ہمیں بینر نہیں عمل چاہیئے
کشمیری، پاکستانی عوام اور حکمرانوں کی طرف سے چند بینرز اور سیمینار منعقد کرا، کر جان چھڑانے سے مطمعن نہیں ہیں۔
برف سے ڈھکی چوٹیاں، گلیشئیر کے کھسکنے سے ٹوٹے ہوئے چیڑھ اور دیودار کے دیوہیکل درخت، پتوں سے بے نیاز چنار اور سفید چادر اوڑھے ہوئے زعفران کے کھیت، میرے بالکل سامنے موجود ہیں مگر کچھ سفارتی مجبوریوں اور چند محرومیوں کے سبب میں انہیں چھو نہیں سکتا، جی چاہا کہ اْڑکر ان ٹھنڈی ہواؤں کو چُھو، لوں مگر اس فضاء سے مجھے بارود کی بو آرہی تھی، ہزار جتن کے باوجود پیر پنجال کے پہاڑی سلسلے کی دوسری جانب جانا ناممکن رہا، یہ میرا بچپن تھا، جب میں تتلیوں کو مُٹھی میں بند کرکے یوں محسوس کرتا تھا جیسے قارون کے خزانے کو اپنے قابو میں کرلیا ہو۔
کشمیر میری محبت ہے، تھا اور شاید جب تک سانسیں ہیں یہ محبت قائم ہے گی۔ بچپن سے ہی کانوں میں مقبوضہ کشمیر کے مظالم کی داستانیں سنائی دیں۔ جب جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا تو خود کو گلوبل ویلج میں پایا۔ پل بھر میں دنیا بھر کی خبریں ملتی گئیں۔ یہی وجہ تھی شاید جن عزیز و اقارب کو دیکھنے کے لئے دریائے نیلم کے کنارے، پیر پنجال کے سنگلاخ پہاڑوں تک جانا پڑتا۔ وہ سب ایک کِلک کی دوری پر آگئے، گھنٹوں باتیں، قصے اور کہانیوں کا تبادلہ با آسانی ہوجاتا ہے۔ ان باتوں میں گرما گرمی پاکستان بھارت تعلقات، مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کے حالات، بین الاقوامی سطح پر بدلتے ہوئے حالات اور کشمیریوں کا مستقبل اکثر زیرِ بحث آتی ہیں۔
برہان وانی کی شہادت کے بعد جس طرح نوجوانوں میں ہندوستان سے آزادی کی تحریک نے زور پکڑا ہے، 70 سالوں میں ایسی بیداریِ کشمیر میں نہیں دیکھی گئی۔ گذشتہ دنوں مقبوضہ کشمیر کے صحافیوں کے ایک فیس بک گروپ میں بحث جاری تھی۔ بحث کا موضوع کشمیر میں جاری جدوجہد اور پاکستان کا کردار تھا۔
عدیل بھٹ ایک ریاستی اخبار سے وابستہ ہیں، انہوں نے کشمیری نوجوانوں اور حُریت کانفرنس کے رہنماؤں سے تفصیلی ملاقاتیں کیں۔ ان کے مطابق کشمیر میں حالیہ جدوجہدِ آزادی وہاں کی عوام نے خالصتاً اپنے زورِ بازو کے ساتھ شروع کی۔ نصف سال تک جاری کرفیو بھی ان کے جذبہ آزادی کو سرد نہیں کر سکا، یہاں تک وادی کی سنگلاخ چٹانوں پر جمی برف کی دبیز چادر بھی ان کے جوش کو منجمد نہ کرسکی۔ کشمیری اپنی آزادی کی تحریک ایک نکاتی ایجنڈے ''الحاق پاکستان'' کے لئے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کشمیریوں کی اُمیدوں کا محور اور مرکز پاکستان ہے، جس کی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت ان کے لئے راحتِ قلب و جان اور امید و یقین کا پیغام ثابت ہوتی ہے، لیکن مشرف دور میں کشمیریوں کی پشت پناہی سے ایک دم پاکستان نے رُخ پھیرلیا جس کے باعث وہاں کی عوام شدید ذہنی اضطراب اور صدمے کی کیفیت سے دوچار ہوگئی تھی۔
پاکستان نے 1990 سے 5 فروری کے دن کو کشمیریوں سے اظہارِ یکجہتی کے دن کے طور پر منانے کا اعلان کیا تھا۔ ان 27 سالوں میں کشمیر کی تحریکِ آزادی میں کئی موڑ آئے، کئی دفعہ پاکستان اور بھارت مذاکرات کی میز پر جمع ہوئے مگر دونوں ممالک کے غیر سنجیدہ رویہ کے باعث کشمیریوں کا خواب شرمندہِ تعبیر نہ ہوسکا۔ عافیہ سرور سوشیالوجی کی پروفیسر ہیں، ان کا کہنا تھا کہ 1990 کے بعد مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کا ایک کرب ناک دور آیا، گھروں سے بےگناہ نوجوانوں کو اٹھالیا جاتا اور جعلی مقابلوں میں قتل کردیا جاتا، گھر گھر تلاشی کے دوران بزرگوں اور عورتوں کی تذلیل کی جاتی، اکثرعورتوں کی عصمت دری کے واقعات بھی رونما ہوتے رہے ہیں۔ سینکڑوں خواتین آدھی بیوہ بن کر جی رہی ہیں۔
بھارتی جیلوں میں انسانیت سوز مظالم کی ان گنت داستانیں دیکھنے کو ملیں، دنیا بھر میں بھارتی فوج کےغیر قانونی عقوبت خانوں کے مظالم کی بازگشت سنائی دی، لیکن دوسری جانب اس دوران کشمیر میں ایک نسل پروان چڑھ رہی تھی جنہوں نے اپنی ماؤں کی زبانوں سے لوریوں کی جگہ سسکیاں سنیں۔ چمکتی اور پُرامید آنکھوں میں آنسوؤں کا ایک سیلِ رواں بہتا ہوا دیکھا۔ یہ نسل جب جوان ہوئی تو ان کے اندر انتقام کا جذبہ جواں تھا۔ بھارتی قبضے کے خلاف نفرت اور انتقام لئے یہ نسل پروان چڑھی۔ اپنی جوانی کا آغاز باقی نوجوانوں کی نسبت بےفکری کی بجائے بھارت سے آزادی کے خواب کے ساتھ کیا۔ یہی وجہ ہے کہ کشمیر میں آج بھارتی قبضے کے خلاف نبرد آزما لوگوں میں ننانوے فیصد نوجوان ہیں، یہی نوجوان قیادت کر رہے ہیں اور یہی نوجوان آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
اُم ِسیماب کے نام سے سوشل میڈیا پر کشمیر کی جدوجہدِ آزادی کو دنیا بھر کے سامنے پیش کرنے والی پلوامہ کی رہائشی صحافی کا کہنا تھا کہ کشمیری اپنے جذبے کے تحت اور اپنے دست و بازو کی طاقت سے جدوجہد آزادی کو دوام تو بخش رہے ہیں مگر یہاں کے نوجوان پاکستان کے کردار سے مایوس ہیں۔ برہان وانی کی شہادت کے بعد جس طرح کشمیر میں تحریک نے زور پکڑا، پاکستانی حکمرانوں سے اس موقع پر کشمیر کا مقدمہ نہیں لڑا۔ مودی نے اپنی مکارانہ چالیں چلتا رہا اور پاکستانی حکمران کشمیر کا مقدمہ لڑنے کے بجائے اپنی صفائیاں دینے میں مصروف رہے۔
شمشیر میر دہلی میں قانون کی تعلیم حاصل کررہے ہیں، انہوں نے پاکستانی سیاست دانوں کے کردار پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر پاکستانی حکمرانوں کے ایجنڈے میں شامل ہی نہیں، حکومت اگر کشمیر کے حوالے سے کوئی سیشن رکھتی ہے تواپوزیشن اپنی ہٹ دھرمی کی وجہ سے اس میں شریک نہیں ہوتی اور انڈیا دنیا بھر میں پاکستان کے خلاف خطرناک پروپیگنڈا کرتا ہے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی آج تک اتنی ناکام نہیں ہوئی جتنی برہان وانی کی شہادت کے بعد ناکام نظر آئی۔ کشمیر کے عوام پاکستانی عوام اور حکمرانوں کی طرف سے چند بینرز اور سیمینارز منعقد کرا، کر جان چھڑانے سے مطمعن نہیں ہیں۔ انہیں عمل چاہیئے، انہیں کامیاب سفارت کاری درکار ہے۔ اب وہ طفل تسلیوں اور بیانات سے مطمعن نہیں ہیں۔ وہ اب اقوامِ عالم میں کشمیر کا مقدمہ احسن انداز میں لڑنے والے وکیل کے متمنی ہیں۔
یہ تو تھیں چند کشمیریوں کی رائے، مگر میری نظر میں کشمیری اپنے دُکھ کا اظہار درست انداز میں کر رہے ہیں۔ پاکستانی سیاست دان محض چند بینرز اور یک جہتی کا راگ الاپ کر اپنے ووٹ بینک میں اضافہ تو کررہے ہیں مگر ان کے کردار اور جدوجہد میں اخلاص نہیں ہے۔ کشمیری عوام، پاکستان زندہ باد کا نعرہ وادی میں اپنے خون سے تحریر کرتے ہیں اور ہم غٹاغٹ منرل واٹر پی کر، ائیر کنڈیشنر کمروں میں بیٹھ کر بس بینروں پر جذباتی تحریروں کی عبارات ہی تلاش کرنے میں مگن رہتے ہیں۔ انٹرنیٹ سے کشمیریوں کی بےبسی اور لاچاری کی تصاویر ڈاؤن لوڈ کرکے چندہ تو اکٹھا کر لیتے ہیں مگر کشمیریوں کے حقوق کے لئے عالمی فورمز پر آواز بلند کرنے سے گھبراتے ہیں۔ مودی سے ساڑھیوں کا تبادلہ کر کے فخر محسوس کرتے ہیں مگر کشمیری خواتین کے دریدہ آنچل اور زخمی جگر کے لئے مرہم کا بندوبست نہیں کر رہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستانی عوام اور حکمران بین الاقوامی فورمز پر کشمیر کا مقدمہ اخلاص اور لالچ کے بناء لڑیں اور سری نگر کے لال چوک میں قومی پرچم لہرانے کا کشمیریوں کا خواب پورا کرنے میں ان کا ساتھ دیں۔ پاکستان کی غیر سنجیدگی اور کشمیر کے مسئلہ پر خاموشی کی وجہ سے جہاں کشمیری عوام میں مایوسی پھیل رہی ہے، وہیں ہندوستان کو کشمیر پر قبضہ برقرار رکھنے میں آسانی پیدا ہورہی ہے اور کشمیر پر ہندوستان کا قبضہ درحقیقت پاکستان کی شہ رگ پر قبضہ ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
کشمیر میری محبت ہے، تھا اور شاید جب تک سانسیں ہیں یہ محبت قائم ہے گی۔ بچپن سے ہی کانوں میں مقبوضہ کشمیر کے مظالم کی داستانیں سنائی دیں۔ جب جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا تو خود کو گلوبل ویلج میں پایا۔ پل بھر میں دنیا بھر کی خبریں ملتی گئیں۔ یہی وجہ تھی شاید جن عزیز و اقارب کو دیکھنے کے لئے دریائے نیلم کے کنارے، پیر پنجال کے سنگلاخ پہاڑوں تک جانا پڑتا۔ وہ سب ایک کِلک کی دوری پر آگئے، گھنٹوں باتیں، قصے اور کہانیوں کا تبادلہ با آسانی ہوجاتا ہے۔ ان باتوں میں گرما گرمی پاکستان بھارت تعلقات، مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کے حالات، بین الاقوامی سطح پر بدلتے ہوئے حالات اور کشمیریوں کا مستقبل اکثر زیرِ بحث آتی ہیں۔
برہان وانی کی شہادت کے بعد جس طرح نوجوانوں میں ہندوستان سے آزادی کی تحریک نے زور پکڑا ہے، 70 سالوں میں ایسی بیداریِ کشمیر میں نہیں دیکھی گئی۔ گذشتہ دنوں مقبوضہ کشمیر کے صحافیوں کے ایک فیس بک گروپ میں بحث جاری تھی۔ بحث کا موضوع کشمیر میں جاری جدوجہد اور پاکستان کا کردار تھا۔
عدیل بھٹ ایک ریاستی اخبار سے وابستہ ہیں، انہوں نے کشمیری نوجوانوں اور حُریت کانفرنس کے رہنماؤں سے تفصیلی ملاقاتیں کیں۔ ان کے مطابق کشمیر میں حالیہ جدوجہدِ آزادی وہاں کی عوام نے خالصتاً اپنے زورِ بازو کے ساتھ شروع کی۔ نصف سال تک جاری کرفیو بھی ان کے جذبہ آزادی کو سرد نہیں کر سکا، یہاں تک وادی کی سنگلاخ چٹانوں پر جمی برف کی دبیز چادر بھی ان کے جوش کو منجمد نہ کرسکی۔ کشمیری اپنی آزادی کی تحریک ایک نکاتی ایجنڈے ''الحاق پاکستان'' کے لئے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کشمیریوں کی اُمیدوں کا محور اور مرکز پاکستان ہے، جس کی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت ان کے لئے راحتِ قلب و جان اور امید و یقین کا پیغام ثابت ہوتی ہے، لیکن مشرف دور میں کشمیریوں کی پشت پناہی سے ایک دم پاکستان نے رُخ پھیرلیا جس کے باعث وہاں کی عوام شدید ذہنی اضطراب اور صدمے کی کیفیت سے دوچار ہوگئی تھی۔
پاکستان نے 1990 سے 5 فروری کے دن کو کشمیریوں سے اظہارِ یکجہتی کے دن کے طور پر منانے کا اعلان کیا تھا۔ ان 27 سالوں میں کشمیر کی تحریکِ آزادی میں کئی موڑ آئے، کئی دفعہ پاکستان اور بھارت مذاکرات کی میز پر جمع ہوئے مگر دونوں ممالک کے غیر سنجیدہ رویہ کے باعث کشمیریوں کا خواب شرمندہِ تعبیر نہ ہوسکا۔ عافیہ سرور سوشیالوجی کی پروفیسر ہیں، ان کا کہنا تھا کہ 1990 کے بعد مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کا ایک کرب ناک دور آیا، گھروں سے بےگناہ نوجوانوں کو اٹھالیا جاتا اور جعلی مقابلوں میں قتل کردیا جاتا، گھر گھر تلاشی کے دوران بزرگوں اور عورتوں کی تذلیل کی جاتی، اکثرعورتوں کی عصمت دری کے واقعات بھی رونما ہوتے رہے ہیں۔ سینکڑوں خواتین آدھی بیوہ بن کر جی رہی ہیں۔
بھارتی جیلوں میں انسانیت سوز مظالم کی ان گنت داستانیں دیکھنے کو ملیں، دنیا بھر میں بھارتی فوج کےغیر قانونی عقوبت خانوں کے مظالم کی بازگشت سنائی دی، لیکن دوسری جانب اس دوران کشمیر میں ایک نسل پروان چڑھ رہی تھی جنہوں نے اپنی ماؤں کی زبانوں سے لوریوں کی جگہ سسکیاں سنیں۔ چمکتی اور پُرامید آنکھوں میں آنسوؤں کا ایک سیلِ رواں بہتا ہوا دیکھا۔ یہ نسل جب جوان ہوئی تو ان کے اندر انتقام کا جذبہ جواں تھا۔ بھارتی قبضے کے خلاف نفرت اور انتقام لئے یہ نسل پروان چڑھی۔ اپنی جوانی کا آغاز باقی نوجوانوں کی نسبت بےفکری کی بجائے بھارت سے آزادی کے خواب کے ساتھ کیا۔ یہی وجہ ہے کہ کشمیر میں آج بھارتی قبضے کے خلاف نبرد آزما لوگوں میں ننانوے فیصد نوجوان ہیں، یہی نوجوان قیادت کر رہے ہیں اور یہی نوجوان آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
اُم ِسیماب کے نام سے سوشل میڈیا پر کشمیر کی جدوجہدِ آزادی کو دنیا بھر کے سامنے پیش کرنے والی پلوامہ کی رہائشی صحافی کا کہنا تھا کہ کشمیری اپنے جذبے کے تحت اور اپنے دست و بازو کی طاقت سے جدوجہد آزادی کو دوام تو بخش رہے ہیں مگر یہاں کے نوجوان پاکستان کے کردار سے مایوس ہیں۔ برہان وانی کی شہادت کے بعد جس طرح کشمیر میں تحریک نے زور پکڑا، پاکستانی حکمرانوں سے اس موقع پر کشمیر کا مقدمہ نہیں لڑا۔ مودی نے اپنی مکارانہ چالیں چلتا رہا اور پاکستانی حکمران کشمیر کا مقدمہ لڑنے کے بجائے اپنی صفائیاں دینے میں مصروف رہے۔
شمشیر میر دہلی میں قانون کی تعلیم حاصل کررہے ہیں، انہوں نے پاکستانی سیاست دانوں کے کردار پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر پاکستانی حکمرانوں کے ایجنڈے میں شامل ہی نہیں، حکومت اگر کشمیر کے حوالے سے کوئی سیشن رکھتی ہے تواپوزیشن اپنی ہٹ دھرمی کی وجہ سے اس میں شریک نہیں ہوتی اور انڈیا دنیا بھر میں پاکستان کے خلاف خطرناک پروپیگنڈا کرتا ہے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی آج تک اتنی ناکام نہیں ہوئی جتنی برہان وانی کی شہادت کے بعد ناکام نظر آئی۔ کشمیر کے عوام پاکستانی عوام اور حکمرانوں کی طرف سے چند بینرز اور سیمینارز منعقد کرا، کر جان چھڑانے سے مطمعن نہیں ہیں۔ انہیں عمل چاہیئے، انہیں کامیاب سفارت کاری درکار ہے۔ اب وہ طفل تسلیوں اور بیانات سے مطمعن نہیں ہیں۔ وہ اب اقوامِ عالم میں کشمیر کا مقدمہ احسن انداز میں لڑنے والے وکیل کے متمنی ہیں۔
یہ تو تھیں چند کشمیریوں کی رائے، مگر میری نظر میں کشمیری اپنے دُکھ کا اظہار درست انداز میں کر رہے ہیں۔ پاکستانی سیاست دان محض چند بینرز اور یک جہتی کا راگ الاپ کر اپنے ووٹ بینک میں اضافہ تو کررہے ہیں مگر ان کے کردار اور جدوجہد میں اخلاص نہیں ہے۔ کشمیری عوام، پاکستان زندہ باد کا نعرہ وادی میں اپنے خون سے تحریر کرتے ہیں اور ہم غٹاغٹ منرل واٹر پی کر، ائیر کنڈیشنر کمروں میں بیٹھ کر بس بینروں پر جذباتی تحریروں کی عبارات ہی تلاش کرنے میں مگن رہتے ہیں۔ انٹرنیٹ سے کشمیریوں کی بےبسی اور لاچاری کی تصاویر ڈاؤن لوڈ کرکے چندہ تو اکٹھا کر لیتے ہیں مگر کشمیریوں کے حقوق کے لئے عالمی فورمز پر آواز بلند کرنے سے گھبراتے ہیں۔ مودی سے ساڑھیوں کا تبادلہ کر کے فخر محسوس کرتے ہیں مگر کشمیری خواتین کے دریدہ آنچل اور زخمی جگر کے لئے مرہم کا بندوبست نہیں کر رہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستانی عوام اور حکمران بین الاقوامی فورمز پر کشمیر کا مقدمہ اخلاص اور لالچ کے بناء لڑیں اور سری نگر کے لال چوک میں قومی پرچم لہرانے کا کشمیریوں کا خواب پورا کرنے میں ان کا ساتھ دیں۔ پاکستان کی غیر سنجیدگی اور کشمیر کے مسئلہ پر خاموشی کی وجہ سے جہاں کشمیری عوام میں مایوسی پھیل رہی ہے، وہیں ہندوستان کو کشمیر پر قبضہ برقرار رکھنے میں آسانی پیدا ہورہی ہے اور کشمیر پر ہندوستان کا قبضہ درحقیقت پاکستان کی شہ رگ پر قبضہ ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔