7 مسلم ممالک کے شہریوں پر امریکی سفری پابندیاں ختم
پہلی بار امریکی ریاستیں بھی صدر کے فیصلے کے خلاف میدان میں اتری ہیں
امریکا کی وفاقی عدالت نے سات مسلمان ملکوں کی امریکا آمد پر پابندی کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے انتظامی حکم نامے کو معطل کر دیا جس کے بعد ان ممالک کے شہریوں کے خلاف سفری پابندیاں ختم کر دی گئیں۔ ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق صدر ٹرمپ کے حکم نامے کے بعد 60 ہزار افراد کے ویزے منسوخ کیے گئے تھے، وفاقی عدالت نے دو ریاستوں واشنگٹن اور مینی سوٹا کی جانب سے دائر کی گئی درخواست پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈرز کو عارضی طور پر معطل کیا ہے۔صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے ایک اور دھچکا اس وقت لگا جب وفاقی عدالت کے فیصلے کے خلاف ٹرمپ انتظامیہ کی درخواست بھی مسترد کر دی گئی۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے 20 جنوری کو امریکا کے 45 ویں صدر کا حلف اٹھانے کے بعد اسلامی بنیاد پرستوں کے خلاف اعلان جنگ کیا' انھوں نے 25 جنوری کو دو صدارتی حکم ناموں پر دستخط کیے جن کی رو سے ملک کی جنوبی سرحد پر میکسیکو کے ساتھ دیوار تعمیر کی جائے گی اور غیرقانونی طور پر مقیم تارکین وطن کو ملک بدر کیا جائے گا' انھوں نے 28 جنوری کو 7 مسلمان ممالک ایران'عراق' لیبیا' صومالیہ' سوڈان' شام اور یمن کے شہریوں کے امریکا داخلے پر پابندی کے حکم نامے پر دستخط کیے۔ اس انتظامی حکم نامہ کے جاری ہونے کے بعد امریکا پہنچنے والے ان 7 مسلمان ممالک کے شہریوں کو ایئرپورٹس پر گرفتار کر لیا گیا۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی ان پالیسیوں کے خلاف نہ صرف امریکا کے اندر بلکہ بیرون ملک بھی شدید احتجاج سامنے آیا' ایران نے جواباً امریکیوں کا داخلہ بند کرنے کا اعلان کر دیا' بعض امریکی تنظیموں نے اس نئے ایگزیکٹو آرڈر کو غیرآئینی قرار دیتے ہوئے عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا' نیویارک کی ایک عدالت نے صدر ٹرمپ کے اس نئے حکم نامے پر عبوری طور پر عملدرآمد روک دیا۔
بعدازاں امریکی ریاست واشنگٹن کے ایک جج نے بھی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈر کو ملک بھر میں عارضی طور پر معطل کر دیا' ایک ڈسٹرکٹ جج جیمز رابرٹ نے بھی حکومتی وکلاء کے اس موقف کو کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے صدارتی حکم نامے کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا، مسترد کرتے ہوئے اس کے خلاف فیصلہ دیا' واشنگٹن کی ریاستی حکومت نے رواں ہفتے کے اوائل میں اس حکم نامے کو عدالت میں چیلنج کیا تھا جس کے فوراً بعد ریاست مینی سوٹا نے بھی اس کی پیروی کی۔
امریکا کی وفاقی عدالت کی جانب سے ڈونلڈ ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈر کو غیرآئینی اور غیرقانونی قرار دینے پر یوں عیاں ہوتا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ اور عدالت کے درمیان نئی کشاکش شروع ہو گئی ہے' ٹرمپ انتظامیہ نے اس عدالتی فیصلے کو زیادتی قرار دیتے ہوئے کہا کہ صدر ٹرمپ کا حکم نامہ قانونی ہے' امریکی محکمہ انصاف نے کہا کہ وہ عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل کرے گا' ڈونلڈ ٹرمپ اس عدالتی فیصلے پر سیخ پا ہو گئے،صدر بننے کے بعد پہلے ہی ایگزیکٹو آرڈر کے منسوخ ہونے پر انھیں شکست کا سامنا کرنا پڑا، انھوں نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ صدارتی حکم کا نفاذ روکنے والے نام نہاد جج کا فیصلہ قانون کی عملداری ختم کر دے گا' عدالتی فیصلہ مضحکہ خیز ہے اسے منسوخ کر دیا جائے گا۔
واشنگٹن کے اٹارنی جنرل باب فرگوسن نے موقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ صدر ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈر سے آئین میں دی گئی مذہبی آزادی اور یکساں تحفظ کی یقین دہانی کی خلاف ورزی ہوئی' عدالتی فیصلہ آنے کے بعد آئین کی برتری ثابت ہوئی' کوئی قانون سے بالا نہیں ہونا چاہیے چاہے وہ صدر ہی کیوں نہ ہو۔
ڈونلڈ ٹرمپ امریکی تاریخ کی وہ واحد شخصیت ہیں جن کے صدر بننے کے بعد امریکا میں بڑے پیمانے پر مظاہرے شروع ہو گئے اور ان کی حیثیت متنازعہ ہو گئی' بات اتنی بڑھی کہ امریکی ریاستیں ان کے نئے ایگزیکٹو آرڈرز کے خلاف عدالتوں میں جا پہنچیں اور عدالتوں نے بھی قانون کے مطابق فیصلہ دیتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈرز عارضی طور پر معطل کر دیے۔
اس پس منظر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابل امریکی شہریوں کی ایک بہت بڑی تعداد اور عدالتیں آ کھڑی ہوئی ہیں جس کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کو مستقبل میں بھی شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے' اپنے حکمنامے کے نفاذ میں پہلی شکست کھانے کے بعد اب انھیں کوئی بھی قانون سازی یا ایگزیکٹو آرڈر جاری کرنے سے قبل بہت سوچ بچار سے کام لینا ہو گا اگر وہ امریکی آئین کے برعکس اپنی خواہشات اور پالیسیوں کے مطابق کوئی قدم اٹھاتے ہیں توبعید از قیاس نہیں کہ امریکی عدالتیں عوامی دباؤ پر انھیں مسترد کر دیں گی اور ٹرمپ انتظامیہ کو مزید ہزیمت کا سامنا کرنے پڑے گا۔
پہلی بار امریکی ریاستیں بھی صدر کے فیصلے کے خلاف میدان میں اتری ہیں جس سے وفاقی حکومت اور ریاستوں کے درمیان نئی کھینچا تانی نظر آ رہی ہے۔ یہ صورت حال اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے انتظامی معاملات چلانا اتنا آسان نہیں ہو گا جتنا وہ تصور کر رہے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے نئے ایگزیکٹو آرڈر جاری ہونے کے بعد اس کی جس بڑے پیمانے پر مخالفت کی گئی اس نے امریکی عوام کو دو واضح گروپوں میں تقسیم کر دیا اگر صورت حال یونہی برقرار رہی تو یہ امکان بعید از قیاس نہیں کہ یہ تقسیم مزید گہری ہوتی چلی جائے گی۔
امریکی ریاست انڈیانا سے تعلق رکھنے والے کانگریس کے ایک رکن آندرے کارسن کا موقف ہے کہ سات مسلمان ممالک کے شہریوں پر پابندی کے بعد داعش اور القاعدہ جیسی تنظیموں کو مزید بھرتیوں میں ممکنہ طور پر مدد ملے گی۔ سات مسلمان ممالک پر سفری پابندیاں ختم ہونے کے بعد ان کے شہریوں کو اب امریکا آنے کی اجازت مل گئی ہے' کئی ممالک کی ایئر لائنز نے ان سات ممالک کے مسافروں کو امریکا لے جانے کے لیے پروازیں شروع کر دی ہیں۔
بعض حلقوں کی جانب سے یہ کہا جا رہا ہے کہ اگر ٹرمپ انتظامیہ وفاقی عدالت کے فیصلے کے خلاف ہنگامی حکم امتناعی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی تو غیر ملکیوں کا امریکا جانے کا سلسلہ ایک بار پھر رک سکتا ہے۔ امریکی وفاقی عدالت کا آئین کے تحفظ کے لیے صدر ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈرز کے خلاف فیصلہ خوش آیند تو قرار دیا جا سکتا ہے مگر اب یہ بھی عیاں ہو چکا ہے کہ صدر ٹرمپ کا دور حکومت نہ صرف امریکی عوام بلکہ پوری دنیا کے لیے مسائل کا باعث ثابت ہو سکتا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے 20 جنوری کو امریکا کے 45 ویں صدر کا حلف اٹھانے کے بعد اسلامی بنیاد پرستوں کے خلاف اعلان جنگ کیا' انھوں نے 25 جنوری کو دو صدارتی حکم ناموں پر دستخط کیے جن کی رو سے ملک کی جنوبی سرحد پر میکسیکو کے ساتھ دیوار تعمیر کی جائے گی اور غیرقانونی طور پر مقیم تارکین وطن کو ملک بدر کیا جائے گا' انھوں نے 28 جنوری کو 7 مسلمان ممالک ایران'عراق' لیبیا' صومالیہ' سوڈان' شام اور یمن کے شہریوں کے امریکا داخلے پر پابندی کے حکم نامے پر دستخط کیے۔ اس انتظامی حکم نامہ کے جاری ہونے کے بعد امریکا پہنچنے والے ان 7 مسلمان ممالک کے شہریوں کو ایئرپورٹس پر گرفتار کر لیا گیا۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی ان پالیسیوں کے خلاف نہ صرف امریکا کے اندر بلکہ بیرون ملک بھی شدید احتجاج سامنے آیا' ایران نے جواباً امریکیوں کا داخلہ بند کرنے کا اعلان کر دیا' بعض امریکی تنظیموں نے اس نئے ایگزیکٹو آرڈر کو غیرآئینی قرار دیتے ہوئے عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا' نیویارک کی ایک عدالت نے صدر ٹرمپ کے اس نئے حکم نامے پر عبوری طور پر عملدرآمد روک دیا۔
بعدازاں امریکی ریاست واشنگٹن کے ایک جج نے بھی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈر کو ملک بھر میں عارضی طور پر معطل کر دیا' ایک ڈسٹرکٹ جج جیمز رابرٹ نے بھی حکومتی وکلاء کے اس موقف کو کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے صدارتی حکم نامے کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا، مسترد کرتے ہوئے اس کے خلاف فیصلہ دیا' واشنگٹن کی ریاستی حکومت نے رواں ہفتے کے اوائل میں اس حکم نامے کو عدالت میں چیلنج کیا تھا جس کے فوراً بعد ریاست مینی سوٹا نے بھی اس کی پیروی کی۔
امریکا کی وفاقی عدالت کی جانب سے ڈونلڈ ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈر کو غیرآئینی اور غیرقانونی قرار دینے پر یوں عیاں ہوتا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ اور عدالت کے درمیان نئی کشاکش شروع ہو گئی ہے' ٹرمپ انتظامیہ نے اس عدالتی فیصلے کو زیادتی قرار دیتے ہوئے کہا کہ صدر ٹرمپ کا حکم نامہ قانونی ہے' امریکی محکمہ انصاف نے کہا کہ وہ عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل کرے گا' ڈونلڈ ٹرمپ اس عدالتی فیصلے پر سیخ پا ہو گئے،صدر بننے کے بعد پہلے ہی ایگزیکٹو آرڈر کے منسوخ ہونے پر انھیں شکست کا سامنا کرنا پڑا، انھوں نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ صدارتی حکم کا نفاذ روکنے والے نام نہاد جج کا فیصلہ قانون کی عملداری ختم کر دے گا' عدالتی فیصلہ مضحکہ خیز ہے اسے منسوخ کر دیا جائے گا۔
واشنگٹن کے اٹارنی جنرل باب فرگوسن نے موقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ صدر ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈر سے آئین میں دی گئی مذہبی آزادی اور یکساں تحفظ کی یقین دہانی کی خلاف ورزی ہوئی' عدالتی فیصلہ آنے کے بعد آئین کی برتری ثابت ہوئی' کوئی قانون سے بالا نہیں ہونا چاہیے چاہے وہ صدر ہی کیوں نہ ہو۔
ڈونلڈ ٹرمپ امریکی تاریخ کی وہ واحد شخصیت ہیں جن کے صدر بننے کے بعد امریکا میں بڑے پیمانے پر مظاہرے شروع ہو گئے اور ان کی حیثیت متنازعہ ہو گئی' بات اتنی بڑھی کہ امریکی ریاستیں ان کے نئے ایگزیکٹو آرڈرز کے خلاف عدالتوں میں جا پہنچیں اور عدالتوں نے بھی قانون کے مطابق فیصلہ دیتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈرز عارضی طور پر معطل کر دیے۔
اس پس منظر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابل امریکی شہریوں کی ایک بہت بڑی تعداد اور عدالتیں آ کھڑی ہوئی ہیں جس کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کو مستقبل میں بھی شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے' اپنے حکمنامے کے نفاذ میں پہلی شکست کھانے کے بعد اب انھیں کوئی بھی قانون سازی یا ایگزیکٹو آرڈر جاری کرنے سے قبل بہت سوچ بچار سے کام لینا ہو گا اگر وہ امریکی آئین کے برعکس اپنی خواہشات اور پالیسیوں کے مطابق کوئی قدم اٹھاتے ہیں توبعید از قیاس نہیں کہ امریکی عدالتیں عوامی دباؤ پر انھیں مسترد کر دیں گی اور ٹرمپ انتظامیہ کو مزید ہزیمت کا سامنا کرنے پڑے گا۔
پہلی بار امریکی ریاستیں بھی صدر کے فیصلے کے خلاف میدان میں اتری ہیں جس سے وفاقی حکومت اور ریاستوں کے درمیان نئی کھینچا تانی نظر آ رہی ہے۔ یہ صورت حال اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے انتظامی معاملات چلانا اتنا آسان نہیں ہو گا جتنا وہ تصور کر رہے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے نئے ایگزیکٹو آرڈر جاری ہونے کے بعد اس کی جس بڑے پیمانے پر مخالفت کی گئی اس نے امریکی عوام کو دو واضح گروپوں میں تقسیم کر دیا اگر صورت حال یونہی برقرار رہی تو یہ امکان بعید از قیاس نہیں کہ یہ تقسیم مزید گہری ہوتی چلی جائے گی۔
امریکی ریاست انڈیانا سے تعلق رکھنے والے کانگریس کے ایک رکن آندرے کارسن کا موقف ہے کہ سات مسلمان ممالک کے شہریوں پر پابندی کے بعد داعش اور القاعدہ جیسی تنظیموں کو مزید بھرتیوں میں ممکنہ طور پر مدد ملے گی۔ سات مسلمان ممالک پر سفری پابندیاں ختم ہونے کے بعد ان کے شہریوں کو اب امریکا آنے کی اجازت مل گئی ہے' کئی ممالک کی ایئر لائنز نے ان سات ممالک کے مسافروں کو امریکا لے جانے کے لیے پروازیں شروع کر دی ہیں۔
بعض حلقوں کی جانب سے یہ کہا جا رہا ہے کہ اگر ٹرمپ انتظامیہ وفاقی عدالت کے فیصلے کے خلاف ہنگامی حکم امتناعی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی تو غیر ملکیوں کا امریکا جانے کا سلسلہ ایک بار پھر رک سکتا ہے۔ امریکی وفاقی عدالت کا آئین کے تحفظ کے لیے صدر ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈرز کے خلاف فیصلہ خوش آیند تو قرار دیا جا سکتا ہے مگر اب یہ بھی عیاں ہو چکا ہے کہ صدر ٹرمپ کا دور حکومت نہ صرف امریکی عوام بلکہ پوری دنیا کے لیے مسائل کا باعث ثابت ہو سکتا ہے۔