کچھ تو نظام سے سیکھنا ہوگا
مسئلہ محض سیاسی قیادت کا ہی نہیں بلکہ ایک کمزور انتظامی ڈھانچہ کا بھی ہے۔
جب کوئی بھی سیاسی اور سماجی نظام کے بارے تھوڑا بہت فہم یا ادراک رکھتا ہے یا جسے دنیا کے نظاموں کے بارے میں کچھ تجربہ ہو وہ یہ برملا اعتراف کرتا ہے کہ نظام کی بڑی خوبی عدم مرکزیت ہے۔ عدم مرکزیت سے مراد زیادہ سے زیادہ اختیارات، وسائل اور ترقی اور خوشحالی کے مواقع کو نچلی سطح پر منتقل کرنا ہوتا ہے۔ یہ عمل اچانک نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کے مثبت نتائج فوری طور پر سامنے آتے ہیں، بلکہ اس کی بنیادی شرط ریاست اور حکمران طبقہ کی ایک مضبوط سیاسی کمٹمنٹ سے جڑی ہوتی ہے۔ یہ کمٹمنٹ محض لفاظی کی بنیاد پر نہیں بلکہ عملی اقدامات کی صورت میں نظر آنی چاہیے۔ لیکن ہمارا جو حکمرانی کا سیاسی، سماجی، انتظامی، قانونی اور معاشی نظام ہے اس میں ''مرکزیت پر مبنی نظام'' غالب نظر آتا ہے۔ یہ نظام حکمران اور بالادست طبقات کی خواہش سے جڑ ا ہوا ہے اور یہ طبقہ سمجھتا ہے کہ اس طرز کے نظام سے ان کے ذاتی سیاسی مفادات کو طاقت ملتی ہے۔
اگرچہ ہم نے اس ملک میں 18 ویں ترمیم کی مدد سے 2010ء میں اختیارات کی مرکزیت کے خاتمہ میں بنیادی اقدام کیا تھا اور خیال تھا کہ ہماری وفاقی اور صوبائی حکومتیں بتدریج اداروں کو زیادہ خود مختار، فعال اور نچلی سطح پر اختیارات کی منتقلی کو یقینی بنائیں گی۔ یہ عمل اس ملک کے سیاسی نظام میں اس لیے ضروری تھا کہ ہم سب اس نکتہ پر متفق ہیں کہ پاکستان حکمرانی کے شدید بحران کا شکار ہے۔ دنیا میں جو سیاسی نظام کے کامیاب تجربے کیے جا رہے ہیں اس میں اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کو بنیاد بنا کر آگے بڑھا جا رہا ہے۔ لیکن شاید ہمارا حکمرانی کا نظام اور اس سے وابستہ ریاستی و سیاسی حکمران ٹولہ دنیا کے اچھے تجربات سے کچھ بھی سیکھنے کے لیے تیار نہیں۔ وہ عوامی مفادات اور عام آدمی کی ترقی کے مقابلے میں اپنی ذات، خاندان اور اس سے وابستہ افراد کی ترقی چاہتا ہے، جو نظام کی شفافیت میں بنیادی تضاد ہے۔ اس تضاد کا نتیجہ عام آدمی کی حکمرانی کے نتیجے میں منفی طور پر سامنے آتا ہے۔
وزیر اعظم، وزیر اعلی اور وفاقی وزرا سمیت جو بھی اس سیاسی و انتظامی نظام سے جڑا ہوتا ہے وہ ہمیں مسائل کے حل کے دعوے تو بہت کرتے ہیں، لیکن ناکامی کی صورت میں اس نظام کا ماتم کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کچھ لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ کیونکہ اس ملک میں ہمارا نظام مکمل طور پر مفلوج ہو چکا ہے اس لیے یہاں وہی کامیاب ہوتا ہے جو انفرادی سطح پر خود کو زیاد ہ متحرک اور فعال رکھتا ہے یا نظام کے معاملے میں دوسروں پر بھروسہ کرنے کے بجائے خود کو ہر معاملے میں آگے رکھنا پڑتا ہے۔اگراس منطق کو مان لیا جائے تو پھر سوال یہ ہے کہ اس سوچ کے ساتھ ہمارا حکمران طبقہ حکمرانی کے نظام میں کیونکر کامیاب نہیں ہو سکا۔ وزیر اعلی پنجاب تو ایک قدم آگے بڑھ کر اس بات کے دکھ کو بیان کرتے ہوئے آبدیدہ ہو جاتے ہیں یہ نظام ظالمانہ اور کرپٹ وبدعنوان نظام ہیں۔وہ اس نکتہ کو بنیاد بنا کر خود ہی ہر معاملہ میں اپنے آپ کو عقل کل سمجھتے ہیں۔
ایک المیہ یہ ہے کہ یہاں جن سیاسی، انتظامی اور قانونی اداروں کو نظام کی اصلاح کرکے اسے شفاف بنانا تھا وہ خود ہی اعتراف کررہے ہیں کہ نظام برباد ہوکر رہ گیا ہے۔ اس اعتراف کے باوجود کوئی بھی ادارہ یا فرد اپنی غلطی کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ہم مجموعی طور پر ملک میں مسائل کا حل بننے کے بجائے خود مسئلہ بن گئے ہیں۔ اس کی وجہ ہے کہ ہم اداروں کو مضبوط بنانے کے بجائے افراد کے سہارے اس نظام کو چلانا چاہتے ہیں، جو سوائے ناکامی کے ہمیں کچھ نہیں دے سکے گا۔اس وقت ملک کے تعلیم، صحت، انصاف، امن وآمان، ماحول، سیکیورٹی،روزگار، ٹرانسپورٹ سمیت کسی بھی نظام کا جائزہ لیں، تو اس کے اندر موجود غیر شفافیت اور عدم انصاف پر مبنی نظام حکمران طبقہ اور عوام کے درمیان یا اداروںاور عوام کے درمیان ایک بڑی بداعتمادی کو پیدا کرتا ہے۔
مسئلہ محض سیاسی قیادت کا ہی نہیں بلکہ ایک کمزور انتظامی ڈھانچہ کا بھی ہے۔ ایک زمانہ تھاجب ہم یہ دلیل دیتے تھے کہ ہماری انتظامی طاقت یا بیورورکیسی کا عمل خاصہ مضبوط ہے۔ لیکن اب جو ہمارا انتظامی ڈھانچہ ہے وہ ماضی سے بالکل مختلف ہے اور اب بیوروکریسی بھی مسئلہ میں رکاوٹ ہے۔ مسئلہ یہ نہیں کہ بیوروکریسی نظام کو چلانا چاہتی ہے بلکہ وہی بیماری اس طبقہ کو بھی لاحق ہے کہ زیادہ سے زیادہ اختیارات اپنے تک محدود رکھ کر نظام کو چلایا جائے۔ یعنی ان کا ادارہ یا ذات ہی مضبوط نظر آئے۔جب بھی اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کا مسئلہ ہو یا عوامی نمایندوں کو زیادہ بااختیار بنانے کا عمل ہو تو ہمیں سب سے زیادہ مزاحمت بھی بیوروکریسی میں نظر آتی ہے۔ ایک دلیل یہ دی جاتی ہے کہ ابھی نچلی سطح پر یا عوامی نمایندوں کی سطح پر صلاحیتوں کا فقدان ہے۔ اگر اس منطق کو مان لیا جائے تو پھر ایک طاقتور بیوروکریسی کی مدد سے کیا واقعی ہم نظام کو مضبوط، شفاف اور عوام دوست بناسکے ہیں، تو جواب نفی میں ملے گا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ نظام کی خرابی میں پانچ معاملات نے بنیادی نوعیت کی خرابیاں پیدا کی ہیں۔ اول سیاسی مداخلت کا عمل، دوئم مرکزیت پر مبنی نظام، سوئم عدم جوابدہی اور نگرانی کا نظام، چہارم وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم، پنجم ترجیحات کی تقسیم کا غیر منصفانہ عمل شامل ہیں۔ یہ مسائل ایسے نہیں ہیں جو حل نہیں ہوسکتے ، بلکہ مسئلہ ہماری اپنی نیتوں کا ہے۔ جو طور طریقہ ہم نظام کو ٹھیک کرنے کا اختیار کرنا چاہتے ہیں وہ دنیا بھر کے تجربات میں بری طرح ناکام ہوچکا ہے، لیکن ہم اپنے ذاتی مفادات کو تقویت دے کر بضد ہیں کہ ہمیں اسی طرز کا فرسودہ نظام ہی چلانا ہے۔نظام بنیادی طور پر حکمران طبقہ یا اداروں کے مفادات کو سامنے رکھ نہیں بنایا جاتا، بلکہ بنیادی فوقیت لوگوں کو دی جاتی ہے جن کے لیے نظام بنایا جاتا ہے ۔ بالخصوص معاشرے میں کمزور طبقات جو سب سے زیادہ سیاسی، سماجی، قانونی اور معاشی طور پر مسائل کا شکار ہیں ان کا استحصال زیادہ ہوتا ہے۔