دنیا کا پہلا ٹائی ٹیسٹ آخری اوور نے جب انہونی کو ہونی میں بدل ڈالا

اب تک ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں ایسے دو ہی مواقع آئے ہیں، جب میچ ٹائی ہو گیا۔


توصیف گیلانی February 07, 2017
اب تک ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں ایسے دو ہی مواقع آئے ہیں، جب میچ ٹائی ہو گیا۔ فوٹو : فائل

آسٹریلیا کے شہر برسبن میں 9 دسمبر 1960 ء کو شروع ہونے والا میچ ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ کا 498 واں بین الاقوامی میچ تھا۔مگر ایک انہونی نے اسے کرکٹ کی تاریخ کے دلچسپ ترین میچوں میں شامل کرا دیا۔دراصل یہ پہلا ٹیسٹ ہے جو جو ٹائی ہوا۔ اب تک ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں ایسے دو ہی مواقع آئے ہیں، جب میچ ٹائی ہو گیا۔

جب برسبن کے گابا میدان میں سیریز کے پہلے ٹیسٹ آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز کی ٹیمیں میدان میں اتری تو کیریبین ٹیم کا پلڑا بھاری تھا۔وجہ یہ کہ سر فرینک وورل کی زیر قیادت اس ویسٹ انڈین ٹیم میں گیری سوبرز اور روہن کنہائی جیسے بڑے کھلاڑی موجود تھے۔ میزبان آسٹریلوی ٹیم رچی بینو کی کپتانی میں کھیل رہی تھی جس میں زیادہ تر نوآنوز کھلاڑی شامل تھے۔

پہلے دن گیری سوبرز نے عمدہ 132 رنز کی باری کھیلی اور ویسٹ انڈیز کی پہلی اننگ 453 رنز پر ختم ہوگئی۔اس کے بعد آسٹریلوی ٹیم نے نورم او نئیل کے 181 رنز کی بدولت 505 رنز کا بڑا سکور حاصل کیا۔ یوں میزبانوں کو 52 رنز کی برتری مل گئی۔ میچ کی دوسری اننگ میں روہن کنہائی نے 54 رنز اور فرینک وورل نے 65 رنز کی اہم باریاں کھیلیں۔ ویسٹ انڈیز کی پوری ٹیم 284 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئی۔ پہلی اننگ میں پانچ وکٹ لینے والے آسٹریلوی بالر،ایلن ڈیوڈسن نے دوسری اننگ میں بھی چھ وکٹیں حاصل کرکے اپنی ٹیم کو جیت کی دوڑ میں برقرار رکھا۔

میچ کے آخری دن یعنی 14 دسمبر کو آسٹریلیا نے اپنی دوسری اننگ کا آغاز کیا۔ فتح کے لیے اسے 233 رنز بنانے تھے۔یہ ٹارگٹ مشکل نہ تھا مگر ویسٹ انڈین تیز گیند باز، ویزلی ہال کے سامنے آسٹریلوی کھلاڑی کریز پر ٹھہرنے میں مشکلات محسوس کرتے رہے۔چائے کے وقت تک آسٹریلیا نے چھ وکٹ گنوا دیے اور سکور بورڈ پر صرف 109 رنز موجود تھے۔وقفہ چائیکے دوران کا ایک قصہ رچی بینو نے اپنی کتاب 'دی ٹیل آف ٹو ٹیسٹس' میں رقم کیا ہے۔ہوا یہ کہ آسٹریلیا کرکٹ بورڈ کے چیئرمین،سر ڈان بریڈمین نے بینو سے پوچھا کہ اس ٹیسٹ میں کیا ہوگا ؟ بینو نے ان سے کہا ''ہم ٹیسٹ جیت جائیں گے۔''جواب سن کر ڈان بریڈمین نے کہا:'' یہ سن کر تو بہت اچھا لگا۔'''

بینو نے اپنے باس سے جو کہا، وہ میدان میں بھی کر دکھایا۔ساتویں وکٹ کے لیے انھوں نے ڈیوڈسن کے ساتھ ریکارڈ 134 رنز بنا دئیے۔یوں دیکھتے ہی دیکھتے آسٹریلوی ٹیم فتح کے قریب پہنچ گئی۔ عجب اتفاق جب ٹیم کو محض سات رنز چاہیے تھے، ڈیوڈسن 80 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئے۔میچ کے آخری اوور میں آسٹریلیا کو چھ رنز بنانے تھے اور اس کے تین وکٹ باقی تھے۔

یاد رہے،اس زمانے میں ایک اوور میں آٹھ گیندیں پھینکی جاتی تھی۔ہدف آسان تھا، لیکن ویزلی ہال کا ارادہ کچھ اور ہی تھا۔ ان کی دوسری گیند پر بینو ہک شاٹ کھیلنے کی کوشش میں آؤٹ ہو گئے۔اب آخری تین گیندوں پر تین رنز بنانے تھے۔ چھٹی گیند پر والی گرٹ جیت کا رن لینے کی کوشش میں رن آؤٹ ہو ئے۔ساتویں گیند پر آخری کھلاڑی ،ایئن میکف بھی رن آؤٹ ہو گئے۔ انھیں جوے سولومن نے براہ راست تھرو پر رن آؤٹ کیا۔

اس زمانے میں کسی کو ٹیسٹ میچ ٹائی ہونے کا مطلب نہیں معلوم تھا۔یہی وجہ ہے،آسٹریلوی کھلاڑی سمجھے کہ وہ میچ ہار گئے ہیں۔مایوسی اور افسوس چہروں سے عیاں تھا۔ لیکن جلد انھیں معلوم ہو گیا کہ وہ نہ تو میچ ہارے ہیں اور نہ ہی ویسٹ انڈیز کی ٹیم نے میچ جیت لیا بلکہ وہ برابر ہو چکا۔یہ ٹیسٹ ہوئے 56 سال بیت چکے لیکن آج بھی اس کا شمار ٹیسٹ تاریخ کے دلچسپ ترین مقابلوں میں ہوتا ہے۔ اس کے بعد 1986 ء میں مدراس میں بھارت اور آسٹریلیا کے درمیان کھیلا جانے والا ٹیسٹ بھی ٹائی ہوا۔گویا طویل ٹیسٹ کی تقریباً 140 سالہ تاریخ میں صرف دو ٹیسٹ ٹائی ہوئے اور آسٹریلوی ٹیم دونوں بار اس کا حصہ تھی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں