کیا سوشلزم ناکام ہوا

سوشلزم کوئی مکمل نظام تھا اور نہ ہے

zb0322-2284142@gmail.com

جب کوئی مکمل نظام ہو تو اس کا منہدم ہونا سمجھ میں آتا ہے۔ سوشلزم کوئی مکمل نظام تھا اور نہ ہے۔ سوشلزم تو راہ گزر ہے، نظام ہے امداد باہمی کا آزاد معاشرہ یا غیر طبقاتی پنچایتی نظام یا مقامی کمیون یا قدیم کمیونسٹ نظام۔ یہ ایسا فطری نظام تھا جہاں سماج کے سارے وسائل اور آسائشیں تمام لوگوں کی تھیں، سب مل کر پیداوار کرتے اور مل کر ضرورتوں کے مطابق بانٹ لیتے تھے۔

اسی نظام کو نافذ کرنے میں ہی عوام کی بھلائی اور خوشحالی ہے۔ اس بے مثال اور خوشحال نظام کا خاتمہ تب ہوا جب طبقات اور ریاست وجود میں آئے، یعنی غلامانہ نظام، جاگیردارانہ نظام، اور اب عالمی سرمایہ داری۔ سرمایہ داری کے خلاف سب ہی بولتے ہیں لیکن اس کا متبادل کوئی پیش نہیںکرتا ہے، اگر کوئی پیش کرتا بھی ہے تو اسی نظام میں رہتے ہوئے اس میں پیوند کاری یا اصلاحات کرنا چاہتا ہے۔ اب چونکہ سرمایہ داری میں اصلاحات کی گنجائش ختم ہوچکی ہے، اسی لیے ٹرمپ، مودی جیسے نام نہاد عوام کے رہنما ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ یہ عبوری سوشلزم کے دور میں ریاستی جبر ہونے کے باوجود سرمایہ دارانہ نظام سے لاکھ درجہ بہتر تھا۔ سوشلزم کے خلاف سرمایہ داری کا رد انقلاب آئے ہوئے تین چار دہائیاں گزرنے کے باوجود آج بھی وہاں پچانوے فیصد لوگ لکھے پڑھے ہیں۔

چودھویں صدی کے ذہین فلسفی، موسیقار، ماہر سماجیات 'سولونو' کا کہنا تھا کہ ''سانپ کو چھیڑو نہیں اور چھیڑو تو چھوڑو نہیں''۔ سوشلسٹ انقلاب کے بعد فوری اقتدار اگر عوام کو منتقل نہ کیا جائے تو بورژوازی (سرما یہ دار) سازش شروع کردیتا ہے، اس لیے کہ سوشلزم میں ایک حد تک طبقات ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر شہر اور دیہات کا فرق، تعلیم یافتہ اور ان پڑھ کا فرق، ہنرمند اور غیر ہنرمندوں کا فرق، دانشور اور مزدوروں کا فرق۔ اس لیے معمولی فرق سے بھی سرمایہ دار بھرپور فائدہ اٹھاتا ہے اور پھر وہ یالٹسن، پوتن، گورباچوف اور ڈنگ چیاؤ پنگ پیدا کرتا ہے اور یہ لوگ عالمی سرمایہ داری کی ملی بھگت سے رد انقلاب لاکر سرمایہ داری کو بحال کردیتے ہیں۔

اگر سوشلسٹ انقلاب کے فوراً بعد خودمختار، خودکار، عوامی عبوری کمیٹیاں بنا کر اقتدار اور اختیار حقیقی معنوں میں عوام کے ہاتھوں میں دے دیا جائے تو یہ اقدام کمیونسٹ سماج کے قیام کی جانب پیش قدمی کرے گا اور ریاست کے آلہ کار ماتحت ادارے روایتی اسمبلی، فوج، عدلیہ اور میڈیا کی جگہ یہ عوامی کمیون کے قیام اور ریاست کا متبادل تشکیل دے کر اسٹیٹ لیس سوسائٹی کی جانب سفر شروع کیا جاسکتا ہے، ورنہ عالمی سرمایہ دار وہی کچھ کرے گا جو روس، چین اور مشرق یورپ کے ساتھ کیا۔ اس کی واضح مثال یہ ہے کہ انقلاب روس کے بعد جب 1919 میں بیس سامراجی ملکوں نے حملے کیے تو انھیں کسی ایٹم بم یا میزائل نے نہیں بچایا بلکہ دنیا بھر کے محنت کشوں نے ہڑتال کرکے اسلحہ کی لوڈنگ، ان لوڈنگ نہ کرنے کا فیصلہ کرکے روس پر ہونے والے حملے کو رکوا دیا تھا۔


تین ہزار سال قبل چین کے ماہر سماجیات ژنگ جیا باؤ نے اپنی کتاب ''نیلی جنت'' کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ ''چین میں دس ہزار سال تک نیلی جنت قائم تھی''۔ اس جنت کے تصور کے بارے میں وہ لکھتے ہیں کہ ''ہمیں یہ نہیں معلوم کہ وہ جنت کیسی تھی، مگر یہ معلوم ہے کہ لوگ پانی سے مچھلیاں پکڑ کر کھاتے تھے اور درختوں سے پھل توڑ کر کھاتے تھے۔'' انھوں نے مزید لکھا کہ وہاں کے باسیوں کا کہنا تھا کہ ''بعد میں آسمان سے کچھ لوگ نازل ہوئے، انھوں نے آئین اور قانون بنایا۔ پھر کہا کہ ادھر جاؤ اور ادھر نہ جاؤ، یہ کھاؤ اور وہ نہ کھاؤ، اس سے ملو اور اس سے نہ ملو، اس دن سے ہماری نیلی جنت کا خاتمہ ہوگیا''۔

آج بھی دنیا بھر میں کروڑوں لوگ جنگلوں میںرہتے ہیں، ان کی کوئی ریاست ہے اور نہ کوئی آئین، عدالت اور نہ فوج۔ شکار کرکے، پھل کھا کر گزارا کرتے ہیں، وہ کسی بھی سرحد کو نہیں مانتے اور کہیں بھی جاسکتے ہیں۔ ان کا کوئی خاندان ہے، جائیداد ہے، اسلحہ ہے اور نہ ملکیت۔ انھیں اپنی مرضی سے کھانے، رہنے، جانے اور ملنے کی آزادی ہے۔ جب کہ آج کے جدید دور میں ائیرکنڈیشن ہے، ہوائی جہاز ہے، لمبی گاڑیاں ہیں اور اونچی عمارتیں ہیں، لیکن سب کے پاس نہیں۔ ایسی سائنسی ترقی کو روک کر ایسا ماحول فراہم کرنے کی ضرورت ہے کہ جہاں کوئی بھوکا نہ مرے، قتل نہ ہو، گداگر ہو اور نہ عصمت فروشی۔ مگر آج کی آزادی تجارت کی آزادی، لوٹ مار کی آزادی، رقم بٹورنے کی آزادی، جنگ لڑنے کی آزادی اور بلوانوں کی علاقوں پر قبضے کی آزادی، ساتھ ساتھ بھوک، افلاس اور بے روزگار ہو کر مرنے کی آزادی ہے۔ مگر کمیونسٹ معاشرے میں حقیقی آزادی ہوتی ہے، اس لیے کہ یہ فطری معاشرہ ہوتا ہے۔

سوویت یونین میں انقلاب کے بعد آزاد سوشلزم کے بجائے مطلق سوشلزم نافذ ہوا جس پر کروپوتکن نے کہا تھا کہ ''مطلق سوشلزم نے انقلاب کو دفنادیا''َ۔ دنیا میں سرحدوں کی پہرے داری کے لیے کھربوں ڈالر فوج پر خرچ کیے جاتے ہیں، ایک دوسرے ملکوں کے ساتھ لڑتے ہوئے بلاوجہ مارے جاتے ہیں۔ دوسری جانب لوگوں کی حفاظت کرنے کے بجائے بیماریوں، حادثات، قتل و غارت گری، لوٹ مار، قدرتی آفات اور بھوک سے روزانہ لاکھوں انسان مر رہے ہیں۔ میڈیا میں ہمیں جو تبصرہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، ان میں محنت کش عوام، عام شہری یا کسان نظر نہیں آتے۔ متوسط طبقے کے دھلے ہوئے لوگ ہی نظر آتے ہیں، جن کے اپنے کوئی مسائل نہیں ہوتے۔ عدالتوں کا بھی یہی حال ہے۔ لاکھوں روپے فیس لینے والے وکلا تک عام شہریوں کی پہنچ ہو ہی نہیں سکتی، اس لیے کہ ان کی تنخواہیں دس ہزار سے زیادہ نہیں ہوتیں۔

پاکستان کی ریاست بھی دولت مندوں کی دولت میں اضافے کے لیے سب کچھ کرتی ہے۔ ریاست کی آلہ کار حزب اقتدار ہو یا حزب اختلاف، نان ایشوز پر ہڑتالیں کرتی ہیں، جب کہ مسائل پر پیشہ ورانہ تنظیمیں اور مزدور کسان ہی کرتے ہیں اور انقلابی صورتحال بھی پیدا کرتے ہیں۔ جہاں تک جماعتوں اور رہنماؤں کا تعلق ہے تو انقلاب کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ انقلاب فرانس، پیرس کمیون، اسپین کی عوامی جنگ، کیٹالونیہ کی آزادی، شکاگو کی مزدور تحریک، وال اسٹریٹ قبضہ تحریک یا ٹرمپ اور سرمایہ داری مخالف حالیہ امریکا اور دنیا بھر میں شہریوں اور محنت کشوں نے احتجاج کیا، جس میں ریڈی میڈ لیڈرشپ نہیں تھی۔ اگر مطلق سوشلزم کے بجائے آزاد سوشلزم ہوتا تو روس، چین، مشرقی یورپ، ہند و چین، افریقہ اور مشرق وسطیٰ کی سوشلسٹ ریاستیں ختم ہو نے کے بجائے کمیونزم کی جانب پیش قدمی کرتیں۔ اس وقت دنیا بھر کے عوام کمیونسٹ سماج کی جانب پیش قدمی کرنے کے لیے جدوجہد کررہے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم پاکستان سمیت خطے میں عام شہریوں اور محنت کش، آزاد سوشلسٹ انقلاب برپا کرکے تیز تر کمیونسٹ نظام کی جانب گامزن ہوں۔
Load Next Story