کیا اتنی ارزاں ہے زندگی
نوجوان کے قتل کے بعد اس کے لواحقین نے مقتول کا جسد خاکی سڑک پر رکھ کر احتجاج کیا
آپ ایک ناکے پر کھڑے ہیں، آپ کی نظر ایک کار پر پڑتی ہے جس میں ایک نوجوان اور اس کے ساتھ ایک لڑکی ہے، آپ کے ذہن میں کیا خیال آتا ہے؟ آپ کچھ سوچتے ہیں ، شاید آپ اسے روکنا چاہتے ہیں۔ آپ نے دل میںسوچا اور سمجھ لیا کہ وہ آپ کے روکنے پر نہیں رکا۔
اخباری حقائق کے مطابق، سی سی کیمرے کی فوٹیج تو یہ بتاتی ہے کہ آپ نے اس نوجوا ن کو گاڑی روکنے کا اشارہ بھی نہیں کیا۔ بالفرض آپ کسی نہ کسی طریقے سے یہ ثابت بھی کر دیں کہ آپ نے ایسے طریقے سے رکنے کا اشارہ دیا کہ اسے سی سی ٹی وی کیمرہ ریکارڈ نہ کر سکا اور وہ ماں باپ کا پیارا سا نوجوان آپ کے اشارے کے باوجود نہ رکا، اپنی گاڑی کو آگے نکالنے کی کوشش کی۔ ممکن ہے کہ جو اشارہ آپ نے اپنی دانست میںکیا، وہ اسے نظر نہیں آیا یا وہ یہ نہیں سمجھا کہ آپ اسے روک رہے ہیں یا جانے کا اشارہ کر رہے ہیں، کیونکہ ہمارے ملک میں زبان کے ہوتے ہوئے بھی اشاروں کی زبان سے سمجھایا جاتا ہے۔
آپ کے جسم پرجو وردی ہے کیا وہ آپ کو ایک عام انسان سے ایک ایسا با اختیار بادشاہ بنا دیتی ہے جسے کیڑے مکوڑوں جیسے دوسرے انسانوں کی زندگیوں اور موت کے فیصلے کا اختیار مل جاتا ہے؟ سرکار!! کیا اس نوجوان کا جرم اتنا بڑا تھا کہ آپ نے ایک نہیں تین گولیاں چلا دیں اور ان ہی میں سے ایک گولی نے اس کے سر کے پچھلے حصے پر لگ کر اس کا کام تمام کر دیا۔ تیمور ریاض، جو دو دن پہلے تک ایک جیتا جاگتا پیارا سا نوجوان تھا، آپ نے اس نوجوان کو میت میں تبدیل کر دیا!
اس صبح، ٹیلی وژن آن کر کے جب میں نے ناشتہ کرتے ہوئے اس واقعے کی خبر سنی تو میرا چائے کا گھونٹ تک میرے گلے میںاٹک گیا۔ جانے کس کا بیٹا تھا مگر میری آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے۔ ہر وہ والدین جن کی اولاد اپنے گھروں سے ہر روز اسکول، کالج، یونیورسٹی یا ملازمت کے لیے نکلتی ہو اور ان کا واسطہ کئی مقامات پر ناکوں سے گزرتے ہوئے پولیس کے اس رویے سے پڑتا ہے، ان کے سینے میں دل بند ہو گیا ہو گا کیونکہ ایسا نہ پہلی بار ہوا ہے نہ آخری بار!! جانے کتنے ہی نوجوان پولیس کے اس غیر انسانی رویے کے باعث تاریک راہوں میں مارے جا چکے ہیں اور ان کے ماں باپ کے وجودقبروں میں تبدیل ہو چکے۔کیا کسی کو اتنی سی بات پر کسی کی جان لینے کا اختیار مل جاتا ہے؟
میں نے اپنے گزشتہ کالم میں راولپنڈی کے ایک چوک پر اپنے ساتھ ہونے والے ایک واقعے کے تناظر میں لکھا کہ ہمارے ملک میں ٹریفک پولیس کی کیا واقعی ضرورت ہے؟ کیونکہ جو شخص اپنے فرائض کو سمجھتا اور احسن طریقے سے ان کی ادائیگی نہ کرتا ہو، اس کا ہونا یا نہ ہونا ایک برابر ہے۔ اس پر کسی ایک نہیں ، درجنوں ٹریفک پولیس کے اہلکاروں کی طرف سے ای میل موصول ہوئیں اور انھوں نے اپنے مسائل کا ذکر کیا۔ میں اس بات پر شرمندگی محسوس کر رہی تھی اور ایک کالم ان کے مسائل کی بابت لکھنے کا سوچ رہی تھی مگر اس حالیہ واقعے نے نہ صرف میری راتوں کی نیند اڑا دی بلکہ کچھ اور سوچنے کا موقع بھی نہ دیا۔
ہمارے ہاں ناکوں پر کون لوگ متعین ہیں؟ ان کی تربیت کہاں کی جاتی ہے؟ کیا انھیں حکم ہے کہ جو کوئی گاڑی نہ روکے اسے گولی مار دو؟ انھیں کیا حکم ہے، گولی کیا گاڑی کے ٹائروں پر ماری جانا چاہیے یا ڈرائیور کے جسم پر؟
اخباری تفصیل کے مطابق شہر کے ہر تھانے کا ہر ناکہ مبینہ طور پر بکا ہوا ہوتا ہے، یقینا ایسا سب شہروں میں ہو گا، کیونکہ ہم اچھے کام میں کسی کا ساتھ دیں یا نہ دیں ، برائی اور جرائم میں یک جہتی ہو جاتی ہے۔ ناکوں کے بھی نرخ مقرر ہیں اور زیادہ سے زیادہ چالان کر کے اپنے تھانے کی کارکردگی بڑھانے کی دوڑ جاری ہے۔ اس سے قبل پیش آنے والے ایسے واقعات میں چونکہ کسی مجرم کو پکڑ کر قرار واقعی سزا نہیں دی گئی اس لیے اس کے بعد بھی اس نوعیت کے جرائم کا سلسلہ جاری وساری ہے۔ اس نوعیت کا اس شہر میں یہ چوتھا واقعہ پیش آیا ہے۔
نوجوان کے قتل کے بعد اس کے لواحقین نے مقتول کا جسد خاکی سڑک پر رکھ کر احتجاج کیا اور شہر کی اہم ترین سڑک کو لگ بھگ چار گھنٹے تک بند رکھا، ایک پولیس چوکی کو بھی جلا دیا۔ یقینا اس سڑک پر اس وقت سفر کرنے والے مسائل کا شکار ہوئے ہوں گے۔ ان کاچار گھنٹے کا احتجاج اور ایک اہم سڑک کو بند رکھنا تو ہمارے نوٹس میں آگیا مگر ان کا عمر بھر کا ماتم کسے نظر آئے گا؟
کوئی اور ملک ہوتا، کوئی مہذب ملک ہوتا بلکہ یہ کہہ لیں کہ کوئی ایسا ملک ہوتا جہاں انسان کو انسان سمجھنے والے حکمران اور عوام ہوتے تو اس واقعے کے بعد ہر شخص گھر سے نکلتا اور ایسے والدین کے ساتھ سراپا احتجاج بن جاتا جن کا جوان بیٹا کسی پولیس والے کی انا اور بے وقوفی کا نشانہ بن گیا تھا۔
حال ہی میں کینیڈا کی ایک مسجد میں ہونے والے فائرنگ کے واقعے اور اس کے نتیجے میں پانچ مسلمانوں کی شہادت کے بعد، اس ملک کے وزیر اعظم کا مسلمانوں کے حق میں فوری بیان، مسلمانوں سے اظہار یک جہتی اور مجرمان کی فوری گرفتاری کا دعویٰ، سب ہمارے سامنے ہے۔ وہاں وزیر اعظم کو اپنے فرائض کا اور رعایا کے حقوق کا احساس ہے، ان کا وعدہ اور دعوی کوئی ہمارے حکمرانوں کی طرح کھوکھلا اور لا یعنی نہیں تھا۔ اس ملک میںجرم کرنے والوں کو علم ہے کہ وہاں سب سے طاقتور قانون ہے ، ان کے لیے کوئی جائے مفر نہیں اسی لیے بھاگنے والے مجرم نے خود فون کر کے اپنے جرم کا اقرار کیا اور پولیس نے اسے گرفتار کر لیا ہے۔
یہاں، ایک سابق ایم پی اے نے لواحقین کے ساتھ مذاکرات کیے اور لواحقین کے ساتھ وہ وعدے وعید کیے جنھیں کبھی وفا نہیں ہونا۔ آج تک کسی مجرم کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا نہیں جا سکا کیونکہ اس ملک میں شاید کسی کے آہنی ہاتھ ہیں ہی نہیں۔ جن اپنے کے ہاتھ ماورائے عدالت قتل، rigging، ہارس ٹریڈنگ horse trading، منی لانڈرنگ money laundering ، چائنہ کٹنگ China cutting، کرپشن اور دولت کی لوٹ کھسوٹ سے اور دامن کسی نہ کسی جرم میں داغدار ہوں وہ دوسروں کو کس چیز کی سزا دے سکتے ہیں؟ ہمارے حکمران ایسے واقعات پر کیوں خاموش ہیں۔ اس لیے کہ اس گاڑی میں تیمور ریاض تھا اوراس کا تعلق مردان کے شاید ایک عام خاندان سے تھا۔ اس کا جرم کیا تھا، اس سوال کا کون جواب دے سکتا ہے؟
ایک خوف رگوں میں سرایت کر گیا ہے، ہم ہر روزاپنے بچوں کو گھروں سے روانہ کرتے وقت کہتے ہیں بیٹا گاڑی احتیاط سے چلانا، گاڑی چلاتے ہوئے فون استعمال نہ کرنا، کسی کی غلطی پر غصے میں نہ آنا، کیونکہ اس سے آپ کا دوران خون بڑھتا ہے اور آپ محتاط انداز میں گاڑی نہیں چلا سکتے۔
اسکول کالج میں، سڑک پر، دکان پر... غرض کہیں بھی کسی پرائے پھڈے میں ٹانگ نہ اڑانا اور نہ ہی ذرا سی بات پر غصے میں آ کر جھگڑے میں پڑجانا، کچھ علم نہیں ہوتا کہ مقابل کون ہے اور کس نوعیت کی فطرت کا حامل ہے۔ کسی اور کی غلطی بھی ہو تو اسے شک کا فائدہ دے دو، ہو سکتا ہے اسے کوئی اور پریشانی ہو ، وہ ذہنی مریض، پاگل یا بد دماغ ہو، اسے خواہ مخواہ دوسروں سے پنگے لینے کی عادت ہو اور ذرا سی بات بڑھے تو وہ ہتھیار نکال لے یا کسی بھی طرح تمہیں نقصان پہنچائے، جہاں راستہ غلط نظر آتا ہو وہا ں سے راستہ بدل لو!!
اب انھیں یہ بھی بتانا پڑے گا کہ بیٹا کسی ناکے پر کوئی روکے یا نہ روکے، رک جانا، بعد از سلام احترام سے پوچھنا کہ انھوں نے تمہارا کسی بات پر چالان تو نہیں کرنا۔ اگر وہ کوئی بھی اشارہ کریں، خواہ وہ خود کو خارش ہی کر رہے ہوں یا مکھی اڑا رہے ہوں تو تم اسے روکے جانے کا اشارہ ہی سمجھنا اور فورا ہاتھ سر سے اوپر hands up کر کے باہر نکلنا۔ خود تم اس دوران کہیں کھجلی بھی نہ کر نا کہ وہ یہ نہ سمجھیں کہ تم مسلح ہو اور تم پر گولی پہلے چلائیں اور سوال بعد میں کریں!!
یا پھرہم اپنے بچوں کو اس خوف سے گھروں میں بٹھا لیں کہ باہر جنگل کی طرح درندے گھوم رہے ہیں؟؟
اخباری حقائق کے مطابق، سی سی کیمرے کی فوٹیج تو یہ بتاتی ہے کہ آپ نے اس نوجوا ن کو گاڑی روکنے کا اشارہ بھی نہیں کیا۔ بالفرض آپ کسی نہ کسی طریقے سے یہ ثابت بھی کر دیں کہ آپ نے ایسے طریقے سے رکنے کا اشارہ دیا کہ اسے سی سی ٹی وی کیمرہ ریکارڈ نہ کر سکا اور وہ ماں باپ کا پیارا سا نوجوان آپ کے اشارے کے باوجود نہ رکا، اپنی گاڑی کو آگے نکالنے کی کوشش کی۔ ممکن ہے کہ جو اشارہ آپ نے اپنی دانست میںکیا، وہ اسے نظر نہیں آیا یا وہ یہ نہیں سمجھا کہ آپ اسے روک رہے ہیں یا جانے کا اشارہ کر رہے ہیں، کیونکہ ہمارے ملک میں زبان کے ہوتے ہوئے بھی اشاروں کی زبان سے سمجھایا جاتا ہے۔
آپ کے جسم پرجو وردی ہے کیا وہ آپ کو ایک عام انسان سے ایک ایسا با اختیار بادشاہ بنا دیتی ہے جسے کیڑے مکوڑوں جیسے دوسرے انسانوں کی زندگیوں اور موت کے فیصلے کا اختیار مل جاتا ہے؟ سرکار!! کیا اس نوجوان کا جرم اتنا بڑا تھا کہ آپ نے ایک نہیں تین گولیاں چلا دیں اور ان ہی میں سے ایک گولی نے اس کے سر کے پچھلے حصے پر لگ کر اس کا کام تمام کر دیا۔ تیمور ریاض، جو دو دن پہلے تک ایک جیتا جاگتا پیارا سا نوجوان تھا، آپ نے اس نوجوان کو میت میں تبدیل کر دیا!
اس صبح، ٹیلی وژن آن کر کے جب میں نے ناشتہ کرتے ہوئے اس واقعے کی خبر سنی تو میرا چائے کا گھونٹ تک میرے گلے میںاٹک گیا۔ جانے کس کا بیٹا تھا مگر میری آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے۔ ہر وہ والدین جن کی اولاد اپنے گھروں سے ہر روز اسکول، کالج، یونیورسٹی یا ملازمت کے لیے نکلتی ہو اور ان کا واسطہ کئی مقامات پر ناکوں سے گزرتے ہوئے پولیس کے اس رویے سے پڑتا ہے، ان کے سینے میں دل بند ہو گیا ہو گا کیونکہ ایسا نہ پہلی بار ہوا ہے نہ آخری بار!! جانے کتنے ہی نوجوان پولیس کے اس غیر انسانی رویے کے باعث تاریک راہوں میں مارے جا چکے ہیں اور ان کے ماں باپ کے وجودقبروں میں تبدیل ہو چکے۔کیا کسی کو اتنی سی بات پر کسی کی جان لینے کا اختیار مل جاتا ہے؟
میں نے اپنے گزشتہ کالم میں راولپنڈی کے ایک چوک پر اپنے ساتھ ہونے والے ایک واقعے کے تناظر میں لکھا کہ ہمارے ملک میں ٹریفک پولیس کی کیا واقعی ضرورت ہے؟ کیونکہ جو شخص اپنے فرائض کو سمجھتا اور احسن طریقے سے ان کی ادائیگی نہ کرتا ہو، اس کا ہونا یا نہ ہونا ایک برابر ہے۔ اس پر کسی ایک نہیں ، درجنوں ٹریفک پولیس کے اہلکاروں کی طرف سے ای میل موصول ہوئیں اور انھوں نے اپنے مسائل کا ذکر کیا۔ میں اس بات پر شرمندگی محسوس کر رہی تھی اور ایک کالم ان کے مسائل کی بابت لکھنے کا سوچ رہی تھی مگر اس حالیہ واقعے نے نہ صرف میری راتوں کی نیند اڑا دی بلکہ کچھ اور سوچنے کا موقع بھی نہ دیا۔
ہمارے ہاں ناکوں پر کون لوگ متعین ہیں؟ ان کی تربیت کہاں کی جاتی ہے؟ کیا انھیں حکم ہے کہ جو کوئی گاڑی نہ روکے اسے گولی مار دو؟ انھیں کیا حکم ہے، گولی کیا گاڑی کے ٹائروں پر ماری جانا چاہیے یا ڈرائیور کے جسم پر؟
اخباری تفصیل کے مطابق شہر کے ہر تھانے کا ہر ناکہ مبینہ طور پر بکا ہوا ہوتا ہے، یقینا ایسا سب شہروں میں ہو گا، کیونکہ ہم اچھے کام میں کسی کا ساتھ دیں یا نہ دیں ، برائی اور جرائم میں یک جہتی ہو جاتی ہے۔ ناکوں کے بھی نرخ مقرر ہیں اور زیادہ سے زیادہ چالان کر کے اپنے تھانے کی کارکردگی بڑھانے کی دوڑ جاری ہے۔ اس سے قبل پیش آنے والے ایسے واقعات میں چونکہ کسی مجرم کو پکڑ کر قرار واقعی سزا نہیں دی گئی اس لیے اس کے بعد بھی اس نوعیت کے جرائم کا سلسلہ جاری وساری ہے۔ اس نوعیت کا اس شہر میں یہ چوتھا واقعہ پیش آیا ہے۔
نوجوان کے قتل کے بعد اس کے لواحقین نے مقتول کا جسد خاکی سڑک پر رکھ کر احتجاج کیا اور شہر کی اہم ترین سڑک کو لگ بھگ چار گھنٹے تک بند رکھا، ایک پولیس چوکی کو بھی جلا دیا۔ یقینا اس سڑک پر اس وقت سفر کرنے والے مسائل کا شکار ہوئے ہوں گے۔ ان کاچار گھنٹے کا احتجاج اور ایک اہم سڑک کو بند رکھنا تو ہمارے نوٹس میں آگیا مگر ان کا عمر بھر کا ماتم کسے نظر آئے گا؟
کوئی اور ملک ہوتا، کوئی مہذب ملک ہوتا بلکہ یہ کہہ لیں کہ کوئی ایسا ملک ہوتا جہاں انسان کو انسان سمجھنے والے حکمران اور عوام ہوتے تو اس واقعے کے بعد ہر شخص گھر سے نکلتا اور ایسے والدین کے ساتھ سراپا احتجاج بن جاتا جن کا جوان بیٹا کسی پولیس والے کی انا اور بے وقوفی کا نشانہ بن گیا تھا۔
حال ہی میں کینیڈا کی ایک مسجد میں ہونے والے فائرنگ کے واقعے اور اس کے نتیجے میں پانچ مسلمانوں کی شہادت کے بعد، اس ملک کے وزیر اعظم کا مسلمانوں کے حق میں فوری بیان، مسلمانوں سے اظہار یک جہتی اور مجرمان کی فوری گرفتاری کا دعویٰ، سب ہمارے سامنے ہے۔ وہاں وزیر اعظم کو اپنے فرائض کا اور رعایا کے حقوق کا احساس ہے، ان کا وعدہ اور دعوی کوئی ہمارے حکمرانوں کی طرح کھوکھلا اور لا یعنی نہیں تھا۔ اس ملک میںجرم کرنے والوں کو علم ہے کہ وہاں سب سے طاقتور قانون ہے ، ان کے لیے کوئی جائے مفر نہیں اسی لیے بھاگنے والے مجرم نے خود فون کر کے اپنے جرم کا اقرار کیا اور پولیس نے اسے گرفتار کر لیا ہے۔
یہاں، ایک سابق ایم پی اے نے لواحقین کے ساتھ مذاکرات کیے اور لواحقین کے ساتھ وہ وعدے وعید کیے جنھیں کبھی وفا نہیں ہونا۔ آج تک کسی مجرم کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا نہیں جا سکا کیونکہ اس ملک میں شاید کسی کے آہنی ہاتھ ہیں ہی نہیں۔ جن اپنے کے ہاتھ ماورائے عدالت قتل، rigging، ہارس ٹریڈنگ horse trading، منی لانڈرنگ money laundering ، چائنہ کٹنگ China cutting، کرپشن اور دولت کی لوٹ کھسوٹ سے اور دامن کسی نہ کسی جرم میں داغدار ہوں وہ دوسروں کو کس چیز کی سزا دے سکتے ہیں؟ ہمارے حکمران ایسے واقعات پر کیوں خاموش ہیں۔ اس لیے کہ اس گاڑی میں تیمور ریاض تھا اوراس کا تعلق مردان کے شاید ایک عام خاندان سے تھا۔ اس کا جرم کیا تھا، اس سوال کا کون جواب دے سکتا ہے؟
ایک خوف رگوں میں سرایت کر گیا ہے، ہم ہر روزاپنے بچوں کو گھروں سے روانہ کرتے وقت کہتے ہیں بیٹا گاڑی احتیاط سے چلانا، گاڑی چلاتے ہوئے فون استعمال نہ کرنا، کسی کی غلطی پر غصے میں نہ آنا، کیونکہ اس سے آپ کا دوران خون بڑھتا ہے اور آپ محتاط انداز میں گاڑی نہیں چلا سکتے۔
اسکول کالج میں، سڑک پر، دکان پر... غرض کہیں بھی کسی پرائے پھڈے میں ٹانگ نہ اڑانا اور نہ ہی ذرا سی بات پر غصے میں آ کر جھگڑے میں پڑجانا، کچھ علم نہیں ہوتا کہ مقابل کون ہے اور کس نوعیت کی فطرت کا حامل ہے۔ کسی اور کی غلطی بھی ہو تو اسے شک کا فائدہ دے دو، ہو سکتا ہے اسے کوئی اور پریشانی ہو ، وہ ذہنی مریض، پاگل یا بد دماغ ہو، اسے خواہ مخواہ دوسروں سے پنگے لینے کی عادت ہو اور ذرا سی بات بڑھے تو وہ ہتھیار نکال لے یا کسی بھی طرح تمہیں نقصان پہنچائے، جہاں راستہ غلط نظر آتا ہو وہا ں سے راستہ بدل لو!!
اب انھیں یہ بھی بتانا پڑے گا کہ بیٹا کسی ناکے پر کوئی روکے یا نہ روکے، رک جانا، بعد از سلام احترام سے پوچھنا کہ انھوں نے تمہارا کسی بات پر چالان تو نہیں کرنا۔ اگر وہ کوئی بھی اشارہ کریں، خواہ وہ خود کو خارش ہی کر رہے ہوں یا مکھی اڑا رہے ہوں تو تم اسے روکے جانے کا اشارہ ہی سمجھنا اور فورا ہاتھ سر سے اوپر hands up کر کے باہر نکلنا۔ خود تم اس دوران کہیں کھجلی بھی نہ کر نا کہ وہ یہ نہ سمجھیں کہ تم مسلح ہو اور تم پر گولی پہلے چلائیں اور سوال بعد میں کریں!!
یا پھرہم اپنے بچوں کو اس خوف سے گھروں میں بٹھا لیں کہ باہر جنگل کی طرح درندے گھوم رہے ہیں؟؟