بھارتی وزیر اعظم کو دورہ پاکستان کی دعوت
بھارتی وزیر اعظم کے دورے سے مذہبی ہم آہنگی کے فروغ اور تعلقات کے...
KARACHI:
صدر آصف علی زرداری نے بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ کو دورہ پاکستان کی باقاعدہ دعوت دے دی ہے۔ ترجمان ایوان صدر فرحت اﷲ بابر نے تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ یہ خط بھارت میں پاکستان کے ہائی کمیشن کے ذریعے بھیجا گیا جس میں بھارتی وزیر اعظم کو دعوت دی گئی ہے کہ وہ پاکستان میں اپنے آبائی گھر کا دورہ کریں۔
یہ واضح نہیں کہ بھارتی وزیر اعظم کب دورے پر پاکستان آئیں گے تاہم بھارت کے سرکاری خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ یہ دورہ نومبر میں متوقع ہے۔
مانیٹرنگ ڈیسک کے مطابق صدر زرداری نے خط میں تجویز دی ہے من موہن سنگھ بابا گرو نانک کے یوم پیدائش پر اپنے آبائی گھر کا دورہ کریں۔ خط میں مزید کہا گیا ہے کہ بھارتی وزیر اعظم کے دورے کو پاکستانی عوام میں پذیرائی ملے گی، اس سے مذہبی ہم آہنگی کے فروغ اور تعلقات کے درست سمت میں آگے بڑھنے میں مدد ملے گی اور پُرامن و خوشحال جنوبی ایشیا کے خواب کی تکمیل بھی ممکن ہو گی۔
صدر آصف علی زرداری کی جانب سے بھارتی وزیر اعظم کو دورہ پاکستان کی دعوت کو ہماری حکومت کی جانب سے بھارت کے ساتھ تعلقات اعتدال پر لانے کی کوششوں کا تسلسل قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ یاد رہے کہ پاکستان کی انھی کوششوں کے نتیجے میں نہ صرف دونوں ملکوں کے مابین تجارت کو فروغ حاصل ہو رہا ہے' دیرینہ اور فوری نوعیت کے مسائل کے حل کے سلسلے میں مذاکرات کا عمل آگے بڑھ رہا ہے' ویزوں کے حصول کو ممکنہ حد تک سہل بنانے کی سعی کی جا رہی ہے
بلکہ کرکٹ روابط بحال ہونے کے واضح آثار بھی نظر آ رہے ہیں اور بھارتی کرکٹ بورڈ کے ایک حالیہ بیان کے مطابق امسال دسمبر اور اگلے سال کے جنوری میں ہماری ٹیم ایک مختصر کرکٹ سیریز کے لیے بھارت کا دورہ کرے گی۔ ان سارے مثبت اقدامات سے دونوں ملکوں کے مابین ماضی میں طویل عرصے تک قائم رہنے والی کشیدگی میں کافی کمی واقع ہوئی ہے اور بھارتی وزیر اعظم کے اس مجوزہ دورہ پاکستان سے ظاہر ہے کہ ان تعلقات کو مزید بہتر اور مضبوط بنایا جا سکے گا جس سے سرحد کے دونوں جانب خوشحال کے ایک نئے دور کا آغاز ہو گا تاہم تعلقات کو مضبوط بنانے کی ان کوششوں کے دوران یہ بات نہیں بھولنا چاہیے کہ دونوں ملکوں کے درمیان کشمیر سمیت بعض ایسے معاملات' ایشوز اور مسائل موجود ہیں جن کو حل کرنا دونوں پڑوسی ملکوں اور اس خطے کی تیز رفتار ترقی اور اقوام عالم کے شانہ بشانہ آگے بڑھنے کے لیے از حد ضروری ہے۔
امید کی جاتی ہے کہ پڑوسی ملک کے وزیر اعظم کے دورہ پاکستان سے تعلقات میں بہتری اور ترقی کی رفتار دونوں کو مہمیز لگے گی اور یہ تیز ہو جائیں گی۔ قبل ازیں اسی سال صدر پاکستان نے نجی سطح پر بھارت کا دورہ کیا تھا جس میں انھیں نہ صرف سرکاری پروٹوکول دیا گیا بلکہ بھارتی وزیر اعظم کی جانب سے ان کے اعزاز میں ظہرانے کا اہتمام بھی کیا گیا تھا۔ دورے میں بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ نے صدر آصف علی زرداری سے ون آن ون ملاقات بھی کی تھی جس میں دونوں ملکوں کے تعلقات کو مزید فروغ دینے کی بات ہوئی تھی۔
اس کے بعد پاکستان اور بھارت کے سیکریٹری سطح کے مذاکرات بھی ہوئے جن میں کئی اہم امور پر اتفاق رائے کیا گیا۔ ضرورت اس امر کی ہے سیکریٹری سطح کے ان مذاکرات میں تیزی لائی جائے تاکہ جب بھارتی وزیر اعظم پاکستان کے دورے پر تشریف لائیں تو اس وقت تک کچھ امور کو حتمی شکل دی جا سکے۔ کسی بھارتی سربراہ حکومت کا یہ دورہ پاکستان تقریباً آٹھ سال کے وقفے سے ہو گا چنانچہ اس اہم موقع کو ضایع نہیں جانے دینا چاہیے' کچھ نہ کچھ پیش رفت ضرور ہونا چاہیے۔ توقع کی جاتی ہے کہ دونوں ممالک کی حکومتیں اس بارے میں ضرور غور کریں گی۔
صدر مملکت کی جانب سے بھارتی وزیر اعظم کو یہاں کے دورے کی دعوت دینے کو اگر پاکستان کو عالمی تنہائی سے نکالنے کی ایک کوشش قرار دیا جائے تو یہ بھی بے جا نہ ہو گا۔ حکومت ایک جانب بھارت کے ساتھ تعلقات کو اعتدال پر لانے کی تگ و دو کر رہی ہے تو دوسری جانب امریکا کے ساتھ بھی ہمارے تعلقات میں وسعت پیدا ہو رہی ہے جس کی حالیہ مثال نیٹو سپلائی کی بحالی اور اب اس عمل کو دستاویزی شکل دینے کی تیاریاں ہیں' اگرچہ افغانستان کی جانب سے تاحال ٹھنڈی ہوا نہیں آئی ہے اور وہاں سے پاکستانی علاقوں میں شرانگیز حملوں کا سلسلہ تاحال جاری ہے پھر بھی پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش ہو رہی ہے'
حال ہی میں وزیر اعظم پاکستان راجہ پرویز اشرف نے اپنے دورہ افغانستان کے دوران سہ فریقی مذاکرات میں شرکت کی جن میں کئی ایشوز پر تبادلہ خیالات کیا گیا اور متعدد امور پر اتفاق رائے بھی ہوا' دوسری جانب پاکستان کے وسطی ایشیاء کی ریاستوں کے ساتھ تعلقات میں بھی بہتری آ رہی ہے اور ایران بھی پاکستان کے ساتھ تجارت بڑھانے کا خواہش مند نظر آتا ہے' یورپی یونین کی جانب سے پاکستان کو تجارت کے حوالے سے مراعاتی پیکیج دینا بھی ظاہر کرتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی وجہ سے ہمارے ملک کو درپیش مسائل کا عالمی سطح پر ادراک کیا جا رہا ہے'
اس طرح پاکستان کے عالمی برادری کے ساتھ تعلقات میں وسعت پیدا ہو رہی ہے' اس عمل کو مستقبل میں بھی مستقل طور پر جاری رکھنے کی ضرورت ہے تاہم عالمی برادری کے ساتھ تعلقات کو فروغ پذیر رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ داخلی معاملات میں بھی استحکام رکھا جائے کیونکہ کسی بھی ملک کی ترقی اور عالمی روابط میں وسعت کا دارومدار زیادہ تر اس کے داخلی استحکام پر ہی ہوتا ہے۔
صدر آصف علی زرداری نے بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ کو دورہ پاکستان کی باقاعدہ دعوت دے دی ہے۔ ترجمان ایوان صدر فرحت اﷲ بابر نے تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ یہ خط بھارت میں پاکستان کے ہائی کمیشن کے ذریعے بھیجا گیا جس میں بھارتی وزیر اعظم کو دعوت دی گئی ہے کہ وہ پاکستان میں اپنے آبائی گھر کا دورہ کریں۔
یہ واضح نہیں کہ بھارتی وزیر اعظم کب دورے پر پاکستان آئیں گے تاہم بھارت کے سرکاری خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ یہ دورہ نومبر میں متوقع ہے۔
مانیٹرنگ ڈیسک کے مطابق صدر زرداری نے خط میں تجویز دی ہے من موہن سنگھ بابا گرو نانک کے یوم پیدائش پر اپنے آبائی گھر کا دورہ کریں۔ خط میں مزید کہا گیا ہے کہ بھارتی وزیر اعظم کے دورے کو پاکستانی عوام میں پذیرائی ملے گی، اس سے مذہبی ہم آہنگی کے فروغ اور تعلقات کے درست سمت میں آگے بڑھنے میں مدد ملے گی اور پُرامن و خوشحال جنوبی ایشیا کے خواب کی تکمیل بھی ممکن ہو گی۔
صدر آصف علی زرداری کی جانب سے بھارتی وزیر اعظم کو دورہ پاکستان کی دعوت کو ہماری حکومت کی جانب سے بھارت کے ساتھ تعلقات اعتدال پر لانے کی کوششوں کا تسلسل قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ یاد رہے کہ پاکستان کی انھی کوششوں کے نتیجے میں نہ صرف دونوں ملکوں کے مابین تجارت کو فروغ حاصل ہو رہا ہے' دیرینہ اور فوری نوعیت کے مسائل کے حل کے سلسلے میں مذاکرات کا عمل آگے بڑھ رہا ہے' ویزوں کے حصول کو ممکنہ حد تک سہل بنانے کی سعی کی جا رہی ہے
بلکہ کرکٹ روابط بحال ہونے کے واضح آثار بھی نظر آ رہے ہیں اور بھارتی کرکٹ بورڈ کے ایک حالیہ بیان کے مطابق امسال دسمبر اور اگلے سال کے جنوری میں ہماری ٹیم ایک مختصر کرکٹ سیریز کے لیے بھارت کا دورہ کرے گی۔ ان سارے مثبت اقدامات سے دونوں ملکوں کے مابین ماضی میں طویل عرصے تک قائم رہنے والی کشیدگی میں کافی کمی واقع ہوئی ہے اور بھارتی وزیر اعظم کے اس مجوزہ دورہ پاکستان سے ظاہر ہے کہ ان تعلقات کو مزید بہتر اور مضبوط بنایا جا سکے گا جس سے سرحد کے دونوں جانب خوشحال کے ایک نئے دور کا آغاز ہو گا تاہم تعلقات کو مضبوط بنانے کی ان کوششوں کے دوران یہ بات نہیں بھولنا چاہیے کہ دونوں ملکوں کے درمیان کشمیر سمیت بعض ایسے معاملات' ایشوز اور مسائل موجود ہیں جن کو حل کرنا دونوں پڑوسی ملکوں اور اس خطے کی تیز رفتار ترقی اور اقوام عالم کے شانہ بشانہ آگے بڑھنے کے لیے از حد ضروری ہے۔
امید کی جاتی ہے کہ پڑوسی ملک کے وزیر اعظم کے دورہ پاکستان سے تعلقات میں بہتری اور ترقی کی رفتار دونوں کو مہمیز لگے گی اور یہ تیز ہو جائیں گی۔ قبل ازیں اسی سال صدر پاکستان نے نجی سطح پر بھارت کا دورہ کیا تھا جس میں انھیں نہ صرف سرکاری پروٹوکول دیا گیا بلکہ بھارتی وزیر اعظم کی جانب سے ان کے اعزاز میں ظہرانے کا اہتمام بھی کیا گیا تھا۔ دورے میں بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ نے صدر آصف علی زرداری سے ون آن ون ملاقات بھی کی تھی جس میں دونوں ملکوں کے تعلقات کو مزید فروغ دینے کی بات ہوئی تھی۔
اس کے بعد پاکستان اور بھارت کے سیکریٹری سطح کے مذاکرات بھی ہوئے جن میں کئی اہم امور پر اتفاق رائے کیا گیا۔ ضرورت اس امر کی ہے سیکریٹری سطح کے ان مذاکرات میں تیزی لائی جائے تاکہ جب بھارتی وزیر اعظم پاکستان کے دورے پر تشریف لائیں تو اس وقت تک کچھ امور کو حتمی شکل دی جا سکے۔ کسی بھارتی سربراہ حکومت کا یہ دورہ پاکستان تقریباً آٹھ سال کے وقفے سے ہو گا چنانچہ اس اہم موقع کو ضایع نہیں جانے دینا چاہیے' کچھ نہ کچھ پیش رفت ضرور ہونا چاہیے۔ توقع کی جاتی ہے کہ دونوں ممالک کی حکومتیں اس بارے میں ضرور غور کریں گی۔
صدر مملکت کی جانب سے بھارتی وزیر اعظم کو یہاں کے دورے کی دعوت دینے کو اگر پاکستان کو عالمی تنہائی سے نکالنے کی ایک کوشش قرار دیا جائے تو یہ بھی بے جا نہ ہو گا۔ حکومت ایک جانب بھارت کے ساتھ تعلقات کو اعتدال پر لانے کی تگ و دو کر رہی ہے تو دوسری جانب امریکا کے ساتھ بھی ہمارے تعلقات میں وسعت پیدا ہو رہی ہے جس کی حالیہ مثال نیٹو سپلائی کی بحالی اور اب اس عمل کو دستاویزی شکل دینے کی تیاریاں ہیں' اگرچہ افغانستان کی جانب سے تاحال ٹھنڈی ہوا نہیں آئی ہے اور وہاں سے پاکستانی علاقوں میں شرانگیز حملوں کا سلسلہ تاحال جاری ہے پھر بھی پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش ہو رہی ہے'
حال ہی میں وزیر اعظم پاکستان راجہ پرویز اشرف نے اپنے دورہ افغانستان کے دوران سہ فریقی مذاکرات میں شرکت کی جن میں کئی ایشوز پر تبادلہ خیالات کیا گیا اور متعدد امور پر اتفاق رائے بھی ہوا' دوسری جانب پاکستان کے وسطی ایشیاء کی ریاستوں کے ساتھ تعلقات میں بھی بہتری آ رہی ہے اور ایران بھی پاکستان کے ساتھ تجارت بڑھانے کا خواہش مند نظر آتا ہے' یورپی یونین کی جانب سے پاکستان کو تجارت کے حوالے سے مراعاتی پیکیج دینا بھی ظاہر کرتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی وجہ سے ہمارے ملک کو درپیش مسائل کا عالمی سطح پر ادراک کیا جا رہا ہے'
اس طرح پاکستان کے عالمی برادری کے ساتھ تعلقات میں وسعت پیدا ہو رہی ہے' اس عمل کو مستقبل میں بھی مستقل طور پر جاری رکھنے کی ضرورت ہے تاہم عالمی برادری کے ساتھ تعلقات کو فروغ پذیر رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ داخلی معاملات میں بھی استحکام رکھا جائے کیونکہ کسی بھی ملک کی ترقی اور عالمی روابط میں وسعت کا دارومدار زیادہ تر اس کے داخلی استحکام پر ہی ہوتا ہے۔