اپنا قبلہ درست کرنے کی ضرورت ہے اور بس
کسی بھی کام کو کرنے کے لیے منصوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے
چند روز قبل کی ہی بات ہے جب پنجاب کے شہر گوجرہ میں ایک ہی خاندان کے چھ افراد ٹرین کی زد میں آکر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے، وہ سب گاڑی میں بیٹھے تھے اور ایک شخص اپنے بیمار بھائی، بیوی اور بچوں کو علاج کی غرض سے طبیب کے پاس لے جا رہا تھا کہ ریلوے لائن کا پھاٹک نہ ہونے کی وجہ سے گاڑی لپیٹ میں آگئی۔ اس سانحے کے رونما ہونے کے بعد وفاقی وزیر ریلوے سعد رفیق نے فرمایا کہ ڈیڑھ سو مقامات پر پھاٹک نہیں ہیں اور اس حادثے سے قبل تقریباً 80 افراد موت کے منہ میں جاچکے ہیں۔
وزیر صاحب کا بیان ان کی لاپرواہی کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ ذمے داری کس کی ہے؟ کسی بھی صوبے، محکمے یا ادارے کے سربراہ کا اہم ترین فرض ہوتا ہے کہ وہ اپنے صوبے کے شہریوں، ملازمین اور ان کے کاموں کی مکمل جانچ پڑتال کریں کہ آیا جس مقصد کے لیے حلف اٹھایا تھا وہ کام پورا بھی ہو رہا ہے کہ نہیں؟ حلف اٹھاتے وقت ملک و قوم کی خدمت کے دعوے کیے جاتے ہیں، لیکن پھر اقتدار کا نشہ اللہ سے کیا ہوا وعدہ، مخلوق خدا کی خدمت کے جذبے کو سرد کر دیتا ہے اور اسی غفلت کو بے ضمیر کہتے ہیں۔
جب وزیر ریلوے کو یہ بات معلوم ہے کہ ڈیڑھ سو پھاٹک، ریلوے لائن پر موجود نہیں ہیں، جہاں سے لوگ پٹڑی کراس کرتے ہیں، تو پھر کسی بھی وقت حادثہ تو ہوسکتا ہے اور بے قصور لوگوں کی جانیں جاسکتی ہیں۔ لیکن صاحب اقتدار حضرات کا موقف یہ ہے کہ جانیں چلی جائیں ان کی بلا سے، کہ ان کی جان تو محفوظ ہے۔ اور جان کی ہی حفاظت کے لیے گارڈ بلٹ پروف گاڑیاں اور اونچے اونچے محل تعمیر کرتے ہیں۔ اسلحہ بردار محافظوں کو اپنے دروازوں پر بٹھاتے ہیں، ان کے پاس زمینیں، جائیداد، کھیت کھلیان، دوسرے ملکوں میں دولت پیسے کی ریل پیل اور اپنے بچوں کا سنہرا مستقبل موجود ہے، (پانامہ لیکس کے ذریعے سامنے آچکا ہے) ان کے برعکس ان کے ہاری، ان کے ملازمین اور پاکستان کے عوام، غربت و افلاس کی چکی میں دن رات پس رہے ہیں، بنیادی ضرورتیں میسر نہیں۔
وہی گاؤں گوٹھ اور وہاں کے مکینوں کے مسائل۔ تعلیم کے لیے اسکول نہیں، علاج کے لیے اسپتال نہیں، ٹپکتی چھت اور کچے مکان کو پکا کرانے کے لیے رقم نہیں، بھوکے شکم کے لیے روٹی نہیں، اسی وجہ سے آئے دن یہ خبر سننے میں آتی ہے کہ بارشوں کے باعث چھت گرگئی، کچی دیواریں ڈھے گئیں، لوگ مر گئے۔ حکمرانوں کو اس بات کی پرواہ نہیں، پورے ملک کے چاروں صوبوں میں ایسا ہی ظالمانہ رویہ ہے۔
پچھلے چند دنوں کی ہی بات ہے جب کراچی میں ایکسپریس وے کے راستے میں آنے والے سیکڑوں مکانات پر بلڈوزر چلادیا گیا اور مکینوں کو سامان کے ساتھ گھروں سے نکال دیا گیا، بچے، بوڑھے، جوان، خواتین سب بے آسرا، بے چھت کے ہوگئے، اتنی سخت دلی اور ظلم اپنے ہی ملک کے باسیوں کے ساتھ۔ پھر ان حالات میں دوسرے ملکوں کے سربراہوں کی زیادتی کا کیا رونا؟
کسی بھی کام کو کرنے کے لیے منصوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے، کیا یہ ممکن نہیں تھا کہ پہلے گھروں سے بے گھر کرنے والوں کے لیے متبادل جگہ کا انتظام کیا جاتا، وہ سب اپنے گھر خالی کردیتے تب ان کے آشیانوں کو آگ لگائی جاتی، تو شاید انسانیت کی چند سانسیں ضرور بحال ہوتیں۔
پاکستان ریلوے بالکل تباہ ہوچکی ہے، بے چارے مسافر رات دن پریشانیاں اٹھاتے ہیں اور سفر کی صعوبتیں برداشت کرتے ہیں۔ جدید سہولتوں سے آراستہ ریل گاڑیاں چلانے کے بارے میں وزیر موصوف کو ذرہ برابر پرواہ نہیں ہے۔ وہ سیاسی بیانات جوش و جذبے کے ساتھ چینلز پر آکر پابندی سے دیتے ہیں، انھیں حکومت بچانے کی فکر ہے، انسانوں کی جانوں کو بچانے کی نہیں۔ حالات و واقعات نے لوگوں کو مایوسیوں کی دلدل میں دھکیل دیا ہے۔ اس کی وجہ فرعونیت کا دور دورہ ہے اور ہر جگہ ایک فرعون کرسی پر براجمان ہے۔
یہ نام کا مسلمان ہے جب کہ اس کے پاس قرآن پاک کی تعلیم اور خلافت راشدہ کا نظام موجود ہے کہ حکومتیں کس طرح چلائی جاتی ہیں، مخلوق خدا کے درد کو مٹانے کے لیے اپنا چین گنوانا پڑتا ہے، تب دین و دنیا ہاتھ لگتے ہیں۔ لیکن وہ اس پر غور کرنا نہیں چاہتا ہے۔ فرعون کو راہ ہدایت دکھانے کے لیے حضرت موسیٰؑ موجود تھے اور مسلسل آخرت کے عذاب سے ڈرا رہے تھے، ایک بار انھوں نے فرعون سے کہا کہ اگر تو اسلام قبول کرلے تو تیری آخرت تو سنور ہی جائے گی اس کے ساتھ دنیا میں بھی اللہ تجھے چار نعمتوں سے نوازے گا۔
پہلی نعمت ہمیشہ رہنے والی تندرستی اور دوسری ایسی دولت کا حصول جو رشک ہفت اقلیم ہوگی، دوسری یہ کہ تجھے ایک ملک کی جگہ دو ملک عطا ہوں گے اور چوتھی نعمت یہ کہ تو سدا جوان رہے گا۔ یہ سن کر فرعون حضرت موسیٰؑ کی باتوں پر سوچنے پر مجبور ہوا اور اس نے اپنی اہلیہ حضرت آسیہؑ سے مشورہ کیا اور بی بی آسیہؑ کے خوبصورت جواب کو مولانا روم نے کچھ اس طرح شعر کے قالب میں ڈھالا ہے:
وقت کشت آمد زہے پرسود کشت
ایں بگفت و گریہ کرد و گرم گشت
(کھیتی تیار ہے اور نہایت مفید ہے، اب تو جو وقت گزرا سب بے فائدہ گزرا ہے) بی بی آسیہؑ کے سمجھانے کے باوجود فرعون کو اطمینان حاصل نہ ہوا تو اس نے اپنے وزیر ہامان سے مشورہ لیا اور پھر وہی ہوا جو آج کل ہو رہا ہے۔ مقتدروں کے گرد حواری جمع ہیں۔ وہی انھیں ایسی جگہ لے جاکر مارتے ہیں جہاں پانی نصیب نہیں ہوتا ہے۔ اور تاریخ اس بات کی گواہ ہے، تو ہامان نے فرعون کی بات سن کر اپنا سر پیٹ لیا اور گریبان چاک کرلیا اور گریہ و زاری کرتا ہوا بولا کہ آپ تو خود پوری دنیا کے لیے مسجود و معبود ہیں (نعوذ باللہ) آپ موسیٰ کی بات مان کر ایک ادنیٰ غلام بننا چاہتے ہیں؟ لہٰذا فرعون نے حق کو قبول نہ کرکے اپنے آپ کو برباد کرلیا اور رہتی دنیا تک نشان عبرت بن گیا۔
پچھلے وقتوں میں بادشاہ اپنی خامیوں اور کمزوریوں کو دور کرکے اپنی اصلاح کرلیا کرتے تھے، وہ گشت کرتے اور لوگوں کے حالات معلوم کرتے جب انھیں اس بات کا احساس ہوجاتا کہ عوام کے جان و مال کے تحفظ میں کوتاہی ہوئی ہے تو وہ اس کا ازالہ اچھے سلوک اور اپنے رب سے توبہ کرکے کرتے لیکن آج کے حاکم نہ پرانے بادشاہوں جیسے ہیں اور نہ فرعون جیسے، وہ تو اپنے راستے سے بھٹک گئے ہیں۔ اپنا قبلہ درست کرنے کی ضرورت ہے اور بس۔