داستان سرائے کی بانو قدسیہ بھی رخصت ہوئیں

ہندو پاک کے معیاری ادبی جرائد میں آپ کے افسانے چھپے اور جلد ہی مقبولیت عامہ حاصل کی۔

میری ماں کبھی سوال نہیں بنی، ہمیشہ جواب کی صورت میں زندہ رہی ہیں۔ فوٹو: نیٹ

ناول نویس اور ڈرامہ نگار اصل نام بانو قدسیہ 28نومبر 1928ء کو فیروز پور میں پیدا ہوئیں۔ 1950ء میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے (اردو) کی ڈگری لی۔ تکمیل تعلیم کے بعد خانہ داری کا فیصلہ کیا اور مشہور افسانہ نگار اور ڈرامہ نویس اشفاق احمد سے شادی کی۔ دونوں نے مل کر ادبی جریدہ ''داستان گو'' بھی جاری کیا جو چند سال کامیابی سے چلتا رہا۔ ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے لئے ڈرامے لکھے۔



ایک عظیم ادیبہ بانو قدسیہ کے بارے میں ایک اور عظیم ادیب ممتاز مفتی کے قلم سے تخلیق پانے والا یہ منفرد خاکہ ''پتی بھگت'' کے عنوان سے منظر عام پر آیا تھا۔ ذیل میں اس تحریر کے اقتباسات پیش کیے جا رہے ہیں۔

آپ بانو کو جانتے ہیں چونکہ وہ مصنفہ ہے۔ قدسیہ کو نہیں جانتے جو فرد ہے۔ میں قدسیہ کو جانتا ہوں بانو کو نہیں جانتا۔ بانو قدسیہ کو غالباً کوئی بھی نہیں جانتا۔ اس لیے کہ بانو قدسیہ ایک نہیں دو افراد ہیں جس طرح کسی کسی بادام میں دو مغز موجود ہوتے ہیں۔ اسی طرح بانو قدسہ کی شخصیت کے دو پہلو ہیں۔ الگ الگ۔ ایک بانو۔ دوسری قدسیہ۔

شاید آپ کبھی مظفر آباد گئے ہوں گے جہاں دریائے نیلم اور دریائے جہلم کا سنگم ہوتا ہے۔ ایک طرف سے دریائے جہلم آتا ہے، گدلا، مٹیالا، شوریدہ سر۔ دوسری طرف سے نیلم آتا ہے۔ نیلم، شفاف، پرسکون پھر وہ دونوں مل جاتے ہیں اور مل کر کئی ایک فرلانگ تک ایک طرف نیلے شفاف اور دوسری طرف گدلے مٹیالے پانی کے دھارے ساتھ ساتھ پہلو بہ پہلو بہتے رہتے ہیں۔ اسی طرح بانو قدسیہ میں ساتھ ساتھ پہلو بہ پہلو سخت کے دو دھارے بہہ رہے ہیں۔ ایک نیلا شفاف ذہن کا دھارا۔ دوسرا گدلا مٹیالا جذبات کا دھارا۔ ایک بانو دوسرا قدسیہ۔

میں بانو قدسیہ سے واقف نہیں ہوں اس لیے اس کی شخصیت قلم بند کرنے سے قاصر ہوں۔ صرف یہی نہیں کہ واقف نہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ میں اس سے واقف ہونا چاہتا ہی نہیں۔ میں ہی نہیں گھر میں کوئی بھی اس سے واقف نہیں، نہ اشفاق، نہ نوکی، نہ کیسی، نہ سیری۔ کوئی بھی بانو سے واقف ہونا نہیں چاہتا۔

بانو کے لیے فکر منزل ہے، قدسی کے لیے پتی بھگتی، اشفاق کے لیے ذات منزل ہے۔ قدسی کی شخصیت کا جزواعظم پتی بھگتی ہے۔ اسے ملنے سے پہلے میں سمجھتا تھا کہ محبت پھولوں کا ہار ہوتی ہے اور جسے پتی بھگت بیوی مل جائے تو اس کے لیے گھر جنت بن جاتا ہے۔ اب مجھے پتہ چلا ہے کہ بے شک گھر جنت بن جاتا ہے لیکن پتی پر محبت کے پھولوں کے اتنے ہار ڈھیر ہوجاتے ہیں اور وہ یوں دب کر رہ جاتا ہے جیسے تازہ کفنائی ہوئی میت پڑی ہو اور اس میں سے مشک کافور کی بُو آنے لگتی ہے۔

اگر آپ پتی بھگتی کا مفہوم سمجھنا چاہتے ہیں تو میرا مخلصانہ مشورہ ہے کہ چند ایک روز اشفاق احمد کے گھر میں قیام کیجئے۔

اگر اشفاق قدسی کی موجودگی میں برسبیل تذکرہ آپ سے کہے کہ اس گھر میں تو سامان کے یوں انبار لگے ہوئے ہیں جیسے سٹیٹس گھر ہو، میرا تو دم رکنے لگا ہے تو اگلے روز گھر میں چٹائیاں بچھی ہوں گی۔ پیڑھیاں دھری ہوں گی سارا گھر خالی پڑا ہوگا۔

اگر کسی روز لاؤڈ تھنکنگ کرتے ہوئے اشفاق کہہ دے بھئی چینی کھانا مجھے بہت پسند ہے تو چند دنوں کے بعد کھانے کی میز پر چینی کھانے یوں لگے ہوں گے جیسے وہ گھر کی نہیں بلکہ ہانگ کانگ ریسوران کی میز ہو۔



ایک روز اشفاق احمد نے کہا قدسیہ، نور بابا کی بات میرے دل میں کھب گئی ہے فرماتے ہیں کوئی چیز خریدو تو پہلے اسے حلال کرلو پھر استعمال کرو۔ میں نے پوچھا وہ کیسے حضور بولے اپنے لیے چار قمیض خریدو تو ساتھ کم از کم ایک قیمض اللہ کے نام پر دینے کے لیے ضرور خریدو۔ مہینے کا سودا خریدو تو ساتھ بیس سیر یا من آٹا اللہ کے نام پر دینے کے لیے ضرور خریدو۔ سکول میں اپنے بچے کی فیس ادا کرو تو ساتھ ہی کسی حاجت مند بچے کی فیس بھی ادا کرو۔ اس طرح وہ خرچ جو تم اپنی ذات پر کروگے، حلال ہوجائے گا۔

اگلے روز اشفاق احمد دفتر سے لوٹا تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک اجنبی لڑکا گھر میں بیٹھا ہے۔ قدسی سے پوچھا یہ کون ہے۔ قدسی بولی ہمارے تین بیٹے مدرسے میں پڑھتے ہیں۔ ان کے اخراجات حلال کرنے کے لیے میں نے ایک حاجت مند بچہ گھر رکھ لیا ہے، ہم اسے تعلیم دلوائیں گے، اس کی پرورش کریں گے۔ آج بھی اشفاق کے گھر میں ایک نہیں تین لڑکے پرورش پارہے ہیں اور باقاعدہ سکول میں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔

ایک روز کھانا کھاتے ہوئے اشفاق نے کہا کھانے کا مزہ تو ان دنوں آتا تھا جب اماں مٹی کی ہنڈیا میں پکایا کرتی تھیں۔ آج کل ککرز نے بربادی کررکھی ہے۔ اگلے روز قدسی کے باوچی خانے میں چار مٹی کی ہانڈیاں چولہوں پر رکھی ہوئی تھیں۔

اس سے شاید آپ یہ سمجھیں کہ پتی بھگت کا مقصد خاوند کو خوش رکھنا ہوتا ہے۔

اونہوں۔ یہ بات نہیں۔

میاں کو خوش رکھنے کی کوشش تو ہر بیوی کرتی ہے۔ آج کل کی بیوی نے میاں کو خوش رکھنے کا ایک نرالہ طریقہ ایجاد کررکھا ہے۔

پہلے وہ میاں کی پسند نا پسند کو بدلتی ہے۔ ایسا جنتر منتر پھونکتی ہے کہ میاں ہر وہ چیز پسند کرنے لگتا ہے جو بیوی کی پسند ہو۔ بیوی اپنے پسند کے کام کرتی ہے لیکن اس انداز سے کرتی ہے کہ میاں یہ سمجھے کہ اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اپنی خواہشات کی قربانی دے رہی ہے۔

قدسی میاں کی پسند نا پسند بدلنے کی کوشش نہیں کرتی۔ الٹا اپنی پسند ناپسند کو میاں کی پسند ناپسند کے مطابق ڈھال لیتی ہے۔ اس کی سب سے بڑی آرزو یہ ہے کہ میاں کی ہر خواہش کو پورا کرے۔ چاہے وہ خواہش قدسی کے مفاد کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔

میری دانست میں جان اور مال کی قربانی دینا اتنا دشوار نہیں جتنا خیالات کی قربانی۔

پتی بھگتی کے علاوہ قدسی کو ایک اور بیماری لاحق ہے۔ یہ ایک کمپلشن ہے۔ اسے خدمت کرنے کا جنون ہے۔

اللہ نہ کرے کہ آپ کو قدسی کے زیر خدمت رہنے کا اتفاق ہو۔ یہ افتاد مجھ پر پڑچکی ہے۔

پچھلے دنوں کی بات ہے کہ مجھے اتھمیٹک پر انکاٹیس کا عارضہ لاحق ہوگیا۔ الرجی کا میں پرانا مریض ہوں۔ پنڈی کے ڈاکٹر نے کہا الرجی کا علاج نہیں شروع کیا جاسکتا،جب تک چھاتی سے بلغم صاف نہ ہو۔



اشفاق نے سوچ سوچ کر میرے لیے غذاؤں کا ایک لمبا چوڑا چارٹ بنایا۔ قدسی نے نرس کے فرائض سنبھال لیے۔ اٹھارہ دن قدسی نے اشفاق کی ہدایات کے مطابق مجھے یوں غذائیں کھلائیں جیسے چڑیا بچے کو چوگا کھلاتی ہے۔ اس نے اتنی احتیاط سے مجھے رکھا جیسے میں کانچ کا گلاس تھا۔ جوں جوں میری صحت بہتر ہوتی جاتی توں توں قدسی کی احتیاط بڑھتی جاتی۔ پندرہ دن کے بعد میں زبردستی وہاں سے بھاگ آیا۔ اگر ایک مہینہ اور رک جاتا تو یقینا جب گھر پہنچتا تو میرے منہ میں چوسنی ہوتی اور ہاتھ میں جھنجھنا۔

قدسی کی بھگتی صرف میاں تک محدود ہے لیکن جذبہ خدمت کی کوئی حد نہیں کوئی ہو۔ دکھی ہو۔ محتاج ہو۔

اشفاق کو دیکھ کر میں حیرت میں ڈوب جاتا ہوں یہ شخص کس مٹی کا بنا ہوا ہے۔ جو بیس سال قدسی سے بھگتی اور خدمت کرانے کے باوجود ابھی تک اپنے پاؤں پر چلتا ہے۔ بوٹ کے تسمے کھولنے کی ترکیب ابھی تک نہیں بھولا۔ چمچے کی بجائے گلاس میں پانی پیتا ہے۔ اگر اشفاق کی جگہ میں ہوتا تو جھولے میں پڑا ہوتا۔ منہ میں دودھ کی بوتل ہوتی۔ گلے میں چوسنی لٹک رہی ہوتی اور میں اپنی خوش قسمتی پر پھولے نہ سماتا۔

آج سے دس سال پہلے بانو کی تصنیف ''شہر بے مثال'' پر تبصرہ کرتے ہوئے میں نے برسیبیل تذکرہ بانو قدسیہ کے متعلق بات کی تھی۔ مجھے اجازت دیجئے کہ اقتباس پیش کروں۔

شاید آپ کو اشفاق کے گھر جانے کا اتفاق ہوا ہو۔ اشفاق آپ کو بڑے تپاک سے ملے گا اور پھر اپنی باتوں کا رنگین جال بچھا دے گا۔ اشفاق باتوں کا رسیا ہے۔ گمان غالب ہے کہ اس کی باتوں کے جال میں پھنس کر آپ کو پتہ بھی نہ چلے کہ کمرے میں ایک سادہ سی گھریلوسی، میلی سی، بے زبان عورت داخل ہوچکی ہے۔ ایسی عورت جو آپ کی توجہ کو جذب کرنے کی کوشش نہیں کرتی جس کی طرف دیکھنے پر آپ خود کو مجبور نہیں پاتے جسے ایک نظر دیکھ کر آپ آسانی سے نظر انداز کرسکتے ہیں۔

پھر آپ دیکھیں گے کہ وہ آپ کو چائے کا پیالہ پیش کررہی ہے۔ اخلاقاً آپ اس کی طرف متوجہ ہوجائیں گے۔ وہ خوش اخلاقی سے آپ سے دو ایک باتیں کرے گی اور پھر یا تو کمرے سے باہر نکل جائے گی اور یا وہیں کسی کونے میں مودبانہ بیٹھ کر خود کو معدوم کردے گی۔ آپ کی باتوں میں لقمہ نہیں دے گی، بچت میں حصہ نہیں لے گی، اشفاق کے لطیفوں پر یوں ہنسے گی جیسے پہلی مرتبہ سن رہی ہو۔ آپ پر ظاہر نہ ہونے دے گی کہ زیر بحث موضوع پر اسے بھی کچھ کہنا ہے۔

اول تو اس بے پر کی چیونٹی کے متعلق آپ سوچیں گے ہی نہیں خیال آبھی جائے تو آپ محسوس کریں گے ''تت تت کتنی اچھی ہے بیچاری۔''

لیکن اگر آپ چار ایک دن کے لیے اشفاق کے گھر میں قیام کریں تو آپ دیکھیں گے کہ یہ ''تت تت بیچاری'' کونوں سے نکل کر ابھر رہی ہے، ابھرے جارہی ہے، پھیل رہی ہے، پھیلے جارہی ہے حتیٰ کہ سارا گھر قدسی سے بھرجائے گا۔

اگر دیکھیں گے کہ ابھی وہ ادھر چھوٹے سیری کو کپڑے پہنا رہی تھی اب ادھر بیٹھی جیا گریفی کل میگزین کا مطالعہ کررہی ہے۔ ہائیں۔ وہ تو باورچی خانے میں شلغم کا اچار تیار کرنے لگی۔ لو وہ تو برآمدے میں سلائی کی مشین پر بیٹھی محمد شاہ رنگیلے گنگارہی ہے۔ ابھی وہ صحن میں سلاد کے بوٹے ٹھیک کررہی تھی، اب بریگیڈیئر اشتیاق سے آرمی ڈرل کے سٹائل پر بحث کرنے لگی، ابھی ڈرائنگ روم میں بنی سجی گڑیا نما خواتین کی بے مقصد مہمل باتوں پر گھاگ دنیا دار کی طرح یوں قہقہے لگارہی تھی جیسے واقعی محظوظ ہورہی ہو۔ ارے لو وہ تو چادر کی بکل مارے پر ان پتی کے حضور میں مودبانہ کھڑی پڑوسن سے جاکر ملنے کی آگیا لے رہی ہے۔

پتہ نہیں کیسے وہ ہر جگہ موجود ہوتی ہے۔ ہر بات میں دلچسپی لیتی ہے، ہر کھیل میں بچوں کی طرح شامل ہوجاتی ہے۔


اس کے سامنے اشفاق کے سمیت گھر کے سارے کردار ماند پڑجاتے ہیں۔ معدوم ہوجاتے ہیں۔ ساری چیزیں اپنی جاذبیت کھو دیتی ہیں اور اس کی شخصیت یوں چھاجاتی ہے جیسے کوہستانی زیرہ ہو۔

چند ایک سال ہوئے ہم چار دوست مسعود قریشی، محمد عمر، عبداللہ اور میں کاغان گئے تھے۔ ناران کے قریب ہمیں ایک کوہستانی مل گیا۔ اس سے ہم نے پاؤ بھر کوہستانی زیرہ خریدا۔ اسے رومال میں باندھ کر ہم نے پوٹلی بنالی۔ ہوٹل پہنچ کر ہم نے وہ پوٹلی میز پر رکھ دی کھانا کھایا اور سوگئے۔



آدھی رات کے وقت عمر نے چلّا کر کہا یارو کمرے میں کیا ہے آج!

مسعود بولا ہاں یار کچھ ہے ضرور۔

عبداللہ کہنے لگا اسی وجہ سے مجھے بھی نیند نہیں آرہی۔

میں نے جواب دیا بوسی ہے جو سونے نہیں دیتی۔

ساری رات ہمیں نیند نہ آئی۔

صبح ہوئی تو سارا کمرہ کوہستانی زیرے کی خوشبو سے بھرا ہوا تھا ناشے کے وقت انڈا کھایا تو گویا وہ بھی زیرے کا بنا ہوا تھا۔ چائے میں باورچی نے پتی کی بجائے زیرہ ڈال رکھا تھا۔ پینے کا پانی زیرے کا عرق تھا۔ سگریٹ میں تمباکو کی جگہ زیرہ بھرا ہوا تھا۔ ہم سب ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے۔

مسعود بولا ٹھہرو۔ وہ چپکے سے اٹھا دو انگلیوں سے زیرے کی پوٹلی اٹھائی یوں جیسے مرا ہوا چوہا ہو۔ عقبی کھڑکی سے اسے دریا میں پھینک کر ہاتھ جھاڑے اور اطمینان سے کرسی پر آبیٹھا۔

قدسی اور اس پوٹلی میں صرف دو فرق ہیں۔ پوٹلی نے اپنا راز فاش کردیا تھا اور پوٹلی کو دریا میں پھینکا جاسکتا تھا۔

آپ کہیں گے بھئی بانو کی بات کیوں نہیں کرتے۔ بانو کی بات قدسی کرنے بھی دے۔ صرف قدسی ہی نہیں۔ بانو کی بات کرنے کو میرا جی نہیں چاہتا۔ آپس کی بات ہے۔

قدسی میری دوست ہے میں اسے پیار کرتا ہوں۔ بانو میری حریف ہے ہمارے درمیان پروفیشنل رقابت کی دیوار حائل ہے۔ غضب خدا کا کل کی چھوکری ہمارے ہاتھوں میں پلی۔ آج ہمیں آنکھیں دکھاتی ہے کیا زمانہ آیا ہے۔

بانو کو گھر میں کوئی نہیں پوچھتا۔ اشفاق اسے مانتا نہیں اس لیے درخور اعتنا نہیںسمجھتا۔ میں اسے مانتا ہوں کچھ زیادہ ہی مانتا ہوں اس لیے درخوراعتنا نہیں سمجھتا۔ اشفاق نے بانو کی کوئی تخلیق آج تک نہیں پڑھی۔ البتہ مربیانہ انداز میں کہتا رہتا ہے، بانو کبھی وقت ملا تو تیری تازہ کہانی پڑھوں گا۔

ایک روز مجھ سے کہہ رہا تھا۔ ہاں اچھا لکھتی ہے۔ میرا مطلب ہے خاصہ۔ پھر وہ مجھ سے قریب تر ہوکر بولا تلقین شاہ کے جملے چرالیتی ہے ٹانکنے نہیںآتے۔

میں نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ بانو سے واقف نہیں ہوں اور نہ ہی واقف ہونا چاہتا ہوں۔ کئی مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ برسبیل گفتگو بانو بول اٹھتی ہے۔ ایسی گہری اور دور رس بات کہہ دیتی ہے کہ میں چونک جاتا ہوں۔ یہ کون بولا۔

پھر قدسی ہنس پڑتی ہے کوئی بھی نہیں جانتا قدسی کے کہنے پر بانو چپ کیوں ہوجاتی ہے۔ کبھی دل کے کہنے پر ذہن کا بھڑ چپ ہوا ہے کیا۔ کبھی دانشور نے کسی کی بات مانی ہے کیا۔ کبھی دانشور نے نمائش کو چھوڑا ہے کیا۔ کبھی مصنف چمکیلی بات لشکانے کے بغیر رہا ہے کیا۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔بچپن میں بانو اور قدسیہ اکٹھی رہا کرتی تھیں، پھر قدسی جوان ہوکر باہمنی بن گئی تو بانو شودھرانی بن کر رہ گئی۔ پھر باہمنی کی جھکی جھکی آنکھیں اشفاق سے لڑگئیں تو بانو کی کوئی حیثیت ہی نہ رہی۔ پھر جب اشفاق اور قدسی کی شادی ہوگئی تو قدسی نے بانو کو دوپٹے کی کنی میں باندھ کر محفوظ کرلیا۔ اس زمانے میں اشفاق اپنے ہاتھ میں گڈریے کا سونٹا لیے پھرتا تھا۔ قدسی کو خطرہ تھا کہ بانو کو سونٹا نہ لگ جائے۔ چوٹ نہ آجائے۔

بانو نے کئی بارے اپنے وجود کا اظہار کرنا چاہا۔ جب بھی وہ ادبی بات کرتی تو اشفاق کا رویہ کچھ ایسا ہوتا کہ بی بی آلو چھیلو، خان زادوں کے پوتڑے دھوؤ۔ میرے سلیپر ڈھونڈ کر پاؤں تلے رکھو۔ ادب کی بات چھوڑو۔ بانو کو بات سمجھ میں آگئی کہ اس جاگیردار کے سامنے دال نہیں گلے گی۔ جان کی امان چاہتی ہو تو انڈر گراؤنڈ چلی جاؤ۔

پھر یہ کیچوی چپ چاپ انڈر گراؤنڈ رینگتی رہی رینگتی رہی۔ رینگتے رینگتے وہ براڈ کاسٹنگ ہاؤس تک جاپہنچی۔ ادبی جریدوں پر جاچڑھی، ٹی وی کی دہلیز پر جاپہنچی۔ الحمراء کی سٹیج پر براجمان ہوگئی۔

نہ ماننے کے باوجود اشفاق نے محسوس کیا کہ راج پاٹ خطرے میں ہے۔ اس نے اپنی شان مزید درخشاں کرنے کے لیے تلقین شاہ کا مرصع چغہ پہن لیا۔ ایک ہاتھ میں تو گڈریے کا سونٹا تھا ہی دوسرے میں حسرت تعمیر کا عصا پکڑلیا۔ قدسی نے بہتیرا کہا بانو بی بی میرے پتی کے لیے مشکلات پیدا نہ کر لیکن آپ جانتے ہیں دانشور جب انڈر گراؤنڈ چلا جاتا ہے تو اسے کوئی نہیں سمجھا سکتا۔ بانو باغی ہوچکی تھی۔

مہینے میں کم از کم ایک بار میں لازماً موقعہ پیدا کرتا ہوں، اور پھر بانو سے کہتا ہوں بانو تم کمال لکھتی ہو واہ واہ کیا فکر ہے کیا تخیل ہے انفرادیت ہے گہرائی ہے انداز بیاں ہے۔ اس پر بانو گھبرا کر کہتی ہے نہیں نہیں میں تو کچھ بھی نہیں۔

پھر وہ میں تو کچھ بھی نہیں۔ دیر تک میرے کانوں میں گونجتا رہتا ہے۔ اور میری حیثیت بنی رہتی ہے۔
''میری ماں کبھی سوال نہیں بنی، ہمیشہ جواب کی صورت میں زندہ رہی''

اپنی والدہ کے بارے میں بانوقدسیہ کی جیتی جاگتی تحریر

یہ37ء کا واقعہ ہے

ان دنوں دھرمسالہ کی کل آبادی پانچ ہزار تھی لیکن اس تھوڑے سے معمورہ کے لیے بجلی، پکی سڑکیں، سول ہسپتال، سینما گھر، لڑکے اور لڑکیوں کے لیے دسویں تک سکول بمع ایک عدد انگریز ہیڈماسٹر کے موجود تھا۔ ایک ایسا کلب بھی تھا جس میں فیشن ایبل افسران ٹینس، برج اور بیڈمنٹن کھیلتے تھے۔ کلب مخلوط تھا اور اس میں کچھ آزاد خیال پڑھی لکھی اور امیر خواتین بھی برابر کی ممبر تھیں۔ شاید اتناشائستہ شہر ہونے کی بنیادی وجہ اپر دھرمسالہ کی چھاؤنی تھی جس میں گورکھا اور انگریز فوجوں کا قیام تھا۔

پانچ ہزار کی آبادی کے لیے تہذیبی طور پر تو حکومت نے بہت سی عنایات کر رکھی تھیں لیکن ان پہاڑی علاقوں کی شامیں پھر بھی اداس رہا کرتیں۔ پہاڑوں میں عموماً شام پڑتے ہی شہر سنسان ہونے لگتا ہے اور پہاڑی لوگ اپنے اپنے گھروں کو لوٹنے پر پہاڑوں کو اندھیرے میں ڈوبتے دیکھنا پسند کرتے ہیں۔

ایسی ہی ایک اداس رات میں گھرتی شام کو میری والدہ،بھائی اور میں گھر لوٹ رہے تھے۔ صاف ستھری سڑک کے کنارے بانس کے جھنڈوں میں جگنو جگمگا رہے تھے۔ سڑک کے ساتھ ساتھ بجلی کے بلب روشن تھے۔ سناٹا تھا۔ ایسی خاموشی جو پہاڑوں پر ممکن ہے۔ چلتے چلتے میری نظرآسمان پر گئی۔ ایک ستارہ جو روشنی میں باقی تمام ستاروں سے سوا تھا مجھے نظر آیا اورپہلی بار مجھے یوں لگا کہ میں جلاوطن ہوں اور مجھے اس ستارے میں لوٹ جانا ہے کیونکہ یہی میرا مسکن اور یہی میری منزل ہے۔ میں نے اپنی پڑھی لکھی ماں سے کہا ''میں اس چمکتے ستارے سے آئی ہوں اور وہیں میرا گھر ہے۔''

میری والدہ کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ ایک بچہ ہیں اور ساری عمر ایک بچہ ہی رہیں۔ وہ اتنی بات پر بیمار پڑ سکتی ہیں کہ پہلے اوور میں عمران خان نے تین وکٹیں کیوں نہ لیں اور وہ اس بات پر تندرست بھی ہوسکتی ہیں کہ عمران نے دل توڑنے میں جو کسر نہ چھوڑی تھی اس کے باوجود پاکستان میچ جیت گیا۔ ان میں منفی کو پس پشت پھینکنے کی بڑی صلاحیت ہے اس لیے ایسے سوال ان کے نزدیک بچے کے بے معنی اصرار سے زیادہ نہ تھے۔ انہوں نے معصومیت سے کہا''ہم سب اسی ستارے میں رہتے تھے۔ تم، میں اور پرویز۔ یہاں آنے سے پہلے'' انہیں معلوم نہیں تھا کہ ایک بچے میں جب جلاوطنی کا احساس اچانک جاگتا ہے تو اس کے دل پر کیابیت جاتی ہے۔ ایک بار اس سے پہلے بھی میں نے ان سے ایک اور مہمل سوال کیا تھا اور سکول سے واپسی پر پوچھا تھا۔ ''امی گزر گیا کیا ہوتا ہے؟ میری سہیلیاں کہتی ہیں تمہارا ابا گزر گیا ہے۔''

میری امی نے بڑے بھول پن سے کہا ''گزر گیا۔۔۔۔ یعنی چلا گیا۔۔۔ یہ دیکھو ایسے۔۔۔۔'' وہ ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں چلی گئیں۔ اور ان کے نزدیک یہ مسئلہ ہمیشہ کے لیے حل ہوگیا۔

میری ماں کبھی سوال نہیں بنی، ہمیشہ جواب کی صورت میں زندہ رہی ہیں۔ وہ کبھی نہیں پوچھتیں کہ یا الٰہی ستائیس برس کی عمر میں بیوہ ہونے پر اتنی لمبی عمر تک کس کے سہارے زندہ رہا جاسکتا ہے؟ اوکھے لوگوں کے ساتھ اوکھی اوکھی باتوں میں الجھ کرانہیں تشنہ باتوں کے جواب نہیں چاہئیں۔ وہ جوانی سے بڑھاپے تک کا سفر اپنا دل خود بہلا کر کاٹتی رہی ہیں۔ کبھی انہوں نے اپنی اولاد سے یہ سوال نہیں کیا کہ تم لوگوں کے پاس میرے لیے کیا تھوڑا سا وقت بھی نہیں؟ کیا تم میرے کسی کام، کسی مشغلے، کسی دلچسپی میں کبھی بھی شمولیت نہیں کرسکتے؟ وہ اس عمر میں بھی لطیفوں پر ہنس سکتی ہیں۔

سکریبل کھیل کر، گانے گاتے ہوئے، چھوٹے بچوں کی کہانیاں سنا کران کے لیے نظمیں لکھ کر مسرور ہوجاتی ہیں۔ ان کی عبادت، شکر گزاری، عرض گزارنے اور جھگڑنے کے لیے ضرور ہے لیکن وہ اللہ سے سوال نہیں پوچھتیں اس کا احتساب نہیں کرتیں۔ میری حالت ان سے بہت مختلف ہے میرے اندرسوالوں کی کھیپ بھکڑا پوہلی بن کر اگتی رہتی ہے کچھ سوال خودبخود جوابات میں ڈھل جاتے ہیں، لیکن جو کہنی ٹیک کر کھڑکی میں بیٹھ رہیں ان کے حل کی بھی ایک صورت کبھی نہ کبھی نکل آتی ہے۔

بچپن سے میں نے ایک عادت بنا لی ہے کہ جب کوئی سوال میری روح کو جھنجھوڑ دیتا ہے تو پھر میں یہ سوال کسی سے نہیں پوچھتی۔ بس اسے اپنے اندر گرداب بنانے کے لیے چھوڑ دیتی ہوں پھر اچانک کہیں سے کسی طرح اس کا جواب مجھے آپ سے آپ مل جاتا ہے۔سن37ء میں جو سوال میں نے اپنے آبائی گھر کے متعلق اپنی امی سے پوچھا تھا اس کا جواب مجھے قدرت اللہ شہاب سے ملا۔ لیکن وہ بھی اس وقت جب انہیں گزرے تین دن ہوچکے تھے۔ n



بانو قدسیہ کی تصانیف

راجہ گدھ، شہر بے مثال، توجہ کی طالب،توجہ کی طالب، چہار چمن، سدھراں، آسے پاسے، دوسرا قدم، آدھی بات، دست بستہ، حوا کے نام، سورج مکھی، پیا نامکا دیا، آتش زیرپا، امربیل، بازگشت، مردِابریشم، سامانِ وجود، ایک دن، پروا، موم کی گلیاں، لگن اپنی اپنی، تماثیل، فٹ پاتھ کی گھاس، دوسرا دروازہ، ناقابل ذکر، کچھ اور نہیں، حاصل گھاٹ۔
Load Next Story