عالمی گاؤں اور بیگانگی چوتھا حصہ
ان تمدنی معاشروں کے انسانوں کی بنیاد حیات کا تمام تر انحصار زراعت پرمشتمل ملتا ہوا نظر آتا ہے
قدیم طبث و ریاستی تصور: تاریخ گواہ ہے کہ حضرت انسان نے کرۂ ارض کے اس تکون حصے میں اپنے تمدنی معاشروں کی داغ بیل دریائی پانیوں پر رکھی تھی، جس کی مثال کسی اور قطعہ زمین پر نہیں ملتی۔
ان تمدنی معاشروں کے انسانوں کی بنیاد حیات کا تمام تر انحصار زراعت پرمشتمل ملتا ہوا نظر آتا ہے، اور دیگر شعبہ حیات زراعت کے ارتقائی مرحلے کا اظہار یا پھر مرہون منت معلوم ہوتے ہیں۔ جس کی سب سے بڑی و لاثانی مثال دریائے نیل پر قائم ''طِبث'' (فراعین) کا تمدنی معاشرہ ہے کہ جس میں قحط سالی کے طویل ترین سات سال کے دورانیے پر مشتمل عرصے میں اس تمدنی معاشرے نے اپنی زراعت کے دم پر اپنے آپ سمیت قرب وجوار کے دیگر علاقائی تمدنی معاشروں کو انتہائی محفوظ انداز میں حیات نو بخشی تھی۔
تاریخ کا طالب علم یہ ضرور جانتا ہے کہ ان سات سال میں جناب یوضارصیف حکیم ودانا نامی شخص نے عزیز مصر کی حیثیت سے ریاست کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لی ہوئی تھی۔ وہ ایک ایسے زرخرید عبرانی غلام تھے کہ جن پر طبث کی خاتون دوئم بانو زلیخا حق غلامی کا دستاویز رکھتی تھیں۔
تاریخ کا یہی وہ ارتقائی مرحلہ تھا کہ جس میں قبل از تاریخ کی بنیادوں پر انسان کے خدا کہلوائے جانے اور دیوتائی طور پوجے جانے کی روایتیں دم توڑتی ہوئی ملتی ہیں۔ جوکہ انسانوں کے موجودہ ارتقائی مرحلے کی سرمائے پر اجارہ داری رکھنے والی قوم کے اسلاف کی لازوال عظمتوں وغیر تحریف شدہ تحقیقات کی لاثانی مثال پر دلیل کا کام کرتی نظر آتی ہے۔
تاریخ کا طالب علم یہ جانتا ہے کہ دنیا کی دیگر تہاذیب و اقوام ایسی برگزیدگی سے محروم ہی نظر آتی ہیں۔ کیونکہ معلوم اور قبل تاریخ سے متعلق اور ریاست کے بجائے افرادی آئین پر مبنی فراعین کے اس تمدنی معاشرے میں یہ ثابت کیا گیا کہ ابراہیم نبیؑ کی تحقیقات وتعلیمات کے مطابق اگر کوئی یوضارصیف بھی عمل پیرا ہوں تو وہ بلاشبہ حکیم ودانا بن جاتے ہیں اور صدیوں پر مشتمل تہذیبوں کو ان کے تمدنی معاشروں سمیت صدیوں کا دوام بخش سکتے ہیں۔
تاریخ کے موجودہ مرحلے پر اہرام مصر کو سمجھنے یا انسان کو خلا میں بسائے جانے کے مقابلے میں مصری تمدنی معاشرے کی تاریخ کا وہ ارتقائی مرحلہ زیادہ باریک بینی سے تحقیق کا طالب ہے جس سے بیگانگی اپنائے رکھنا بالکل بھی دانش مندانہ اقدام نہ ہوگا۔
عالم انسانیت کے اس مرحلے پر مصر میں فطرت (مادی قوانین پہ عمل) سے جڑے تمدنی معاشرے کے عملی اطلاق سے ذاتی برتری کے بجائے عالم انسانیت کی فلاح وبہبود کے لیے مضبوط مرکزی ریاست کے قیام کو ناگزیر قرار دیا گیا تھا۔ کتنا نازک پہلو ہے کہ موجودہ عالمی گاؤں کے تمدنی معاشرے میں ریاستیں کمزور پڑتی جارہی ہیں، جو کہ لمحہ فکریہ ہے۔
حکمران و انتظام: فطرت (مادی قوانین پر عمل) سے قریب تر رہنے کے بہترین ولطیف انداز حیات کے طور پر زراعت صدیوں کے تسلسل میں تمدنی معاشروں سے وابستہ رہتی آئی ہے۔ اس لیے کرۂ ارض کے اس تکون حصے میں نشوونما پانے والے تمدنی معاشروں میں مابعد الفطرت (معلوم مادی قوانین کے بعد) یعنی مذاہب کا نفوذ اپنی تمام تر سختیوں کے ساتھ موجود ملتا ہے، جو کہ حضرت انسان کی جبلی طینت کی وجہ سے یہ نظریات لگ بھگ مسخ ہی ملتے ہیں۔ یعنی مابعد الفطرت (مادی قوانین سے مبرا) سے زیادہ غیر فطری تصریحات (مادی قوانین سے عدم تعلق) کا مرہون منت یا پھر توہین فطرت (مادی قوانین سے ٹکراؤ) کا اظہار بنا ہوا نظر آتا ہے۔
دریائے نیل، دجلہ، فرات، سندھو، گنگا وجمنا کے قدیم معاشرے اس کی بہترین تشریح گاہیں بھی ہیں کہ جہاں فکری طور پر ریاست کے متحرک فلاحی کردار کے بجائے نسلی تفاخر رکھنے والے اور خود کو عالمگیر حکمران سمجھے جانے کی جبلی طینت کے حتمی نتائج کے اظہار میں دیگر تمام انسانوں کو غلام بنائے جانے کی روایتیں مضبوط ہوتی دکھائی دیتی ہیں۔ ہندوستان میں برہمن اور اچھوت کی سوچ یا یوں کہیے کہ دیوتاؤں کی دیوتاؤں سے ٹکراؤ کی روایتیں انسان کی جبلی طینت کو سمجھانے کی بہترین مثالیں ہیں۔
حضرت انسان کے اس جذباتی ارتقائی مرحلے کے جدید اظہار میں یہ دیکھا جانا ممکن ہوا ہے کہ موجودہ عالمی گاؤں کے مکین حضرت انسان بھی انفرادی یا قومی سطح پر دیگر افراد یا اقوام کو اپنے زیر تسلط رکھنے کے چلن کو اس کی تمام تر شدت کے ساتھ اپنائے ہوئے ہیں۔ شاید اسی لیے ہی سونے پر اجارہ داری رکھنے والے انسان اپنے ''ہم ارتقائی مرحلے'' کے ہندوستان کو اپنا چہیتا ونائب بنائے ہوئے ہیں۔ چونکہ جناب ابرہیم نبیؑ معلوم تاریخ کے وہ پہلے عظیم محقق تھے کہ جنھوںؑ نے ریاستوں وتمدنی معاشروں کی بقا کے لیے خدائی اختیارات ودیوتائی تسلط کے ذریعے انفرادی اور قومی برتری کے تصور کو رد کیا تھا۔
اس کے عملی اطلاق میں جناب یوضارصیف حکیم و دانا (حضرت یوسفؑ) نے تاریخ انسانی میں یہ نتائج مرتب کردیے کہ ریاستیںدیوتائی و برتر نسلی تفاخر رکھنے والے حکمرانوں سے نہیں بلکہ فطرت (مادی قوانین پر عمل) سے جڑے انتظام سے دوام پاتی ہیں۔ اور انسان کو غلام بنائے رکھنے کے بجائے ان کے تمدنی معاشروں میں آزادی وخوشحالی سمیت ان کی بقا کا سامان مہیا کرنے کا سبب بنتی ہیں۔ جس کی تشریح میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ معلوم تاریخ کی لگ بھگ پہلی بیس اکیس صدیوں میں یعنی ابراہیم نبیؑ سے لے کر یسوع مسیح (عیسیٰ ؑ ابن مریم) کے مصلوب ہونے کے عرصے میں دنیا کی وسعتیں سکڑتی اور ان صدیوں کے تمدنی معاشروں میں انسان کی جبلی طینت میں برتری کی جارحانہ کارروائیاں اس گاؤں کے ہر ایک کونے سے ابھرتی رہی ہیں۔ جو کہ تاریخ انسانی میں فارس کے یونان، ایتھنز اور اسپارٹا تک اور یونان کے فارس، بابل، فلسطین و مصر تک انسانی خون کے دریا بہاتے چلے جانے کی بہت سی داستانیں رقم کیے جانے کا سبب بنیں۔
مزیدار پہلو کہ قدیم فارس اور یونان کی تہذیبوں کی بنیادیں دریائی پانیوں پر نہ تھیں اور نہ ہی ہیں۔ اس عرصے کے ہندوستان میں داخلی شورشوں کا سبب بننے والے برتری کے احساس سے پیدا شدہ توہین فطرت پر مشتمل تمدنی معاشرہ تاریخ کے دامن میں ہچکولے کھاتا ہوا ملتا ہے۔ جس کے سبب ہندوستان ان صدیوں کے دوران مضبوط مرکزی حکومت کی بنیادیں رکھنے میں ناکام دکھائی دیتا رہا ہے، جب کہ ان ہی صدیوں کے دوران قدیم چائنہ حکمرانی وانتظامی انداز میں ایک جدت کو متعارف کرواتے ہوئے ملتا ہے۔ یعنی تہذیبوں کی تاریخ میں پانی کے بلبلے جیسی حیثیت رکھنے والے دیوتائی جارحانہ اقدام کے بجائے مسئلے کے مستقل حل کے لیے یعنی قطع تعلق کا فیصلہ کرتے ہوئے دیوارچین کی تعمیر کا پرامن قدم اٹھایا۔
گوکہ دیوار چین کی تعمیر میں غلاموں پر مشتمل ایندھن استعمال کیا تھا، اس لیے اس کا شمار استبدادی اہرام مصر اور بابل کے معلق باغات جیسی عظیم الجثہ عمارتوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ لیکن چائنہ والوں کی اسی سوچ اور حکمت عملی کی بدولت ہی یہ ممکن ہوا ہے کہ چائنہ کا قبل از تاریخ سے منسلک قدیم تسلسل اپنی تمام تر جدت کے ساتھ بہت نکھرا ہوا محسوس ہوتا نظر آتا ہے۔ ایسا اعزاز دنیا کے کسی اور قدیم تمدنی معاشروں اور قوم کو حاصل نہیں ہوسکا ہے۔
معلوم تاریخ کی ان بیس اکیس صدیوں پر مشتمل عرصے کے سیاق وسباق کی پہلی پانچ صدیوں میں انسانی تاریخ کی سب سے حیران کن تبدیلیاں دریائے نیل (مصر) کے تمدنی معاشرے میں وقوع پذیر ہوتی دکھائی دیتی ہیں۔ جن کے نتیجے میں برتر نسلی ودیوتائی تصورِ حکمرانی سے لوگوں کو آزادی دلوائی گئی۔ اور یہ غلاموں کی تاریخ کا پہلا اور لاثانی انقلاب تھا کہ جو میٹھے پانی اور اس سے حیات پانے والی زراعت پر دی گئی تحقیقات وتعلیمات ابراہیمیؑ کے عملی اطلاق ہی کا مرہون منت تھا۔ جو اس بات کی وضاحت ہے کہ جو تمدنی معاشرے فطرت سے جڑی تحقیقات ابراہیمی ؑ سے دور ہوں گے ان معاشروں میں جناب یوضارصیف حکیم و دانا جیسے خاندان سے تشکیل وتکمیل شدہ قوم بنی اسرائیل ہی کو غلام بنالیا جاتا ہے۔ یعنی تاریخ کے اس مرحلے کو سمجھنے کے بعد تاریخ کے طالب علم کے لیے یہ سمجھنا بالکل ہی آسان ہوگا کہ موجودہ عالمی گاؤں کے سائنس وٹیکنالوجی یعنی ایجادات وفیکٹریوں پر انحصار رکھنے والا (مادی قوانین کو دعوت مبازرت دیتا) ترقی یافتہ تمدنی معاشرہ عالم انسانیت کو کس طرح کے لازمی وحتمی نتائج سے بہرہ مند کرسکتا ہے؟
(جاری ہے)
ان تمدنی معاشروں کے انسانوں کی بنیاد حیات کا تمام تر انحصار زراعت پرمشتمل ملتا ہوا نظر آتا ہے، اور دیگر شعبہ حیات زراعت کے ارتقائی مرحلے کا اظہار یا پھر مرہون منت معلوم ہوتے ہیں۔ جس کی سب سے بڑی و لاثانی مثال دریائے نیل پر قائم ''طِبث'' (فراعین) کا تمدنی معاشرہ ہے کہ جس میں قحط سالی کے طویل ترین سات سال کے دورانیے پر مشتمل عرصے میں اس تمدنی معاشرے نے اپنی زراعت کے دم پر اپنے آپ سمیت قرب وجوار کے دیگر علاقائی تمدنی معاشروں کو انتہائی محفوظ انداز میں حیات نو بخشی تھی۔
تاریخ کا طالب علم یہ ضرور جانتا ہے کہ ان سات سال میں جناب یوضارصیف حکیم ودانا نامی شخص نے عزیز مصر کی حیثیت سے ریاست کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لی ہوئی تھی۔ وہ ایک ایسے زرخرید عبرانی غلام تھے کہ جن پر طبث کی خاتون دوئم بانو زلیخا حق غلامی کا دستاویز رکھتی تھیں۔
تاریخ کا یہی وہ ارتقائی مرحلہ تھا کہ جس میں قبل از تاریخ کی بنیادوں پر انسان کے خدا کہلوائے جانے اور دیوتائی طور پوجے جانے کی روایتیں دم توڑتی ہوئی ملتی ہیں۔ جوکہ انسانوں کے موجودہ ارتقائی مرحلے کی سرمائے پر اجارہ داری رکھنے والی قوم کے اسلاف کی لازوال عظمتوں وغیر تحریف شدہ تحقیقات کی لاثانی مثال پر دلیل کا کام کرتی نظر آتی ہے۔
تاریخ کا طالب علم یہ جانتا ہے کہ دنیا کی دیگر تہاذیب و اقوام ایسی برگزیدگی سے محروم ہی نظر آتی ہیں۔ کیونکہ معلوم اور قبل تاریخ سے متعلق اور ریاست کے بجائے افرادی آئین پر مبنی فراعین کے اس تمدنی معاشرے میں یہ ثابت کیا گیا کہ ابراہیم نبیؑ کی تحقیقات وتعلیمات کے مطابق اگر کوئی یوضارصیف بھی عمل پیرا ہوں تو وہ بلاشبہ حکیم ودانا بن جاتے ہیں اور صدیوں پر مشتمل تہذیبوں کو ان کے تمدنی معاشروں سمیت صدیوں کا دوام بخش سکتے ہیں۔
تاریخ کے موجودہ مرحلے پر اہرام مصر کو سمجھنے یا انسان کو خلا میں بسائے جانے کے مقابلے میں مصری تمدنی معاشرے کی تاریخ کا وہ ارتقائی مرحلہ زیادہ باریک بینی سے تحقیق کا طالب ہے جس سے بیگانگی اپنائے رکھنا بالکل بھی دانش مندانہ اقدام نہ ہوگا۔
عالم انسانیت کے اس مرحلے پر مصر میں فطرت (مادی قوانین پہ عمل) سے جڑے تمدنی معاشرے کے عملی اطلاق سے ذاتی برتری کے بجائے عالم انسانیت کی فلاح وبہبود کے لیے مضبوط مرکزی ریاست کے قیام کو ناگزیر قرار دیا گیا تھا۔ کتنا نازک پہلو ہے کہ موجودہ عالمی گاؤں کے تمدنی معاشرے میں ریاستیں کمزور پڑتی جارہی ہیں، جو کہ لمحہ فکریہ ہے۔
حکمران و انتظام: فطرت (مادی قوانین پر عمل) سے قریب تر رہنے کے بہترین ولطیف انداز حیات کے طور پر زراعت صدیوں کے تسلسل میں تمدنی معاشروں سے وابستہ رہتی آئی ہے۔ اس لیے کرۂ ارض کے اس تکون حصے میں نشوونما پانے والے تمدنی معاشروں میں مابعد الفطرت (معلوم مادی قوانین کے بعد) یعنی مذاہب کا نفوذ اپنی تمام تر سختیوں کے ساتھ موجود ملتا ہے، جو کہ حضرت انسان کی جبلی طینت کی وجہ سے یہ نظریات لگ بھگ مسخ ہی ملتے ہیں۔ یعنی مابعد الفطرت (مادی قوانین سے مبرا) سے زیادہ غیر فطری تصریحات (مادی قوانین سے عدم تعلق) کا مرہون منت یا پھر توہین فطرت (مادی قوانین سے ٹکراؤ) کا اظہار بنا ہوا نظر آتا ہے۔
دریائے نیل، دجلہ، فرات، سندھو، گنگا وجمنا کے قدیم معاشرے اس کی بہترین تشریح گاہیں بھی ہیں کہ جہاں فکری طور پر ریاست کے متحرک فلاحی کردار کے بجائے نسلی تفاخر رکھنے والے اور خود کو عالمگیر حکمران سمجھے جانے کی جبلی طینت کے حتمی نتائج کے اظہار میں دیگر تمام انسانوں کو غلام بنائے جانے کی روایتیں مضبوط ہوتی دکھائی دیتی ہیں۔ ہندوستان میں برہمن اور اچھوت کی سوچ یا یوں کہیے کہ دیوتاؤں کی دیوتاؤں سے ٹکراؤ کی روایتیں انسان کی جبلی طینت کو سمجھانے کی بہترین مثالیں ہیں۔
حضرت انسان کے اس جذباتی ارتقائی مرحلے کے جدید اظہار میں یہ دیکھا جانا ممکن ہوا ہے کہ موجودہ عالمی گاؤں کے مکین حضرت انسان بھی انفرادی یا قومی سطح پر دیگر افراد یا اقوام کو اپنے زیر تسلط رکھنے کے چلن کو اس کی تمام تر شدت کے ساتھ اپنائے ہوئے ہیں۔ شاید اسی لیے ہی سونے پر اجارہ داری رکھنے والے انسان اپنے ''ہم ارتقائی مرحلے'' کے ہندوستان کو اپنا چہیتا ونائب بنائے ہوئے ہیں۔ چونکہ جناب ابرہیم نبیؑ معلوم تاریخ کے وہ پہلے عظیم محقق تھے کہ جنھوںؑ نے ریاستوں وتمدنی معاشروں کی بقا کے لیے خدائی اختیارات ودیوتائی تسلط کے ذریعے انفرادی اور قومی برتری کے تصور کو رد کیا تھا۔
اس کے عملی اطلاق میں جناب یوضارصیف حکیم و دانا (حضرت یوسفؑ) نے تاریخ انسانی میں یہ نتائج مرتب کردیے کہ ریاستیںدیوتائی و برتر نسلی تفاخر رکھنے والے حکمرانوں سے نہیں بلکہ فطرت (مادی قوانین پر عمل) سے جڑے انتظام سے دوام پاتی ہیں۔ اور انسان کو غلام بنائے رکھنے کے بجائے ان کے تمدنی معاشروں میں آزادی وخوشحالی سمیت ان کی بقا کا سامان مہیا کرنے کا سبب بنتی ہیں۔ جس کی تشریح میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ معلوم تاریخ کی لگ بھگ پہلی بیس اکیس صدیوں میں یعنی ابراہیم نبیؑ سے لے کر یسوع مسیح (عیسیٰ ؑ ابن مریم) کے مصلوب ہونے کے عرصے میں دنیا کی وسعتیں سکڑتی اور ان صدیوں کے تمدنی معاشروں میں انسان کی جبلی طینت میں برتری کی جارحانہ کارروائیاں اس گاؤں کے ہر ایک کونے سے ابھرتی رہی ہیں۔ جو کہ تاریخ انسانی میں فارس کے یونان، ایتھنز اور اسپارٹا تک اور یونان کے فارس، بابل، فلسطین و مصر تک انسانی خون کے دریا بہاتے چلے جانے کی بہت سی داستانیں رقم کیے جانے کا سبب بنیں۔
مزیدار پہلو کہ قدیم فارس اور یونان کی تہذیبوں کی بنیادیں دریائی پانیوں پر نہ تھیں اور نہ ہی ہیں۔ اس عرصے کے ہندوستان میں داخلی شورشوں کا سبب بننے والے برتری کے احساس سے پیدا شدہ توہین فطرت پر مشتمل تمدنی معاشرہ تاریخ کے دامن میں ہچکولے کھاتا ہوا ملتا ہے۔ جس کے سبب ہندوستان ان صدیوں کے دوران مضبوط مرکزی حکومت کی بنیادیں رکھنے میں ناکام دکھائی دیتا رہا ہے، جب کہ ان ہی صدیوں کے دوران قدیم چائنہ حکمرانی وانتظامی انداز میں ایک جدت کو متعارف کرواتے ہوئے ملتا ہے۔ یعنی تہذیبوں کی تاریخ میں پانی کے بلبلے جیسی حیثیت رکھنے والے دیوتائی جارحانہ اقدام کے بجائے مسئلے کے مستقل حل کے لیے یعنی قطع تعلق کا فیصلہ کرتے ہوئے دیوارچین کی تعمیر کا پرامن قدم اٹھایا۔
گوکہ دیوار چین کی تعمیر میں غلاموں پر مشتمل ایندھن استعمال کیا تھا، اس لیے اس کا شمار استبدادی اہرام مصر اور بابل کے معلق باغات جیسی عظیم الجثہ عمارتوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ لیکن چائنہ والوں کی اسی سوچ اور حکمت عملی کی بدولت ہی یہ ممکن ہوا ہے کہ چائنہ کا قبل از تاریخ سے منسلک قدیم تسلسل اپنی تمام تر جدت کے ساتھ بہت نکھرا ہوا محسوس ہوتا نظر آتا ہے۔ ایسا اعزاز دنیا کے کسی اور قدیم تمدنی معاشروں اور قوم کو حاصل نہیں ہوسکا ہے۔
معلوم تاریخ کی ان بیس اکیس صدیوں پر مشتمل عرصے کے سیاق وسباق کی پہلی پانچ صدیوں میں انسانی تاریخ کی سب سے حیران کن تبدیلیاں دریائے نیل (مصر) کے تمدنی معاشرے میں وقوع پذیر ہوتی دکھائی دیتی ہیں۔ جن کے نتیجے میں برتر نسلی ودیوتائی تصورِ حکمرانی سے لوگوں کو آزادی دلوائی گئی۔ اور یہ غلاموں کی تاریخ کا پہلا اور لاثانی انقلاب تھا کہ جو میٹھے پانی اور اس سے حیات پانے والی زراعت پر دی گئی تحقیقات وتعلیمات ابراہیمیؑ کے عملی اطلاق ہی کا مرہون منت تھا۔ جو اس بات کی وضاحت ہے کہ جو تمدنی معاشرے فطرت سے جڑی تحقیقات ابراہیمی ؑ سے دور ہوں گے ان معاشروں میں جناب یوضارصیف حکیم و دانا جیسے خاندان سے تشکیل وتکمیل شدہ قوم بنی اسرائیل ہی کو غلام بنالیا جاتا ہے۔ یعنی تاریخ کے اس مرحلے کو سمجھنے کے بعد تاریخ کے طالب علم کے لیے یہ سمجھنا بالکل ہی آسان ہوگا کہ موجودہ عالمی گاؤں کے سائنس وٹیکنالوجی یعنی ایجادات وفیکٹریوں پر انحصار رکھنے والا (مادی قوانین کو دعوت مبازرت دیتا) ترقی یافتہ تمدنی معاشرہ عالم انسانیت کو کس طرح کے لازمی وحتمی نتائج سے بہرہ مند کرسکتا ہے؟
(جاری ہے)