حسین تعبیر
یہ کائنات خدائے واحد بزرگ و برتر نے انسان کے لیے مسخر کردی ہے، انسان نے فضا سے خلاء تک دسترس حاصل کی۔
فضا پر دسترس حاصل کرنا ابن آدم کا قدیم خواب تھا، جب انسان نے پرندوں کو فضا میں محو پرواز دیکھا تو اس کے من میں بھی یہ ارمان مچلا کہ کاش وہ بھی ہوا میں پر لگا کر اڑ سکتا اور آزادانہ ہوا میں تیرتا ہوا ایک مقام سے دوسرے مقام تک منٹوں اور سیکنڈوں میں پہنچ سکتا۔ انسان نے سوچا کہ اگر کسی طرح ہلنے والے پر کا طریقہ معلوم ہوجائے تو اس کی اس دیرینہ خواہش کی تکمیل عمل میں آسکتی ہے۔
حضرت عیسیٰؑ کے زمانے میں ایک شخص اوویڈ نے دو آدمیوں کے بارے میں ایک کہانی لکھی جو پروں کے ذریعے اڑ کر قید سے بھاگ گئے تھے۔انگریز سائنس دان راجر بیکس شاید پہلا آدمی تھا جس نے اڑنے کے مسئلے پر سائنسی طریقے سے غور کیا۔ اس نے ایسے حرکت کرنیوالے پروں کے بارے میں بیان کیا جو پرندوں کے مشابہ تھے۔ اس نے خیال پیش کیا کہ بازوؤں اور ٹانگوں کی حرکت سے پَر ہلے گا اور آدمی اڑ سکے گا، تاہم بعدازاں دوسرے لوگوں نے ثابت کیا کہ انسانی پٹھے اتنے بڑے پروں کو اتنی حرکت دینے کے قابل نہیں ہیں، جس سے پرواز ممکن ہوسکے، کئی صدیوں تک بہت سے لوگوں نے اس سلسلے میں تجربات جاری رکھے۔ انھوں نے یہ محسوس کیا کہ کوئی طاقت مثلاً تیل کا انجن اڑنے والی مشین کو کامیاب بنانے کے لیے ضروری ہے۔
پندرہویں صدی میں اٹلی کے ذہین آدمی لیونارڈو ڈاونچی نے جو ایک زبردست نقاش اور انجینئر تھا کئی حرکت کرنیوالے پروں کی تجویز پیش کی۔ اس نے اڑان حاصل کرنے کے لیے گھومنے والے پروں کا ذکر کیا۔ اس طرح چار سو برس قبل جدید ہیلی کاپٹر کا خیال پیش کیا گیا اسے ہوائی جہاز کے پنکھے کا خیال پیش کرنے والا پہلا آدمی تصور کیا جاتا ہے۔ ہوائی چھتری ایجاد کرنے والا بھی یہی شخص ہے۔
انیسویں صدی کی ابتداء میں بہت سے آدمی مختلف قسم کی اڑنے والی مشینوں پر تجربے کر رہے تھے، لیکن ان کے کام کی رفتار بہت سست اور مایوس کن تھی۔ وہ متحرک بازوؤں کے برخلاف (جب کہ وہ غیر متحرک پروں پر متفق ہوگئے تھے لیکن ان کے پاس اتنے طاقتور انجن نہیں تھے جس سے اڑان ممکن ہوسکے) اڑنے کا اصول نہیں سمجھتے تھے۔
ایک انگریز سائنسدان سرجارج کلے نے ساکن پر کے اصول کو ثابت کرنے کے لیے 1800 میں اپنے چھوٹے کھل جہاز پر تجربات کیے۔ 1842 میں ولیم ہنسن نے ایک قسم کا ہوائی جہاز، جسے وہ ''اپریل'' کہتا تھا، انگلستان میں پیش کیا۔ یہ ایک بھدی چیز تھی جس میں وہ بھاپ کے انجن سے طاقت دینا چاہتا تھا۔ (اندرونی اختراقی انجن اس وقت ایجاد نہیں ہوا تھا) ولیم ہنسن نے ایک ایسی کمپنی بھی قائم کی جو یورپ کے شہروں کے درمیان اس اپریل سے ہوائی سروس جاری کرنے کا ارادہ رکھتی تھی لیکن وہ ایسا ایک بھی ہوائی جہاز بنانے کے قابل نہ ہوسکا جو اڑسکے۔ آخر کار اس نے یہ کام چھوڑ دیا۔ولیم ہنسن کے ساتھ جان اسٹرنگ فیلو نے بہرحال یہ خیال نہیں چھوڑا اور اپنے تصورات پر مبنی چھوٹے ہوائی جہازوں پر تجربات کرتا رہا۔
1848 میں اس نے ہوائی جہاز کا ایک نمونہ بنایا جس کے پر کی چوڑائی دس فٹ تھی۔ اس میں ایک بھاپ کا انجن لگا ہوا تھا جس کے ذریعے سے جہاز کو طاقت دی گئی تھی۔ یہ جہاز تقریباً 60 فٹ تک اڑا۔ یہ طاقت کی پہلی اڑان تھی اور کامیابی کی جانب پہلا قدم تھا۔1850 میں ایک فرانسیسی لی بارس، کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اس نے اتنا بڑا کھسل جہاز بنایا جو اسے ہوا میں ایک فرلانگ تک لے گیا۔ جرمنی میں لی لی انتھال اور اس کے بھائیوں کے علاوہ امریکا میں مختلف لوگ کھسل جہازوں پر تجربات کر رہے تھے۔ جس کے نتیجے میں انیسویں صدی کے آخر تک کھسل جہاز ہر جگہ عام ہوگئے۔
ہوائی جہاز کے شوقین لوگ کھسل جہاز میں انجن لگانے کے بارے میں ہمیشہ سوچتے رہے، تاکہ ہوائی جہاز طاقتور اڑان سے بلندی پر جاسکے۔ انگلستان ، فرانس کے سائنس دان اور امریکا کے سموئل نے اس سلسلے میں کوششیں کیں۔ اول الذکر دوممالک کے سائنسدانوں نے بھاپ کی طاقت کے ہوائی جہاز پر بھی تجربے کیے جب کہ بعض سائنسدانوں نے ایسے ہوائی جہاز پر تجربہ کیا جس میں تیل کے انجن کے ذریعے طاقت دی گئی تھی۔ ان سائنسدانوں میںلانگلے کامیابی کے قریب تر آگیا تھا لیکن 1903 میں اس کی اڑان کی دو کوششیں ناکام ہوگئیں۔جس سال لانگلے ناکامی سے دوچار ہوا اسی سال رائٹ برادران نے فضا میں جہاز اڑانے کا کامیاب تجربہ کیا۔ کٹی ہاک نارتھ کیرولینا میں 17 دسمبر 1903 کو ان کا بدصورت ڈھانچے والا ہوائی جہاز جس میں ان کا تیار کیا ہوا تیل کا انجن لگا ہوا تھا، زمین سے اور ویل کو لے کر اڑا اور 120 فٹ تک گیا۔
اس کامیابی کے بعد پرواز میں تیزی سے پیش رفت ہوگئی اور 1909 میں لوئی بلیرٹیو نے دو بار انگلستان کا فاصلہ 50 میل فی گھنٹے کی اوسط رفتار سے طے کیا۔ روس میں 1913ء میں سبکوراسکی کا ''اپروبس''کام کرنے لگا۔ یہ اپنے وقت کا زبردست جہاز تھا۔ اس کا وزن 3000 پونڈ تھا اور اس میں چار انجن کے علاوہ کچھ جگہ بھی تھی جہاں دس افراد بیٹھ سکتے تھے۔ موجودہ دور میں تو جہاز سازی میں بڑی ترقی ہوگئی ہے۔ سیکڑوں اقسام کے جہاز تیار کرلیے گئے ہیں۔ ایک سے ایک اور اپنی طرز کے بہترین جہاز جن کی اگر خصوصیات بیان کی جائیں تو ہر ایک کے لیے تقریباً ایک کتاب لکھنی درکار ہوگی، لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس عظیم ترقی کا دارومدار انسان کی اس محنت پر ہے جس کی ایک جھلک آپ کو دکھائی گئی ہے۔
آج ابن آدم کی ترقی کا یہ عالم ہے کہ نہ صرف فضا بلکہ خلا تک پر اس نے دسترس حاصل کرلی ہے اور ستاروں پر کمند ڈالنے کی کوششوں میں سرگرداں ہے اور فضائی سفر کے بعد اب خلائی سفر کو بھی اسی طرح سے عام کرنے کی تیاریاں ہیں جس طرح ایک عام ہوائی جہاز کا سفر۔
خلائی سفر کی سب سے پہلی داستان ایک یونانی لیوسین نے لکھی تھی، اگرچہ یہ کہانی تفریحاً لکھی گئی تھی جس کے بنیادی کردار نے گدھ اور عقاب کے پروں کی مدد سے چاند کا سفر طے کیا تھا تاہم اس تفریحی کہانی کے ساتھ ہی خلاء میں سفر کا تصور بھی سامنے ایا۔ خلاء کو کھنگالنے اور اس کی وسعتوں کو ناپنے، نیز آزادانہ سفر کی حسرت تو ابن آدم کے دل میں ازل ہی سے کروٹیں بدلتی رہی تھی تاہم خلائی دور کا آغاز 1957 میں ہوا جب پہلا مواصلاتی سیارہ اسپوتنک مدار میں بھیجا گیا۔ خلائی سفر میں اہم ترین پیش رفت ''خلائی شٹل'' کی ایجاد ہے جب کہ وائیکنگ خلائی جہاز انسان کا عظیم کارنامہ جب کہ وائیجرز اول و دوم ابن آدم کا عظیم شاہکار ہیں۔
جوکہ خلاء کی سرد اور تاریک وسعتوں میں آگے آگے اور آگے بڑھتے ہوئے گویا سفر آخرت کی جانب گامزن ہیں تاہم ان سے جو حیرت انگیز اور نادر و نایاب معلومات کا ذخیرہ سائنسدانوں کو موصول ہوا وہ بلاشبہ تاریخ انسان کی ایک عظیم پیش رفت ہے اور سائنس کے شعبے میں حاصل ہونے والی کامیابیوں میں ایک بڑی کامیابی بھی اور حضرت انسان کے قدیم فضا و خلا پر دسترس کے حصول کی حسین تعبیر بھی۔ اسی طرح پائہزہ 10، 11 اور 12 نے انسان کو گراں قدر معلومات سے مستفید ہونے کا موقع دیا تاہم اس ضمن میں سب سے اہم ترین پیش رفت وہ حالیہ کامیابی ہے جو کیوروسٹی کے سطح مریخ پر اترنے سے عمل میں آئی ہے۔
یہ ابن آدم کے ایک طویل خواب کی انتہائی حسین تعبیر ہے، کیوروسٹی نے ناسا کو سطح مریخ کی جو تاریخ ساز تصاویر بھیجی ہیں وہ حضرت انسان کے عملی و سائنسی ارتقاء کی تاریخ میں اہم سنگ میل ثابت ہوسکتی ہیں، غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق کیوروسٹی نے مریخ پر حیرت انگیز دریافت کی ہے تاہم ناسا کے ماہرین اس کی تصدیق کے لیے اسے خفیہ رکھ رہے ہیں تاہم اس اہم دریافت کا اعلان ناسا ماہرین کی جانب سے آیندہ ماہ کے آغاز میں متوقع ہے۔ خیال پایا جاتا ہے کہ اس دریافت کا تعلق مریخ پر زندگی کے آثار کے حوالے سے ہو۔
یہ ساری کائنات خدائے واحد بزرگ و برتر نے انسان کے لیے مسخر کردی ہے، انسان نے فضا سے خلاء تک دسترس حاصل کی اور وہ اپنے حق خلافت کو ادا کرتے ہوئے اور اپنے فطری سفر تجسس جو جاری رکھتے ہوئے آج چاند کے بعد مریخ کو فتح کرچکا ہے اور اس کا سفر مسلسل آگے اور آگے کی جانب جاری ہے بس دیکھتے جائیے کہ کون کون سے باب وا ہونے کو اور کون کون سے راز افشاں ہونے کو، کون کون سے خفیہ و سربستہ گوشے پردہ اٹھنے کے منتظر ہیں، ماہرین فلکیات و ہیئت دانوں کو تو کیوروسٹی کی نادر ونایاب تصاویر خلائی سائنس میں مریخ کے حوالے سے نوید مستقبل کی ضمانت معلوم ہوتی ہیں۔
حضرت عیسیٰؑ کے زمانے میں ایک شخص اوویڈ نے دو آدمیوں کے بارے میں ایک کہانی لکھی جو پروں کے ذریعے اڑ کر قید سے بھاگ گئے تھے۔انگریز سائنس دان راجر بیکس شاید پہلا آدمی تھا جس نے اڑنے کے مسئلے پر سائنسی طریقے سے غور کیا۔ اس نے ایسے حرکت کرنیوالے پروں کے بارے میں بیان کیا جو پرندوں کے مشابہ تھے۔ اس نے خیال پیش کیا کہ بازوؤں اور ٹانگوں کی حرکت سے پَر ہلے گا اور آدمی اڑ سکے گا، تاہم بعدازاں دوسرے لوگوں نے ثابت کیا کہ انسانی پٹھے اتنے بڑے پروں کو اتنی حرکت دینے کے قابل نہیں ہیں، جس سے پرواز ممکن ہوسکے، کئی صدیوں تک بہت سے لوگوں نے اس سلسلے میں تجربات جاری رکھے۔ انھوں نے یہ محسوس کیا کہ کوئی طاقت مثلاً تیل کا انجن اڑنے والی مشین کو کامیاب بنانے کے لیے ضروری ہے۔
پندرہویں صدی میں اٹلی کے ذہین آدمی لیونارڈو ڈاونچی نے جو ایک زبردست نقاش اور انجینئر تھا کئی حرکت کرنیوالے پروں کی تجویز پیش کی۔ اس نے اڑان حاصل کرنے کے لیے گھومنے والے پروں کا ذکر کیا۔ اس طرح چار سو برس قبل جدید ہیلی کاپٹر کا خیال پیش کیا گیا اسے ہوائی جہاز کے پنکھے کا خیال پیش کرنے والا پہلا آدمی تصور کیا جاتا ہے۔ ہوائی چھتری ایجاد کرنے والا بھی یہی شخص ہے۔
انیسویں صدی کی ابتداء میں بہت سے آدمی مختلف قسم کی اڑنے والی مشینوں پر تجربے کر رہے تھے، لیکن ان کے کام کی رفتار بہت سست اور مایوس کن تھی۔ وہ متحرک بازوؤں کے برخلاف (جب کہ وہ غیر متحرک پروں پر متفق ہوگئے تھے لیکن ان کے پاس اتنے طاقتور انجن نہیں تھے جس سے اڑان ممکن ہوسکے) اڑنے کا اصول نہیں سمجھتے تھے۔
ایک انگریز سائنسدان سرجارج کلے نے ساکن پر کے اصول کو ثابت کرنے کے لیے 1800 میں اپنے چھوٹے کھل جہاز پر تجربات کیے۔ 1842 میں ولیم ہنسن نے ایک قسم کا ہوائی جہاز، جسے وہ ''اپریل'' کہتا تھا، انگلستان میں پیش کیا۔ یہ ایک بھدی چیز تھی جس میں وہ بھاپ کے انجن سے طاقت دینا چاہتا تھا۔ (اندرونی اختراقی انجن اس وقت ایجاد نہیں ہوا تھا) ولیم ہنسن نے ایک ایسی کمپنی بھی قائم کی جو یورپ کے شہروں کے درمیان اس اپریل سے ہوائی سروس جاری کرنے کا ارادہ رکھتی تھی لیکن وہ ایسا ایک بھی ہوائی جہاز بنانے کے قابل نہ ہوسکا جو اڑسکے۔ آخر کار اس نے یہ کام چھوڑ دیا۔ولیم ہنسن کے ساتھ جان اسٹرنگ فیلو نے بہرحال یہ خیال نہیں چھوڑا اور اپنے تصورات پر مبنی چھوٹے ہوائی جہازوں پر تجربات کرتا رہا۔
1848 میں اس نے ہوائی جہاز کا ایک نمونہ بنایا جس کے پر کی چوڑائی دس فٹ تھی۔ اس میں ایک بھاپ کا انجن لگا ہوا تھا جس کے ذریعے سے جہاز کو طاقت دی گئی تھی۔ یہ جہاز تقریباً 60 فٹ تک اڑا۔ یہ طاقت کی پہلی اڑان تھی اور کامیابی کی جانب پہلا قدم تھا۔1850 میں ایک فرانسیسی لی بارس، کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اس نے اتنا بڑا کھسل جہاز بنایا جو اسے ہوا میں ایک فرلانگ تک لے گیا۔ جرمنی میں لی لی انتھال اور اس کے بھائیوں کے علاوہ امریکا میں مختلف لوگ کھسل جہازوں پر تجربات کر رہے تھے۔ جس کے نتیجے میں انیسویں صدی کے آخر تک کھسل جہاز ہر جگہ عام ہوگئے۔
ہوائی جہاز کے شوقین لوگ کھسل جہاز میں انجن لگانے کے بارے میں ہمیشہ سوچتے رہے، تاکہ ہوائی جہاز طاقتور اڑان سے بلندی پر جاسکے۔ انگلستان ، فرانس کے سائنس دان اور امریکا کے سموئل نے اس سلسلے میں کوششیں کیں۔ اول الذکر دوممالک کے سائنسدانوں نے بھاپ کی طاقت کے ہوائی جہاز پر بھی تجربے کیے جب کہ بعض سائنسدانوں نے ایسے ہوائی جہاز پر تجربہ کیا جس میں تیل کے انجن کے ذریعے طاقت دی گئی تھی۔ ان سائنسدانوں میںلانگلے کامیابی کے قریب تر آگیا تھا لیکن 1903 میں اس کی اڑان کی دو کوششیں ناکام ہوگئیں۔جس سال لانگلے ناکامی سے دوچار ہوا اسی سال رائٹ برادران نے فضا میں جہاز اڑانے کا کامیاب تجربہ کیا۔ کٹی ہاک نارتھ کیرولینا میں 17 دسمبر 1903 کو ان کا بدصورت ڈھانچے والا ہوائی جہاز جس میں ان کا تیار کیا ہوا تیل کا انجن لگا ہوا تھا، زمین سے اور ویل کو لے کر اڑا اور 120 فٹ تک گیا۔
اس کامیابی کے بعد پرواز میں تیزی سے پیش رفت ہوگئی اور 1909 میں لوئی بلیرٹیو نے دو بار انگلستان کا فاصلہ 50 میل فی گھنٹے کی اوسط رفتار سے طے کیا۔ روس میں 1913ء میں سبکوراسکی کا ''اپروبس''کام کرنے لگا۔ یہ اپنے وقت کا زبردست جہاز تھا۔ اس کا وزن 3000 پونڈ تھا اور اس میں چار انجن کے علاوہ کچھ جگہ بھی تھی جہاں دس افراد بیٹھ سکتے تھے۔ موجودہ دور میں تو جہاز سازی میں بڑی ترقی ہوگئی ہے۔ سیکڑوں اقسام کے جہاز تیار کرلیے گئے ہیں۔ ایک سے ایک اور اپنی طرز کے بہترین جہاز جن کی اگر خصوصیات بیان کی جائیں تو ہر ایک کے لیے تقریباً ایک کتاب لکھنی درکار ہوگی، لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس عظیم ترقی کا دارومدار انسان کی اس محنت پر ہے جس کی ایک جھلک آپ کو دکھائی گئی ہے۔
آج ابن آدم کی ترقی کا یہ عالم ہے کہ نہ صرف فضا بلکہ خلا تک پر اس نے دسترس حاصل کرلی ہے اور ستاروں پر کمند ڈالنے کی کوششوں میں سرگرداں ہے اور فضائی سفر کے بعد اب خلائی سفر کو بھی اسی طرح سے عام کرنے کی تیاریاں ہیں جس طرح ایک عام ہوائی جہاز کا سفر۔
خلائی سفر کی سب سے پہلی داستان ایک یونانی لیوسین نے لکھی تھی، اگرچہ یہ کہانی تفریحاً لکھی گئی تھی جس کے بنیادی کردار نے گدھ اور عقاب کے پروں کی مدد سے چاند کا سفر طے کیا تھا تاہم اس تفریحی کہانی کے ساتھ ہی خلاء میں سفر کا تصور بھی سامنے ایا۔ خلاء کو کھنگالنے اور اس کی وسعتوں کو ناپنے، نیز آزادانہ سفر کی حسرت تو ابن آدم کے دل میں ازل ہی سے کروٹیں بدلتی رہی تھی تاہم خلائی دور کا آغاز 1957 میں ہوا جب پہلا مواصلاتی سیارہ اسپوتنک مدار میں بھیجا گیا۔ خلائی سفر میں اہم ترین پیش رفت ''خلائی شٹل'' کی ایجاد ہے جب کہ وائیکنگ خلائی جہاز انسان کا عظیم کارنامہ جب کہ وائیجرز اول و دوم ابن آدم کا عظیم شاہکار ہیں۔
جوکہ خلاء کی سرد اور تاریک وسعتوں میں آگے آگے اور آگے بڑھتے ہوئے گویا سفر آخرت کی جانب گامزن ہیں تاہم ان سے جو حیرت انگیز اور نادر و نایاب معلومات کا ذخیرہ سائنسدانوں کو موصول ہوا وہ بلاشبہ تاریخ انسان کی ایک عظیم پیش رفت ہے اور سائنس کے شعبے میں حاصل ہونے والی کامیابیوں میں ایک بڑی کامیابی بھی اور حضرت انسان کے قدیم فضا و خلا پر دسترس کے حصول کی حسین تعبیر بھی۔ اسی طرح پائہزہ 10، 11 اور 12 نے انسان کو گراں قدر معلومات سے مستفید ہونے کا موقع دیا تاہم اس ضمن میں سب سے اہم ترین پیش رفت وہ حالیہ کامیابی ہے جو کیوروسٹی کے سطح مریخ پر اترنے سے عمل میں آئی ہے۔
یہ ابن آدم کے ایک طویل خواب کی انتہائی حسین تعبیر ہے، کیوروسٹی نے ناسا کو سطح مریخ کی جو تاریخ ساز تصاویر بھیجی ہیں وہ حضرت انسان کے عملی و سائنسی ارتقاء کی تاریخ میں اہم سنگ میل ثابت ہوسکتی ہیں، غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق کیوروسٹی نے مریخ پر حیرت انگیز دریافت کی ہے تاہم ناسا کے ماہرین اس کی تصدیق کے لیے اسے خفیہ رکھ رہے ہیں تاہم اس اہم دریافت کا اعلان ناسا ماہرین کی جانب سے آیندہ ماہ کے آغاز میں متوقع ہے۔ خیال پایا جاتا ہے کہ اس دریافت کا تعلق مریخ پر زندگی کے آثار کے حوالے سے ہو۔
یہ ساری کائنات خدائے واحد بزرگ و برتر نے انسان کے لیے مسخر کردی ہے، انسان نے فضا سے خلاء تک دسترس حاصل کی اور وہ اپنے حق خلافت کو ادا کرتے ہوئے اور اپنے فطری سفر تجسس جو جاری رکھتے ہوئے آج چاند کے بعد مریخ کو فتح کرچکا ہے اور اس کا سفر مسلسل آگے اور آگے کی جانب جاری ہے بس دیکھتے جائیے کہ کون کون سے باب وا ہونے کو اور کون کون سے راز افشاں ہونے کو، کون کون سے خفیہ و سربستہ گوشے پردہ اٹھنے کے منتظر ہیں، ماہرین فلکیات و ہیئت دانوں کو تو کیوروسٹی کی نادر ونایاب تصاویر خلائی سائنس میں مریخ کے حوالے سے نوید مستقبل کی ضمانت معلوم ہوتی ہیں۔