن لادن اور وہاں کے انسانوں کے لیے امن یا آزادی کے خیال کو جواز بنایا گیا۔ اسی طرح عراق کو تباہ کرنے کے لیے یہ جواز دیا گیا کہ ان کے پاس تباہ کن اسلحہ اور ایٹمی ہتھیار ہیں جو دنیا کے امن کے لیے خطرہ ہوسکتے ہیں ۔ اسی جواز کو بنیاد بنا کر ایک طرف تو امریکا اور اقوام متحدہ نے پوری دنیا کی رائے اپنے حق میں استوار کی کہ عراق کے انتہائی نجی اداروں اور اثاثہ جات تک رسائی پا لی ،تو دوسری طرف امریکیوں کو یہ اطمینان ہوگیا کہ حملے کی صورت میں کہاں تک مزاحمت ممکن ہو سکتی ہے، یہ سب کچھ کرنے کے لیے لبرل جمہوریت نے تعقلی فلسفوں کا سہارا لیا۔
عام طور پر یہی سمجھا جاتا ہے کہ انسان اگر عقل رکھتا ہے تو وہ تعمیری کی بجائے تخریبی عمل میں کیوں مصروف ہے؟اور عقل کو بیسویں صدی کی بربادی اور تباہی کا خصوصاً جنگوں کا ذمے دار کیوں ٹھہرایا جاتا ہے؟اس کی وجہ یہ ہے کہ عقل نے استحصالی لبرل جمہوریت کے ہر ظلم اور برے عمل کو جواز فراہم کیا، دنیا کے مختلف ممالک میں جہاں جہاں بھی امریکا اور اقوام متحدہ کی افواج نے در اندازی کی ہے وہ انسانی فلاح و بہبود کے کسی نہ کسی تصور، جیسے امن،انسانی حقوق، آزادی ء رائے وغیرہ کو جواز بنا کر خون ریزی میں مصروفِ عمل ہیں۔مگر اصل وجہ دوسری جنگِ عظیم سے پہلے روس اور امریکا کے درمیان ہونے والا وہ تنازعہ ہے جو امریکا کی آزاد منڈی کی معیشت میں، روس کا شرکت نہ کرنے کا فیصلہ اور اس کے مقابل اپنی قومی طے شدہ حدود پر مبنی منڈی کے استحکام کا ارادہ تھا۔یہی وجہ ہے کہ امریکا آج تک ہر اس ملک کو اپنی بربریت اور وحشت کا نشانہ بنا رہا ہے جو اس وقت سوویت بلاک میں تھا یا ذرا سا بھی جھکائو کمیونزم کی طرف رکھتا تھا۔اس کے لیے امریکا نے ہمیشہ پہلے عقلیتی فلسفوں کو غلط استعمال کرتے ہوئے ایک جواز تراشا ہے پھر اس کو بین الاقوامی قانون، جو امریکیوں کی خواہشات کا ہی منبع و ماخذ ہے، کے سہارے استعمال کرتے ہوئے دوسرے ممالک میں در اندازی کی ہے۔ (جاری ہے)