وقار ذکاء کے ’معصوم‘ پرستاروں کے نام

حد تو یہ ہوئی کہ اپنی پٹائی لگانے والے سے شکایت کرنیکے بجائے وقارذکا اپنے پرستاروں کو کہہ رہے ہیں کہ زیادہ چسکے مت لیں


اِس واقعے میں ملوث کرداروں کو معاف کرنے کے بیان کے بعد خود وقار ذکاء کا کردار اُن کے اپنے پرستاروں میں بڑی حد تک مشکوک ہوچکا ہے۔ فوٹو: فائل

اگر آج سے چند ہفتے قبل میں یہ پوچھتا کہ وقار ذکاء کو کون نہیں جانتا؟ تو اُمید یہی ہے کہ اکثریت کا جواب یہی ہوتا کہ وہ تو بہت اچھی طرح سے جانتے ہیں، لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ضرور ہوتے جو اِن صاحب کو نہ جاننے کا دعویٰ بھی کرتے، لیکن اگر یہی سوال میں آج کروں تو مجھے اِس بات کا یقین ہے کہ کوئی بھی وقار ذکاء کو نہ جاننے کا دعوی نہیں کرسکے گا، اور اِس تبدیلی کی وجہ وہ ڈرامہ، ارے معاف کیجیے گا وہ حادثہ ہے جو گزشتہ دنوں رونما ہوا۔

تفصیل میں جائے بغیر بات کرتے ہیں۔ ایک دن اُن پر کچھ لوگوں نے الزام لگایا کہ وہ ایک ریستوران میں خاتون کے ساتھ بدتمیزی کررہے تھے جس کی وجہ سے ایک نوجوان طیش میں آیا اور دے دھنا دن بیچ سڑک پر اُن کی پٹائی لگادی۔ اگر وقار ذکاء ایک 'سیلبرٹی' نہیں ہوتے تو اُن کا شمار بھی روزانہ پٹائی کا شکار ہونے والے عام لوگوں میں ہوجاتا مگر ایسا نہیں ہوا، بلکہ اُن کی پٹائی کی ویڈیو نہ صرف مقبول ہوئی بلکہ اُن کے چاہنے والوں کو بہت غصہ بھی آیا۔

اِس پورے واقعے کے حوالے سے وقار ذکاء نے کہا کہ کچھ لڑکوں کے درمیان ایک شرط لگی تھی کہ اُن کی پٹائی لگانی ہے، اور جو کچھ بھی ویڈیو میں دیکھا گیا وہ اِسی شرط کی وجہ سے ہوا ہے۔ وقار ذکاء نے دعویٰ کیا کہ وہ لڑکا اکیلا نہیں تھا بلکہ سیکیورٹی گارڈ اُس کے ساتھ تھے اور اگر یہ کلچر اِسی طرح پروان چڑھتا گیا تو کسی کی عزت، جان و مال محفوظ نہیں رہے گا، اور پھر انہوں نے پوری قوم سے وعدہ کیا کہ جب تک وہ ایسا کرنے والوں کو اُن کے انجام تک نہیں پہنچائیں گے تب تک اُنہیں چین نہیں ملے گا۔ اِس انصاف کے حصول کے لئے انہوں نے اپنے شام کے دورہ کو بھی ملتوی کردیا جہاں وہ مظلوم لوگوں کی مدد کو جانے والے تھے، کیونکہ اُن کا ماننا تھا کہ لوگوں کی مدد سے بھی زیادہ اہم اِس وقت سیکورٹی گارڈ کے کلچر کو ختم کرنا بہت ضروری ہے۔

اپنے مقصد کے حصول کے لئے انہوں نے مقامی تھانے میں رپورٹ بھی درج کروائی اور وعدہ کیا کہ جب تک اُن کی پٹائی کرنے والے لڑکے کو گرفتار نہیں کیا جاتا، وہ تھانے میں ہی موجود رہیں گے اور سامنے والے جتنے اثرو رسوخ والے بھی ثابت ہوں، وہ اپنے چاہنے والوں کی مدد سے معاملے کو انجام تک پہنچائیں گے۔

انہوں نے مزید کیا کہا وہ آپ اِس ویڈیو کے ذریعے سن سکتے ہیں۔



وقار ذکاء کے اِن دعووں، بیانات اور اِس واقعے کے پس منظر جاننے کے بعد پرستاروں نے کُھل کر اُن کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹس ایک بار پھر اکھاڑہ بن گئیں۔ ایک طرف وقار ذکاء کے چاہنے والے تھے اور دوسری طرف اُن کے مخالف۔ اِس جنگ میں کیا کچھ ہوا وہ تو آپ وہاں جاکر دیکھ سکتے ہیں، لیکن گزشتہ روز اِس پورے واقعے کا ایسا ڈراپ سین اپنی آنکھوں سے دیکھا جس کے بعد اب مجھے وقار ذکاء کے ساتھ ہمدردی کرنے والے پرستاروں کے ساتھ ہمدردی کرنے کو جی چاہ رہا ہے۔

اپنی اِس تحریر میں نہ تو میں اُس مار پیٹ کا ذکر کروں گا کیونکہ وہ لوگ پہلے ہی دیکھ چکے ہیں اور نہ اُس کے پس منظر پر روشنی ڈالوں گا جو وقار ذکاء کی زبانی سُن چکے ہیں۔ یہاں وجہِ تحریر صرف وہ پرستار اور اُن کا وہ غم و غصہ ہے جو ایسی کسی بھی صورتِ حال کے بعد اُن میں پیدا ہوتا ہے۔

بات تو ساری یہ ہے کہ جو وقار ذکاء کسی بھی حد تک جانے کے لئے مکمل طور پر تیار تھا اور کسی بھی طاقت کے سامنے نہ دبنے کا اعلان کرچکا تھا ناجانے اچانک ایسا کیا ہوا کہ وہ بھیگی بلی بن گئے اور اپنی پٹائی لگانے والے سے شکایت کرنے کے بجائے اپنے پرستاروں کو آڑے ہاتھوں لے لیا اور فرمانے لگے کہ،
''اب بہت چسکے لے لئے آپ لوگوں نے، بس اب مزید چسکے لینے کی کوئی ضرورت نہیں۔''

انہوں نے مزید کیا کہا، آئیے نیچے دی گئی دو ویڈیوز میں آپ خود ہی دیکھ لیجئے۔



اس واقعے کے مرکزی کرداروں کا کردار خواہ کچھ بھی رہا ہو لیکن اِس واقعے میں ملوث کرداروں کو معاف کرنے کے بیان کے بعد خود وقار ذکاء کا کردار اُن کے اپنے پرستاروں میں بڑی حد تک مشکوک ہوچکا ہے۔ وجہ یہ نہیں کہ اُنہوں نے اپنی پٹائی لگانے والوں کو معاف کیوں کیا، بلکہ یہ تو اچھا اقدام ہے لیکن انہوں نے جو دعوے کئے تھے اُس سے اچانک دستبردار ہونے سے شائقین بہت دُکھی ہوئے ہیں، اُن کا کہنا ہے کہ اگر آپ نے یہی کرنا تھا تو پھر اتنے بڑے بڑے دعوے کیوں کئے؟ لیکن اس سے بھی زیادہ دُکھ شائقین کو اِس بات پر ہوا کہ جن لوگوں نے مشکل وقت پر وقار ذکاء کا ساتھ دیا وہی وقار ذکاء اپنے چاہنے والوں سے کہہ رہے ہیں کہ بس بھائی اب مزید چسکے دیکھنے کو نہیں ملیں گے؟ یعنی کہ حد ہی ہوگئی۔

کسی بھی سلیبریٹی کے ساتھ ہونے والا کوئی بھی خوشگوار یا ناخوشگوار واقعہ اُس کی ذات سے زیادہ اُس کے اُن پرستاروں کے لئے اہمیت رکھتا ہے جو اُن کو اپنا ہیرو سمجھ رہے ہوتے ہیں، جو اپنے مقابل دشمنوں کو پچھاڑنے کی طاقت رکھتے ہیں، لیکن اگر یہی ہیرو حقیقی زندگی میں ایک کمزور انسان نکلے تو پھر وہی کرتا ہے جو وقار ذکاء نے کیا اور اُس کے پرستاروں کی توقعات ایسے ہی خاک ہوتی ہیں جو اُن کے پرستاروں کی ہوئیں۔

جہاں زندگی چلتی رہے گی وہاں اُس میں اُتار چڑھاؤ بھی آتے رہیں گے، میری دُعا ہے کہ اللہ نہ کرے کہ آئندہ اِن حضرت کے ساتھ ایسا کوئی واقعہ رونما ہو اور اگر بالفرض ہو بھی تو اپنے منہ کی توپ سے بیانات کے گولے داغنے سے قبل اِس بات کا یقین ضرور کرلیں کہ آیا اُن کا بارود کارآمد ہے بھی یا نہیں، ایسا نہ ہو کہ کوئی نتیجہ بھی نہ نکلے اور بیچارے منہ کو خواہ مخواہ یہ گولے اُگلنے کا تاوان بھی بھرنا پڑ جائے۔

جب وقار ذکاء نے اِس واقعے اور اِس کے پس منظر کو اپنی ویڈیوز کے ذریعے اپنے پرستاروں کے ہمراہ بانٹا، تو کیا ہی یہ اچھا ہوتا کہ اِس معافی سے قبل بھی وہ ایسی ہی کسی ویڈیو کے ذریعے اپنے اُن پرستاروں کو اعتماد میں لیتے جو وقار ذکاء کی اِس پٹائی کا درد اپنی کمر پر محسوس کررہے تھے۔ ستم بالائے ستم یہ ہوا کہ معافی سے متعلق اپنی ویڈیو میں وقارذکاء اپنے پرستاروں کے احساسات سے کھیلتے دکھائی دیتے ہیں، جس میں وہ مسکراتے ہوئے اس طرح کا کوئی پیغام دیتے دکھائی دے رہے ہیں جس کا لب لباب یہ ہے کہ بس،
جتنے مزے لینے تھے لے لئے اب ختم کرو۔

تو شاید وقار ذکاء ابھی تک پرستاروں اور اُن کے جذبات کی تعریف سے واقف نہیں ورنہ اِس قسم کے بیان کو اپنے بڑے سے منہ سے ایک چھوٹی سی بات نکالنے سے قبل سوچتے ضرور اور بالفرض اُن کے نزدیک اِس قسم کا کوئی واقعہ واقعی اُن کے پرستاروں کے لئے چسکے لینے یا تفریح لینے کا ذریعہ ہے تو بذریعہ اپنی اس تحریر، میں بھی وقار ذکاء کا پرستار بننے کو تیار ہوں بشرطیکہ کہ وہ مہینے میں ایسی تفریح کا موقع کم از کم ایک بار ضرور دیں!

[poll id="1315"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں