خواتین کو بااختیار بنانے کا عزم و ارادہ

معاشرے کے ہر حصے میں خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کی جڑیں مضبوط ہیں۔پاکستان نہیں بلکہ اس خطے کے سبھی ممالک کا مسئلہ ہے


Editorial July 29, 2012
صنف نازک کو ان کے حقوق دلانے کی کوششیں خوش آیند اور حوصلہ افزا ہیں۔ فائل فوٹو

صدر آصف علی زرداری نے ایوان صدر اسلام آباد میں خواتین کے خلاف تشدد کو روکنے کی دستخطی مہم کی اختتامی تقریب سے خطاب کے دوران کہا ہے کہ موجودہ جمہوری حکومت نے خواتین کو بااختیار بنانے اور انھیں ہر قسم کے استحصال اور تشدد سے تحفظ فراہم کرنے کے لیے سماجی، اقتصادی، قانونی اور آئینی اقدامات کرنے کی اپنی کوششوں کے سلسلے میں عدلیہ میں خواتین ججز تعینات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

اس موقع پر صدر زرداری نے اپنے دستخط کے ذریعے 10 لاکھ افراد کی طرف سے دستخط کرنے کی مہم کا اختتام بھی کیا۔ صدر زرداری نے کہا کہ معاشرے کے ہر حصے میں خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کی جڑیں مضبوط ہیں اور یہ صرف پاکستان نہیں بلکہ اس خطے کے سبھی ممالک کا مسئلہ ہے جس کے حل کے لیے مردوں میں خواتین کے لیے رویوں میں مثبت تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ صدر نے کہا کہ تشدد خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کی بدترین مثال ہے، جمہوری حکومت نے خواتین کے حقوق کے تحفظ اور انھیں بااختیار بنانے کے لیے قابل ذکر قانون سازی کی ہے تاہم ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔

سربراہ مملکت کا یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ حالیہ برسوں میں خواتین کو زیادہ بااختیار بنانے اور ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے کافی کام کیا گیا ہے لیکن اس حقیقت کو بھی آسانی سے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ ان ساری کاوشوں کے باوجود یہاں خواتین کو اپنے حقوق کے حوالے سے مکمل تحفظ حاصل نہیں ہے۔ ہمارے معاشرے میں آج بھی مختلف رسوم اور رواجوں کے نام پر ان کا استحصال کیا جاتا ہے' کہیں خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیا جاتا ہے تو کہیں کاروکاری کا نشانہ بنایا جاتا' کہیں ان کو صلح کے معاہدوں کی بھینٹ چڑھایا جاتا ہے تو کہیں تیزاب پھینک کر ان کے حلیے بگاڑ دیے جاتے ہیں۔

اس حوالے سے درجنوں بلکہ سیکڑوں مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے خواتین کو ان کے حقوق کے سلسلے میں تحفظ فراہم کرنے کے لیے جو قانون سازی کی گئی ہے اس پر عمل درآمد کو بھی یقینی بنایا جائے بصورت دیگر یہ ساری ڈرل بے فائدہ و بے ثمر ثابت ہو گی۔ حکومت اگر عدالتوں میں خواتین ججز تعینات کرنے کا فیصلہ کرتی ہے تو اس سے اس سلسلے میں کچھ پیش رفت کی توقع کی جا سکے گی کہ جو قانون سازی کی گئی ہے اس پر عمل بھی ممکن ہو سکے۔ صنف نازک کو ان کے حقوق دلانے کی کوششیں خوش آیند اور حوصلہ افزا ہیں تاہم اس حوالے سے اقدامات کرتے ہوئے تصویر کا دوسرا رُخ بھی سامنے رکھا جانا چاہیے

جو یہ ہے کہ ان قوانین کا مردوں کے خلاف یا دوسری خواتین کے خلاف غلط استعمال نہ ہو کیونکہ بہرحال کسی بھی معاملے کی تفتیش و تحقیقات کے دوران سچ اور جھوٹ کو پرکھنے کا کوئی واضح طریقہ یا پیمانہ نہیں ہوتا اور محض اندازوں سے یہ پتہ چلانا پڑتا ہے کہ سچ کیا ہو سکتا ہے اور غلط کیا ہے۔ کسی مقدمے کی تفتیش کے دوران تصویر کا دوسرا رُخ سامنے رکھا جائے گا تو فیصلہ کرنا آسان ہو گا اور اس کے ساتھ ساتھ اس امر کو بھی یقینی بنایا جا سکے گا کہ کسی بے گناہ کو سزا نہ ہو۔ صدر کا یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ مردوں میں خواتین کے لیے رویوں میں مثبت تبدیلی لانے کی ضرورت ہے تاہم ضروری ہے کہ یہ تلقین خواتین کو بھی کی جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

تشویشناک صورتحال

Dec 28, 2024 01:16 AM |

چاول کی برآمدات

Dec 28, 2024 01:12 AM |

ملتے جلتے خیالات

Dec 28, 2024 01:08 AM |