عدلیہ اور فوج کا تمسخر اڑانے کی اجازت نہیں دے سکتے چیف جسٹس

اداروںپرتنقیدایک حدتک ہوسکتی ہے، 2مئی کوجوہواسوہوا،بہترہوتامعاملہ یہیں ختم کردیاجاتا


Numainda Express January 04, 2013
پٹیشن کامقصدنہیں جانتے لیکن اداروں کو بدنام نہیں کرناچاہیے،ایبٹ آباد آپریشن ، مہران بیس واقعے پرمیڈیاکردارکیخلاف مقدمے میںریمارکس۔ فوٹو: فائل

ایبٹ آبادمیں اسامہ بن لادن کے خلاف امریکی آپریشن اورمہران ایئربیس کے واقعے کے بارے میںمیڈیاکے کردارکے خلاف دائر پٹیشن کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے آبزرویشن دی ہے کہ دومئی کوجوہواسوہوااب ملک کو آگے کی طرف لے جاناہے۔

انھوںنے کہا اس پٹیشن کے پیچھے کیا مقاصد اور محرکات ہیںعد الت کواس کاعلم نہیںلیکن بہتریہی ہوتاکہ اس معاملے کو یہیں ختم کردیاجاتا،چیف جسٹس نے کہاکہ فوج اورعدلیہ کوآئین نے تحفظ دیا ہوا ہے ، کسی کوان اداروںکی کردارکشی کی اجازت نہیں،ملک کی سالمیت ہرچیزپرمقدم ہے کسی کوملک کی سالمیت کے خلاف بات کرنے کی اجازت نہیں،چیف جسٹس نے مزیدکہاآئین،عوام اوراداروںکاتحفظ عدالت کی ذمے داری ہے،چیف جسٹس افتخارمحمدچوہدری کی سربراہی میںتین رکنی بینچ نے درخواست گزار سردارغازی کی پٹیشن پرسماعت کی۔

درخواست گزارکے وکیل راجہ ارشاد نے وقوع کے بارے میںآئی ایس پی آرکی پریس ریلیز اور ایبٹ آبادکمیشن کے سامنے حسین حقانی کے بیان کو پڑھ کر سنایا،انھوں نے ایبٹ آباد آپریشن کے واقعے کے موقع پرچند اینکر پرسنزکے تبصروں پرشدید اعتراض کیا،ان کاکہنا تھاکہ آئین کی شق19کی خلاف ورزی کی گئی،چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 19کی خلاف ورزی کیسے ہوئی،عدالت کومواد فراہم کیا جائے اوراگردرخواست گزارسمجھتے ہیںکہ قانون کی کوئی خلاف ورزی ہوئی ہے تو پھرہائیکورٹ سے رجوع کیاجائے۔

راجہ ارشاد نے کہاکہ حسین حقانی کے مطابق وہ دو مئی کو لندن میں تھے کہ انھیں واپس واشنگٹن پہنچنے کے لیے کہا گیا اور ہدایت کی گئی کہ کانگریس اور امریکی میڈیاکے سامنے حکومت ،فوج اور سیکیورٹی اداروںکا دفاع کیاجائے تاکہ اسامہ بن لادن کو پناہ دینے کا ان پرالزام نہ آجائے۔عدالت نے اس پربرہمی کااظہار کیا، چیف جسٹس نے سوال اٹھایا حسین حقانی نے یہ بیان کس کو دیا۔راجہ ارشادکا کہنا تھا کہ ایبٹ آبادکمیشن کے سامنے یہ بیان دیا گیا اورمیڈیامیں رپورٹ ہواہے ۔چیف جسٹس نے کہا کمیشن کی رپورٹ ابھی تک عام نہیں ہوئی،اس کے باوجود رپورٹ باہر آنا باعث تشویش ہے ،چیف جسٹس نے کہا کہ اس پٹیشن کے ذریعے اس عدالت کوکس طرف لے جایاجارہاہے اور مقاصدکیا ہیں،ہم نہیں جا نتے لیکن اپنے اداروںکو خود بدنام نہیںکر نا چاہیے۔

10

چیف جسٹس نے کہا کہ یہ ملک کی سالمیت کا معاملہ ہے، عدالت کے سامنے مواد لایاجائے ورنہ پھرہائیکورٹ سے رجوع کیاجائے اور اگرکسی کے خلاف کوئی دعویٰ ہے توہرجانہ کے لیے متعلقہ فورم میں دعویٰ دائرکیاجائے۔ درخواست گزارکے وکیل نے کہاکہ فوج کوبدنام کیا جا رہا ہے،کیایہ عدالت ایک ادارے کا تحفظ نہیںکریگی؟چیف جسٹس نے کہا کہ ہرادارے کا تحفظ اس عدالت کی ذمے داری ہے ،اس لیے یہ عدالت درخواست گزارکوروکناچاہتی ہے کہ خداکے لیے اداروںکوبچایا جائے۔ عدالت درخواست خارج کر رہی تھی لیکن راجہ ارشادنے استدعاکی کہ درخواست کوخارج نہ کیا جائے، عدالت میں الزام کے حق میں مواد پیش کر دیا جائے گا۔

چیف جسٹس نے کہاکہ عدالت کو مطمئن کر نے کے بعد درخواست سماعت کے لیے منظورکی جائے گی اور فریقین کو نوٹس جا ری کیے جائیں گے،مزید سماعت غیرمعینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی گئی۔اے پی پی کے مطابق سپریم کورٹ نے کہاکہ کسی کو عدلیہ اورفوج کا تمسخر اڑانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کو معلوم نہیںکہ اس درخواست کے پیچھے کیا مقاصد ہیں تاہم اداروں پر تنقید ایک خاص حد تک ہی کی جاسکتی ہے، ہمارا کام آئین کا تحفظ کرنا ہے، ملک کی سیکیورٹی سے متعلق معاملات کو اس طرح یہاں زیر بحث نہیں لایاجاسکتا تاہم اگر کسی اینکر نے بات کی ہے تو اس کے خلاف ہتک عزت کادعویٰ کیا جاسکتاہے،ہم اس طرح کی درخواستیںنہیںسن سکتے ۔

این این آئی کے مطابق چیف جسٹس نے کہاکہ ملکی سلامتی کے خلاف کسی بات کی اجازت نہیں دی جائے گی، ہمارا آئین اپنے لوگوں کا دفاع کرتا ہے۔راجہ ارشاد نے حسین حقانی کا ایبٹ آباد کمیشن میں دیا گیا بیان پڑھا کہ وہ واشنگٹن سے لندن پہنچے تو انھیں واپس جانیکاحکم ملا، انھیں کہاگیاکہ وہ اسامہ بن لادن کی پاکستان موجودگی پر حکومت پاکستان، فوج اورانٹیلی جنس اداروں کا دفاع کریں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ آپ عدالت کوکس طرف لیکر جانا چاہتے ہیں اور ملکی دفاع کے پیچھے کیوں پڑے ہوئے ہیں، آپ کو پتہ ہے کہ اس کے کیا نتائج ہوںگے، بہتر تھا کہ جو معاملہ ختم ہو چکا تھا اسے نہ اٹھاتے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں