کون ہے اس کا ذمے دار
نائلہ رند کا کیس ابھی تازہ ہے۔ ملزم گرفتار بھی ہوگیا ہے اور پولیس کی تحویل میں ہے
وہ ذہین تھی، پوزیشن ہولڈر تھی، شعبہ سندھی کی طالبہ تھی لیکن 31 دسمبر کی رات کو سندھ یونیورسٹی کی اس ذہین طالبہ نے پنکھے سے لٹک کر جان دے دی۔ یہ قتل ہے یا خودکشی؟ اس کا فیصلہ تو عدالت اور پولیس کریگی لیکن سوال یہ ہے کہ نائلہ رند ایک شکاری کے جال میں کیونکر پھنسی۔ انیس خاصخیلی جوکہ ایک مقامی کالج کا لیکچرر ہے، کیا وہ لیکچرر کہلانے کے قابل ہے؟ شعبہ تعلیم سے منسلک شخص اور اتنا بڑا بلیک میلر کہ اس کے لیپ ٹاپ اور موبائل ڈیٹا سے 30 سے زیادہ لڑکیوں کے نمبر ملے، جنھیں وہ بلیک میل کرتا تھا۔ کبھی بے لباس ویڈیو کلپ بھیج کر، کبھی نازیبا پیغامات بھیج کر۔
نائلہ رند کا کیس ابھی تازہ ہے۔ ملزم گرفتار بھی ہوگیا ہے اور پولیس کی تحویل میں ہے۔ لیکن ایک سوال ہے کہ یہ نوبت کیونکر آئی۔ سوشل میڈیا، خصوصاً فیس بک اور واٹس ایپ پہ ہونے والی دوستیاں کس طرح اخلاقی اور سماجی حدود کو پھلانگ کر غیر اخلاقی اور نازیبا رویوں تک پہنچ جاتی ہیں۔ میں نے پہلے بھی کئی بار موبائل فون اور سوشل میڈیا پہ لڑکے اور لڑکیوں کی ہونے والی دوستیوں کو موضوع بنایا ہے۔ میں اب بھی ذمے داری والدین پر ڈالتی ہوں۔ بالخصوص ماں پر کہ وہ لڑکیوں کو ایسی غیر اخلاقی دوستیوں کے مضر اثرات کے بارے میں بتائیں۔ لیکن افسوس کہ 98 فیصد گھرانوں میں یہ حال ہے کہ اسکول جانے والے کم عمر بچوں سے لے کر یونیورسٹی کی طالبات تک موبائل فیس بک، واٹس ایپ اور میسنجر کا استعمال غیر معمولی حد تک بڑھ گیا ہے۔
آپ کسی بھی یونیورسٹی، کالج یا کوچنگ سینٹر میں چلے جائیے، ہر طرف طالبات اور طلبا کے ہاتھوں میں موبائل پہ تھرکتی انگلیاں اور اسکرین پہ جمی نظریں آپ کا استقبال کریں گی۔ سوشل میڈیا کے غیر معمولی بڑھتے ہوئے استعمال نے خاندان کو بکھیر دیا ہے۔ ڈائننگ ٹیبل پہ بیٹھے کھانا کھاتے یا ڈرائنگ روم میں بیٹھے افراد بھی ایک دوسرے سے بات کرنے کے بجائے موبائل پہ مصروف نظر آئیں گے۔
نائلہ رند کی موت ایک المناک حادثہ ہے۔ ایک ذہین اور پوزیشن ہولڈر طالبہ تعلیم کے اختتام پر زندگی ہار گئی۔ ابھی تو اس کی عملی زندگی کا آغاز بھی نہیں ہوا تھا۔ ہم سب اس دکھ میں شریک ہیں، اور اس کی مذمت کرتے ہیں۔ پولیس اپنا کام بہتر طریقے سے کر رہی ہے۔ لیکن اس سانحے سے دو سوال ذہن میں اٹھتے ہیں۔
(1) یونیورسٹی گرلز ہاسٹل میں مرد حضرات کس طرح داخل ہوتے تھے؟ اس کا ذمے دار کون ہے؟
(2) مرد دوستوں کے پاس غیر اخلاقی اور بے لباس ویڈیوز کس طرح پہنچتی تھیں؟ یعنی یہ نامناسب ویڈیو کیونکر بنتی تھیں؟
کسی بھی گرلز ہاسٹل میں انتظامی امور عموماً کسی سینئر استاد کے ہاتھ میں ہوتے ہیں، خاص طور سے وارڈن کی ذمے داری بہت اہم ہے۔ یہ عہدہ بھی سینئر استاد کے پاس ہوتا ہے۔ لیکن ایک اخباری رپورٹ کے مطابق ماروی ہاسٹل کے بعض ملازمین ہاسٹل میں قیام پذیر طالبات کو ''خاص مہمانوں'' سے ملاقاتیں کروانے کے لیے رشوت لیتے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو جو لوگ اس کاروبار میں ملوث ہیں انھیں بھی سزا ملنی چاہیے۔
ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ وارڈن کے طور پر کسی سینئر استاد کے بجائے یہ اہم اور حساس ذمے داری ایک طالبہ کے سپرد تھی۔ ایسا لگتا ہے کوئی منظم گروہ یہ کام کررہا ہے۔ اخباری اطلاعات یہ بھی ظاہر کرتی ہیں کہ گرلز ہاسٹل میں مقیم طالبات کو ذہنی اور جسمانی طور پر تشدد کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ یہ منظم گروہ کس کی پشت پناہی پر طالبات کو ہراساں کرتا ہے اور اب جب کہ ملزم لاک اپ میں ہے اور پولیس ہر پہلو سے اس کیس کا جائزہ بڑی تندہی سے لے رہی ہے تو وہ کون ہیں جو تفتیش کو روکنا چاہتے ہیں۔
تفتیشی افسران کو باقاعدہ دھمکیاں دی جا رہی ہیں کہ معاملے کی انکوائری روک دیں ورنہ سنگین نتائج کے لیے تیار ہوجائیں۔ لگتا ہے کہ ایک انیس خاصخیلی تو بدقسمتی سے گرفتار ہوگیا، لیکن ابھی اور بھی چہرے ہیں جن کا سامنے آنا ضروری ہے اور وہی دھمکیاں بھی دلوا رہے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل کراچی میں قائم بے سہارا عورتوں کے ایک ادارے کے متعلق بھی ایسی ہی باتیں منظر عام پر آئی تھیں۔ ہاسٹل ہوں یا دارالامان جیسے ادارے، بغیر وارڈن کی اجازت کے نہ کوئی اندر آسکتا ہے، نہ دیر رات تک باہر رہ سکتا ہے۔ ہاسٹل میں قیام کرنے والی طالبات کو ابتدا ہی میں فارم پُر کرتے وقت ملاقاتیوں کے نام اور رشتہ بتانا پڑتا ہے۔ پھر یہ وارداتیں کس طرح ہوئیں؟
سندھ یونیورسٹی کی طالبہ نائلہ رند کی خودکشی سے پہلے بھی سائبر کرائم کے حوالے سے بہت سے کیس سامنے آئے ہیں اور ان پر گرفتاریاں بھی ہوئی ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ملزم انیس خاصخیلی کے پاس مختلف لڑکیوں کی اور نائلہ کی ویڈیو کلپ اور نازیبا تصاویر کس طرح پہنچیں؟ کوئی جنات تو نہیں تھے جو اپنا کام دکھا گئے۔ یقیناً یہ ملاقاتیں کہیں نہ کہیں تو ہوئی ہوں گی، جبھی تصویر کشی کی نوبت آئی۔
جب ایسی وارداتیں ہوتی ہیں تو والدین سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ کس کو کیا جواب دیں کہ ان کی بیٹی کی تصویریں ملزم کے پاس کیسے گئیں؟ کون ہے ذمے دار جس کی لاپرواہی کی بنیاد پر یہ سانحہ پیش آیا؟ ضرورت اس امر کی تو ضرور ہے کہ واقعے کی تشہیر کی جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو آگاہی ہو اور وہ اپنی بیٹیوں کو آنے والے سانحات سے آگاہ کرسکیں۔ لیکن افسوس اس بات کا بھی ہے کہ نوجوان نسل واقعی بڑی تیزی سے بے راہ رو اور بدتمیز ہوتی جا رہی ہے۔ ماں باپ کو ٹکا سا جواب دینا انھیں میڈیا نے سکھایا ہے۔
ہر دوسرے ڈرامے میں لڑکیوں کو ماں باپ اور بزرگوں کی بے عزتی کرتے دکھانا عام سی بات ہے۔ ماں باپ اگر کسی بات پہ نصیحت کرتے ہیں تو نہایت بدتمیزی اور ترش روی سے جواب دیا جاتا ہے۔ ''میں وہی کروں گی جو میرا جی چاہے گا۔ آپ لوگ مجھ پر اپنی مرضی مسلط نہیں کرسکتے۔'' ہر دوسرے ڈرامے میں گھروں سے بھاگ کر شادیاں کرنے کے مناظر اور دوران طالب علمی لڑکوں سے تعلقات استوار کرنے کی ترغیب عام ہے۔
لیکن ایک المیہ اور بھی ہے کہ آج کل والدین اس بات کے شاکی نظر آتے ہیں کہ اولاد ان کا کہنا نہیں مانتی۔ ماں اگر پڑھی لکھی ہے تو اس کی نصیحت کو یہ کہہ کر ہنسی میں اڑا دیا جاتا ہے کہ ''یہ آپ کا زمانہ نہیں ہے اور آپ مجھے میری مرضی کرنے سے نہیں روک سکتیں، میں اب خودمختار ہوں۔'' اور ان پڑھ ماں اول تو ٹوکنے کی ہمت ہی نہیں کرتی، اور اگر بے چاری ہمت کر بھی لے تو منہ بناکر کہہ دیا جاتا ہے۔ ''آپ چپ رہیں، آپ کو کیا پتا آج کل کی باتوں کا۔'' ایسے میں ماں بے چاری کیا کرے۔ لیکن اتنا تو ضرور وہ کرسکتی ہے کہ بیٹیوں کو پیار محبت سے ان باتوں سے آگاہ کریں جو انھیں تباہ کرسکتی ہیں۔ اب بے چاری نائلہ رند کی ماں پر کیا گزر رہی ہوگی؟
باپ، بھائی اپنا سر پیٹ رہے ہوں گے کہ ہونہار پوزیشن ہولڈر طالبہ ایک بدطینت شکاری کے جال میں پھنس کر اپنی زندگی کا خاتمہ کرلے گی۔ملزم نے لڑکیوں کی فطری کمزوری سے فائدہ اٹھایا۔ انھیں ملاقاتوں کے بعد شادی کا جھانسا دیا۔ لیکچرر تھا اس لیے لڑکیاں آسانی سے اس کا شکار بن گئیں۔ پھر اس ملک میں اچھے رشتوں کی کمیابی بھی ایک بڑی وجہ تھی۔ نائلہ تو شادی سے انکار کا ''بوجوہ'' صدمہ برداشت نہ کرسکی۔ لیکن بقیہ وہ تیس لڑکیاں کس حد تک ملزم کی ہوس کا نشانہ بنیں، یہ بات ابھی سامنے نہیں آئی۔
عجیب معاشرہ ہے ہمارا زیادتی اور ظلم بھی عورت کے ساتھ ہو اور سزا بھی اسے ہی ملتی ہے۔ متاثر لڑکیاں کس حد تک تباہ ہوئیں اور ملزم نے انھیں کس کس طرح بلیک میل کرکے اپنا مقصد حاصل کیا۔ کاش اس معاملے پر ملزم کو عمر قید کی سزا ملنی چاہیے۔ ساتھ ہی وارڈن کو اور ملوث عملے کو بھی سزا ملنی چاہیے کیونکہ بغیر ان کی مدد کے کوئی گرلز ہاسٹل میں داخل نہیں ہوسکتا۔ حکام بالا کو اس سانحے کا نوٹس لے کر ملزمان کو سخت سے سخت سزا دلوانی چاہیے۔
نائلہ رند کا کیس ابھی تازہ ہے۔ ملزم گرفتار بھی ہوگیا ہے اور پولیس کی تحویل میں ہے۔ لیکن ایک سوال ہے کہ یہ نوبت کیونکر آئی۔ سوشل میڈیا، خصوصاً فیس بک اور واٹس ایپ پہ ہونے والی دوستیاں کس طرح اخلاقی اور سماجی حدود کو پھلانگ کر غیر اخلاقی اور نازیبا رویوں تک پہنچ جاتی ہیں۔ میں نے پہلے بھی کئی بار موبائل فون اور سوشل میڈیا پہ لڑکے اور لڑکیوں کی ہونے والی دوستیوں کو موضوع بنایا ہے۔ میں اب بھی ذمے داری والدین پر ڈالتی ہوں۔ بالخصوص ماں پر کہ وہ لڑکیوں کو ایسی غیر اخلاقی دوستیوں کے مضر اثرات کے بارے میں بتائیں۔ لیکن افسوس کہ 98 فیصد گھرانوں میں یہ حال ہے کہ اسکول جانے والے کم عمر بچوں سے لے کر یونیورسٹی کی طالبات تک موبائل فیس بک، واٹس ایپ اور میسنجر کا استعمال غیر معمولی حد تک بڑھ گیا ہے۔
آپ کسی بھی یونیورسٹی، کالج یا کوچنگ سینٹر میں چلے جائیے، ہر طرف طالبات اور طلبا کے ہاتھوں میں موبائل پہ تھرکتی انگلیاں اور اسکرین پہ جمی نظریں آپ کا استقبال کریں گی۔ سوشل میڈیا کے غیر معمولی بڑھتے ہوئے استعمال نے خاندان کو بکھیر دیا ہے۔ ڈائننگ ٹیبل پہ بیٹھے کھانا کھاتے یا ڈرائنگ روم میں بیٹھے افراد بھی ایک دوسرے سے بات کرنے کے بجائے موبائل پہ مصروف نظر آئیں گے۔
نائلہ رند کی موت ایک المناک حادثہ ہے۔ ایک ذہین اور پوزیشن ہولڈر طالبہ تعلیم کے اختتام پر زندگی ہار گئی۔ ابھی تو اس کی عملی زندگی کا آغاز بھی نہیں ہوا تھا۔ ہم سب اس دکھ میں شریک ہیں، اور اس کی مذمت کرتے ہیں۔ پولیس اپنا کام بہتر طریقے سے کر رہی ہے۔ لیکن اس سانحے سے دو سوال ذہن میں اٹھتے ہیں۔
(1) یونیورسٹی گرلز ہاسٹل میں مرد حضرات کس طرح داخل ہوتے تھے؟ اس کا ذمے دار کون ہے؟
(2) مرد دوستوں کے پاس غیر اخلاقی اور بے لباس ویڈیوز کس طرح پہنچتی تھیں؟ یعنی یہ نامناسب ویڈیو کیونکر بنتی تھیں؟
کسی بھی گرلز ہاسٹل میں انتظامی امور عموماً کسی سینئر استاد کے ہاتھ میں ہوتے ہیں، خاص طور سے وارڈن کی ذمے داری بہت اہم ہے۔ یہ عہدہ بھی سینئر استاد کے پاس ہوتا ہے۔ لیکن ایک اخباری رپورٹ کے مطابق ماروی ہاسٹل کے بعض ملازمین ہاسٹل میں قیام پذیر طالبات کو ''خاص مہمانوں'' سے ملاقاتیں کروانے کے لیے رشوت لیتے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو جو لوگ اس کاروبار میں ملوث ہیں انھیں بھی سزا ملنی چاہیے۔
ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ وارڈن کے طور پر کسی سینئر استاد کے بجائے یہ اہم اور حساس ذمے داری ایک طالبہ کے سپرد تھی۔ ایسا لگتا ہے کوئی منظم گروہ یہ کام کررہا ہے۔ اخباری اطلاعات یہ بھی ظاہر کرتی ہیں کہ گرلز ہاسٹل میں مقیم طالبات کو ذہنی اور جسمانی طور پر تشدد کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ یہ منظم گروہ کس کی پشت پناہی پر طالبات کو ہراساں کرتا ہے اور اب جب کہ ملزم لاک اپ میں ہے اور پولیس ہر پہلو سے اس کیس کا جائزہ بڑی تندہی سے لے رہی ہے تو وہ کون ہیں جو تفتیش کو روکنا چاہتے ہیں۔
تفتیشی افسران کو باقاعدہ دھمکیاں دی جا رہی ہیں کہ معاملے کی انکوائری روک دیں ورنہ سنگین نتائج کے لیے تیار ہوجائیں۔ لگتا ہے کہ ایک انیس خاصخیلی تو بدقسمتی سے گرفتار ہوگیا، لیکن ابھی اور بھی چہرے ہیں جن کا سامنے آنا ضروری ہے اور وہی دھمکیاں بھی دلوا رہے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل کراچی میں قائم بے سہارا عورتوں کے ایک ادارے کے متعلق بھی ایسی ہی باتیں منظر عام پر آئی تھیں۔ ہاسٹل ہوں یا دارالامان جیسے ادارے، بغیر وارڈن کی اجازت کے نہ کوئی اندر آسکتا ہے، نہ دیر رات تک باہر رہ سکتا ہے۔ ہاسٹل میں قیام کرنے والی طالبات کو ابتدا ہی میں فارم پُر کرتے وقت ملاقاتیوں کے نام اور رشتہ بتانا پڑتا ہے۔ پھر یہ وارداتیں کس طرح ہوئیں؟
سندھ یونیورسٹی کی طالبہ نائلہ رند کی خودکشی سے پہلے بھی سائبر کرائم کے حوالے سے بہت سے کیس سامنے آئے ہیں اور ان پر گرفتاریاں بھی ہوئی ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ملزم انیس خاصخیلی کے پاس مختلف لڑکیوں کی اور نائلہ کی ویڈیو کلپ اور نازیبا تصاویر کس طرح پہنچیں؟ کوئی جنات تو نہیں تھے جو اپنا کام دکھا گئے۔ یقیناً یہ ملاقاتیں کہیں نہ کہیں تو ہوئی ہوں گی، جبھی تصویر کشی کی نوبت آئی۔
جب ایسی وارداتیں ہوتی ہیں تو والدین سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ کس کو کیا جواب دیں کہ ان کی بیٹی کی تصویریں ملزم کے پاس کیسے گئیں؟ کون ہے ذمے دار جس کی لاپرواہی کی بنیاد پر یہ سانحہ پیش آیا؟ ضرورت اس امر کی تو ضرور ہے کہ واقعے کی تشہیر کی جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو آگاہی ہو اور وہ اپنی بیٹیوں کو آنے والے سانحات سے آگاہ کرسکیں۔ لیکن افسوس اس بات کا بھی ہے کہ نوجوان نسل واقعی بڑی تیزی سے بے راہ رو اور بدتمیز ہوتی جا رہی ہے۔ ماں باپ کو ٹکا سا جواب دینا انھیں میڈیا نے سکھایا ہے۔
ہر دوسرے ڈرامے میں لڑکیوں کو ماں باپ اور بزرگوں کی بے عزتی کرتے دکھانا عام سی بات ہے۔ ماں باپ اگر کسی بات پہ نصیحت کرتے ہیں تو نہایت بدتمیزی اور ترش روی سے جواب دیا جاتا ہے۔ ''میں وہی کروں گی جو میرا جی چاہے گا۔ آپ لوگ مجھ پر اپنی مرضی مسلط نہیں کرسکتے۔'' ہر دوسرے ڈرامے میں گھروں سے بھاگ کر شادیاں کرنے کے مناظر اور دوران طالب علمی لڑکوں سے تعلقات استوار کرنے کی ترغیب عام ہے۔
لیکن ایک المیہ اور بھی ہے کہ آج کل والدین اس بات کے شاکی نظر آتے ہیں کہ اولاد ان کا کہنا نہیں مانتی۔ ماں اگر پڑھی لکھی ہے تو اس کی نصیحت کو یہ کہہ کر ہنسی میں اڑا دیا جاتا ہے کہ ''یہ آپ کا زمانہ نہیں ہے اور آپ مجھے میری مرضی کرنے سے نہیں روک سکتیں، میں اب خودمختار ہوں۔'' اور ان پڑھ ماں اول تو ٹوکنے کی ہمت ہی نہیں کرتی، اور اگر بے چاری ہمت کر بھی لے تو منہ بناکر کہہ دیا جاتا ہے۔ ''آپ چپ رہیں، آپ کو کیا پتا آج کل کی باتوں کا۔'' ایسے میں ماں بے چاری کیا کرے۔ لیکن اتنا تو ضرور وہ کرسکتی ہے کہ بیٹیوں کو پیار محبت سے ان باتوں سے آگاہ کریں جو انھیں تباہ کرسکتی ہیں۔ اب بے چاری نائلہ رند کی ماں پر کیا گزر رہی ہوگی؟
باپ، بھائی اپنا سر پیٹ رہے ہوں گے کہ ہونہار پوزیشن ہولڈر طالبہ ایک بدطینت شکاری کے جال میں پھنس کر اپنی زندگی کا خاتمہ کرلے گی۔ملزم نے لڑکیوں کی فطری کمزوری سے فائدہ اٹھایا۔ انھیں ملاقاتوں کے بعد شادی کا جھانسا دیا۔ لیکچرر تھا اس لیے لڑکیاں آسانی سے اس کا شکار بن گئیں۔ پھر اس ملک میں اچھے رشتوں کی کمیابی بھی ایک بڑی وجہ تھی۔ نائلہ تو شادی سے انکار کا ''بوجوہ'' صدمہ برداشت نہ کرسکی۔ لیکن بقیہ وہ تیس لڑکیاں کس حد تک ملزم کی ہوس کا نشانہ بنیں، یہ بات ابھی سامنے نہیں آئی۔
عجیب معاشرہ ہے ہمارا زیادتی اور ظلم بھی عورت کے ساتھ ہو اور سزا بھی اسے ہی ملتی ہے۔ متاثر لڑکیاں کس حد تک تباہ ہوئیں اور ملزم نے انھیں کس کس طرح بلیک میل کرکے اپنا مقصد حاصل کیا۔ کاش اس معاملے پر ملزم کو عمر قید کی سزا ملنی چاہیے۔ ساتھ ہی وارڈن کو اور ملوث عملے کو بھی سزا ملنی چاہیے کیونکہ بغیر ان کی مدد کے کوئی گرلز ہاسٹل میں داخل نہیں ہوسکتا۔ حکام بالا کو اس سانحے کا نوٹس لے کر ملزمان کو سخت سے سخت سزا دلوانی چاہیے۔