کراچی کیا تھا کیا ہوگیا
کراچی میں میونسپل سسٹم کی ابتدا 1846 میں یہاں پھیلنے والے ہیضے کی وبا سے ہوئی
کراچی کے پرانے لوگوں کا کہنا ہے کہ 1947 کے بعد یہ شہر وہ نہیں رہا جو اس سے پہلے تھا۔ اس بات کی میں بھی تائید کرتا ہوں، مگر اس کی وجوہات کا جاننا بہت ضروری ہے۔ قیام پاکستان کے بعد کراچی کی آبادی میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ تقسیم سے قبل یہ شہر صرف پونے چار لاکھ نفوس پر مشتمل تھا اب اس وقت دو کروڑ سے زائد آبادی کا شہر بن چکا ہے۔ بدقسمتی سے آبادی کے بڑھنے کے لحاظ سے شہر کے بلدیاتی نظام کو منظم نہیں کیا گیا۔
کمزور میونسپل سسٹم کی وجہ سے آج یہ شہر کچرا کنڈی بن چکا ہے اور یہاں ہر قسم کی شہری سہولیات کا فقدان ہے۔ صوبائی اور شہری حکومتوں کے درمیان اختیارات کی رسہ کشی کی وجہ سے بھی اس شہر کا حال خراب ہے اور مستقبل بھی تابناک نظر نہیں آتا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ شہر کے موجودہ ابتر حالات نے اس کے شاندار ماضی کو بھی دھندلا دیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ماضی میں جن شخصیات نے اسے اپنی محنت اور خلوص سے صفائی ستھرائی سمیت ہر لحاظ سے برصغیر کا بے مثال شہر بنادیا تھا آج ان کی روحیں اس کی ابتری پر کڑھتی ہوں گی۔ تاہم اس شہر کے تابناک ماضی کے ذکر سے نئی نسل کو آگاہ کرنا ضروری ہے تاکہ وہ اپنے شہر سے مایوس نہ ہوجائیں اور اسے ماضی جیسا شاندار شہر بنانے کے لیے جدوجہد جاری رکھیں۔
کراچی میں میونسپل سسٹم کی ابتدا 1846 میں یہاں پھیلنے والے ہیضے کی وبا سے ہوئی۔ اس وبا نے ایسی شدت اختیار کی کہ سات ہزار شہری لقمہ اجل بن گئے۔ ہیضے کی یہ وبا اس شہر کے لیے کوئی نئی آفت نہیں تھی، یہاں اکثر ہیضہ اور طاعون سمیت کئی بیماریاں پھیلتی رہتی تھیں جن کی وجہ شہر کی گندگی تھی۔ اس وقت آج کی طرح کراچی کی سڑکوں اور گلیوں میں جابجا گندگی کے ڈھیر لگے ہوتے تھے، گھروں کے گندے پانی کی نکاسی کا بھی کوئی انتظام نہ تھا، شہر میں پینے کے لیے صاف پانی کی سخت قلت تھی، سرشام شہر تاریکی میں ڈوب جاتا تھا۔
ان مسائل سے نمٹنے کے لیے سندھ کے پہلے انگریز گورنر سر چارلس نیپئر نے 1846 میں ایک کنزروینسی بورڈ قائم کیا۔ اس بورڈ کے مقاصد اس طرح تھے۔ (1) شہر کی صفائی کے لیے انتظامات کرنا۔ (2) گندے پانی کی نکاسی کے لیے بندوبست کرنا۔ (3) شہریوں کو پینے کے لیے صاف پانی مہیا کرنا۔ (4) رات کے وقت شہر میں روشنی کا انتظام کرنا۔ چارلس نیپئر کے اچانک استعفے اور پہلے کمشنر سندھ رچرڈ کیتھ پرنگل کی سرکاری مصروفیات کی وجہ سے یہ بورڈ اپنے مقاصد میں کامیاب نہ ہوسکا۔ بارٹلے فریئر کے دور میں نیا کنزروینسی بورڈ تشکیل دیا گیا۔
فریئر کی دلچسپی کی وجہ سے یہ بورڈ اپنے مقاصد میں کافی حد تک کامیاب رہا مگر چونکہ یہ مسائل کے حل کا مستقل انتظام نہیں تھا چنانچہ اس نے کراچی میں بلدیاتی نظام کو متعارف کرانے کے لیے غوروخوض شروع کردیا۔ فریئر کی ہمت افزائی سے 1851 میں کراچی کے شہریوں نے ایک یادداشت کے ذریعے حکومت بمبئی کو کراچی میں باقاعدہ میونسپل سسٹم کے قیام کے سلسلے میں برصغیر کے کچھ شہروں میں پہلے سے نافذ میونسپل ایکٹ نمبر 26 مجریہ 1850 کو یہاں بھی متعارف کرانے کا مطالبہ کیا۔
اس ایکٹ کے تحت ہندوستان کے کسی بھی شہر کی اکثریتی آبادی کے مطالبے پر وہاں میونسپل سسٹم نافذ کرکے شہری سہولیات کو بہم پہنچانے کی اجازت دی گئی تھی۔ 8 ستمبر 1852 کو حکومت بمبئی نے کراچی کے شہریوں کے اس مطالبے کو تسلیم کرلیا۔ یوں کراچی میں میونسپل سسٹم کا آغاز ہوگیا۔ اس سسٹم نے کراچی کی کایا پلٹ دی۔ یہ شہر جو پہلے گندگی کا مرقع بنا ہوا تھا صفائی ستھرائی اور دیگر سہولیات کے لحاظ سے ایک مثالی شہر بن گیا۔ یکم نومبر 1933 کو کراچی میونسپلٹی کو میونسپل کارپوریشن بننے کا اعزاز حاصل ہوگیا۔
8 نومبر 1933 کو مسٹر جمشید نسروانجی مہتا کو کراچی کا پہلا میئر منتخب کرلیا گیا۔ جمشید مہتا نے اس شہر کی بے مثال خدمت انجام دی۔ ان کے دور میں کراچی کو برصغیر کا سب سے صاف ستھرا شہر ہونے کا اعزاز حاصل ہوا تھا۔ کراچی سے نکلنے والے ایک انگریزی اخبار ''ڈیلی گزٹ'' کے انگریز مدیر اور کراچی میونسپل کے کونسلر سرمائنٹنگ ویب "Minting Web" نے 1933 میں کراچی کے تھیوسیفیکل ہال میں منعقدہ ایک کانفرنس میں اس شہر کی خوبیوں کا بڑے فخر سے ان الفاظ میں ذکر کیا تھا ''کراچی کی آب و ہوا ہندوستان کی دوسری تمام بندرگاہوں سے نہایت اچھی اور معتدل ہے۔ یہاں اچھی خوراک میسر ہوسکتی ہے اور صاف شفاف پانی بہ افراط دستیاب ہے۔
تفریح کے لیے وسیع و عریض میدان، کشادہ سڑکیں اور دوسرے نظارے بھی موجود ہیں۔ یہاں قدرت نے ایسے سامان مہیا کردیے ہیں کہ بندرگاہ اور شہر کی وسعت کے لیے کوئی شے مانع نہیں ہے۔ جغرافیائی حیثیت سے کراچی کو نہ صرف برصغیر کے دوسرے شہروں پر فوقیت حاصل ہے بلکہ جنوب مشرقی ایشیا کی تمام بندرگاہوں پر۔ یہ بندرگاہ مشرق کے لیے باعث فخر ہے۔اس حسین شہر کی صفائی کا جواب نہیں۔ اس کی پاکیزگی اور نفاست قابل رشک ہے اس شہر میں ترقی کے ایسے آثار نمایاں ہیں کہ اس کا غیر معمولی ترقی کرنا امر یقینی ہے۔''
تو یہ تھا کراچی کا تابناک ماضی۔ اس وقت کراچی کی سڑکیں صبح اور رات کو پانی اور صابن سے دھوئی جاتی تھیں۔ مگر اب جو حال ہے وہ قابل افسوس اور ناگفتہ بہ ہے۔ اس وقت دراصل مسئلہ یہ ہے کہ کراچی کے میئر کے اختیارات میں کٹوتی کردی گئی ہے جس سے وہ اپنے کام کو آزادانہ نمٹانے کے اہل نہیں رہے ہیں۔
کاش کہ شہر میں پرویز مشرف کے دور کے شہری نظام کو چلنے دیا جاتا تو آج کراچی کے شہریوں کو حکومت سے کوئی شکایت نہ ہوتی۔اس نظام کے تحت کراچی کے سابق میئر سید نعمت اللہ نے بہت کام کیا تھا۔ ان کے دور میں کراچی کی سڑکوں کی تعمیر سے لے کر کچرے کے اٹھانے اور گندے پانی کی نکاسی کا بھی کوئی بڑا مسئلہ پیدا نہیں ہوا۔ البتہ کچھ جگہوں پر کچھ لوگ دانستہ گٹروں کو بند کرکے گندے پانی کو سڑکوں پر کھڑا کردیا کرتے تھے۔
ان کے بعد مصطفیٰ کمال کو کراچی کا میئر بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔ ان کے دور میں کراچی میں ایسا مثالی تعمیر و ترقی کا کام انجام پایا جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ اگر اس نظام کو پیپلز پارٹی چلنے دیتی تو آج اسے کراچی کے مسائل پر شرمندہ نہ ہونا پڑتا۔ کراچی کے مسائل سے بے رخی برتنے پر پیپلز پارٹی کو اس شہر سے زیادہ امیدیں وابستہ نہیں کرنا چاہئیں۔
اگلے سال عام انتخابات منعقد ہونے والے ہیں ان میں پیپلز پارٹی اپنی پرانی نشستیں تو شاید ضرور حاصل کرلے مگر ایم کیو ایم کے بکھرنے کے باوجود اس کے لیے مزید نشستیں حاصل کرنا مشکل ہوگا، البتہ اس شہر میں ریکارڈ کام کرنے کے حوالے سے لوگوں کی نظریں مصطفیٰ کمال کی پارٹی کی جانب اٹھیں گی۔ یہ تو خیر عام انتخابات کی بات ہے مگر اس وقت مصطفیٰ کمال نے سیاست کو بالائے طاق رکھ کر واضح طور پر وسیم اختر کے حق میں آواز اٹھائی ہے کہ انھیں مکمل اختیارات سے نوازا جائے اور شہری مسائل کے حل کے سلسلے میں سیاست کو بیچ میں نہ لایا جائے۔
دراصل وسیم اختر کے حق میں سب ہی آواز بلند کر رہے ہیں مگر پیپلز پارٹی سیاست چمکا رہی ہے، بہرحال نئے وزیراعلیٰ کو اگر واقعی اپنی کارکردگی سے اپنی پارٹی کی پوزیشن کو مستحکم کرنا ہے تو پھر انھیں شہری مسائل میں گرفتار عوام سے کھلواڑ کرنے کے بجائے وسیم اختر سے مکمل تعاون کرنا چاہیے۔