شہر اجاڑو خود کو سنوارو ’’مہم‘‘ جاری۔

صدر کے دو مرتبہ نوٹس لینے پر بھی معاملات میں سدھار نہیں آیا

صدر کے دو مرتبہ نوٹس لینے پر بھی معاملات میں سدھار نہیں آیاَ فوٹو ایکسپریس

KARACHI:
پاکستان پیپلزپارٹی کی جانب سے دو وزرائے اعظم کے آبائی شہر لاڑکانہ کو ماڈل ضلع بنانے کے دعوے کھوکھلے ثابت ہوئے اور اسی جماعت کی حکومت کا چار سالہ عرصۂ اقتدار ترقیاتی کاموں کی مد میں 18 ارب روپے خرچ کرنے کے باوجود عوام کو ریلیف فراہم نہیں کر سکا۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے لاڑکانہ ڈولپمینٹ پیکج کے لیے 22 ارب میں سے خطیر رقم خرچ کر کے متعدد اسکیمیں اور منصوبے شروع کیے گئے جن میں سے کئی نامکمل ہیں جب کہ متعدد ناقص منصوبہ بندی اور مالی گھپلوں کی نذر ہو چکی ہیں۔

ڈرینج کا ناکارہ نظام، صفائی ستھرائی کی ناگفتہ بہ صورتِ حال اور دیگر شہری امور مقامی انتظامیہ اور متعلقہ اداروں کی عدم توجہی، کوتاہیوں اور کرپشن کی وجہ سے شہریوں کی مشکلات بڑھ گئی ہیں۔ ضلعی انتظامیہ، میونسپل کارپوریشن، نساسک، این ایچ اے اپنی ذمے داریوں کو نبھانے میں ناکام جب کہ منتخب نمائندوں تمام معاملات سے لاتعلق نظر آرہے ہیں۔ مقامی شہریوں نے چیف جسٹس آف پاکستان سے لاڑکانہ کے ترقیاتی کاموں اور اس میں اربوں روپے کے مالی گھپلوں کا نوٹس لینے کا مطالبہ کر دیا ہے۔

ایک سروے کے مطابق لاڑکانہ کے لیے ایک خطیر رقم لاڑکانہ و قمبر شہدادکوٹ کی شاہ راہوں کی مرمت، لاڑکانہ اور خیرپور اضلاع کو ملانے والے پل کی تعمیر، ڈرینج اور سیوریج کے نظام کی درستی، شاہ راہوں پر ایک لاکھ نیم کے پودے لگانے، ماڈل پارکس اور گرین بیلٹس قائم کرنے، برساتی نالوں کی تعمیر، گلیوں میں سی سی بلاک اور اسٹریٹ لائٹس لگانے کے ساتھ دیگر اسکیمیں مکمل کرنے پر خرچ ہونا تھی۔ یہ رقم 22 ارب روپے کے ترقیاتی پیکج کے نام پر دی گئی جس میں سے 18 ارب روپے خرچ کرنے کے باوجود لاڑکانہ سے قمبر شہدادکوٹ، لاڑکانہ تا سکھر، خیرپور، موئن جو دڑو اور دیگر شاہ راہوں پر 30 فی صد کام بھی نہیں ہو سکا ہے۔

دل چسپ بات یہ ہے کہ این ایچ اے کی جانب سے کاغذات میں لاڑکانہ تا قمبر شہدادکوٹ ترقیاتی کام 100فی صد مکمل دکھایا گیا جس پر قومی اسمبلی کی سب کمیٹی برائے مواصلات کے کنوینر ایم این اے رمیش لال نے افسوس کا اظہار کیا ہے۔ انھوں نے رابطہ کرنے پر کہا کہ این ایچ اے نے لاڑکانہ میں ترقیاتی کاموں کا بیڑا غرق کردیا ہے، صدر مملکت کی جانب سے دو مرتبہ نوٹس لیے جانے کے باوجود این ایچ اے اور ضلعی حکومت ترقیاتی کاموں سے متعلق تحریری رپورٹ نہیں دے سکی ہے، ہم نے صدر کو اس مایوس کن صورتِ حال پر اپنی رپورٹ روانہ کر دی ہے جس میں متعلقہ افسران کے خلاف کارروائی کا مطالبہ بھی کیا ہے۔

احتساب کے سوال پر رمیش لال کا کہنا تھا کہ انھوں نے اپنے طور پر این ایچ اے کے دو پراجیکٹ ڈائریکٹرز ہٹائے جب کہ متعدد ٹھیکے داروں کو بلیک لسٹ کرنے کی سفارش کی۔ تاہم ان سفارشات پر کتنا عمل ہوا، اس کا علم نہیں ہے۔ اس سلسلے میں این ایچ اے لاڑکانہ کے جنرل منیجر عبدالعزیز لانگاہ سے بات کرنے کے لیے انھیں متعدد بار فون کرنے کے ساتھ ساتھ برقی پیغام روانہ کیا گیا، لیکن انھوں نے ان کوششوں کا کوئی جواب نہیں دیا۔

بیرونی شاہ راہوں سمیت شہر کی اہم سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں جب بعض تو سرے سے وجود ہی نہیں رکھتیں۔ ان دونوں قسم کی شاہ راہوں میں بندر روڈ، پاکستان چوک، مچھلی مارکیٹ، گجن پور محلہ، نظر محلہ، علی گوہر آباد شامل ہیں۔ ذرایع کے مطابق مذکورہ شاہ راہوں سمیت دیگر کا کام کاغذات کی حد تک مکمل کرنے کے بعد ان کی ادائیگیاں بھی کر دی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ 9 ارب روپے سے زائد رقم خرچ کرنے کے باوجود لاڑکانہ خیرپور پل کا کام ادھورا پڑا ہے۔


سرکاری آڈٹ رپورٹ کے مطابق اس میں بھی کرپشن کی گئی ہے جس کی تحقیقات مکمل ہونے کے باوجود ذمے داروں کو سزا نہیں دی جارہی۔ اسی طرح 2 ارب روپے سے زائد رقم خرچ کر کے 50 سالہ نکاسی و فراہمی آب کے نظام کی درستی کی کوشش بھی ناکام ہو گئی ہے جس کی وجوہ ناقص منصوبہ بندی، کرپشن اور من پسند ٹھیکے دار بتائے جاتے ہیں جنھوں نے صرف اپنی جیبیں بھری ہیں۔

محکمۂ پبلک ہیلتھ کی جانب سے کروڑوں روپے کے فنڈز استعمال کرنے کے باوجود ندی نالوں کی صفائی نہیں کی گئی۔ ڈی سلٹنگ نہ ہونے کی وجہ سے اسپیکر سندھ اسمبلی نثار کھوڑو، صوبائی وزیر قانون ایاز سومرو، ایم پی اے منور عباسی، توقیر فاطمہ بھٹو کے انتخابی حلقوں اور محلوں سمیت شیخ زید کالونی، بھینس کالونی، علی گوہر آباد، سامٹیا روڈ، حسینی محلہ، کوثر مل، حیدری محلہ اور دیگر گندے پانی کی لپیٹ میں ہیں۔

لاڑکانہ کے رہائشیوں سلامت ابڑو، عبدالحئی بھٹو، امجد پیرزادہ، فدا مغیری، اصغر شیخ، عباس شیخ اور دیگر نے ''ایکسپریس'' سے بات چیت کے دوران کہا لاڑکانہ کے منتخب نمائندوں کی کارکردگی صفر ہے، انھوں نے مختلف اداروں کے نااہل اور لوٹ کھسوٹ کرنے والے افسروں کے خلاف کوئی کارروائی نہ کر کے اپنے قائدین کے آبائی شہر کی بربادی میں اپنا حصّہ ڈالا ہے۔ شہریوں کے اس رد عمل پر مؤقف جاننے کے لیے رابطہ کرنے پر ڈپٹی کمشنر لاڑکانہ عبدالعلیم لاشاری نے بتایا کہ عوام میں یہ تاثر غلط ہے کہ لاڑکانہ میں ترقیاتی کام نہیں ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ ترقیاتی کاموں میں رہ جانے والے نقائص اور ان میں موجود خامیوں کا دور کرنا ضروری ہے۔

میونسپل کارپوریشن شہر میں تجاوزات کے خاتمے، صفائی ستھرائی اور سیوریج نظام کی دیکھ ریکھ کی ذمے دار ہوتی ہے، لیکن لاڑکانہ میونسپل کارپوریشن شہریوں کے مسائل حل کرنے کے بجائے انھیں مشکلات سے دوچار کر رہی ہے۔ صوبائی وزیر بلدیات آغا سراج درانی کی جانب سے تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریٹر آصف سردار آرائیں کو دو بار کرپشن کے الزامات پر معطل کیا گیا اور ان دنوں بھی وہ معطل ہیں۔ ایڈمنسٹریٹر نہ ہونے کی وجہ سے کارپوریشن کے 1300 سے زائد حاضر سروس اور ریٹائرڈ ملازمین دو ماہ سے تنخواہوں اور پنشن سے محروم ہیں۔

گجن پور اور ایمپائر روڈ پر واقع میونسپل کا اپنا دفتر تجاوزات کی زد میں ہے جس کا صدر دروازہ بھی شکستہ ہے اور انہی کے دفتر کے سامنے گندگی کے ڈھیر موجود ہیں۔ ادارے میں لاکھوں روپے کی کرپشن کا بھی انکشاف ہوا ہے جس پر ٹی ایم او کو ہٹا دیا گیا ہے، حالاں کہ انھیں لاڑکانہ کے ایک ایم پی اے کی سرپرستی حاصل ہے جس کی مداخلت پر وہ ایک مرتبہ معطل ہو کر بحال بھی کر دیے گئے تھے۔

27 تاجر تنظیموں پر مشتمل فیڈریشن آف ٹریڈ ایسوسی ایشن کے صدر طارق نذیر شیخ نے میونسپل انتظامیہ پر الزام عائد کیا کہ 10 سال میں اسٹریٹ لائٹس پر ایک ارب روپے کے قریب بلز بنائے گئے جب کہ پمپنگ اسٹیشن پر تیل کی مد میں کروڑوں روپے کی کرپشن کی گئی ہے۔ اس سلسلے میں جب میونسپل کارپوریشن کے تعلقہ افسر فنانس اسرار مگسی سے رابطہ کیا تو انھوں نے بتایا کہ میونسپل کارپوریشن کا سالانہ بجٹ 37 کروڑ 48 لاکھ 56 ہزار 875 روپے ہے جب کہ خرچ 37 کروڑ 46 لاکھ 97 ہزار 229 روپے ہے۔

یوں ہم نے ایک لاکھ 59 ہزار 446 روپے بچا لیے ہیں، لیکن جب ان سے خرچ کی تفصیل پوچھی گئی تو انہوں نے ٹال مٹول سے کام لیا اور کہا کہ وہ ٹی ایم او خود بتائیں گے۔ اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ محکموں میں کرپشن کس حد تک پروان چڑھ چکی ہے، ان حالات میں لاڑکانہ کے شہری منتخب نمائندوں سے کوئی امید نہ رکھنے اور لاڑکانہ ماڈل ضلع بنانے کے دعووں کو کھوکھلا سمجھنے میں حق بجانب نظر آتے ہیں۔
Load Next Story