متوقع بارشیں اور شہریوں کے خدشات

برساتی پانی کی نکاسی کا انتظام نہیں، سیم نالے صفائی کو ترس رہے ہیں

برساتی پانی کی نکاسی کا انتظام نہیں، سیم نالے صفائی کو ترس رہے ہیں۔ فوٹو ایکسپریس

وہ دن گئے جب برکھا رُت خوشی اور شہریوں میں ترنگ کا سبب بنتی تھی۔ گھروں میں گرما گرم پکوڑے، بھاپ اڑاتی چائے سے بارش کا لطف دوبالا کیا جاتا تھا اور لوگ گلیوں، چھتوں پر برستے ہوئے پانی میں بھیگتے اور خوشی کا اظہار کرتے نظر آتے تھے، لیکن آج محکمۂ موسمیات بارشوں کی پیش گوئی کرتا ہے تو شہری پریشانی کا شکار اور تشویش میں مبتلا ہو جاتے ہیں جس کی مختلف وجوہ ہیں۔

بارش تو آج بھی زمین اور مخلوق کے لیے اﷲ کی طرف سے رحمت ہی ہے، لیکن حکومت اور شہری انتظامیہ کی نااہلی، غفلت اور غیر ذمے داریوں کی وجہ سے شہری بارشوں سے ڈرنے لگے ہیں۔ مون سون کی بارشوں کا آغاز ہو چکا ہے اور عوام برسات کے دوران اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کے ساتھ فنی خرابیوں کے نتیجے میں بجلی کی فراہمی میں تعطل، ناقص انتظامات کی وجہ سے برساتی پانی کی نکاسی نہ ہونا، گٹر ابلنے، ٹریفک جام، مختلف صورتوں میں ہونے والے حادثات، سیلاب اور دیگر ممکنہ نقصانات کے بارے میں سوچ کر پریشان ہو رہے ہیں۔

متوقع بارشوں کے دوران ممکنہ تباہ کاریوں کے بارے میں ملک کے دیگر علاقوں کے باسیوں کی طرح ضلع ٹنڈو محمد خان کے پانچ لاکھ سے زائد عوام بھی انہی خدشات کا شکار ہیں۔ پچھلے سال کی بارشیں ضلع ٹنڈو محمد خان کی مقامی انتظامیہ کی کارکردگی کا پول کھول چکی ہیں اور اس مرتبہ تو شہری اپنے علاقے کے منتخب نمائندے سے بھی محروم ہیں۔ سات ماہ قبل پی ایس 53 سے منتخب ہو کر ایم پی اے بننے والے سید محسن شاہ بخاری کے انتقال کے بعد سے سندھ اسمبلی میں اس حلقے کے عوام کے مسائل پر آواز اٹھانے والا کوئی نہیں جب کہ ان کی اہلیہ سیدہ وحیدہ شاہ کا 'تھپڑ' انھیں ضمنی انتخاب میں کام یاب ہونے کے باوجود عوام کی نمائندگی کرنے سے روکے ہوئے ہے۔

اسی حلقے سے سید نوید قمر ایم این اے منتخب ہوئے اور پھر وزیر دفاع بنے جن کے بارے میں یہ نہیں کہا سکتا کہ وہ عوام کو درپیش مسائل سے آگاہ نہیں، کیوں کہ اپنے چار سالہ دور میں خاص طور پر سیلاب اور برسات کی تباہ کاریوں کا جائزہ لینے لیے ان کا اپنے حلقے میں آنا جانا رہا ہے، اس کے باوجود عوام کے مسائل جوں کے توں ہیں۔

گذشتہ سال مقامی انتظامیہ کی جانب سے برسات سے نمٹنے کے تمام انتظامات مکمل ہونے کا دعویٰ کیا جاتا رہا، لیکن ایک ماہ، پانچ دن تک بارشوں نے تباہی مچائے رکھی اور تمام اس کے آگے دعوے ریت کی دیوار کی بہہ گئے۔ پچھلے سال بارشوں سے اکیس افراد جاں بحق، تیس سے زائد افراد مختلف واقعات میں زخمی ہوئے، سیکڑوں آبادیاں متاثر ہوئیں۔

ایک اندازے کے مطابق چھے ارب اسی کروڑ روپے مالیت کی ایک لاکھ 36 ہزار 71 ایکڑ رقبے پر موجود گنے، چاول اور کپاس کی فصل تباہ ہوئی۔ 25 ہزار تین سو 53 کچے اور نیم پختہ مکانات زمین بوس ہو گئے، 47 ہزار پانچ سو 82 مکانات کو جزوی طور پر نقصان پہنچا اور ایک مرتبہ پھر ٹنڈو محمد خان کے عوام کو اسی قسم کے خدشات نے گھیرا ہوا ہے۔

ٹنڈو محمد خان سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہونے والے سید نوید قمر کی ہدایت پر مقامی تاجر برادری کی مشاورت سے اکتوبر 2011 میں ضلع ٹنڈو محمد خان کے نکاسی آب کے نظام کو موجودہ ضروریات کے مطابق بہتر بنانے کا منصوبہ بنایا گیا جس کے تحت ٹنڈو محمد خان شہر کے بارش کے پانی کو نصیرآباد، میر مشتاق بنگلو، پھلیلی پل اور بیراج کالونی سے رین ڈرین آؤٹ پائپ لائن کے ذریعے پھلیلی کینال میں ڈالا جانا تھا، مگر متعلقہ انتظامیہ کی غیرذمے داری نے اس منصوبے کا ستیا ناس کر دیا۔


منصوبے کی پلاننگ کا ٹھیکا مبینہ طور پر کراچی کی ایک غیر معروف کمپنی کو دے دیا گیا جس نے زمینی حقائق کا جائزہ لیے بغیر پلان ترتیب دیا اور اپنے ایک ملین روپے وصول کر لیے جب کہ ڈرینج اسکیموں کی تعمیر کے کام کی ذمے داری محکمۂ پبلک ہیلتھ کے بجائے روڈ ڈیپارٹمینٹ کو دے دی گئی جن کی پلاننگ پر شہریوں کے شدید تحفظات کے باوجود کام شروع کر دیا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ لاکھوں روپے کی لاگت سے بنائی جانے والی بہرانی محلہ ڈرینج اسکیم مکمل ہوتے ہی ناقابل استعمال قرار دے کر مٹی ڈال کر بند کردی گئی۔

شہر کے وسط سے گزرنے والی 36 انچ قطر کی ڈرینج لائنوں کو 48 انچ قطر کی لائنوں سے بدلنا تھا، لیکن انھیں نکال کر دوبارہ 36 انچ کی لائن ڈال دی گئی اور اس پر طرفہ تماشا یہ کہ اس کام کو مکمل بھی نہیں کیا گیا۔ نکاسی آب کے لیے مختص جگہ سون پاری کی ستر فی صد زمین پلاٹس کی صورت میں فروخت ہو چکی ہے جب کہ شہر کے وسط میں نکاسی آب کی لائنیں ڈالے بغیر اسفالٹ سڑکیں تعمیر کر دی گئی ہیں۔

گذشتہ بارشوں میں شہر کے کاروباری علاقوں چاندنی چوک، سبزی منڈی، پاکستانی چوک، میر جو پڑ جب کہ رہائشی علاقوں مشترکہ کالونی، شوکت کالونی، بہرانی محلہ، ٹالپر کالونی، سومرا محلہ اور پھلیلی پار کے علاقوں میں تین سے چار فٹ تک بارش کا پانی کھڑا تھا اور اسفالٹ سڑکیں بننے کے بعد ان علاقوں میں پانچ سے سات فٹ تک پانی کھڑے رہنے کا امکان ہے جب کہ برساتی پانی کی نکاس کا تاحال کوئی انتظام نظر نہیں آ رہا۔

دیہی علاقوں میں تو برسات کے دوران صورت حال انتہائی خراب اور خطرناک ہو سکتی ہے۔ سیم نالیوں کی صفا ئی کا کام تاحال مکمل نہیں کیا جا سکا ہے جس کے باعث ہزاروں ایکڑ پر کھڑی فصلوں کی بربادی، سیکڑوں گائوں اور لاکھوں افراد کے شدید متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ حکومت سندھ کی جانب سے بروقت فنڈز جاری نہ کیے جانے کی وجہ سے برسات سے قبل اسکیمیں شروع اور بعض مکمل نہیں کی جا سکی ہیں۔

حکومت نے ضلع ٹنڈو محمد خان کے 84 ہزار خاندانوں میں جو متاثرینِ بارش میں شامل تھے، پاکستان کارڈ کے ذریعے 84 کروڑ روپے تقسیم کیے تھے، لیکن ماہرینِ شہری امور نے اس بات پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہر سال بارشوں سے نقصانات ہوتے ہیں۔ اگر یہ خطیر رقم نکاسی آب کے نظام کو بہتر بنانے پر لگا دی جاتی تو علاقے کے عوام ہمیشہ کے لیے بارش کے پانی کی تباہ کاریوں سے محفوظ ہو جاتے۔ اس معمولی بات کو سمجھنے میں آخر کیا رکاوٹ ہے، وزراء اور منصوبہ ساز اس جانب کیوں نہیں دیکھتے۔

عوامی فلاح و بہبود کے دیرپا اور سود مند منصوبوں سے پہلو تہی یہ ظاہرکرتی ہے کہ برسرِ اقتدار سیاسی جماعتیں کبھی عوام سے مخلص نہیں رہیں بلکہ وہ اس قسم کے حالات میں مختلف امدادی پیکجز اور رقوم کی تقسیم سے اپنا ووٹ بینک بڑھانے اور دیگر سیاسی فائدے حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سید نوید قمر نے اپنے اس چار سالہ دور میں بے تحاشا کام کیے ہیں، چھوٹے گائوں، گوٹھوں میں گیس، بجلی اور سڑکوں کی سہولت دی ہے، لیکن انھوں نے پچھلے سال اپنے حلقے کے عوام سے نکاسی آب کا نظام درست کرنے کا وعدہ کیا تھا، جو پورا نہیں ہوا ہے۔ اس مرتبہ متوقع شدید بارشوں نے اگر شہریوں کے گھر بار، فصلوں، مال مویشیوں کو نقصان پہنچایا تو سید نوید قمر کی اب تک کی گئی کوششیں بھی پانی میں بہہ سکتی ہیں۔
Load Next Story