ہماری جامعات علم سے منور ہیں یا کرپشن سے داغدار

کہتے ہیں کہ سرکاری ملازم کام نہ کرنے کی تنخواہ اور کام کرنے کی رشوت لیتا ہے۔

ایک خیال یہ بھی آتا ہے کہ کاش صاحبِ اقتدار لوگ اِس سنگین صورتحال پر قابو پانے کی کوشش کریں گے، مگر پھر سوچتا ہوں کہ بھلا وہ ایسا کیوں کریں گے، اُن کی اولادیں تھوڑی یہاں پڑتی ہیں۔ فوٹو: فیس بک

ISLAMABAD:
بدعنوانی ایک ایسی لعنت ہے جو معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹتی ہے اور تمام تر برائیوں کی جڑ تصور کی جاتی ہے، اسی وجہ سے ملکی ادارے بھی تباہی کے دہانے پر پہنچ جاتے ہیں لیکن اِس ناسور پر قابو پانے کے لئے واحد حل تعلیم کا نفاذ ہے۔ لیکن اگر تعلیمی ادارے اور وہاں موجود لوگ ہی بدعنوان ہوجائیں تو کیا کیا جائے؟ کرپشن معاشرہ کو تباہ کردیتی ہے اور تعلیم میں کرپشن 'نسلوں کی تباہی' کی صورت میں رنگ لاتی ہے۔

عجب بات ہے بدعنوانی کا ذکر چھڑتے ہی پتہ نہیں کیوں مادرِ وطن اور اُس کے سیاستدانوں کا نام سب سے پہلے ذہن میں آتا ہے۔ ویسے تو موجودہ حکومت کے دورِ اقتدار میں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستانیوں کو بدعنوانی سے پاک و صاف ہونے کی نوید سُنا ہی چکا ہے اور ہمیں یہ بھی بتایا گیا کہ موجودہ دورِ حکومت میں پاکستان میں بدعنوانی کی شرح کم ترین سطح پر رہی جس کی وجہ سے آج کل راوی چین ہی چین لکھ رہا ہے۔

چلیے! اگر مان بھی لیا جائے کہ پاکستان کی موجودہ حکومت پر بدعنوانی کا کوئی دھبہ نہیں، ملک میں کرپشن کا جن قابو کیا جاچکا ہے اور سرکاری و نیم سرکاری سطح پر تمام اداروں سے کرپشن کا مکمل یا کسی نہ کسی حد تک خاتمہ کیا جاچکا ہے تو پھر اُس بدعنوانی کا کیا کیا جائے جو اس معاشرے کی رگوں میں سرائیت کرچکی ہے؟

کہتے ہیں کہ سرکاری ملازم کام نہ کرنے کی تنخواہ اور کام کرنے کی رشوت لیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں ہر سال اربوں روپے کرپشن کی نذر ہورہے ہیں، لیکن تعلیمی اداروں میں کرپشن اور بدعنوانی ہر صورت ناقابلِ قبول ہونی چاہیئے۔ وجہ یہ ہے کہ کالج ہو یا جامعہ، درسگاہ طالب علموں کو متاثر کرکے اُن کی زندگی پر گہرا اثر مرتب کرتے ہیں لیکن صد افسوس کہ ہمارے تعلیمی ادارے بہت تیزی سے بدعنوانی کے تاریک گڑھے بنتے جارہے ہیں۔

عجیب بات یہ ہے کہ تعلیمی ادارے ہی کرپشن سے لڑنے والی فوج تیار کرتے ہیں اور اُن کا کام یہی ہوتا ہے کہ وہ اعلیٰ اقدار کو فروغ دے کر طالبعلموں کو کرپشن کے خلاف ایک سیسہ پلائی دیوار بنائیں لیکن جب یہی ادارے کرپشن میں غرق ہوجائیں تو گلہ کس سے کیا جائے؟

بات کہیں اور ہی نکل گئی، دراصل میرا مقصد تو اُس ویڈیو کے حوالے سے بات کرنا تھا جو گزشتہ روز ہی جامعہ کراچی کی باہمت طالبہ نے اپنے انجام کی پروا کئے بغیر موبائل سے انتہائی ہوشیاری سے بنائی، جس میں جامعہ کراچی کے کلرک، طالبہ سے ایک دستخط کے عوض 100 روپے مانگ رہے ہیں۔ طالبہ نے رقم دینے سے انکار کرتے ہوئے پوچھا کہ 100 روپے کس بات کے؟ فارم پر تو کہیں بھی ایسا نہیں لکھا کہ رقم دینا ہوگی۔ بس طالبہ کے اِس اصولی موقف کو سن کر کلرک کی غیرت جاگ اُٹھی اور اِس بناء پر اُس نے دستخط کرنے سے انکار کرتے ہوئے صاف صاف جواب دیا کہ 100 روپے دینے پر ہی دستخط ہوگا۔ بعد ازاں جب طالبہ پیسے دینے پر راضی بھی ہوگئی لیکن کلرک نے اپنی انا کی وجہ سے دستخط نہیں کئے، اور یہ بھرم بھی جھاڑ دیے کہ جاو نہیں کرتا دستخط جس کو جاکر شکایت کرنی ہے کردو۔



پاکستان اور بالخصوص کراچی کی جامعات میں یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں، گزشتہ روز ہی نیب نے جامعہ اردو کے وائس چانسلر ڈاکٹر ظفر اقبال اور سابق رجسٹرار فہیم الدین کو کرپشن کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔ اسی طرح کچھ ماہ قبل میٹرک بورڈ آفس کے چئیرمین انوار احمد زئی کو بھی مالی بے ضابطگیوں اور اختیارات کے ناجائز استعمال کی وجہ سے حراست میں لیا گیا تھا۔ ایسے واقعات آئے دن ہوتے رہتے ہیں مگر منظرِ عام پر نہیں آتے جس کا قصوروار ہمارا بدعنوان معاشرہ اور ناقص تعلیمی نظام ہے۔

افسوس تو یہ ہے کہ معاشرہ ایک ایسی ڈگر پر چل پڑا ہے جہاں طلبہ کو بھی بدعنوانی دکھائی نہیں دیتی اور وہ ایسے چھوٹے واقعات پر اپنی کوتاہی، کم معلومات اور خوف کی وجہ سے آواز بلند نہیں کرتے اور ایسے کئی سو روپے دینے میں ہی عافیت جانتے ہیں۔ افسوس کہ طلبہ بھی اِس بدعنوانی کو روکنے کے بجائے اِس کا حصہ بن رہے ہوتے ہیں۔


اس ایک واقعے کی ہی مثال سامنے رکھ لی جائے، خدا جانے یہ کلرک کتنے برس سے یہ سُرخ نوٹ (سو روپے) جمع کرتا پھر رہا ہے مگر اب تک کسی نے آواز بلند نہ کی، یہ تو بھلا ہو اُس باہمت لڑکی کا جس نے اِس بدعنوانی کو بے نقاب کیا اور کلرک کا بھانڈا پھوڑ دیا۔ لیکن لوگ پھر بھی کہتے ہیں کہ خواتین مردوں کی برابری نہیں کرسکتیں، دیکھ لیجئے! جو کام مرد حضرات نہ کرسکے وہ ایک خاتون نے کر دکھایا۔

ہماری جامعات میں بدعنوانی کا اِس سے بھی بھیانک چہرہ وہ ہے جو علم کی شمع روشن کرنے والے اساتذہ کی جانب سے سامنے آتا ہے، جس میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کے طالبعلموں، خاص طور پر طالبات کے نتائج روک کر انہیں ہراساں کیا جانا ہے، جس کی کئی مثالیں جامعہ کراچی میں سامنے آچکی ہیں۔ مرد اساتذہ کی جانب سے دورانِ کلاس طلباء اور طالبات میں امتیازی سلوک رواں رکھنا اور جنس کی بنیاد پر نتائج دینا بھی بدعنوانی کی ایک قسم ہے۔ یہاں تک کہ بعض پروفیسرز تو سرقہ بازی کے ذریعے ریسرچ جرنلز چھپواتے ہیں تاکہ انہیں ترقی مل سکے اور ایسا کرکے وہ میرٹ کی دھجیاں بکھیر دیتے ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ بدعنوانی کس طرح طلبہ کا مستقبل داؤ پر لگاسکتی ہے؟ جامعہ کراچی میں طلباء کی اکثریت غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ ملک کا وہ متوسط طبقہ ہے جو سرکاری جامعات کی فیسیں اور اخراجات بھی بہت ہی مشکل سے برداشت کرپاتے ہیں، بلکہ کئی طالبعلم پڑھائی کے ساتھ ساتھ ملازمت بھی کرتے ہیں تاکہ علم کا حصول ممکن بنایا جاسکے۔

حال ہی میں سیمسٹر فیس کی مد میں 50 فیصد تک کا اضافہ کیا گیا تھا، لیکن پھر احتجاج پر کچھ فیصد کمی کردی گئی۔ اِس تناظر میں بڑھتی ہوئی فیسیں، کلرکوں کے ناجائز مطالبات اور قدم قدم پر رشوت طلب کرنا کیا ایک ہولناک امر نہیں؟ لیکن یاد رہے کہ یہ تو ایک کلرک کی کہانی ہے اور نہ جانے کس کس جگہ پر طالبعلموں سے اضافی رقم بٹوری جارہی ہے اور کتنے ہی کلرک اِس دھندے میں ملوث ہیں۔

اگر یہاں قانون کی عملداری ہوتی تو طالبعلموں سے کھلے عام رشوت وصول کرنے والے اب تک اپنے انجام کو پہنچ چکے ہوتے، صرف یہی نہیں بلکہ اُن بڑے مگرمچھوں کے خلاف بھی کارروائی ہوتی جو ایسے لوگوں کے پیچھے کھڑے ہوتے ہیں، لیکن یہ بات ہم بھی جانتے ہیں اور آپ بھی جانتے ہیں کہ جو پیسے ہم سے لیے جاتے ہیں اُن کے حقدار صرف یہ کلرک حضرات نہیں ہوتے، بلکہ ایک بڑا حصہ اُس طاقتور طبقے کو بھی جاتا ہے جو اِن کی نوکری کے ضامن ہوتے ہیں۔

ایک خیال یہ بھی آتا ہے کہ کاش صاحبِ اقتدار لوگ اِس سنگین صورتحال پر قابو پانے کی کوشش کریں گے، مگر پھر سوچتا ہوں کہ بھلا وہ ایسا کیوں کریں گے، اُن کی اولادیں تھوڑی یہاں پڑتی ہیں، وہ تو آکسفورڈ، برکلے اور کیمبرج جاتی ہیں، اور یہ بات ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ جب تک کسی بھی عمل کی وجہ سے اُن کو خود تکلیف نہ ہو وہ جاگتے ہی نہیں، ہوش میں آتے ہی نہیں، بس شاید کہ اِس بات بھی کچھ ایسا ہی ہو۔

[poll id="1316"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔
Load Next Story