بندر وال پانی کا مقابلہ کر سکے گی

حفاظتی دیوار کی تعمیر میں ناقص میٹیریل کا استعمال، شہریوں میں تشویش

حفاظتی دیوار کی تعمیر میں ناقص میٹیریل کا استعمال، شہریوں میں تشویش۔ فوٹو ایکسپریس

ملک بھر میں شدید گرمی کے بعد مون سون کی بارشوں کا سلسلہ شروع ہونے کے ساتھ ہی سکھر کے شہری خوف زدہ اور شدید بے چین نظر آرہے ہیں، جس کی وجہ شہر کو سیلاب کی صورت میں محفوظ رکھنے کے لیے قائم بندر وال (حفاظتی دیوار) کی مرمت اور مضبوطی کے کام میں سستے میٹیریل کا استعمال اور معیار کا خیال نہ رکھنا ہے۔

اگست 2010 کے سیلاب کی ہول ناکیوں اور تباہ کاریوں کا نقش ابھی شہریوں کے ذہن کے پردے سے مٹنے نہ پایا تھا کہ محکمۂ موسمیات نے امسال بھی موسلا دھار بارشوں کے نتیجے میں سیلاب آنے کی پیش گوئی کر دی ہے۔ پنجاب، خیبرپختونخواہ اور بلوچستان سمیت شمالی علاقہ جات میں مون سون کے ابتدائی مرحلے میں ہونے والی برسات کے بعد دریائوں، نہروں، ندی، نالوں میں طغیانی کی اطلاعات ہیں اور حکومت سیلاب سے نمٹنے کے لیے انتظامات کے بلند بانگ دعوے کر رہی ہے، مگر ماضی کا بھیانک تجربہ شہریوں کی بے چینی بڑھا رہا ہے۔

2010 کے سیلاب کے بعد وفاقی اور صوبائی حکومت نے کشمور سے لے کر کوٹری بیراج تک کے درمیان قائم حفاظتی بندوں اور پشتوں کی مضبوطی کے لیے خطیر رقم فراہم کی تھی اور لاڑکانہ سمیت دیگر اضلاع کے بند جن میں ''کے کے اور توڑی بند'' شامل ہیں، انھیں مضبوط بنانے کا کام شروع ہوگیا تھا، اسی طرح سکھر شہر کو آئندہ سیلاب سے محفوظ رکھنے کے لیے حفاظتی دیوار (بندر وال) کے لیے بھی رقم جاری کی تھی جس کے بعد محکمۂ انہار کی نگرانی میں کام شروع کردیا گیا تھا، جنھوں نے ڈیڑھ سال کا عرصہ اور کروڑوں روپے خرچ کرکے سکھر میں حفاظتی دیوار پر کام پایۂ تکمیل کو پہنچا تو دیا، لیکن اس میں سستا اور کم معیار کا میٹیریل استعمال کیا گیا ہے۔

محکمۂ انہار کی عدم توجہی اور ٹھیکے داروں کی من مانی کی وجہ سے شہری ایک مرتبہ پھر کسی ناگہانی آفت کا خطرہ محسوس کرتے ہوئے شدید خوف میں مبتلا ہیں۔ محکمۂ انہار کی کارکردگی پر نظر ڈالی جائے تو کام کی تفصیل کچھ اس طرح سامنے آتی ہے۔

سکھر بیراج کے رائٹ بینک پر 16ہزار فٹ دیوار تعمیر کی گئی جب کہ زیرو پوائنٹ بند کے 12سو فٹ کے رقبے کو بھی بہتر بنایا گیا اور لیفٹ بینک پر ساڑھے 11ہزار فٹ دیوار میں بہتری کے لیے کام کیا گیا، مگر لب مہران سے لینس ڈائون برج تک سڑک اور دیوار کے کام کے معائنے سے اس کے معیار کا اندازہ کر کے افسوس ہو گا کہ خطیر رقم خرچ کرنے کے باوجود خطرات کم نہیں ہوئے ہیں۔ محکمۂ آب پاشی اور متعلقہ ماہرین کام معیاری ہونے کا دعویٰ تو کر رہے ہیں، مگر اس کام کے معیار سے متعلق حقائق ایسے ڈھکے چھپے بھی نہیں کہ مقامی باسی اس پر مطمئن ہو جائیں۔

2010 کے سیلاب کی وجہ سے اﷲ والی مسجد، لانچ موڑ، واٹر ورکس، منزل گاہ مسجد روڈ اور دیگر مقامات سے پانی کا رسائو ہوا تھا، اس کے باوجود محکمۂ آب پاشی نے حفاظتی دیوار کی بنیاد کو محفوظ بنانے کے بجائے اس کا اوپری حصہ تعمیر کیا اور یوں پانی کے رسائو کی اصل وجہ کو نظر انداز کر دیا۔ مقامی مبصرین کا کہنا ہے کہ کھوکھلی عمارت پر رنگ و روغن کر کے چمکانے سے اس کے ڈھے جانے کا خطرہ نہ تو ٹلتا ہے، نہ ہی کم ہوتا ہے، اور رہا رنگ و روغن تو وہ ایک ہی برسات کی مار ہوتا ہے۔


اس لیے حکومت اور متعلقہ اداروں کو چاہیے کہ وہ کسی عمارت کے احمق مالک کی طرح اپنی امارت کا عارضی رعب ڈالنے کے بجائے لاکھوں خاندانوں کو ممکنہ سیلاب سے محفوظ رکھنے کے لیے ٹھوس اور مؤثر اقدامات کریں۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ سیلابی صورت حال کے بعد سکھر بیراج کی حفاظت اور دریا کے پیٹ کو کشادہ کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر دریا کے کنارے بندر وال پر آباد ہزاروں افراد کو معاوضہ دے کر وہاں سے ہٹا دیا گیا تھا۔

ہزاروں افراد کی منتقلی اور خطیر رقم خرچ کرنے کے باوجود دریائے سندھ پر نظر ڈالی جائے تو اس وقت بھی پانی سے زیادہ اس میں مٹی کا ڈھیر نظر آتا ہے۔ محکمۂ انہار نے چھوٹے بڑے کچّے پکّے مکانوں اور دکانوں کو زمین بوس تو کر دیا، لیکن ان کا ملبا اور دریا میں جمع ہونے والی مٹی کو صحیح طریقے سے نہیں نکالا اور محتاط اندازے کے مطابق اس وقت دریا میں صرف ایک لاکھ کیوسک پانی ہے۔ تاہم محسوس یوں ہوتا ہے کہ اس میں وافر مقدار میں پانی موجود ہے۔

دریا کی برائے نام صفائی کا کام تسلی بخش نہ ہونے کے سبب دریا میں جگہ جگہ مٹی کے ڈھیر نظر آتے ہیں جس سے محکمۂ آب پاشی کی ناقص کارکردگی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ سکھر میں لاکھوں افراد کا روزگار زراعت سے وابستہ ہے جب کہ سکھر بیراج کے ذریعے بالائی و زیریں سندھ سمیت بلوچستان کی زمینیں بھی سیراب ہوتی ہیں جس کی مرمت اور مضبوطی کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے محکمۂ آب پاشی کو خطیر رقم جاری کی گئی، لیکن لاکھوں افراد کے شعبۂ زراعت پر انحصار اور اس بیراج کی اہمیت کے باجود متعلقہ محکمہ اس سلسلے میں عدم توجہی برت رہا ہے۔

شہریوں کی جانب سے اس پر احتجاج جاری ہے، لیکن منتخب اراکین اسمبلی نے اس سلسلے میں چپ سادھ رکھی ہے۔ شہریوں کا اس بارے میں کہنا ہے کہ سکھر کو ممکنہ سیلاب کے خطرے سے محفوظ بنانے کے لیے موجود حفاظتی دیوار کی مضبوطی کا کام ناقص اور غیرمعیاری میٹیریل کے استعمال کی وجہ سے خدشہ ہے کہ ممکنہ سیلاب اس حفاظتی دیوار کو نقصان پہنچانے کے بعد شہر میں داخل ہو جائے گا جس سے بڑے پیمانے پر جانی اور مالی نقصان ہو گا۔

شہریوں نے کہا کہ اس پر ان کے احتجاج کے باوجود منتخب نمائندے اور انتظامیہ نے کوئی کارروائی نہیں کی ہے۔ ایکسیین بیراج آفتاب کھوسو نے ''ایکسپریس'' کو بتایا کہ حفاظتی بند کی تعمیر آٹھ کروڑ روپے کی لاگت سے مقررہ وقت میں مکمل کر لی گئی ہے اور ہماری کوشش ہے کہ سیلاب سے قبل تمام ضروری انتظامات کر لیے جائیں۔ تاہم رواں سال ضرورت سے زیادہ پانی متوقع نہیں ہے۔

مون سون کا سلسلہ شروع ہوتے ہی سکھر، نوشہروفیروز، گھوٹکی، شکارپور، جیکب آباد، لاڑکانہ سمیت بالائی سندھ کے دیگر اضلاع کی انتظامیہ کی جانب سے ممکنہ سیلاب میں شہروں اور آبادی کو تباہی سے بچانے کے لیے اجلاس منعقد کیے جارہے ہیں جس کا مقصد اعلی حکام اور عوام کو مطمئن کرنا ہے۔ ضلع سکھر کی انتظامیہ نے ماہ جون میں ممکنہ سیلاب کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کے لیے تین اجلاس طلب کرکے متعلقہ اداروں کو ضروری انتظامات مکمل کرنے کی ہدایات کی ہیں، مگر ریکارڈ پر موجود ہے کہ 2010 اور اس سے قبل بھی متعلقہ ادارے اس قسم کی ناگہانی آفت کے دوران عوام کو ریلیف فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
Load Next Story