شفقت کاسایہ روحانیت کا کہرا اور بانو قدسیہ

زندگی چھوٹی چھوٹی حیرتوں کا نام ہے

زندگی چھوٹی چھوٹی حیرتوں کا نام ہے، معمولی اتفاقات کا،ان واقعات کا، جو بنا سبب ایک دوسرے سے جڑتے چلے جاتے ہیں۔

کچھ روز ادھرہم اس غلک کو یاد کررہے تھے، جس میں کبھی اس نیت سے پیسے جمع کیے تھے کہ بانو قدسیہ کا ناول خرید سکیں۔ اپنی ''کتاب کہانی'' بیان کرتے سمے جب اعتراف کیا کہ یہ ''راجہ گدھ'' تھا، جس نے اس راستہ پر ڈالا، جہاںاردو اورعالمی ادب کے نابغوں سے ملاقات ہوئی، توکب سوچا تھا کہ اس ناول کی مصنفہ چند روز بعدداغ مفارقت دینے کو ہے۔ہاں، بیماری کی خبر ملی تھی۔

وہ ایک عرصے سے گوشہ نشیں تھیں۔ کراچی میں تواتر سے ہونے والی اردوکانفرنسوں اور لٹریچر فیسٹولزکے باوجود، جہاں انتظار حسین سے مرزا اطہر بیگ تک، سب ہی کو دیکھا،کبھی بانو قدسیہ کے درشن نہیں ہوئے۔اُن سے ملنے ،انھیں سننے،ان سے سوال کرنے کی خواہش قوی ہوتی گئی، مگر قدرت کو کچھ اور منظور تھا۔۔۔ اس غلک کے بیان کو ابھی ایک ہفتہ نہ ہوا تھاکہ اُن کے انتقال کی خبر آگئی۔اب اِس خواہش کوکسی شام سمندر برد کر دوں گا۔ اُن کے انتقال کی کرب ناک خبر، مجھے ایک ایس ایم ایس کے ذریعے ملی۔پیغام بھیجنے والا یوں تو صحافی تھا، مگر شاعرکا دل رکھتاہے۔فون کیا، توکہنے لگا،''دفتر سے گھر لوٹا، توجانے کیوں،کتابوں کے شیلف کی سمت چلا گیا۔ وہاں سے د و کتابیں اٹھائیں۔ ایک تو لغت تھی اور دوسری تھی 'راجہ گدھ'۔جانے کیا سوچ کر اٹھائی اور جب ٹی وی کھولا، تو خبر ملی کہ بانو قدسیہ ہم سے جدا ہوگئی ہیں۔''

بے شک زندگی چھوٹی چھوٹی حیرتوں کا نام ہے ۔

ادیب، سچا ادیب ایک پیامبر ہوتا ہے۔وہ قاری کو خود تک محدود نہیں رکھتا کہ یہ سراسر ظلم ہے، وہ کشادگی اور وسعت پیدا کرتا ہے۔قارئین کو ان لکھاریوں کی سمت متوجہ کرتا ہے، جنھیں پڑھتے پڑھتے وہ جوان ہوا، جواس کے دل کے قریب ہیں، جنھیں وہ آج کل پڑھ رہا ہے۔ساتھ ہی ان کی کہانیاں بیان کرتا، جن کے ساتھ وہ چلتا پھرتا ہے، جو اس کے ہم عصر ہیں۔ بانو قدسیہ کے ہاں بھی یہ خوبی ہے۔


انھیں پڑھیں، تو اشفاق احمد، ممتاز مفتی کو پڑھنے کی خواہش زور مارتی ہے، ابن انشا اور جمیل الدین عالی سے ملنے کی آرزو ہمکتی ہے۔اچھا، بانو قدسیہ ہی کی انگلی تھامے میں قدرت اللہ شہاب سے ملا۔'' سلسلۂ شہابیہ'' میں داخل ہوا، جہاں ہر شخص مرید خاص ہونے کا دعویٰ دار اور مرشد اس التباس کو قائم رکھنے میں مطمئن ۔۔۔ تو سچا ادیب قاری کو خود تک محدود نہیں رکھتا، مگر یہ ضروری ہے کہ جب وہ اپنے ہم عصروں کا ذکر کرے، تب توازن قائم رکھے کہ توازن حسن ہے۔ البتہ بانو قدسیہ ، اشفاق احمداور ممتاز مفتی کے ہاں ہمیں یہ توازن بگڑتا محسوس ہوتا ہے۔

قدرت اللہ شہاب کی Larger than Life تصور ابھرتی ہے۔ ان کی روحانی شبیہ، انسانی شبیہ پر غالب آجاتی ہے، جس سے سب سے زیادہ نقصان اس فکشن کو ہوتا ہے، جو شہاب کے ذریعے ہم تک پہنچا، یا پہنچ سکتا تھا۔جی ہاں، ''شہاب نامہ'' پر درجنوں اعتراضات کیے جاسکتے ہیں اور بیشتر میں خاصا وزن ہوگا۔ مصنف نے کتاب میں اس تاثر کو قائم رکھنے کا مناسب اہتمام کیا ، جو اس کے چاہنے والوں نے بڑے چاؤ اور ہنرمندی سے قائم کیا ، مگر اس سے انکار ممکن نہیں کہ یہ کتاب مطالعیت کے عنصر سے بھرپور ہے۔اقتدار کی راہ داریوں میں رونما ہونے والے حادثات، واقعات، ان کے اسباب، اثرات سب نپے تلے انداز میں بیان کرتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ اس نے ہزاروں قارئین کے شوق مطالعہ اور ذوق سلیم کی تسکین کی۔ ایسوں کو بھی پڑھنے پر اکسایا، جنھیں کتابوں سے کوئی دل چسپی نہیں تھی۔ ویسے ''ماں جی'' اور ''یا خدا'' کے خالق کے لیے یہ مشکل بھی نہ تھا۔میرے نزدیک شہاب سے منسوب کرامات سے زیادہ اُن کا فکشن اہم۔

یاد آیا، بانو ہی نے اپنی کس کتاب میں ہمیں ممتاز مفتی سے ملوایا تھا۔ اُن کے افسانوں سے توکبھی نہیں نبھی۔ البتہ ''تلاش'' کسی زمانے میںہم دوستوں میں زور شور سے زیر بحث رہی۔ کتاب میں تصوف کا جوہر تو نہیں، ہاں، ایک جھلک ضرور ہے۔ البتہ شہابی رنگ اس پر بھی غالب ۔ یہی رنگ''لبیک'' میں اس قدر گاڑھاہوجاتا ہے کہ الجھن ہوئی۔ ''لبیک'' سے قدرت اللہ شہاب کو نکال دینا،کتاب اور قاری دونوں کے حق میں بہتر۔ تب آپ اِسے سوچ کے نئے در وا کرنے والی قابل مطالعہ کتاب پائیں گے۔ ہاں، ''علی پورکاایلی'' کے بارے میں ہماری رائے مثبت۔ اسے گریجویشن کے زمانے میں تجسس اور دل چسپی سے پڑھا۔ چند ٹکڑے آج بھی یاد۔ بلاشبہ محظوظ ہوئے اور ہم تفریح طبع کے لیے مطالعے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے۔البتہ''الکھ نگری''نے مایوس کیا۔مفتی جی یہ کتاب نہ لکھتے، تو ایلی کا بھرم قائم رہتا۔

باباؤں کا ذکرکرنے والے اشفاق احمد سے متعلق ہمارے ایک دوست کی یہ رائے درست کہ وہ '' کیمیا گر'' تھے،جس شے میں ہاتھ ڈالا، اُسے سونا بنا دیا۔یادگار ڈرامے لکھے۔ تلقین شاہ کا کردار تراشا، ''زاویہ'' کے ذریعے ، جس میں وہ خود بھی ایک بابے کے روپ میں نظر آتے، اپنا نقطۂ نگاہ دنیا کے سامنے پیش کیا، جو بڑا پسند کیا گیا۔البتہ میرے نزدیک یہ ان کا فکشن ہے، جہاں وہ اوج پر دکھائی دیتے ہیں۔ نثر پر خوب گرفت تھی۔ حقیقت، رومان اور روحانیت کا امتزاج اُن کے افسانوں کو لطیف ذایقہ عطا کرتا۔ سفرنامے بھی خوب لکھے۔

ان کا ناول یا ناول نما ''کھیل تماشا''بھی ہمیں یاد۔ اپنے حلقے کی باقی شخصیات کے مانند اُنھوںنے بھی ذکر شہاب کیا، اور خوب کیا، مگر ان کا فکشن اس سے آلودہ نہیں ہوا۔ یہی معاملہ بانو قدسیہ کا بھی تھا۔ان کے نوویلا 'ایک دن، پروا، موم کی گلیاں' وہ تقاضے پورے کرتے ہیں، جن کے لیے عام قاری کتاب اٹھاتا ہے۔ 'حاصل گھاٹ' اور' شہر بے مثل'خاص قارئین کے لیے لکھے۔ اچھا، انشا جی بھی اسی گروہ کا حصہ بتلائے جاتے ہیں، یہ کہانی بھی مشہور کہ فقط انھیں ملازمت دینے کے لیے ایک ادارہ بنایاگیا اور حلقۂ شہابیہ میں شامل ایک صاحب نے یہ بھی لکھا کہ ان کے ہاں خودکشی کا رجحان تھا، مگر ان سب کے باوجود، ابن انشا میرے لیے ایک ایسا قلمکار ہے، جس کے ہر رو پ سے مجھے انس۔ میں انھیں عظیم مزاح نگار اور ایک منفرد شاعر کے روپ میں دیکھتا ہوں، اور مطمئن ہوں۔

بات بانو آپا سے شروع ہوئی تھی۔ اُن کی یاد کی انگلی تھامے ہم کتنی دور نکل آئے ۔ آگے سرسبز پہاڑ ہیں۔ یادوں کی پگڈنڈیاںہیں، مگر میں یہیں ٹھہرجاتا ہوں ۔ اُس مصنفہ کے پاس، جس کی یاد ایک غلک میں محفوظ ہے۔ یہیں ٹھہر جاتا ہوں، شفقت کے سائے، روحانیت کے کہرے میں، تاکہ وہ مجھے ایک اورکہانی سنائیں، جس کے کچھ حصوں سے متفق نہ ہونے کے باوجود میں آخر تک اُسے سنوں اور جب وہ سنا چکیں، تو پھر سنانے کی درخواست کروں۔ کہانی، جس میں چھوٹی چھوٹی حیرتوں ہوں۔ واقعات ہوں، جو بنا سبب ایک دوسرے سے جڑجائیں۔یادوں کی مانند۔
Load Next Story