بانو قدسیہ کا انتقال
ان کی وفات سے پاکستان کی ادبی دنیا ایک اہم شخصیت سے محروم ہو گئی‘ ان کا خلا شاید کبھی پورا نہ ہو سکے
اردو زبان کی معروف و ممتاز ادیبہ، ناول نگار اور ڈرامہ نویس بانو قدسیہ ہفتہ چار فروری کی شام انتقال کرگئیں، وہ چند ماہ سے علیل تھیں، ان کی عمر88 برس تھی۔
بانو قدسیہ نے ''راجا گِدھ'' جیسے عالمی شہرت یافتہ ناول کے علاوہ افسانے اور ڈرامے بھی لکھے، مرحومہ 28 نومبر 1928ء کو فیروزپور میں پیدا ہوئیں، ایف اے اسلامیہ کالج لاہور اور بی اے کنیئرڈ کالج سے 1949ء میں کیا اور گورنمنٹ کالج لاہور میں ایم اے اردو میں داخلہ لیا جہاں اشفاق احمد ان کے کلاس فیلو تھے دونوں نے دسمبر 1956ء میں شادی کرلی، ان کی جوڑی ادبی دنیا میں بڑی مقبول تھی۔ بانو قدسیہ نے ریڈیو اور ٹی وی کے لیے ڈرامے بھی لکھے۔
راجا گدھ کے علاوہ ان کے دیگر ناولوں میں ایک دن، پردا، شہرِ بے مثال، موم کی گلیاں ، چہار چمن شامل ہیں، افسانوی مجموعوں میں ناقابل ِ ذکر، بازگشت، امر بیل، کچھ اور نہیں، آتش ِزیر پا، ڈراموں میں آدھی بات، دوسرا قدم ، حوا کے نام اور تماثیل قابل ذکر ہیں، انھوں نے اردو کے علاوہ پنجابی زبان میں بھی لکھا۔
حکومت پاکستان کی جانب سے ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں 2003ء میں ''ستارہ امتیاز'' اور 2010ء میں ''ہلال امتیاز'' سے نوازا گیا جب کہ کئی قومی اور بین الااقوامی ایوارڈ بھی دیے گئے۔ بانو قدسیہ کی تحریروں کا موضوع عورت رہا ہے لیکن انھوں نے روایت کے ساتھ جڑنا زیادہ پسند کیا' وہ پاکستان کے روایتی ادب کا روشن ستارہ تھیں' ان کی وفات سے پاکستان کی ادبی دنیا ایک اہم شخصیت سے محروم ہو گئی' ان کا خلا شاید کبھی پورا نہ ہو سکے۔