پشاور کا بد ترین بین الاقوامی ہوائی اڈہ
آپ دنیا کے کسی بھی ملک سے اپنے وطن واپس لوٹتے تو اپنی مٹی کی خوشبو چہرے کا رنگ بدل دیتی ہے
آپ دنیا کے کسی بھی ملک سے اپنے وطن واپس لوٹتے تو اپنی مٹی کی خوشبو چہرے کا رنگ بدل دیتی ہے، آنکھوں میں خوشی کے آنسو اور ہاتھ رب کائنات کا شکر بجا لانے کی جانب اٹھ جاتے ہیں، اسی قسم کے کئی مناظر آپ نے پاکستان کے مختلف بین الاقوامی ہوائی اڈوں پر دیکھے ہوں گے جب بہت عرصے بعد آنے والے بے اختیار سجدے میں گر جاتے ہیں۔لیکن آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ کم از کم ایسے مناظر پشاور کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر دکھائی نہیں دیتے، یہاں خوشی کے آنسوؤں کی بجائے غم و الم سے آنکھیں بھر آتی ہیں، چہرے خوشی سے نہیں غصے سے لال پیلے ہو جاتے ہیں اور سجدے میں گرنے والے وطن واپسی پر اپنے رب کا شکر ادا کرنے کے ساتھ ساتھ حکمرانوں خاص طور پرمتعلقہ ادارے کو بد دعائیں دیتے نظر آتے ہیں۔
جی ہاں پشاور کا بین الاقوامی ہوائی اڈہ بین الاقوامی اور اندرون ملک سفر کرنے والوں کے لیے اذیت سے کم نہیں۔ یہ ہوائی اڈہ اول تو کنٹونمنٹ کی حدود میں واقع ہے اور انتہائی کٹھن مراحل طے کرنے کے بعد ہوائی اڈے کے اندر داخل ہونے کا موقع ملتا ہے، خیبر روڈ سے براہ راست ہوائی اڈے جانے کا راستہ عام افراد کے لیے بند ہے، جس کے بعد لمبا چکر کاٹ کر مال روڈ یا باڑہ روڈ سے ہوتے ہوئے ائیر پورٹ کی حدود میں داخل ہوا جا سکتا ہے جس پر کم از کم ڈیڑھ سے دوگھنٹے درکار ہوتے ہیں، جی ہاں بالکل گاڑیوں کی لمبی قطاریں عجیب منظر پیش کرتی ہیںاور ان کی سیکیورٹی کلئیرنس کے لیے گھنٹوں صرف ہوتے ہیں اورجن کی پرواز میں دو گھنٹے باقی رہ جاتے ہیں وہ اپنا ساما ن گھسیٹتے جب ائیر پورٹ کے اندر داخل ہوتے ہیں تو انتہائی بد نظمی اور ناقص حکمت عملی کے باعث بورڈنگ ایریا میں جانا ان کے لیے عذاب بن جاتا ہے۔
بے شمار مسافر اس بد نظمی کے باعث اپنی پروازوں سے محروم رہ جاتے ہیں۔پھر چھوٹے سے ہال میں سیکڑوں مردو خواتین، بچے بوڑھے جس اذیت کا سامنا کرتے ہیں اس کا تصور محال ہے۔جس طرح وہ بورڈنگ کارڈ لے کر امیگریشن کاؤنٹر پر پہنچتے ہیں اور پھر جہاز پر سوار ہونے تک کا یہ مرحلہ کس طرح پایہ تکمیل کو پہنچتا ہے اسے الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے ۔وطن واپس آنے والوں کا حال بھی جان لیجیے، مسافر جہاز سے بڑی خوشی خوشی اترتے ہیں ایک کھٹارا قسم کی بس ان کی منتظر ہوتی ہے، دھکم پیل کے بعد چند میٹرز کا سفر طے کرتے ہیں اور پھر خدا کی پناہ!آدھے سے زیادہ مسافر امیگریشن ہال سے باہر لائن میں دکھائی دیتے ہیں ،وجہ ہال میں جگہ ہی نہیں کہ امیگریشن کاؤنٹرز بڑھائے جائیں چونکہ مجبوراً دو امیگریشن آفیسر ہی بیک وقت تین سے چار پروازیں لینڈ کرنے کے بعد جس طرح ممکن ہو سکتا ہے خدمت انجام دیتے ہیں۔
اس مرحلے پر وطن واپس پہنچنے والوں کا سارا نشہ ہرن ہو جاتا ہے اور اللہ اللہ کر کے یہ مرحلے طے ہونے کے بعد سامان کے حصول میں دو سے تین گھنٹے لگ جاتے ہیں کہ صرف ایک بیلٹ جی ہاں چند میٹرز کی صرف ایک بیلٹ پر سامان پھینکا جاتا ہے اور اور لوڈر پھینکتے ہی چلے جاتے ہیں جو جس کاہے اسے تلاش کرنے میں بھی دوربین کی ضرورت پڑتی ہے۔یہ مرحلہ بھی طے ہوجائے تو پھر ہوائی اڈے کی حدود سے باہر نکلنے کے لیے مزید کتنے گھنٹے لگ سکتے ہیں یہ قسمت پر چھوڑ دیجیے۔
یہ صورت حال اس وقت بھی تھی جب اس ہوائی اڈے کو توسیع دینے کا پروگرام ترتیب دیا جا رہا تھا اور آج بھی ہے کہ توسیعی منصوبے کا کام شروع ہو چکا ہے لیکن عام افراد تو چیخ چنگھاڑ کر دل کا بوجھ ہلکا کر لیا کرتے تھے مگر کسی حکومتی شخصیت کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی تھی کیونکہ وہ ایک ٹیلی فون کر کے ایگزیکٹو لاؤنج میں تشریف فرما ہوتے اور بڑی آسانی کے ساتھ جہاز تک پہنچ جاتے۔
اتفاق سے سینیٹر محسن عزیز کو جو اس شہر کے باسی ہیں عوام کی مشکلات جاننے کا خیال آیا اور پھر ایک صبح وہ ائیر پورٹ پہنچے جب سب کچھ ویسا ہی پایا جس کا ان سطور میں ذکر ہوا تو پشاور کے باچا خان انٹرنیشنل ائیر پورٹ کی صدا سینیٹ آف پاکستان میں پہنچ گئی اور پھر سینیٹر محسن عزیز کی تقریر اس قدر وائرل ہوئی کہ دنیا بھر میں اسے سنا اور دیکھا گیا اگرچہ وطن عزیز میں ہر صدا صدا بہ صحر ہی ثابت ہوا کرتی ہے اور چئیرمین سینٹ نے ایک کمیٹی بنا کر دو ماہ میں رپورٹ پیش کرنے کا حکم صادر کیا ہے لیکن اس موقع پر سینیٹر محسن عزیز کی اس مشہور تقریر سے چند اقتباسات نقل کر رہا ہوں۔
ان کا فرمانا تھا کہ باچا خان ائیرپورٹ جس شہر میں واقع ہے وہ پشاور ہے جو صوبے کا دارالحکومت بھی ہے یہ صوبے کا واحد انٹرنیشنل ائیر پورٹ ہے جو 1927 میں قائم کیا گیا تھا یعنی پاکستان بننے سے بھی بیس سال پہلے یہ بنا۔تب اس ہوائی اڈے کی ضرورت اس لیے محسوس کی گئی کہ یہ علاقہ گیٹ وے ٹو ایسٹ تھا اس وقت بھی یہ ہوائی اڈہ ملایشیا سمیت کئی ممالک سے آنے والی پروازوں کو مغرب کی جانب جانے میں معاون ثابت ہوتا تھا اور اسی لیے اس کی بڑی اہمیت ہوا کرتی تھی۔
کراچی اور لاہور کے ہوائی اڈے بھی پشاور ائیر پورٹ کے بعد بنے۔یہ ہوائی اڈہ اس شہر میں واقع ہے جس نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کاتین دہائیوں تک سامنا کیا اور سارے ملک کے لیے ڈھال کا کردار ادا کیا سب سے زیادہ جانیں اس شہر نے ملک و قوم کی بقا ء اور سالمیت پر قربان کیں اور سارا انفراسٹرکچر تباہ ہو گیا۔
پھولوں کا شہرکہلانے والا یہ شہر برباد ہو گیا۔یہاں محسن عزیز نے ایک ائیر ہوسٹس کے سوال کا تذکرہ بھی کیا جب اس نے سینیٹر موصوف سے پوچھا کہ پشاور کے ہوائی اڈے کی یہ حالت کیوں ہے تو انھوں نے جواب دیا کہ اس صوبے کے عوام اپنا حق لینے میں ہمیشہ پیچھے رکھے گئے ہیں!انھوں نے سینٹ آف پاکستان کو بتایا کہ پشاور کے اس ہوائی اڈے پر تقریباً پینتیس سے چالیس پروازیں روزانہ لینڈ اور ٹیک آف کرتی ہیں، سالانہ بیس لاکھ سے زیادہ مسافر یہ ہوائی اڈہ استعمال کرتے ہیں جب کہ اسلام آباد سے پشاور ائیر پورٹ دوگنا مسافروں کی میزبانی کرتا ہے۔ حالانکہ کراچی اور لاہور کے لیے تین سال قبل دو دو پروازیں چلا کرتی تھیں جو اب گھٹا دی گئی ہیں، لاہور کی پروازیں تو ختم ہی کر دی گئی ہیں اگر انھیں بحال کر دیا جائے تو مسافروں کی تعداد مزید بڑھ جائے گی۔
حیرت انگیز امر یہ ہے کراچی سے آنے والی پرواز صبح پانچ بجے روانہ ہوتی ہے جس کے لیے آپ کو ساری رات جاگنا پڑتا ہے۔محسن عزیز نے سینٹ میں ہونے والے سوالات کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ اگرچہ پشاور کے ہوائی اڈے سے متعلق محکموں نے جوابات تو دیے لیکن سوال "جو" اور جواب" گندم "رہا۔یہ بھی کہا گیا کہ2016 میں اس کی توسیع مکمل ہو جائے گی لیکن کچھ نہ ہوا۔
عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت نے خدائی خدمت گار باچا خان کے نام سے یہ ہوائی اڈہ تو منسوب کر دیا ' میرا خیال ہے کہ پہلے تو یہ نام رکھنا نہیں چاہیے تھا اور اگر رکھنا ہی تھا تو اسے بین الاقوامی معیار کا بناتے۔اب اس ہوائی اڈے کو جنوبی اور وسطی ایشیا کا تیسرا بد ترین ائیر پورٹ قرار دے دیا گیا ہے۔اب تو یہاں سے سفر کرتے ہوئے احساس محرومی کہیں زیادہ بڑھ جاتا ہے۔محسن عزیز نے اچھا کیا کہ اس ہوائی اڈے کا ذکر چھیڑ دیا جس پر بلاشبہ لاکھوں مسافر ان کے شکر گذار اور پاکستان کے اعلیٰ ترین ادارے کی جانب سے کسی مناسب فیصلے کے منتظر رہیں گے۔
جی ہاں پشاور کا بین الاقوامی ہوائی اڈہ بین الاقوامی اور اندرون ملک سفر کرنے والوں کے لیے اذیت سے کم نہیں۔ یہ ہوائی اڈہ اول تو کنٹونمنٹ کی حدود میں واقع ہے اور انتہائی کٹھن مراحل طے کرنے کے بعد ہوائی اڈے کے اندر داخل ہونے کا موقع ملتا ہے، خیبر روڈ سے براہ راست ہوائی اڈے جانے کا راستہ عام افراد کے لیے بند ہے، جس کے بعد لمبا چکر کاٹ کر مال روڈ یا باڑہ روڈ سے ہوتے ہوئے ائیر پورٹ کی حدود میں داخل ہوا جا سکتا ہے جس پر کم از کم ڈیڑھ سے دوگھنٹے درکار ہوتے ہیں، جی ہاں بالکل گاڑیوں کی لمبی قطاریں عجیب منظر پیش کرتی ہیںاور ان کی سیکیورٹی کلئیرنس کے لیے گھنٹوں صرف ہوتے ہیں اورجن کی پرواز میں دو گھنٹے باقی رہ جاتے ہیں وہ اپنا ساما ن گھسیٹتے جب ائیر پورٹ کے اندر داخل ہوتے ہیں تو انتہائی بد نظمی اور ناقص حکمت عملی کے باعث بورڈنگ ایریا میں جانا ان کے لیے عذاب بن جاتا ہے۔
بے شمار مسافر اس بد نظمی کے باعث اپنی پروازوں سے محروم رہ جاتے ہیں۔پھر چھوٹے سے ہال میں سیکڑوں مردو خواتین، بچے بوڑھے جس اذیت کا سامنا کرتے ہیں اس کا تصور محال ہے۔جس طرح وہ بورڈنگ کارڈ لے کر امیگریشن کاؤنٹر پر پہنچتے ہیں اور پھر جہاز پر سوار ہونے تک کا یہ مرحلہ کس طرح پایہ تکمیل کو پہنچتا ہے اسے الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے ۔وطن واپس آنے والوں کا حال بھی جان لیجیے، مسافر جہاز سے بڑی خوشی خوشی اترتے ہیں ایک کھٹارا قسم کی بس ان کی منتظر ہوتی ہے، دھکم پیل کے بعد چند میٹرز کا سفر طے کرتے ہیں اور پھر خدا کی پناہ!آدھے سے زیادہ مسافر امیگریشن ہال سے باہر لائن میں دکھائی دیتے ہیں ،وجہ ہال میں جگہ ہی نہیں کہ امیگریشن کاؤنٹرز بڑھائے جائیں چونکہ مجبوراً دو امیگریشن آفیسر ہی بیک وقت تین سے چار پروازیں لینڈ کرنے کے بعد جس طرح ممکن ہو سکتا ہے خدمت انجام دیتے ہیں۔
اس مرحلے پر وطن واپس پہنچنے والوں کا سارا نشہ ہرن ہو جاتا ہے اور اللہ اللہ کر کے یہ مرحلے طے ہونے کے بعد سامان کے حصول میں دو سے تین گھنٹے لگ جاتے ہیں کہ صرف ایک بیلٹ جی ہاں چند میٹرز کی صرف ایک بیلٹ پر سامان پھینکا جاتا ہے اور اور لوڈر پھینکتے ہی چلے جاتے ہیں جو جس کاہے اسے تلاش کرنے میں بھی دوربین کی ضرورت پڑتی ہے۔یہ مرحلہ بھی طے ہوجائے تو پھر ہوائی اڈے کی حدود سے باہر نکلنے کے لیے مزید کتنے گھنٹے لگ سکتے ہیں یہ قسمت پر چھوڑ دیجیے۔
یہ صورت حال اس وقت بھی تھی جب اس ہوائی اڈے کو توسیع دینے کا پروگرام ترتیب دیا جا رہا تھا اور آج بھی ہے کہ توسیعی منصوبے کا کام شروع ہو چکا ہے لیکن عام افراد تو چیخ چنگھاڑ کر دل کا بوجھ ہلکا کر لیا کرتے تھے مگر کسی حکومتی شخصیت کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی تھی کیونکہ وہ ایک ٹیلی فون کر کے ایگزیکٹو لاؤنج میں تشریف فرما ہوتے اور بڑی آسانی کے ساتھ جہاز تک پہنچ جاتے۔
اتفاق سے سینیٹر محسن عزیز کو جو اس شہر کے باسی ہیں عوام کی مشکلات جاننے کا خیال آیا اور پھر ایک صبح وہ ائیر پورٹ پہنچے جب سب کچھ ویسا ہی پایا جس کا ان سطور میں ذکر ہوا تو پشاور کے باچا خان انٹرنیشنل ائیر پورٹ کی صدا سینیٹ آف پاکستان میں پہنچ گئی اور پھر سینیٹر محسن عزیز کی تقریر اس قدر وائرل ہوئی کہ دنیا بھر میں اسے سنا اور دیکھا گیا اگرچہ وطن عزیز میں ہر صدا صدا بہ صحر ہی ثابت ہوا کرتی ہے اور چئیرمین سینٹ نے ایک کمیٹی بنا کر دو ماہ میں رپورٹ پیش کرنے کا حکم صادر کیا ہے لیکن اس موقع پر سینیٹر محسن عزیز کی اس مشہور تقریر سے چند اقتباسات نقل کر رہا ہوں۔
ان کا فرمانا تھا کہ باچا خان ائیرپورٹ جس شہر میں واقع ہے وہ پشاور ہے جو صوبے کا دارالحکومت بھی ہے یہ صوبے کا واحد انٹرنیشنل ائیر پورٹ ہے جو 1927 میں قائم کیا گیا تھا یعنی پاکستان بننے سے بھی بیس سال پہلے یہ بنا۔تب اس ہوائی اڈے کی ضرورت اس لیے محسوس کی گئی کہ یہ علاقہ گیٹ وے ٹو ایسٹ تھا اس وقت بھی یہ ہوائی اڈہ ملایشیا سمیت کئی ممالک سے آنے والی پروازوں کو مغرب کی جانب جانے میں معاون ثابت ہوتا تھا اور اسی لیے اس کی بڑی اہمیت ہوا کرتی تھی۔
کراچی اور لاہور کے ہوائی اڈے بھی پشاور ائیر پورٹ کے بعد بنے۔یہ ہوائی اڈہ اس شہر میں واقع ہے جس نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کاتین دہائیوں تک سامنا کیا اور سارے ملک کے لیے ڈھال کا کردار ادا کیا سب سے زیادہ جانیں اس شہر نے ملک و قوم کی بقا ء اور سالمیت پر قربان کیں اور سارا انفراسٹرکچر تباہ ہو گیا۔
پھولوں کا شہرکہلانے والا یہ شہر برباد ہو گیا۔یہاں محسن عزیز نے ایک ائیر ہوسٹس کے سوال کا تذکرہ بھی کیا جب اس نے سینیٹر موصوف سے پوچھا کہ پشاور کے ہوائی اڈے کی یہ حالت کیوں ہے تو انھوں نے جواب دیا کہ اس صوبے کے عوام اپنا حق لینے میں ہمیشہ پیچھے رکھے گئے ہیں!انھوں نے سینٹ آف پاکستان کو بتایا کہ پشاور کے اس ہوائی اڈے پر تقریباً پینتیس سے چالیس پروازیں روزانہ لینڈ اور ٹیک آف کرتی ہیں، سالانہ بیس لاکھ سے زیادہ مسافر یہ ہوائی اڈہ استعمال کرتے ہیں جب کہ اسلام آباد سے پشاور ائیر پورٹ دوگنا مسافروں کی میزبانی کرتا ہے۔ حالانکہ کراچی اور لاہور کے لیے تین سال قبل دو دو پروازیں چلا کرتی تھیں جو اب گھٹا دی گئی ہیں، لاہور کی پروازیں تو ختم ہی کر دی گئی ہیں اگر انھیں بحال کر دیا جائے تو مسافروں کی تعداد مزید بڑھ جائے گی۔
حیرت انگیز امر یہ ہے کراچی سے آنے والی پرواز صبح پانچ بجے روانہ ہوتی ہے جس کے لیے آپ کو ساری رات جاگنا پڑتا ہے۔محسن عزیز نے سینٹ میں ہونے والے سوالات کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ اگرچہ پشاور کے ہوائی اڈے سے متعلق محکموں نے جوابات تو دیے لیکن سوال "جو" اور جواب" گندم "رہا۔یہ بھی کہا گیا کہ2016 میں اس کی توسیع مکمل ہو جائے گی لیکن کچھ نہ ہوا۔
عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت نے خدائی خدمت گار باچا خان کے نام سے یہ ہوائی اڈہ تو منسوب کر دیا ' میرا خیال ہے کہ پہلے تو یہ نام رکھنا نہیں چاہیے تھا اور اگر رکھنا ہی تھا تو اسے بین الاقوامی معیار کا بناتے۔اب اس ہوائی اڈے کو جنوبی اور وسطی ایشیا کا تیسرا بد ترین ائیر پورٹ قرار دے دیا گیا ہے۔اب تو یہاں سے سفر کرتے ہوئے احساس محرومی کہیں زیادہ بڑھ جاتا ہے۔محسن عزیز نے اچھا کیا کہ اس ہوائی اڈے کا ذکر چھیڑ دیا جس پر بلاشبہ لاکھوں مسافر ان کے شکر گذار اور پاکستان کے اعلیٰ ترین ادارے کی جانب سے کسی مناسب فیصلے کے منتظر رہیں گے۔