ٹرمپ تشویش اور خوف کی علامت بن گیا
ٹرمپ کے اقدامات دنیا کے لیے تشویش اور خوف کا باعث بن گئے ہیں
ٹرمپ، ٹرمپ، ٹرمپ پوری دنیا میں ایک ہی نام گونج رہا ہے۔ ٹرمپ کے اقدامات دنیا کے لیے تشویش اور خوف کا باعث بن گئے ہیں۔ جس میں یورپ کے علاوہ خود امریکی عوام بھی شامل ہیں۔ نسل پرست متعصب خیالات کی وجہ سے ٹرمپ کو دور جدید کے ہٹلر سے تشبیہہ دی جا رہی ہے۔ دنیا اب یک طاقتی نہیں رہی۔ اس وقت دنیا میں طاقت کے کئی مراکز ابھر چکے ہیں۔ امریکا سمیت کوئی بھی طاقت اس وقت اکیلے دنیا کا کنٹرول نہیں سنبھال سکتی۔ اس تھیوری کا سب سے پہلا ہدف مسلم دنیا بنی جس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی۔
افغانستان، ایران، عراق، لیبیا، شام اس کی افسوسناک مثال ہیں۔ اس امریکی مہم جوئی میں پچھلے چالیس سال میں مسلم دنیا کے لاکھوں افراد مارے گئے اور زخمی ہوئے۔ تباہی اس بڑے پیمانے پر ہوئی جس کی مثال مشکل ہے۔ دہشتگردی کے خاتمے کے نام پر دہشتگردی کو فروغ دیا گیا۔ مسلم دنیا میں دہشتگرد گروہ تخلیق کیے گئے۔ انھیں منظم کیا گیا۔ تربیت دی گئی۔ جدید ترین اسلحہ اور اربوں ڈالر کی مالی امداد اس کے علاوہ ہے۔ اپنے سامراجی مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے مذہبی جنونیت انتہا پسندی کو ہتھیار بنایا گیا۔ لیکن اس کے باوجود امریکا کو ہر محاذ پر شکست ہوئی۔ افغانستان میں ہزاروں ارب ڈالر خرچ کرنے کے باوجود فتح ایک خواب ہے۔ جب کہ وہاں بے پناہ قتل و غارت کا سلسلہ مسلسل جاری ہے۔
امریکی حکمت عملی کو سب سے بڑی شکست شام کے محاذ پر ہوئی۔ اسرائیل کو محفوظ اور علاقے کی بالادست قوت بنانے کے لیے ہزاروں کی تعداد میں غیرملکی شام میں داخل کیے گئے تاکہ بشارالاسد حکومت کا تختہ الٹا جا سکے۔ تختہ تو کیا الٹا جانا تھا۔ شام اس مہم جوئی میں مکمل طور پر تباہ ہو گیا۔ لاکھوں لوگ مارے گئے۔ کئی ملین افراد گھر سے بے گھر ہو گئے۔ لاکھوں کو ہمسایہ ملکوں اور یورپ میں پناہ لینی پڑی۔ سب سے بڑی ستم ظریفی یہ ہوئی کہ امریکا نے شام میں جن اعتدال پسند باغیوں کی بشار حکومت کے خاتمے کے لیے ہر طرح کی سرپرستی کی' وہ داعش القاعدہ کے ہاتھوں شکست کھا گئے۔ اب خطرہ یہ تھا کہ کہیں داعش اور القاعدہ شام پر قبضہ نہ کر لیں۔
اس خطرے سے بچنے کے لیے شام کے محاذ پر امریکا کو پیچھے ہٹنا پڑا جس کے نتیجے میں روس نے شام کے معاملات کو سنبھال لیا اور امریکا کو بھی بادل نخواستہ اس صورت حال کو قبول کرنا پڑا۔ یہ امریکا کی بہت بڑی شکست تھی۔ یہ اس بات کی علامت تھی کہ امریکا اکیلے دنیا کو کنٹرول نہیں کر سکتا چنانچہ امریکی اسٹیبلشمنٹ ڈونلڈ ٹرمپ کی شکل میں ایک ایسی قیادت کو سامنے لائی جس کو روس سے دوستی میں کوئی خطرہ نہیں۔ بلا شرکت غیرے امریکی بادشاہت دنیا پر سے ختم ہو رہی ہے۔
یہی وجہ تھی کہ جب روس نے کریمیا کو جو ایک الگ ریاست تھی اپنا حصہ بنا لیا (جو تاریخی طور پر روس کا ہی حصہ تھا) تو امریکا کچھ نہ کر سکا۔ اسی طرح جارجیا میں بھی امریکا کی سازشیں ناکام ہوئیں تمام تردھمکیوں اور معاشی پابندیوں کے باوجود۔ اب سمجھداری کا تقاضا ہے کہ روس کے ساتھ دوستی کر کے دنیا کا نظام چلایا جائے کہیں ایسا نہ ہو کہ آدھی دنیا کی بادشاہت بھی ہاتھ سے جاتی رہے۔ یعنی جب پوری جا رہی ہو تو آدھی کو بچا لینا ہی عقلمندی ہے۔روس اور امریکا دونوں برابر کی ایٹمی طاقتیں ہیں۔ دونوں کے پاس ہزاروں ایٹم بم اور میزائل ہیں۔ جب کہ روس امریکا کا معاشی حریف بھی نہیں جب کہ چین امریکا کا معاشی حریف ہے جو امریکا کی جگہ لینا چاہتا ہے۔
جب دشمن دوست بن جائیں تو وہ بڑے اچھے اتحادی ثابت ہوتے ہیں۔ اب جب کہ امریکا دنیا پر سے اپنا کنٹرول کھو رہا ہے جو اس کے لیے فرسٹریشن کا باعث ہے۔ یہ خوفناک فرسٹریشن ہی ڈونلڈ ٹرمپ کو جتوانے کا باعث بنی۔ یہاں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ٹرمپ کو لانے اور جتوانے والے کون ہیں؟ وہی جنہوں نے جیتے ہوئے الگور کو امریکی سپریم کورٹ سے ہروایا۔ کیونکہ اس وقت کی امریکی اسٹیبلشمنٹ کی عالمی ضروریات کچھ اور تھیں جسے الگور پورا نہیں کر سکتے تھے۔ اب آپ سمجھ سکتے ہیں کہ ہیلری کی یقینی جیت کو شکست میں کیوں بدلا گیا۔
اب ڈونلڈ ٹرمپ وہ اقدامات کر رہے ہیں جو اپنے ہوں یا پرائے سب کے لیے تشویش کا باعث ہیں سب سے پہلے انھوں نے سات اسلامی ملکوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی امریکا میں داخلہ پر پابندی عائد کر دی۔ جب کہ امریکی صدر کے ان اقدامات کی سعودی عرب متحدہ امارات نے تائید کی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے ان اقدامات کے خلاف پوری دنیا میں مظاہرے ہو رہے ہیں۔ فرانس جرمنی کے سربراہان نے ان اقدامات کی مذمت اور ناجائز قرار دیا ہے۔ اور تو اور خود امریکا میں ہزاروں امریکیوں نے جو عیسائی تھے ان مسلم دشمن اقدامات کے خلاف مظاہرے کیے۔ مسلمانوں کے حق میں عیسائی یورپ میں مظاہرے کر رہے ہیں۔ وہ یورپ جس کے دل برلن میں گزشتہ کرسمس کے موقع پر ایک نام نہاد مسلمان نے خریداری کرتے درجنوں عورتوں بچوں اور مردوں کو ٹرالے تلے کچل کر رکھ دیا۔
ایک امریکی یہودی نے ڈونلڈ ٹرمپ کے ان مسلم دشمن اقدامات کے خلاف بطور احتجاج اپنی کمپنی میں دس ہزار مسلمانوں کو نوکری دینے کا اعلان کیا۔ بتانے والے بتاتے ہیں کہ جب لندن میں ہزاروں لوگ ڈونلڈ ٹرمپ کی برطانیہ آمد پر احتجاج کر رہے تھے جب نماز کا وقت آیا تو سیکڑوں عیسائی باشندوں نے ان کے گرد گھیرا باندھ کر ان کی حفاظت کی۔ آخر کس چیز نے ان کے اندر یہ جذبہ پیدا کیا؟ سیکولر ازم نے جس نے انھیں سکھایا کہ سب مذاہب برابر ہیں۔ انسانیت کا رشتہ سب سے بالاتر ہے وہ سیکولرازم جس کا ہمارے ہاں غلط ترجمہ لادینیت کہا جاتا ہے۔
روس کے نیگٹیو فیز کا خاتمہ ایک طویل عرصے کے بعد 017ء میں ہو جائے گا۔
سیل فون:۔0346-4527997
افغانستان، ایران، عراق، لیبیا، شام اس کی افسوسناک مثال ہیں۔ اس امریکی مہم جوئی میں پچھلے چالیس سال میں مسلم دنیا کے لاکھوں افراد مارے گئے اور زخمی ہوئے۔ تباہی اس بڑے پیمانے پر ہوئی جس کی مثال مشکل ہے۔ دہشتگردی کے خاتمے کے نام پر دہشتگردی کو فروغ دیا گیا۔ مسلم دنیا میں دہشتگرد گروہ تخلیق کیے گئے۔ انھیں منظم کیا گیا۔ تربیت دی گئی۔ جدید ترین اسلحہ اور اربوں ڈالر کی مالی امداد اس کے علاوہ ہے۔ اپنے سامراجی مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے مذہبی جنونیت انتہا پسندی کو ہتھیار بنایا گیا۔ لیکن اس کے باوجود امریکا کو ہر محاذ پر شکست ہوئی۔ افغانستان میں ہزاروں ارب ڈالر خرچ کرنے کے باوجود فتح ایک خواب ہے۔ جب کہ وہاں بے پناہ قتل و غارت کا سلسلہ مسلسل جاری ہے۔
امریکی حکمت عملی کو سب سے بڑی شکست شام کے محاذ پر ہوئی۔ اسرائیل کو محفوظ اور علاقے کی بالادست قوت بنانے کے لیے ہزاروں کی تعداد میں غیرملکی شام میں داخل کیے گئے تاکہ بشارالاسد حکومت کا تختہ الٹا جا سکے۔ تختہ تو کیا الٹا جانا تھا۔ شام اس مہم جوئی میں مکمل طور پر تباہ ہو گیا۔ لاکھوں لوگ مارے گئے۔ کئی ملین افراد گھر سے بے گھر ہو گئے۔ لاکھوں کو ہمسایہ ملکوں اور یورپ میں پناہ لینی پڑی۔ سب سے بڑی ستم ظریفی یہ ہوئی کہ امریکا نے شام میں جن اعتدال پسند باغیوں کی بشار حکومت کے خاتمے کے لیے ہر طرح کی سرپرستی کی' وہ داعش القاعدہ کے ہاتھوں شکست کھا گئے۔ اب خطرہ یہ تھا کہ کہیں داعش اور القاعدہ شام پر قبضہ نہ کر لیں۔
اس خطرے سے بچنے کے لیے شام کے محاذ پر امریکا کو پیچھے ہٹنا پڑا جس کے نتیجے میں روس نے شام کے معاملات کو سنبھال لیا اور امریکا کو بھی بادل نخواستہ اس صورت حال کو قبول کرنا پڑا۔ یہ امریکا کی بہت بڑی شکست تھی۔ یہ اس بات کی علامت تھی کہ امریکا اکیلے دنیا کو کنٹرول نہیں کر سکتا چنانچہ امریکی اسٹیبلشمنٹ ڈونلڈ ٹرمپ کی شکل میں ایک ایسی قیادت کو سامنے لائی جس کو روس سے دوستی میں کوئی خطرہ نہیں۔ بلا شرکت غیرے امریکی بادشاہت دنیا پر سے ختم ہو رہی ہے۔
یہی وجہ تھی کہ جب روس نے کریمیا کو جو ایک الگ ریاست تھی اپنا حصہ بنا لیا (جو تاریخی طور پر روس کا ہی حصہ تھا) تو امریکا کچھ نہ کر سکا۔ اسی طرح جارجیا میں بھی امریکا کی سازشیں ناکام ہوئیں تمام تردھمکیوں اور معاشی پابندیوں کے باوجود۔ اب سمجھداری کا تقاضا ہے کہ روس کے ساتھ دوستی کر کے دنیا کا نظام چلایا جائے کہیں ایسا نہ ہو کہ آدھی دنیا کی بادشاہت بھی ہاتھ سے جاتی رہے۔ یعنی جب پوری جا رہی ہو تو آدھی کو بچا لینا ہی عقلمندی ہے۔روس اور امریکا دونوں برابر کی ایٹمی طاقتیں ہیں۔ دونوں کے پاس ہزاروں ایٹم بم اور میزائل ہیں۔ جب کہ روس امریکا کا معاشی حریف بھی نہیں جب کہ چین امریکا کا معاشی حریف ہے جو امریکا کی جگہ لینا چاہتا ہے۔
جب دشمن دوست بن جائیں تو وہ بڑے اچھے اتحادی ثابت ہوتے ہیں۔ اب جب کہ امریکا دنیا پر سے اپنا کنٹرول کھو رہا ہے جو اس کے لیے فرسٹریشن کا باعث ہے۔ یہ خوفناک فرسٹریشن ہی ڈونلڈ ٹرمپ کو جتوانے کا باعث بنی۔ یہاں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ٹرمپ کو لانے اور جتوانے والے کون ہیں؟ وہی جنہوں نے جیتے ہوئے الگور کو امریکی سپریم کورٹ سے ہروایا۔ کیونکہ اس وقت کی امریکی اسٹیبلشمنٹ کی عالمی ضروریات کچھ اور تھیں جسے الگور پورا نہیں کر سکتے تھے۔ اب آپ سمجھ سکتے ہیں کہ ہیلری کی یقینی جیت کو شکست میں کیوں بدلا گیا۔
اب ڈونلڈ ٹرمپ وہ اقدامات کر رہے ہیں جو اپنے ہوں یا پرائے سب کے لیے تشویش کا باعث ہیں سب سے پہلے انھوں نے سات اسلامی ملکوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی امریکا میں داخلہ پر پابندی عائد کر دی۔ جب کہ امریکی صدر کے ان اقدامات کی سعودی عرب متحدہ امارات نے تائید کی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے ان اقدامات کے خلاف پوری دنیا میں مظاہرے ہو رہے ہیں۔ فرانس جرمنی کے سربراہان نے ان اقدامات کی مذمت اور ناجائز قرار دیا ہے۔ اور تو اور خود امریکا میں ہزاروں امریکیوں نے جو عیسائی تھے ان مسلم دشمن اقدامات کے خلاف مظاہرے کیے۔ مسلمانوں کے حق میں عیسائی یورپ میں مظاہرے کر رہے ہیں۔ وہ یورپ جس کے دل برلن میں گزشتہ کرسمس کے موقع پر ایک نام نہاد مسلمان نے خریداری کرتے درجنوں عورتوں بچوں اور مردوں کو ٹرالے تلے کچل کر رکھ دیا۔
ایک امریکی یہودی نے ڈونلڈ ٹرمپ کے ان مسلم دشمن اقدامات کے خلاف بطور احتجاج اپنی کمپنی میں دس ہزار مسلمانوں کو نوکری دینے کا اعلان کیا۔ بتانے والے بتاتے ہیں کہ جب لندن میں ہزاروں لوگ ڈونلڈ ٹرمپ کی برطانیہ آمد پر احتجاج کر رہے تھے جب نماز کا وقت آیا تو سیکڑوں عیسائی باشندوں نے ان کے گرد گھیرا باندھ کر ان کی حفاظت کی۔ آخر کس چیز نے ان کے اندر یہ جذبہ پیدا کیا؟ سیکولر ازم نے جس نے انھیں سکھایا کہ سب مذاہب برابر ہیں۔ انسانیت کا رشتہ سب سے بالاتر ہے وہ سیکولرازم جس کا ہمارے ہاں غلط ترجمہ لادینیت کہا جاتا ہے۔
روس کے نیگٹیو فیز کا خاتمہ ایک طویل عرصے کے بعد 017ء میں ہو جائے گا۔
سیل فون:۔0346-4527997