آزادیٔ کشمیر

مصلحت پسندی سے چھٹکارہ، دو ٹوک موقف اور مثالی اتحاد لازم ہے


فرحان احمد خان February 05, 2017
پاکستان عالمی سطح پر کشمیریوں کا وکیل سمجھا جاتا ہے۔ فوٹو: ایکسپریس

گولیوں کی گن گرج، زخمیوں کی آہ و فغان اور بارود کے مسموم دھوئیں میں ایک اور سال بیت گیا اور کشمیرکے مظلوم و مقہور باشندوں کی آزادی کا سورج طلوع نہ ہو سکا۔ ان کے دُکھوں میں کوئی کمی نہ آئی۔

وہ مزاحمت جس کی ابتداء بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں ظالم ڈوگرہ حکمران کے خلاف شروع ہوئی تھی گزشتہ برس ایک اور نئی اٹھان کے بعد اب غیر معینہ مدت تک کے لیے سرد پڑتی جارہی ہے ۔گزشتہ برس جولائی میں ایک کشمیری نوجوان برہان وانی کی شہادت کے بعد وادی میں آزادی کی تحریک نے نئی انگڑائی لی تھی۔وادی کے دس اضلاع میں زبردست احتجاجی مظاہرے شروع ہوئے۔یہ مکمل طورپرغیر مسلح مظاہرے تھے۔بھارتی فوج کی فائرنگ سے شہید ہونے والے کشمیریوں کے جنازوں میں ہزاروں لوگوں کے اجتماعات دیکھے گئے۔

بھارتی سیکیورٹی فورسز نے ان مظاہروں کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی مگر آزادی کے متوالوں کا یہ طوفان ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتا ہی چلا گیا ۔ پھر پندرہ جولائی کو پوری وادی میں کرفیو لگا دیا گیا ، انٹرنیٹ اور موبائل فون سروس بند کر دی گئی ۔ذرائع ابلاغ پر پابندیاں عائد کی گئیں۔ اس کے باجود کشمیریوں کی غم و غصے میں کمی نہ آئی۔ گلیوں، سڑکوں اور چوراہوں میں نہتے کشمیری آزادی کے حق میں نعرے لگاتے رہے۔وادی کے درو دیوار پر''گو انڈیا گو'' اور ''وی وانٹ فریڈم'' کے نعرے نظر آتے رہے۔

قابض بھارتی فوج نے ان مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پیلٹ گن کا وحشیانہ استعمال کیا اور بہت سے نوجوانوں ، بوڑھوں اور بچوں کو بینائی سے محروم کر دیا ۔صحافی بھی ان سفاک حملوں سے نہ بچ سکے۔ اس دوران عالمی میڈیا پر بھارتی فوج کی جانب سے برسائے گئے آہنی چھروں کے شکار کشمیری احتجاجی مظاہرین کی تصویریں سامنے آئیں تو پوری دنیا میں مقیم کشمیریوں میں غصے کی لہر دوڑ گئی اور پھر احتجاجوں کا دائرہ وسیع تر ہوتا چلا گیا۔

کشمیر میں اس سے قبل 2010ء میں بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے شروع ہوئے تھے لیکن وہ کسی منطقی نتیجے تک پہنچے بغیر ختم ہوگئے تھے۔ گزشتہ برس شروع ہونے والی زبردست احتجاجی تحریک کے بعد بھی امید پیدا ہوئی تھی کہ شاید اب کی بار یہ تحریک کوئی فیصلہ کن رُخ اختیار لے ، مگر بد قسمتی سے ایسا نہ ہوسکا۔ اس حالیہ تحریک میں درجنوں کشمیریوں نے جان کی قربانی دی اور ڈیڑھ ہزار سے زائدزخمی ہوئے۔ کاروبار زندگی طویل عرصہ تک معطل رہا۔



کشمیری حریت رہنما قید و بند کا شکار رہے ۔جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ کے رہنما یاسین ملک انتہائی ناگفتہ بہ طبی حالات کے باجود بار بار پس دیوارِ زنداں دھکیلے گئے۔ بزرگ حریت لیڈر سید علی گیلانی اور میر واعظ عمر فاروق بھی نظر بندی کا شکار رہے۔ بھارتی سرکار نے اس دوران کشمیری حریت رہنماؤں سے بات چیت کی کوشش بھی کی لیکن ان کی جانب سے صاف انکار کی وجہ سے ایسا ممکن نہ ہو سکا۔ جولائی کے دوسرے ہفتے میں لگایا گیا کرفیو اگست کے آخر تک جاری رہا۔ اس کے بعد بھی وادی کے مختلف علاقوں میں جزوی کرفیو نافذ رہا۔

کشمیریوں کی نگاہیں پاکستان کے پالیسی سازوں اور اقوام متحدہ میں موجود مشنوں کی جانب مرکوز رہیں مگر اس جانب سے بھی کوئی خاطرخواہ ردعمل انہیں نہیں مل سکا۔ اب ایک بار پھر وادی میں زندگی اپنے معمولات کی جانب لوٹ رہی ہے اور شناخت کے بحران کے شکار کشمیری دل میں آزادی کی چنگاریاں لیے ایک بار پھرکسی مناسب لمحے کے انتظار میں اپنے کاموں میں جٹ گئے ہیں۔

پاکستان اور آزادکشمیر میں آج پانچ فروری کے دن یوم یکجہتی کشمیر منایا جا رہا ہے ۔کشمیر کے موضوع پر سیمینارز، کانفرنسیں، ریلیاں اور تصویری نمائشوں کا اہتمام کیا گیا ہے ۔ اخبارات میں سیاسی زعماء کے ناموں اور تصویروں کے ساتھ پیغامات شائع کیے گئے ہیں اور یہ ہر سال کا معمول ہے۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ پاکستان و آزادکشمیر کے عوام مقبوضہ کشمیر کے مظلوم باشندوں کی ساتھ دلی ہمدردی رکھتے ہیں لیکن فیصلہ ساز قوتیں اور سیاسی حکمت عملی تشکیل دینے کے ذمہ دار افراد کا مذکورہ بالا نمائشی اور مصنوعی سرگرمیوں کی حد تک محدود رہنا بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے۔ ان سوالات یا تضادات کا جائزہ لینا بہر حال ضروری ہے۔

کشمیر میں گزشتہ برس جب تحریک اپنے عروج پر تھی تو اوڑی حملے کو جواز بنا کر بھارت کو بھرپور پروپیگنڈے کا موقع ملا ۔ اس حملے کا الزام پاکستان پر لگایا گیا ۔اس کے بعد سیز فائر لائن (لائن آف کنٹرول )پر بھارت نے سرجیکل اسٹرائیک کا دعویٰ کیا ۔ پاکستان نے اس دعوے کی تردید کی اور اس پر پاکستانی وبھارتی میڈیا میں بھی کافی گرما گرم بحث و مباحثہ ہوتا رہا ۔اس کے بعد سیز فائر لائن پر مختلف سیکٹرز میں کراس بارڈر فائرنگ شروع ہوئی۔

وادی نیلم میں ایک مسافر بس کو نشانہ بنایا گیا جس میں کئی بے گناہ افراد جان سے گئے ۔خونی لکیر کے آر پار بسنے والے کشمیریوں میں شدید خوف وہراس پیدا ہوا۔ اس دوران پاکستانی عسکری اداروں کی جانب سے ایک بھارتی فوجی کی گرفتاری کا دعویٰ کیا گیا جبکہ بھارت مسلسل یہ دعویٰ کرتا رہا کہ اس کی جانب سے کی گئی سرجیکل اسٹرائیکس کامیاب تھیں۔ کئی ماہ گزر جانے کے بعد یہ کھلا کہ آزادکشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد کے نواح میں واقع ایک گاؤں کے دو نوجوان بھارتی فورسز کی قید میں ہیں۔

المیہ یہ ہے کہ ہمارے ادارے اس خبر سے قطعی لاعلم تھے یا پھر انہوں نے جان بوجھ کر اس خبر کو مخفی رکھا۔اچانک ایک دن بھارتی نیوز چینل پر انتہاء پسند نظریات کا پرچار کرنے والے ایک صحافی نے انکشاف کیا کہ آزادکشمیر کے دو لڑکے بھارتی فوجی اداروں کی قید میں ہیں۔ اس کے بعد پاکستانی اداروں کی آنکھ کھلی اور معمول کے کچھ بیانات دیے گئے۔ اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان بے گناہ نوجوانوں کی رہائی کی کوششیں تیز کی جاتیں لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ ابھی کچھ دن قبل بھارتی فوج کا ایک اہل کار مٹھائیوں کے ساتھ یہ کہہ کر واپس لوٹایا گیا کہ وہ بھول کر سرحد پار کر گیا تھا۔ یہاں یہ سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ وہ سپاہی وہی تو نہیں تھا جسے سرجیکل اسٹرائک کے دنوں میں گرفتار کیا گیا تھا۔



آزاد کشمیر حکومت کی تحریک آزادی میں دلچسپی کا فقدان

مقبوضہ وادی میں جاری تحریک کے دوران آزادکشمیر کی حکومت کا رویہ انتہائی مایوس کن رہا ہے ۔ اس عرصے میں آزادکشمیر میں عام انتخابات جاری تھے ، وفاقی حکومت کے وزراء آزادکشمیر میں اپنی سیاسی جماعت کی شاخ کے لیے بھرپور مہم میں مصروف تھے اور آزادکشمیر کے سیاست دان بھی مقبوضہ کشمیر کی تحریک سے قطعی لاتعلق رہے ۔ پھر آزادکشمیر میں مسلم لیگ نواز کو بھاری اکثریت ملی اور اس کی حکومت قائم ہو گئی۔

اس دوران مظفرآباد میں دو قسم کی احتجاجی مظاہرے دیکھے گئے۔ ایک تو وہ مظاہرے تھے جس میں صرف وہ کشمیری باشندے شامل تھے جو مہاجر کیمپوں میں پناہ گزین ہیں ، جو برسوں سے اپنے مستقبل کے لیے تنازعہ کشمیر کے حل کے منتظر کسمپرسی کے ایام کاٹ رہے ہیں۔ دوسرے احتجاج جوکہ بہت محدود تھے ،ان کا اہتمام آزاد حکومت کی جانب سے کیا گیا۔

ذرائع کے مطابق ان احتجاجوں کے شرکاء میں ترقیاتی و بلدیاتی اداروں کے ملازمین اور اسکولوں کے بچے اور اساتذہ کی حاضری کو لازم قرار دیا جاتا رہا ۔ نتیجے کے اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ ایک مصنوعی سرگرمی تھی جو اخبارات کی ڈبل کالمی خبروں اور ٹی وی کے چند ٹکرز تک محدود رہنے کے بعد ختم ہو گئی۔

آزاد کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے ایک دو مشترکہ اجلاس بھی بلائے گئے جو ہمیشہ کی طرح روایتی قراردادوں پر منتج ہوئے ۔ اس سال آزادحکومت کی جانب سے یوم یکجہتی کے حوالے سے جو تازہ حکم نامہ جاری کیا گیا ہے، اس کے مطابق سائرن بجنے پر چند منٹ کے لیے ٹریفک روک دی جائے گی ، فجر کی نماز کے بعد کشمیر کی آزادی کے لیے دعا ہوگی ، اخبارات صدر وزیر اعظم کے اس دن کے حوالے سے پیغامات شائع کرنے کے پابند ہوں گے وغیرہ وغیرہ ۔یہ سالہا سال کا معمول ہے۔

ابھی پچھلے ہفتے آزادکشمیر کے وزیر اعظم برطانیہ اور یورپ کا دورہ بھی کر کے واپس آئے ہیں ۔ اس دورے کے دوران انہوں نے جہاں تک ممکن ہو سکا کشمیریوں کی آواز پہنچائی لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ قائم ہے کہ عالمی فورمز پر آزادکشمیر حکومت باقاعدہ شناخت نہ ہونے کی وجہ سے ان کے پاس براہ راست مکالمے کا کوئی مینڈیٹ نہیں ہے۔

یہی وجہ ہے کہ کشمیریوں کو اپنا مقدمہ خود لڑنے میں کئی طرح کی رکاوٹیں حائل ہیں۔ ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والے بیانات کو ایک طرف رکھ کرا گر زمینی حقائق کا تجزیہ کیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ کشمیر کی جدو جہد کے حوالے سے جس قدر حساسیت مقبوضہ وادی میں پائی جاتی ہے ، اس طرح کا جوش و جذبہ آزادکشمیر میں مفقود ہے۔

آزاد حکومت نے کشمیر لبریشن سیل کے نام سے ایک ادارہ تو قائم کر رکھا ہے لیکن بدقسمتی سے یہ ادارہ صرف سیاسی بھرتیوں تک محدود ہو چکا ہے۔ اس عرصے میں کشمیر لبریشن سیل نے کوئی ایسی مطبوعات شائع نہیں کیں جن سے آزادکشمیر میں مسئلہ کشمیر کے بارے میں آگاہی میں اضافہ ہو اور نہ ہی کوئی ایسی تحقیق سامنے آئی ہے جو صورت حال کا درست تجزیہ کرنے میں مددگار ثابت ہو۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وادی کشمیر کے اندر سے شعور رکھنے والے عوام اور اہل قلم شکایت کرنے لگے کہ ہم ادھر لڑ مر رہے ہیں، جبکہ آزاد حکومت اقتدار کی جنگ اور علاقائی ایشوز میں گم ہے ۔ اگر آزادحکومت نے اس روایتی بے حسی پر کمر باندھے رکھی تو آر پار اعتماد کے رشتے میں دراڑ آ سکتی ہے جو منقسم کشمیر کی مکمل آزادی اور وحدت کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔

حکومت پاکستان کشمیر پر دوٹوک پالیسی مرتب کرے

پاکستان کے پالیسی ساز اداروں کی کارکردگی بھی تسلی بخش نہیں رہی ۔ گزشتہ برس کی مزاحمتی تحریک کے دوران پاکستان کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کیا اور کشمیریوں کی حق خودارادیت کے حصول کی جانب دنیا کی توجہ دلانے کی کوشش کی ۔ یہ اچھا اقدام تھا ۔ اس کے بعد حکومت پاکستان نے دنیا بھر سفارتی وفود روانہ کرنے کا فیصلہ بھی کیا۔ ان وفود میں قومی اسمبلی کے ممبران وغیرہ شامل تھے۔

ان وفود کے بھیجنے کا مقصد یہ تھا کہ دنیا کو کشمیر میں ہونے والے مظالم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے آگاہ کر کے ان کی سیاسی واخلاقی حمایت حاصل کی جائے اور بھارت پر دباؤ بڑھایا جائے لیکن افسوس ناک صورت حال اس وقت سامنے آئی جب پتہ چلا کہ ان وفود میں شامل اکثر افراد کو کشمیر کے جغرافیے ، سیاست اور مزاحمت کی تاریخ سے معمولی آگاہی بھی نہیں ہے ۔ ذرائع ابلاغ پر ان وفود کے نمائندوں سے جب سوال کیے گئے تو یہ مکمل طور پر لاعلم پائے گئے۔ یہاں سے اندازہ لگایا سکتا ہے کہ کشمیر کے مسئلے میں ہمارے ارکان پارلیمنٹ کو کس حد تک دلچسپی ہے۔

دوسری جانب ابھی کچھ دن قبل حریت کانفرنس کے بزرگ رہنما سید علی گیلانی کا بیان سامنے آیا جس میں انہوں نے کشمیر کمیٹی کی سربراہی سے مولانا فضل الرحمان کو ہٹانے کا مطالبہ کیا ۔یہ سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ کشمیر کمیٹی نے اپنے دائرہ کار میں اب تک کیا کام کیا یا کیا تجاویز مرتب کیں لیکن اصل سوال ان اداروں اور پالیسی سازوں سے ہے جو لائن آف کنٹرول اور تنازعۂ کشمیر سے جڑے امور کے بارے میں حتمی اور فیصلہ کن اتھارٹی کے حامل سمجھے جاتے ہیں۔

پاکستان میں اس وقت کشمیر کا نام صرف جماعت اسلامی کے جلسوں میں سننے کو ملتا ہے ، حکمران جماعت مسلم لیگ نواز اور دوسری مقبول پارٹی تحریک انصاف تو اس معاملے سے قطعی الگ دکھائی دیتی ہے۔ اس کے علاوہ کبھی کبھار ''دفاع پاکستان کونسل '' نامی ایک اتحاد کے جلسوں میں کشمیر کے لیے نعرے لگائے جاتے ہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ کشمیر کے تنازعے کے باب میں حکومت پاکستان اپنی پوزیشن واضح کرے تاکہ کشمیریوں کے ذہنوں میں اپنے مستقبل کے بارے میں پایا جانے والا ابہام رفع ہو سکے۔



پاکستان میں حریت کانفرنس کا یک جہت ہونا ضروری ہے

آزادکشمیر اور پاکستان میں قائم حریت کانفرنس جموں وکشمیر کی شاخوں کی درست تعداد تو کسی کو معلوم نہیں لیکن ان کے کردار کے حوالے سے ابلاغی اداروں میں اکثر بات چیت ہوتی رہتی ہے ۔گزشتہ برس ایک لمحہ ایسا بھی آیا کہ سری نگر سے بزرگ حریت رہنماء سید علی گیلانی اپنے ٹیلی فونک خطاب میں حریت کانفرنس پاکستان چیپٹر کے زعماء پر برس پڑے۔ پاکستان یا آزادکشمیر میں متحرک حریت کانفرنس کی شاخوں پر مالی بد عنوانی اور داخلی دھڑے بندی کے الزامات لگتے رہتے ہیں۔

اسی حریت کانفرنس کے تحت ریاستی دارالحکومت مظفرآباد اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں احتجاجی مظاہرے ہوتے رہتے ہیں لیکن ان کی جمعیت کا شیرازہ مجتمع نہ ہونے کی وجہ سے ایسے اکثر مظاہرے بے اثرہی رہتے ہیں ۔ اگر آزادکشمیر اور پاکستان میں رہ کر کام کرنے والے یہ کشمیری حریت پسند داخلی دھڑے بندی ختم کر کے کشمیر کی آزادی کی لیے ایک ساتھ متحرک ہوں تو اُس پار بسنے والے مظلوم کشمیریوں کی ڈوبتی امیدیں ایک بار پھر توانا ہو جائیں گے۔

یکجہتی کے علامتی اظہار کے ساتھ مسئلہ کی تفہیم بھی ضرروی ہے

آزادکشمیر یونیورسٹی اور جامعہ پنجاب میںعرصے سے ''کشمیریات'' کا شعبہ قائم ہے ۔ اسی طرح آزادکشمیر میں ''جے کے لبریشن سیل'' نامی ادارہ بھی تحریک آزادی کو علمی وفکری کُمک مہیا کرنے کے مقصد کے تحت قائم ہے ۔ ان اداروں کی بنیادی ذمہ داریوں میں شامل ہے کہ وہ ایسا لٹریچر تیار کریں جس سے لوگوں بالخصوص کشمیر کے منقسم حصوں میں بسنے والوں کو مسئلہ کشمیر کے بارے میں آگاہی حاصل ہو سکے۔

یونیورسٹیوں میں قائم کشمیریات کے شعبوں میں کشمیر اور اس کی تحریک کے مختلف پہلوؤں پر تحقیقی کام ہونا چاہئے لیکن بد قسمتی سے ابھی تک ان اداروں کی جانب سے کوئی ایسی قابل ذکر کتاب یا تحقیق سامنے نہیں آ سکی جسے کشمیر کے باب میں حوالے یا سند کا درجہ حاصل ہو سکے۔

اس وقت کشمیر میں جاری مزاحمتی تحریک کے سماجی اور نفسیاتی پہلوؤں پر تحقیق کی اشد ضرورت ہے۔ کشمیر کے منقسم خطوں کے درمیان لٹریچر کے تبادلے کا منظم نظام قائم کرنے سے تاریخ کے نشیب وفراز کی وجہ سے پیدا ہوجانے والے بین العلاقائی فاصلوں کو پاٹنے میں مدد مل سکتی ہے۔ ڈراموں ، دستاویزی فلموں اور کشمیری زبان و ثقافت کی علامتوں کو یکساں طور پر تمام خطوں میں اجاگر کرنے کی ضرورت ہے ۔اس حوالے سے زیادہ کردار آزادحکومت ریاست جموں وکشمیر کا بنتا ہے۔

کشمیریوں کی آرپار آمد ورفت میں حائل رکاوٹیں ختم کی جانی چاہیں

کشمیر کے دونوں اطراف بے شمار خاندان ایسے ہیں جو خونی لیکر(سیز فائر لائن) کھنچ جانے کے بعد ایک دوسرے سے جدا ہو گئے ہیں ۔ پرویز مشرف کے دور میں ان کے درمیان ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا تھا اور مظفرآباد سے سری نگر کے لیے ایک بس چلائی گئی تھی ۔ اس عرصے میں برسوں کے بچھڑے کئی خاندانوں کو آر پار سفر کا موقع ملا اور یہ سلسلہ کسی حد تک جاری ہے ۔ لیکن اکثر سیز فائر لائن پر فائرنگ کے اوقات میں یہ بس سروس معطل کر دی جاتی ہے۔

مقبوضہ کشمیر میں بسنے والے کشمیریوں کے پاس دوسرا آپشن واہگہ کے راستے پاکستان میں داخلے کا ہوتا ہے۔ یہ کشمیری پہلے تو بھارتی سکیورٹی اداروں کی انتہائی تکلیف دہ پڑتال سے گزرتے ہیں اور جب یہ پاکستان سے ہوتے ہوئے اپنے برسوں سے بچھڑے ہوئے پیاروں سے ملنے آزادکشمیر کی حدود میں داخل ہونے لگتے ہیں تو انہیں یہاں کے سکیورٹی و انتظامی اداروں کی جانب سے روک دیا جاتا ہے۔ پھر یہ اسلام آباد اور روالپنڈی کے کسی ہوٹل میں مختصر ملاقات کے بعد واپس بوجھل دل کے ساتھ وطن مالوف کو لوٹ جاتے ہیں۔

مقبوضہ کشمیر کو کوئی بھی باشندہ آئین کی رو سے آزاد کشمیر کا شہری ہے اور پورے آزادکشمیر میں آزادانہ سفر کر سکتا لیکن نفسیاتی طور پر شکستہ کشمیری باشندوں کو یہاں سے ایک بار پھر مایوس لوٹنا پڑتا ہے ۔ یکجہتی کے کھوکھلے اظہار کی بجائے ضرورت اس امر کی ہے کہ کشمیر کی دونوں اطراف میں نقل وحمل میں حائل غیر ضروری رکاوٹوں کو ختم کیا جائے تاکہ اپنے پیاروں کو ملنے آنے والے افراد اچھی یادیں لے کر واپس لوٹیں۔

اس وقت دنیا کی سیاست میں بڑی اہم تبدیلیاں واقع ہو رہی ہیں۔پاک چین اقتصادی راہداری کی وجہ سے دنیا بھر میں اس خطے کی اہمیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ تاریخ کے اس اہم ترین مرحلے میں کشمیر کی حوالے کیے گئے آئینی فیصلوں کا گہرا اثر واقع ہو سکتا ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان عالمی سطح پر کشمیریوں کے حق خود ارادیت اور آزادی کی بھرپور حمایت اور ترجمانی کرے اور آزادکشمیر کی حکومت اپنے دستیاب وسائل بروئے کار لا حقیقی معنوں میں کشمیر کی آزادی اور وحدت کی تحریک کے بیس کیمپ کا کردار ادا کرے۔ یہی مظلوم ومقہور کشمیریوں سے یکجہتی کا بنیادی تقاضا ہے۔

پاک چین اقتصادی راہداری اہم مگرکشمیر کی جغرافیائی نزاکتوں کا لحاظ اہم تر

اس وقت پاکستان اور چین کے درمیان تیزی کے ساتھ اقتصادی راہداری پر کام جاری ہے ۔ اس حوالے سے حکومت پاکستان اپنے عوام کو ایک روشن مستقبل اور معاشی انقلاب کے مژدے سنا رہی ہے ۔ کہا جا رہا ہے کہ سی پیک کے بننے سے خطے کی تقدیر بدل جائے گی لیکن اس تصویر ایک دوسرا پہلو بھی ہے جس کی جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ پاک چین اقتصادی راہداری گلگت بلتستان سے گزرے گی اور گلگت بلتستان تاریخی طور پر منقسم کشمیر کی ایک اکائی شمار ہوتا ہے۔

حکومت پاکستان نے آزادکشمیر کی حکومت سے ایک معاہدے (معائدہ کراچی)کے تحت اس کا عارضی انتظام سنبھالا تھا ۔آئین پاکستان کی رو سے بھی کشمیر کا تنازعہ حل ہو جانے تک گلگت بلتستان پاکستان کا باقاعدہ حصہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔موجودہ صورت حال میں گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کے بارے میں فیصلہ حکومت پاکستان کے لیے بڑا چیلنج ہے ۔ ایک طرف اقتصادی راہداری کو ہر اعتبار سے محفوظ روٹ کی ضرورت ہے تو دوسری جانب گلگت بلتستان کی خصوصی حیثیت سے جڑی نزاکتوں کا خیال رکھنابھی اہم ہے۔

گلگت بلتستان کی پہلے سے موجود آئینی حیثیت کے بارے میں عجلت سے کیا گیا کوئی بھی فیصلہ اقوام متحدہ میں کشمیر سے متعلق قراردادوں پر منفی انداز میں اثر انداز ہو نے کے ساتھ ساتھ بھارت کے لیے کشمیر پر ناجائزقبضے کے جواز کی دلیل بھی بن سکتا ہے ۔ اس لیے ضروری ہے کہ یک طرفہ فیصلوں کی بجائے آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کی حکومت کے ساتھ سنجیدہ مشاورت کے بعد کوئی محتاط اور نتائج کے اعتبار سے موزوں لائحہ عمل طے کرنا چاہئے۔

ایک اور چیز بھی مشاہدے میں آرہی ہے کہ آج کل پاکستان کے مختلف شہروں میں ''تحریک آزادی جموں کشمیر'' نامی کسی نئی جماعت کی طرف سے ایسے بینرز لگائے جارہے ہیں جن میں ریاست جموں وکشمیر کااجنبی سا ادھورہ نقشہ پیش کیا جا رہا ہے ۔ یہ اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے ساتھ ساتھ کشمیریوں کی مقدمے کی بنیادیں ہلانے کے مترادف ہے۔ اس معاملے میں احتیاط کی جانی چاہیے۔n

جہادی تنظیموں کے کردار کی تحدید اور اخلاقی وسفارتی حمایت کا خوش آئند فیصلہ

کشمیر میں بہت سی جہادی تنظیمیں متحرک رہی ہیں جن میں لشکر طیبہ ، جیش محمد، حرکت الانصاراور حرکت المجاہدین شامل ہیں ۔ حزب المجاہدین کے کمانڈرسید صلاح الدین آزادکشمیر اور پاکستان میں رہتے ہوئے اپنی تنظیم کی سرپرستی کر رہے ہیں اور عمومی خیال یہ ہے کہ اس جماعت میں شامل سب کارکن کشمیری النسل ہیں جبکہ دیگر مذکورہ تنظیموں کا معاملہ مختلف ہے۔

حکومت پاکستان نے گزشتہ دہائی میں لشکرطیبہ اور جیش محمد وغیرہ پر پابندی عائد کر دی تھی اور حال ہی میں جماعۃ الدعوۃ کی سرگرمیوں کو بھی روک کر جماعۃ الدعوۃ کے سربراہ حافظ سعید کو نظر بند کر دیا گیا ہے ۔ حافظ سعید اور ان کے چاہنے والوں کو کہنا ہے کہ وہ سال 2017ء کشمیر کی آزادی کے سال کے طور پر منانا چاہتے تھے اور حافظ سعید اور ان کے سرکردہ ساتھیوں کو نظر بند کرکے کشمیریوں کو اچھا پیغام نہیں دیا گیا۔

دوسری جانب حکومت پاکستان پر عرصے سے دباؤ تھا کہ وہ حافظ سعید کی سرگرمیوں کو محدود کرے ۔ عالمی سیاست میں حالیہ نئی تبدیلیوں اور کچھ ممکنہ اندیشوں کے پیش نظر پاکستان کو یہ انتہائی اقدام اٹھانا پڑا۔اگر کشمیر کی ماضی قریب کی عسکری مزاحمتی تاریخ کا تجزیہ کیا جائے تو یہ ماننا پڑتا ہے کہ غیر ریاستی مسلح گروہوں کے غیر منظم استعمال نے محدود وقت تک بھارت پر دباؤ ضرور ڈالا ہے مگر کشمیریوں کے المیوں میں اضافے ہی کا باعث بنتے رہے ہیں۔

ان عسکری تنظیموں کی محدود اور موسمی کارروائیوں کا نتیجہ عام کشمیری باشندوں کو بھگتنا پڑتا ہے جبکہ دوسری جانب بھارت کو یہ راگ الاپنے کا موقع میسر آ جاتا ہے کہ کشمیری پرامن ہیں ، یہ پاکستان کی جانب سے ''دراندازی'' ہے۔ ان حالات میں اہم ہے کہ پاکستان کے مقتدر سمجھے جانے والے حلقے اور پالیسی ساز کشمیر کے حوالے سے واضح لائن لیں تاکہ منظر پر چھائی ہوئی دھند کسی قدر چھٹ سکے۔

یہاں یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ پاکستان عالمی سطح پر کشمیریوں کا وکیل سمجھا جاتا ہے اوراس نے شروع دن سے کشمیریوں کی اخلاقی و سفارتی حمایت کا اعلان کر رکھا ہے ۔ لمحہ موجود میں ضرورت اس امر کہ کشمیر کے معاملے میں موثر سفارت کاری کر کے دنیا کی توجہ اور ہمددری حاصل کی جائے تاکہ کشمیریوں کی غیر مسلح مزاحمتی جد وجہد ان کی مرضی کے مطابق کسی منطقی انجام تک پہنچ سکے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔