لگے رہو منا بھائی
دراصل قانون کی عملداری کے سلسلہ میں بات بڑے یا چھوٹے آدمی کی نہیں بلکہ عوامی نمایندہ ہونے یا نہ ہونے کی ہے
RISALPUR:
بھارت کے علاقہ راجھستان سمیت پاکستان کے بعض علاقوں میںایسی عورتیں پائی جاتی ہیںجو ماتم والے گھرمیںآہ و بکا کر کے معاوضہ وصول کرتی ہیں۔ ان عورتوں کو رودالیاں کہا جاتا ہے۔
اپنے بچپن میں، میںنے ایسی عورتوں کو دیکھا ہے جو مرنے والے کے لواحقین کے ساتھ مل کر آہ و زاری کرتے ہوئے حقیقی رشتہ داروں سے بھی دو ہاتھ آگے نکل جایا کرتی تھیں۔ رودالیوں کو روتے اور بین کرتے دیکھ کر یوں لگتا کہ مرنے والا ان کا زیادہ سگا تھا۔
بھارتی شاعر اورہدایتکارگلزار نے رودالیوں کا دھندہ کرنے والی کسبی عورتوں پر ایک فلم بھی بنائی ہے جو دیکھنے کے لائق ہے۔ یوں تو رودالیاںگاوں اورقصبوں میںہوا کرتی تھیں مگر ہمارے ہاں کچھ عرصہ سے نیوز ٹیلی ویژن میںکثرت سے پائی جانے لگی ہیں، میں نے ان کا نام ''میڈیائی رودالیاں'' تجویز کیاہے۔ متذکرہ رودالیوں کا کام ہے کہ وہ ہرشام پرسوز لب ولہجہ میں ہر برائی، ہر محرومی اور ہردکھ موجودہ وفاقی حکومت کے وسیع کھاتے میںدرج کرتی رہتی ہیں۔
یہ صالحین جہاں وفاقی حکمرانوں کو بدی کا استعارہ بنا کر پیش کر رہی ہوتی ہیںوہیں پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کے حکمرانوںکو شرافت، دیانت، صداقت اوراعلیٰ نظامت کا کریکٹر سرٹیفکیٹ جاری کررہی ہوتی ہیں۔
میں نے اپنے 25 سالہ صحافتی کیرئیر میں یہ دیکھا ہے کہ پیپلز پارٹی کے خلاف جاری لگ بھگ 40 سالہ ''جہاد'' کے نوے فیصد کرداروں نے یہ ''نیک کام'' فی سبیل اﷲ کرنے کے بجائے اس کے دام وصول کیے ہیں۔ اس کے برعکس پیپلز پارٹی کو سپورٹ کرنے والے لکھاری نیکی کر کے دریا میںڈالتے رہے کیونکہ وہ اس جماعت کے منشور، نظریات اور بھٹو جیسے لیڈر کے رومانس میں گرفتار تھے۔ میرے پاس اپنی اس ''رٹ پٹیشن'' کے حوالے سے دلائل بھی موجودہ ہیں لیکن وہ آج نہیں پھر کسی وقت زیر بحث لاوں گا۔
فی الوقت وہ کہانی سن لیں جس میںاسٹبلشمنٹ کے بزرگ مہر اور اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان، آرمی چیف جنرل مرزا اسلم بیگ ، آئی ایس آئی کے سربراہ اور ملک کی 9 سیاسی جماعتیں پیپلز پارٹی کا رستہ روک رہی تھیں۔ جنرل ضیاء الحق نے اپنے وقت کے ججوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے بھٹو صاحب کا عدالتی قتل کرایا اور پھر اس ملک پر11سال تک مسلط ہو گئے ۔1988ء میںجب اسٹیبلشمنٹ نے محسوس کیا کہ بے نظیر بھٹو کو حکومت میںلائے بغیرگذارا نہیں تو اس نے اپنا ''ڈائنا مائٹ نمایندہ '' غلام اسحاق خان صدر کے طور پر وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے ساتھ نتھی کر دیا۔
بی بی بے نظیربھٹو لگ بھگ بائیس ماہ تک وزیراعظم رہیںاور اس عرصہ میں غلام اسحاق خان جہاں ان پر صدر بن کر ان کی حکومت پر مسلط رہے وہاں اسٹیبلشمنٹ کے ہوم گراونڈ سمجھے جانے والے صوبہ پنجاب میں میاں نوازشریف صاحب، وزیراعلیٰ کے روپ میں جلوہ گر رہے۔ بے نظیر بھٹو کو اقتدار سونپنے سے قبل مجبور کیا گیا کہ وہ صدر کے انتخاب کے لیے نوابزادہ نصراللہ خان کے بجائے اسٹبلشمنٹ کے نمایندے کو ووٹ دیں۔
بی بی بے نظیر بھٹو آمریت کے طویل سفر میںاپنے ساتھی اور ایم آر ڈی کے سربراہ نواب زادہ نصراللہ خان کو صدر منتخب کرانا چاہتی تھیں مگر انھیںان قوتوں کے سامنے سرینڈر کرنا پڑا جو پاکستان میںاقتدارکی '' ہاوسنگ اسکیموں'' کی روح رواں ہوا کرتی ہیں۔ مجھے یاد ہے نواب زادہ نصراللہ خان نے بی بی بے نظیر کو وزیراعظم منتخب ہونے اور صدر کے انتخاب کے لیے اپنے بجائے غلام اسحاق کو ووٹ دینے پر فیض کی زبان میںیوں گلہ کیا تھا
جو ہم پہ گزری، سوگزری مگر شب ِ ہجراں
ہمارے اشک تیری عاقبت سنوار چلے
قومی سلامتی اور سیکیورٹی رسک کے حساس معاملات کے ذمے داروں نے 1990ء سے لے کر1994ء تک آئی جے آئی کے ذریعے بے نظیر بھٹو اور پیپلز پارٹی کا رستہ روکنے کے لیے سستے زمانوں میں قوم کے 14کروڑ روپے صرف کر ڈالے۔ مہران بینک کے سابق سربراہ یونس حبیب میڈیا میں سب کچھ بتا چکے ہیں کہ انھوں نے کس، کس ''قائد عوام '' کو پیپلز پارٹی کے خلاف متحد ہو کر الیکشن لڑنے کے لیے رقم دی تھی۔
آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اسد درانی نے سپریم کورٹ میں اپنا تحریری بیان جمع کرا دیا ہے۔ درانی صاحب نے اس میں بتایا ہے کہ پیپلز پارٹی مخالف سیاستدانوں میں 7 کروڑ روپے تقسیم کیے گئے تھے جب کہ 7 کروڑ آئی ایس آئی کے فنڈز میں جمع کرادیے گئے۔ غالباًیہ رقم ''قومی سلامتی '' کے کسی دوسرے پراجیکٹ پر صرف کرنا ہوگی۔ جنرل درانی نے لکھا ہے کہ انھوںنے اپنے آرمی چیف جنرل مرزا اسلم بیگ کے حکم پر ملک کے ممتاز سیاستدانوں میں رقم تقسیم کی۔
جس کا مقصد پیپلز پارٹی کی حکومت کو غیر مستحکم کرنا اورآیندہ الیکشن میں اسے شکست دینا تھا۔ اس سارے معاملہ کی نگرانی اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان براہ راست ایوان صدر سے کر رہے تھے۔ ایوان صدر میںغلام اسحاق خان کے فرنٹ مین اجلال حیدر زیدی بھی آئی جے آئی آپریشن کو مانٹیر کرتے تھے... آفرین ہے... کس طرح ملک کا آرمی چیف اور آرمڈ فورسز کا آئینی سربراہ ''قومی سلامتی'' کے معاملات کو مزید مضبوط بنانے میں سر جوڑ کر کوشاں رہے۔
پیپلز پارٹی کے خلاف ریاستی اداروں کا اتحاد اور اسے دیوار سے لگانے کی کوششوں کو قومی خدمت یا انقلاب کا نام دینا پرانی واردات ہے۔ بھٹو کے خلاف ان کوششوں کو اسلامی نظام کا نفاذ اور بینظیر بھٹو کے خلاف ان تحریکوں کو کرپشن کے خلاف جہاد کا نام دیا گیا۔ بے نظیر بھٹو کی حکومتوں کو کرپٹ قرار دے کر میاں نوازشریف کو اقتدار میںلایا گیا پھر 1999ء میں ان کا انجام یہ ہوا کہ جنرل مشرف کی طرف سے ان کی حکومت کے دھڑن تختہ کو بھی سپریم کورٹ سے قانونی سند نصیب ہوئی۔
میاں برادران چونکہ عدلیہ کی آزادی کے علمبردار ہیںاس لیے ان کے ریکارڈ میں سپریم کورٹ کے اس '' تاریخی فیصلہ'' کی نقل بھی ہو گی جس میں میاں نوازشریف کی حکومت کے خلاف جنرل مشرف کے ایمرجنسی نامی مارشل لا نافذ کرنے کے غیر آئینی عمل کو پاکستان بچانے کا عظیم عمل قرار دیا گیا تھا۔ یہی نہیں سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں یہ بھی قرار دیا تھا کہ میاں نواز شریف کی حکومت میں کرپشن اپنے عروج پر تھی اگر اس کے تسلسل کو روکا نہ جاتا تو پاکستان تباہ ہو سکتا تھا... اس مقام پر تو یاد ماضی کو عذاب جان کر حافظے کے چھن جانے کی دعا ہی کی جا سکتی ہے
کیونکہ میاں نواز شریف صاحب بلاناغہ اس نوع کا بیان داغ رہے ہیںکہ... حکمران کرپشن کے خاتمے کے بجائے عدالتوں کو آنکھیں دکھا رہے ہیں...ملک میںحکمرانوںکی من مانی نہیںبلکہ آئین و قانون کی بالا دستی چلے گی... کہا جا رہا ہے کہ کسی بڑے آدمی کو قانون سے ماوراء قرار دیا گیا تو دوسرے بھی رعایت کا تقاضا کریں گے... میاں نواز شریف صاحب اپنے ذہن پر تھوڑا زور دیں تو انھیں بھارتی فلم ''گجنی'' کے ہیرو عامر خان کے طرح اپنے دوست اوردشمن سمیت وہ ہتھیار بھی یاد آ جائیں گے جن سے ان کی حکومتوںکے سر کچلے گئے تھے۔
دراصل قانون کی عملداری کے سلسلہ میں بات بڑے یا چھوٹے آدمی کی نہیں بلکہ عوامی نمایندہ ہونے یا نہ ہونے کی ہے۔ میاں صاحب اپنے '' کیس'' میں ہی دیکھ لیں کیا جنرل مشرف کو قانون کے کٹہرے میں لایا گیا ہے جس نے عدالت سے ایک منتخب وزیر اعظم کو طیارہ ہائی جیکر ثابت کر کے8 سال حکومت فرمائی اور آج بھی آزادانہ طور پر لندن میںہونے والی اولمپکس کھیلوں سے لطف اندوز ہو رہا ہے... آخر میں ان کلا کار ٹائپ کی میڈیائی رودالیوں کو ''خراج تحسین'' پیش کرنا چاہوں گا جو عوام کے نوحوں کے سامنے جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے لیے اس قدر شدت سے سینہ کوبی کرتی ہیںکہ سچ نگار خانے میںطوطی کی آواز بن کر رہ جاتا ہے... لگے رہو منابھائی...
بھارت کے علاقہ راجھستان سمیت پاکستان کے بعض علاقوں میںایسی عورتیں پائی جاتی ہیںجو ماتم والے گھرمیںآہ و بکا کر کے معاوضہ وصول کرتی ہیں۔ ان عورتوں کو رودالیاں کہا جاتا ہے۔
اپنے بچپن میں، میںنے ایسی عورتوں کو دیکھا ہے جو مرنے والے کے لواحقین کے ساتھ مل کر آہ و زاری کرتے ہوئے حقیقی رشتہ داروں سے بھی دو ہاتھ آگے نکل جایا کرتی تھیں۔ رودالیوں کو روتے اور بین کرتے دیکھ کر یوں لگتا کہ مرنے والا ان کا زیادہ سگا تھا۔
بھارتی شاعر اورہدایتکارگلزار نے رودالیوں کا دھندہ کرنے والی کسبی عورتوں پر ایک فلم بھی بنائی ہے جو دیکھنے کے لائق ہے۔ یوں تو رودالیاںگاوں اورقصبوں میںہوا کرتی تھیں مگر ہمارے ہاں کچھ عرصہ سے نیوز ٹیلی ویژن میںکثرت سے پائی جانے لگی ہیں، میں نے ان کا نام ''میڈیائی رودالیاں'' تجویز کیاہے۔ متذکرہ رودالیوں کا کام ہے کہ وہ ہرشام پرسوز لب ولہجہ میں ہر برائی، ہر محرومی اور ہردکھ موجودہ وفاقی حکومت کے وسیع کھاتے میںدرج کرتی رہتی ہیں۔
یہ صالحین جہاں وفاقی حکمرانوں کو بدی کا استعارہ بنا کر پیش کر رہی ہوتی ہیںوہیں پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کے حکمرانوںکو شرافت، دیانت، صداقت اوراعلیٰ نظامت کا کریکٹر سرٹیفکیٹ جاری کررہی ہوتی ہیں۔
میں نے اپنے 25 سالہ صحافتی کیرئیر میں یہ دیکھا ہے کہ پیپلز پارٹی کے خلاف جاری لگ بھگ 40 سالہ ''جہاد'' کے نوے فیصد کرداروں نے یہ ''نیک کام'' فی سبیل اﷲ کرنے کے بجائے اس کے دام وصول کیے ہیں۔ اس کے برعکس پیپلز پارٹی کو سپورٹ کرنے والے لکھاری نیکی کر کے دریا میںڈالتے رہے کیونکہ وہ اس جماعت کے منشور، نظریات اور بھٹو جیسے لیڈر کے رومانس میں گرفتار تھے۔ میرے پاس اپنی اس ''رٹ پٹیشن'' کے حوالے سے دلائل بھی موجودہ ہیں لیکن وہ آج نہیں پھر کسی وقت زیر بحث لاوں گا۔
فی الوقت وہ کہانی سن لیں جس میںاسٹبلشمنٹ کے بزرگ مہر اور اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان، آرمی چیف جنرل مرزا اسلم بیگ ، آئی ایس آئی کے سربراہ اور ملک کی 9 سیاسی جماعتیں پیپلز پارٹی کا رستہ روک رہی تھیں۔ جنرل ضیاء الحق نے اپنے وقت کے ججوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے بھٹو صاحب کا عدالتی قتل کرایا اور پھر اس ملک پر11سال تک مسلط ہو گئے ۔1988ء میںجب اسٹیبلشمنٹ نے محسوس کیا کہ بے نظیر بھٹو کو حکومت میںلائے بغیرگذارا نہیں تو اس نے اپنا ''ڈائنا مائٹ نمایندہ '' غلام اسحاق خان صدر کے طور پر وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے ساتھ نتھی کر دیا۔
بی بی بے نظیربھٹو لگ بھگ بائیس ماہ تک وزیراعظم رہیںاور اس عرصہ میں غلام اسحاق خان جہاں ان پر صدر بن کر ان کی حکومت پر مسلط رہے وہاں اسٹیبلشمنٹ کے ہوم گراونڈ سمجھے جانے والے صوبہ پنجاب میں میاں نوازشریف صاحب، وزیراعلیٰ کے روپ میں جلوہ گر رہے۔ بے نظیر بھٹو کو اقتدار سونپنے سے قبل مجبور کیا گیا کہ وہ صدر کے انتخاب کے لیے نوابزادہ نصراللہ خان کے بجائے اسٹبلشمنٹ کے نمایندے کو ووٹ دیں۔
بی بی بے نظیر بھٹو آمریت کے طویل سفر میںاپنے ساتھی اور ایم آر ڈی کے سربراہ نواب زادہ نصراللہ خان کو صدر منتخب کرانا چاہتی تھیں مگر انھیںان قوتوں کے سامنے سرینڈر کرنا پڑا جو پاکستان میںاقتدارکی '' ہاوسنگ اسکیموں'' کی روح رواں ہوا کرتی ہیں۔ مجھے یاد ہے نواب زادہ نصراللہ خان نے بی بی بے نظیر کو وزیراعظم منتخب ہونے اور صدر کے انتخاب کے لیے اپنے بجائے غلام اسحاق کو ووٹ دینے پر فیض کی زبان میںیوں گلہ کیا تھا
جو ہم پہ گزری، سوگزری مگر شب ِ ہجراں
ہمارے اشک تیری عاقبت سنوار چلے
قومی سلامتی اور سیکیورٹی رسک کے حساس معاملات کے ذمے داروں نے 1990ء سے لے کر1994ء تک آئی جے آئی کے ذریعے بے نظیر بھٹو اور پیپلز پارٹی کا رستہ روکنے کے لیے سستے زمانوں میں قوم کے 14کروڑ روپے صرف کر ڈالے۔ مہران بینک کے سابق سربراہ یونس حبیب میڈیا میں سب کچھ بتا چکے ہیں کہ انھوں نے کس، کس ''قائد عوام '' کو پیپلز پارٹی کے خلاف متحد ہو کر الیکشن لڑنے کے لیے رقم دی تھی۔
آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اسد درانی نے سپریم کورٹ میں اپنا تحریری بیان جمع کرا دیا ہے۔ درانی صاحب نے اس میں بتایا ہے کہ پیپلز پارٹی مخالف سیاستدانوں میں 7 کروڑ روپے تقسیم کیے گئے تھے جب کہ 7 کروڑ آئی ایس آئی کے فنڈز میں جمع کرادیے گئے۔ غالباًیہ رقم ''قومی سلامتی '' کے کسی دوسرے پراجیکٹ پر صرف کرنا ہوگی۔ جنرل درانی نے لکھا ہے کہ انھوںنے اپنے آرمی چیف جنرل مرزا اسلم بیگ کے حکم پر ملک کے ممتاز سیاستدانوں میں رقم تقسیم کی۔
جس کا مقصد پیپلز پارٹی کی حکومت کو غیر مستحکم کرنا اورآیندہ الیکشن میں اسے شکست دینا تھا۔ اس سارے معاملہ کی نگرانی اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان براہ راست ایوان صدر سے کر رہے تھے۔ ایوان صدر میںغلام اسحاق خان کے فرنٹ مین اجلال حیدر زیدی بھی آئی جے آئی آپریشن کو مانٹیر کرتے تھے... آفرین ہے... کس طرح ملک کا آرمی چیف اور آرمڈ فورسز کا آئینی سربراہ ''قومی سلامتی'' کے معاملات کو مزید مضبوط بنانے میں سر جوڑ کر کوشاں رہے۔
پیپلز پارٹی کے خلاف ریاستی اداروں کا اتحاد اور اسے دیوار سے لگانے کی کوششوں کو قومی خدمت یا انقلاب کا نام دینا پرانی واردات ہے۔ بھٹو کے خلاف ان کوششوں کو اسلامی نظام کا نفاذ اور بینظیر بھٹو کے خلاف ان تحریکوں کو کرپشن کے خلاف جہاد کا نام دیا گیا۔ بے نظیر بھٹو کی حکومتوں کو کرپٹ قرار دے کر میاں نوازشریف کو اقتدار میںلایا گیا پھر 1999ء میں ان کا انجام یہ ہوا کہ جنرل مشرف کی طرف سے ان کی حکومت کے دھڑن تختہ کو بھی سپریم کورٹ سے قانونی سند نصیب ہوئی۔
میاں برادران چونکہ عدلیہ کی آزادی کے علمبردار ہیںاس لیے ان کے ریکارڈ میں سپریم کورٹ کے اس '' تاریخی فیصلہ'' کی نقل بھی ہو گی جس میں میاں نوازشریف کی حکومت کے خلاف جنرل مشرف کے ایمرجنسی نامی مارشل لا نافذ کرنے کے غیر آئینی عمل کو پاکستان بچانے کا عظیم عمل قرار دیا گیا تھا۔ یہی نہیں سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں یہ بھی قرار دیا تھا کہ میاں نواز شریف کی حکومت میں کرپشن اپنے عروج پر تھی اگر اس کے تسلسل کو روکا نہ جاتا تو پاکستان تباہ ہو سکتا تھا... اس مقام پر تو یاد ماضی کو عذاب جان کر حافظے کے چھن جانے کی دعا ہی کی جا سکتی ہے
کیونکہ میاں نواز شریف صاحب بلاناغہ اس نوع کا بیان داغ رہے ہیںکہ... حکمران کرپشن کے خاتمے کے بجائے عدالتوں کو آنکھیں دکھا رہے ہیں...ملک میںحکمرانوںکی من مانی نہیںبلکہ آئین و قانون کی بالا دستی چلے گی... کہا جا رہا ہے کہ کسی بڑے آدمی کو قانون سے ماوراء قرار دیا گیا تو دوسرے بھی رعایت کا تقاضا کریں گے... میاں نواز شریف صاحب اپنے ذہن پر تھوڑا زور دیں تو انھیں بھارتی فلم ''گجنی'' کے ہیرو عامر خان کے طرح اپنے دوست اوردشمن سمیت وہ ہتھیار بھی یاد آ جائیں گے جن سے ان کی حکومتوںکے سر کچلے گئے تھے۔
دراصل قانون کی عملداری کے سلسلہ میں بات بڑے یا چھوٹے آدمی کی نہیں بلکہ عوامی نمایندہ ہونے یا نہ ہونے کی ہے۔ میاں صاحب اپنے '' کیس'' میں ہی دیکھ لیں کیا جنرل مشرف کو قانون کے کٹہرے میں لایا گیا ہے جس نے عدالت سے ایک منتخب وزیر اعظم کو طیارہ ہائی جیکر ثابت کر کے8 سال حکومت فرمائی اور آج بھی آزادانہ طور پر لندن میںہونے والی اولمپکس کھیلوں سے لطف اندوز ہو رہا ہے... آخر میں ان کلا کار ٹائپ کی میڈیائی رودالیوں کو ''خراج تحسین'' پیش کرنا چاہوں گا جو عوام کے نوحوں کے سامنے جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے لیے اس قدر شدت سے سینہ کوبی کرتی ہیںکہ سچ نگار خانے میںطوطی کی آواز بن کر رہ جاتا ہے... لگے رہو منابھائی...