دنیا ایک رنگین جال
انسان کی بدنصیبی یہی ہے کہ وہ تھوڑے سے فائدے کے لیے دنیا کے پیچھے بھاگ رہا ہے
LONDON:
یہ دنیا یقیناً ایک نیّا کی مانند ہے، جس میں مسافر سوار ہیں اور مقررہ وقت پورا ہونے پر اتار دیے جاتے ہیں اور زندگی کا کھیل اپنے اختتام کو پہنچتا ہے۔
زندگی بڑی ہی مختصر ہے۔ پتا ہی نہیں چلتا کہ کس طرح برق رفتاری کے ساتھ گزر گئی اور قرآن میں اس طرح ذکر ہے، ''اور جس دن وہ انھیں جمع کرے گا (تو وہ دنیا اور برزخ کے متعلق سمجھیں گے) گویا وہ سارے دن میں ایک گھڑی بھر کے انداز میں رہے۔'' (45، سورۂ یونس)۔
ماہِ صیام چل رہا ہے۔ مسلم امّہ روزے بھی رکھ رہی ہے اور نمازیوں سے مساجد آباد ہیں۔ لیکن اپنی زندگیوں کو تبدیل کرنے کے بارے میں کوئی غور و فکر نہیں کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ ماہِ رمضان میں بھی جو احتساب کا مہینہ ہے، اسی طرح قتل و غارت جاری ہے۔ ملاوٹ، بے ایمانی عروج پر ہے، ہر چیز مہنگی کردی گئی ہے اور یہ عمل اﷲ تعالیٰ کے احکامات کی کھلم کھلا روگردانی ہے۔ نفسانی خواہشات کی تکمیل کرنے والے ہمیشہ گھاٹے کا سودا کرتے ہیں۔
دنیا جو خس و خاشاک سے کم تر ہے، اس کے حصول کے لیے ہر روز بلاناغہ لوگوں کے حقوق کو غصب کرتے ہیں اور اپنے مفاد کے لیے اپنے ہی جیسے انسانوں کا گلا کاٹتے ہیں۔ طمع، حرص جیسی رذیل عادات و اطوار اپنانے والوں نے لوگوں کا سکون درہم برہم کردیا ہے۔ یہ اس دنیا کے پیچھے آنکھیں بند کرکے، انجام سے بے خبر ہو کر دوڑ رہے ہیں، جو صرف خسارہ پہنچانے والی ہے اور جیسے انھیں تو اس دنیا سے رخصت ہی نہیں ہونا ہے جب کہ ہر روز عام و خاص شخصیات کو قتل ہوتے اور زندگی کا چراغ گل ہوتے اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں،
لیکن افسوس عبرت حاصل نہیں کرتے ہیں ۔ قرآن غور و فکر کی دعوت دیتا ہے اور جو لوگ قرآن کو سمجھ سمجھ کر پڑھتے ہیں اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، وہی راہِ صراط پر گامزن ہیں، لیکن ایسے لوگ بہت کم ہیں، کچھ لوگ تو وہ ہیں جو مذہب اسلام کی حقّانیت اور اس کی روح کو سمجھنے سے قاصر ہیں جو ظالم کی مدد کرتے ہیں، مظلوم کی نہیں۔ اپنے نفع کی تو بات کرتے ہیں لیکن اپنے مسلمان بھائی کو تکلیف میں مبتلا کرتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ ایسے لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا جو خود بھلائی کے کام کرنے کے متمنّی نہ ہوں۔ یہی لوگ گمراہ ہیں جن کے بارے میں اﷲ تعالیٰ خود کہتا ہے۔
اور ہم نے بہت سے جنوں اور انسانوں کو جہنم کے ہی لیے پیدا کیا ہے۔ ان لوگوں کے دل تو ہیں، مگر وہ سمجھتے نہیں اور ان کی آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں اور ان کے کان بھی ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں۔ یہ لوگ چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی بڑھ کر گمراہ ہیں۔ یہی لوگ غافل و خبر ہیں (179) سورۃ الاعراف۔
انسان کی بدنصیبی یہی ہے کہ وہ تھوڑے سے فائدے کے لیے دنیا کے پیچھے بھاگ رہا ہے اور جس ربّ کائنات نے (اس دنیا کو صرف چھ دن میں بنایا) انسان کے لیے بے شمار فائدے مند چیزیں مہیا کردیں، جس کا ذکر سورۂ رحمن میں موجود ہے۔ پہاڑ، دریا، پربت، بادل، ہوا وغیرہ اور ناشکرا انسان اس کے احسانات اور اس کی مہربانیوں اور کرم نوازیوں سے غافل ہوگیا۔ یہ زمین آسمان اﷲ ہی کے ہیں۔ مشرق، مغرب کا وہ ہی مالک ہے۔
پوری کائنات کا خالق اور خالقِ ارض و سماء اور لوح و قلم کا بنانے والا، اس نے ''کن'' کہا اور چیزیں وجود میں آگئیں، اس دنیا میں بڑے بڑے سائنس دان، فلاسفر، دانشور، موجود ہیں۔ نعوذ باﷲ کوئی اس کی برابری کا دعویٰ کرسکتا ہے۔ اس کی طرح ''کن'' اور ''کن فیکون'' کہہ کر کوئی بھی چیز بناسکتا ہے؟ کوئی نہیں ہے، کوئی نہیں، نہ تھا،
نہ ہے اور نہ ہوگا اور جس نے بھی خدائی کا دعویٰ کیا، اس کا انجام شرم ناک اور عبرت ناک ہوا۔ قرآن پاک میں اﷲ فرماتا ہے، ''اور پار کردیا ہم نے بنی اسرائیل کو سمندر سے پس پیچھا کیا ان کا، اس کے لشکر نے سرکشی اور زیادتی سے یہاں تک کہ جب وہ ڈوبنے لگا (فرعون) تو بولا میں ایمان لاتا ہوں، اس ذات کے سوا کوئی معبود نہیں، جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے اور میں فرماں برداروں میں سے ہوں (فرمایا) اب ایمان لاتا ہے، حالانکہ اس سے پہلے تو،
تو نافرمانی کرچکا ہے اور تو فساد کرنے والوں میں تھا۔ پس آج ہم تیرے بدن کو بچالیں گے تاکہ وہ اپنے پچھلے آنے والوں کے لیے عبرت کا نشان ہو اور واقعی بہت سے لوگ ہماری نشانیوں سے بے خبر ہیں۔'' 92 (سورۂ یونس) اور آج فرعون کی ممی صاحبِ بصارت و بصیرت کے لیے ''عبرت'' بن چکی ہے۔
دنیا کا عیش و عشرت، زیب و زینت دنیا کی ہی حد تک ہے، بعد از مرگ نافرمانوں اور ناجائز مال کو جمع کرنے اور ناحق انسان کو قتل کرنے والوں کے لیے جہنّم ہے، جس نے ایک انسان کو قتل کیا، اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا۔ آج جس طرف نگاہ ڈالیں، جس شعبے کے کارکنان پر غور کریں۔ ہر شخص صرف تھوڑے سے فائدے کے لیے اپنی عاقبت خراب کرنے پر تلا ہوا ہے۔ آئے دن ارضی و سماوی آفات نازل ہوتی ہیں،
کبھی زلزلہ آجاتا ہے اور آناً فاناً زندگی موت کے غار میں اتر جاتی ہیں۔ گھر، مکان، آرایش، دولت، پیسہ، اولاد سب کچھ برباد ہوجاتا ہے۔ کبھی ڈنگی وائرس اور اسی قبیل کے دوسرے جراثیم حملہ آور ہوتے ہیں اور لمحوں میں حیات کے چراغوں کو گل کردیتے ہیں۔ کبھی گھر والوں کے ہی ہاتھوں گھر کے لوگ قتل ہوجاتے ہیں، معصوم بچّوں کو بیدردی سے مار دیا جاتا ہے۔ عورت کی عفت و عظمت کو تار تار کردیا جاتا ہے۔
جعلی ادویات کے ذریعے موت کا بازارگرم کیا جاتا ہے۔ یہ سانحات و حادثات عذاب ہی کی تو شکل ہیں، لیکن ناشکرا اور نادان انسان سبق نہیں سیکھتا، توبہ کرنے اور کرانے کا اہتمام نہیں کرتا ہے۔ اس بات سے بھی نصیحت نہیں حاصل کرتا کہ پچھلی قوموں کو مختلف عذابوں نے آگھیرا تھا، کسی پر پتھروں کی بارش ہوئی اور کچھ منہ کے بل اوندھے گر گئے۔
کسی قوم نے چنگھاڑ کو سن کر حواس اور زندگی گنوادی، کچھ کو بندر اور خنزیر بنادیا گیا۔ صرف ان کی نافرمانی اور کفر کی وجہ سے، اگر ہم اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے ہیں تو شاید یہ ہماری خوش فہمی ہی ہے، چونکہ ناموں کی حد تک ہم مسلم ہیں۔ ہمارے اعمال بے حد خراب ہوچکے ہیں۔ کون سی برائی ہے جو ہم میں نہیں ہے۔ اگر ہم ان برائیوں سے چھٹکارا پالیں، تب ہم یقیناً مسلمان کی تعریف پر پورا اترسکیں گے۔ انشاء اﷲ۔
یہ دنیا یقیناً ایک نیّا کی مانند ہے، جس میں مسافر سوار ہیں اور مقررہ وقت پورا ہونے پر اتار دیے جاتے ہیں اور زندگی کا کھیل اپنے اختتام کو پہنچتا ہے۔
زندگی بڑی ہی مختصر ہے۔ پتا ہی نہیں چلتا کہ کس طرح برق رفتاری کے ساتھ گزر گئی اور قرآن میں اس طرح ذکر ہے، ''اور جس دن وہ انھیں جمع کرے گا (تو وہ دنیا اور برزخ کے متعلق سمجھیں گے) گویا وہ سارے دن میں ایک گھڑی بھر کے انداز میں رہے۔'' (45، سورۂ یونس)۔
ماہِ صیام چل رہا ہے۔ مسلم امّہ روزے بھی رکھ رہی ہے اور نمازیوں سے مساجد آباد ہیں۔ لیکن اپنی زندگیوں کو تبدیل کرنے کے بارے میں کوئی غور و فکر نہیں کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ ماہِ رمضان میں بھی جو احتساب کا مہینہ ہے، اسی طرح قتل و غارت جاری ہے۔ ملاوٹ، بے ایمانی عروج پر ہے، ہر چیز مہنگی کردی گئی ہے اور یہ عمل اﷲ تعالیٰ کے احکامات کی کھلم کھلا روگردانی ہے۔ نفسانی خواہشات کی تکمیل کرنے والے ہمیشہ گھاٹے کا سودا کرتے ہیں۔
دنیا جو خس و خاشاک سے کم تر ہے، اس کے حصول کے لیے ہر روز بلاناغہ لوگوں کے حقوق کو غصب کرتے ہیں اور اپنے مفاد کے لیے اپنے ہی جیسے انسانوں کا گلا کاٹتے ہیں۔ طمع، حرص جیسی رذیل عادات و اطوار اپنانے والوں نے لوگوں کا سکون درہم برہم کردیا ہے۔ یہ اس دنیا کے پیچھے آنکھیں بند کرکے، انجام سے بے خبر ہو کر دوڑ رہے ہیں، جو صرف خسارہ پہنچانے والی ہے اور جیسے انھیں تو اس دنیا سے رخصت ہی نہیں ہونا ہے جب کہ ہر روز عام و خاص شخصیات کو قتل ہوتے اور زندگی کا چراغ گل ہوتے اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں،
لیکن افسوس عبرت حاصل نہیں کرتے ہیں ۔ قرآن غور و فکر کی دعوت دیتا ہے اور جو لوگ قرآن کو سمجھ سمجھ کر پڑھتے ہیں اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، وہی راہِ صراط پر گامزن ہیں، لیکن ایسے لوگ بہت کم ہیں، کچھ لوگ تو وہ ہیں جو مذہب اسلام کی حقّانیت اور اس کی روح کو سمجھنے سے قاصر ہیں جو ظالم کی مدد کرتے ہیں، مظلوم کی نہیں۔ اپنے نفع کی تو بات کرتے ہیں لیکن اپنے مسلمان بھائی کو تکلیف میں مبتلا کرتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ ایسے لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا جو خود بھلائی کے کام کرنے کے متمنّی نہ ہوں۔ یہی لوگ گمراہ ہیں جن کے بارے میں اﷲ تعالیٰ خود کہتا ہے۔
اور ہم نے بہت سے جنوں اور انسانوں کو جہنم کے ہی لیے پیدا کیا ہے۔ ان لوگوں کے دل تو ہیں، مگر وہ سمجھتے نہیں اور ان کی آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں اور ان کے کان بھی ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں۔ یہ لوگ چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی بڑھ کر گمراہ ہیں۔ یہی لوگ غافل و خبر ہیں (179) سورۃ الاعراف۔
انسان کی بدنصیبی یہی ہے کہ وہ تھوڑے سے فائدے کے لیے دنیا کے پیچھے بھاگ رہا ہے اور جس ربّ کائنات نے (اس دنیا کو صرف چھ دن میں بنایا) انسان کے لیے بے شمار فائدے مند چیزیں مہیا کردیں، جس کا ذکر سورۂ رحمن میں موجود ہے۔ پہاڑ، دریا، پربت، بادل، ہوا وغیرہ اور ناشکرا انسان اس کے احسانات اور اس کی مہربانیوں اور کرم نوازیوں سے غافل ہوگیا۔ یہ زمین آسمان اﷲ ہی کے ہیں۔ مشرق، مغرب کا وہ ہی مالک ہے۔
پوری کائنات کا خالق اور خالقِ ارض و سماء اور لوح و قلم کا بنانے والا، اس نے ''کن'' کہا اور چیزیں وجود میں آگئیں، اس دنیا میں بڑے بڑے سائنس دان، فلاسفر، دانشور، موجود ہیں۔ نعوذ باﷲ کوئی اس کی برابری کا دعویٰ کرسکتا ہے۔ اس کی طرح ''کن'' اور ''کن فیکون'' کہہ کر کوئی بھی چیز بناسکتا ہے؟ کوئی نہیں ہے، کوئی نہیں، نہ تھا،
نہ ہے اور نہ ہوگا اور جس نے بھی خدائی کا دعویٰ کیا، اس کا انجام شرم ناک اور عبرت ناک ہوا۔ قرآن پاک میں اﷲ فرماتا ہے، ''اور پار کردیا ہم نے بنی اسرائیل کو سمندر سے پس پیچھا کیا ان کا، اس کے لشکر نے سرکشی اور زیادتی سے یہاں تک کہ جب وہ ڈوبنے لگا (فرعون) تو بولا میں ایمان لاتا ہوں، اس ذات کے سوا کوئی معبود نہیں، جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے اور میں فرماں برداروں میں سے ہوں (فرمایا) اب ایمان لاتا ہے، حالانکہ اس سے پہلے تو،
تو نافرمانی کرچکا ہے اور تو فساد کرنے والوں میں تھا۔ پس آج ہم تیرے بدن کو بچالیں گے تاکہ وہ اپنے پچھلے آنے والوں کے لیے عبرت کا نشان ہو اور واقعی بہت سے لوگ ہماری نشانیوں سے بے خبر ہیں۔'' 92 (سورۂ یونس) اور آج فرعون کی ممی صاحبِ بصارت و بصیرت کے لیے ''عبرت'' بن چکی ہے۔
دنیا کا عیش و عشرت، زیب و زینت دنیا کی ہی حد تک ہے، بعد از مرگ نافرمانوں اور ناجائز مال کو جمع کرنے اور ناحق انسان کو قتل کرنے والوں کے لیے جہنّم ہے، جس نے ایک انسان کو قتل کیا، اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا۔ آج جس طرف نگاہ ڈالیں، جس شعبے کے کارکنان پر غور کریں۔ ہر شخص صرف تھوڑے سے فائدے کے لیے اپنی عاقبت خراب کرنے پر تلا ہوا ہے۔ آئے دن ارضی و سماوی آفات نازل ہوتی ہیں،
کبھی زلزلہ آجاتا ہے اور آناً فاناً زندگی موت کے غار میں اتر جاتی ہیں۔ گھر، مکان، آرایش، دولت، پیسہ، اولاد سب کچھ برباد ہوجاتا ہے۔ کبھی ڈنگی وائرس اور اسی قبیل کے دوسرے جراثیم حملہ آور ہوتے ہیں اور لمحوں میں حیات کے چراغوں کو گل کردیتے ہیں۔ کبھی گھر والوں کے ہی ہاتھوں گھر کے لوگ قتل ہوجاتے ہیں، معصوم بچّوں کو بیدردی سے مار دیا جاتا ہے۔ عورت کی عفت و عظمت کو تار تار کردیا جاتا ہے۔
جعلی ادویات کے ذریعے موت کا بازارگرم کیا جاتا ہے۔ یہ سانحات و حادثات عذاب ہی کی تو شکل ہیں، لیکن ناشکرا اور نادان انسان سبق نہیں سیکھتا، توبہ کرنے اور کرانے کا اہتمام نہیں کرتا ہے۔ اس بات سے بھی نصیحت نہیں حاصل کرتا کہ پچھلی قوموں کو مختلف عذابوں نے آگھیرا تھا، کسی پر پتھروں کی بارش ہوئی اور کچھ منہ کے بل اوندھے گر گئے۔
کسی قوم نے چنگھاڑ کو سن کر حواس اور زندگی گنوادی، کچھ کو بندر اور خنزیر بنادیا گیا۔ صرف ان کی نافرمانی اور کفر کی وجہ سے، اگر ہم اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے ہیں تو شاید یہ ہماری خوش فہمی ہی ہے، چونکہ ناموں کی حد تک ہم مسلم ہیں۔ ہمارے اعمال بے حد خراب ہوچکے ہیں۔ کون سی برائی ہے جو ہم میں نہیں ہے۔ اگر ہم ان برائیوں سے چھٹکارا پالیں، تب ہم یقیناً مسلمان کی تعریف پر پورا اترسکیں گے۔ انشاء اﷲ۔