چائنیز پاور منصوبوں پر دہرے ٹیکس کا مسئلہ حل کرنے پر اتفاق

وفاقی حکومت اشیا،صوبائی حکومتیں خدمات پرسیلز ٹیکس کی وصولی کریں گی


Irshad Ansari February 04, 2017
جس صوبے کا ان پٹ ٹیکس بنے گا اسے ایڈجسٹ کیا جائیگا اور آئندہ اجلاس رواں ماہ متوقع ہے۔ فوٹو: فائل

BAGHDAD: وفاق اور صوبوں کے درمیان چائنیز کمپنیوں کے تعاون سے ملک میں جاری توانائی کے منصوبوں پر ڈبل ٹیکسیشن کا مسئلہ حل کرنے پر اتفاق ہوگیا ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ پاکستان کے توانائی منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنیوالی چائنیز کمپنیوں نے وزارت پانی و بجلی سے رجوع کیا تھا جس میں ہائیڈروپاور پروجیکٹس پر وفاق اور صوبوں کی ٹیکسیشن کا معاملہ اٹھایا گیا تھا اور سرمایہ کار کمپنیوں کی جانب سے موقف اپنایا گیا تھا کہ وفاقی اور صوبائی ٹیکسوں کی وجہ سے منصوبوں کی لاگت بڑھ رہی ہے اور وزارت پانی و بجلی نے معاملہ حل کرنے کیلیے ایف بی آر سے رجوع کیا تھا البتہ ایف بی آر کا کہنا ہے کہ ٹیکسوں سے چھوٹ دینے کا اختیار اب ایف بی آر کے پاس نہیں ہے بلکہ اس کیلیے کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی سے رجوع کیا جائے جس کے بعد وزارت پانی و بجلی کی جانب سے خزانہ ڈویژن کو لیٹر لکھا گیا تھا جس میں بتایا گیا کہ پنجاب حکومت کی جانب سے صوبائی فنانس ایکٹ کے تحت پنجاب میں تعمیرات بشمول ہائیڈرو پاور پروجیکٹس کی تعمیر سمیت دیگر سروسز پر 16 فیصد جنرل سیلز ٹیکس عائد کررکھا ہے اور اس بعد اب حکومت آزاد جموں وکشمیر نے بھی ہائیڈرو پاور پروجیکٹس و کنسٹرکشن اور دیگر سروسز پرجنرل سیلز ٹیکس عائد کردیا ہے جس کے باعث مسائل پیدا ہورہے ہیں اور ان منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنے والی سرمایہ کارکمپنیاں وزارت پانی و بجلی سے رجوع کررہی ہیں لہٰذا یہ مسائل حل کرنا ضروری ہے جس پر 24 جنوری کو کمیٹی روم میں اعلی سطح کا اجلاس منعقد ہوا جس میں ملک بھر میں جاری توانائی کے منصوبوں پر ٹیکسوں سے متعلق معاملات کا جائزہ لیا گیا اور ان منصوبوں پر وفاق کے علاوہ جو صوبوں کی جانب سے ٹیکس عائد کیے گئے ہیں ان پر بھی غور ہوا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ وفاق اور صوبوں نے اس معاملے کو حل کرنے پر اتفاق کیا ہے اور اس کیلیے ان پٹ ٹیکس ایڈجسٹمنٹ طے کی جائیگی تاہم وفاق اشیا پر سیلز ٹیکس کی وصولی کریگا اور صوبے سروسز پر سیلز ٹیکس وصولی کریں گے اور جہاں جس صوبے کا ان پٹ ٹیکس بنے گا اسے ایڈجسٹ کیا جائیگا اور آئندہ اجلاس رواں ماہ متوقع ہے۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں