آئی جی صاحب الزامات نہیں کارروائی کی ضرورت ہے
آئی جی صاحب نے جو کہا اُس پر نہ صرف ثابت قدم رہیں بلکہ قتل کروانے والوں کو منظرِعام پر لاکر سخت سزائیں بھی دلوائیں۔
ایک وقت تھا جب الزام لگانے والا مسلسل اِس خوف کا شکار رہتا تھا کہ اب اِس الزام کو ثابت کس طرح کیا جائے؟ مگر چونکہ ہر حوالے سے دور بدلتا جارہا ہے تو اِس معاملے میں بھی یکسر تبدیلی آگئی ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ کسی دوسرے پر الزامات لگا کر مطمئن ہوجانا بدقسمتی سے ہمارا وطیرہ بنتا جارہا ہے اور اِس عادت نے صرف سیاستدانوں کو ہی اپنی لپیٹ میں نہیں لیا بلکہ کھلاڑی، فنکار، سرکاری افسران سمیت تقریباً ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد اس عادت کا شکار ہوتے جارہے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ جمہوریت کی اساس سمجھے جانے والے سیاستدان اور امورِ مملکت کو احسن طریقے سے چلانے والے بیوروکریٹ ہی اگر اِس عادت کا شکار ہوجائیں تو ریاست کا چلنا کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہ ہوگا۔
پانامہ لیکس کا ہی کیس لے لیجئے، جہاں ایک سیاسی جماعت کی جانب سے شواہد فراہم کئے بغیر الزامات کی بوچھاڑ جاری ہے لیکن جب شواہد مانگے جاتے ہیں تو یہ جواب ملتا ہے کہ شواہد اکٹھے کرنا اُن کا کام نہیں ہے۔ چلیں اُس حوالے سے تو معاملہ سپریم کورٹ میں ہے اور بہتر فیصلہ جج حضرات کرلیں گے۔
مگر گزشتہ روز بھی الزامات کی ایسی ہی بوچھاڑ سننے کو ملی جب انسپیکٹر جنرل (آئی جی) سندھ اللہ ڈنو خواجہ عرف اے ڈی خواجہ نے کراچی میں ایک تقریب کے دوران ایوانوں میں بیٹھی (معزز) شخصیات پر انتہائی سنگین الزامات لگائے کہ جن پولیس افسران نے تن تنہا کراچی میں اپنی جانوں پر کھیل کر 1996ء میں کامیاب آپریشن کیا لیکن انہیں بعد میں چن چن کر قتل کرادیا گیا اور قتل کرانے والے آج ایوانوں میں بیٹھے ہیں۔
بظاہر یہ الزام ایسا ہی معلوم ہوتا ہے جس طرح آئے روز میڈیا پر الزامات سننے کو ملتے ہیں لیکن ایک محکمہ کا سربراہ اگر اِس طرح کے سنگین الزامات لگانا شروع کردے تو پھر یہ لازم ہے کہ وہ اپنے الزامات کے حوالے سے شواہد دیں اور اصل مجرمان کو ایوانوں سے نکال کر کٹہرے میں ڈالا جائے، لیکن اگر یہ صرف الزام کی حد تک ہے تو آئی جی سندھ کے خلاف ضرور کارروائی ہونی چاہیئے کیوںکہ اِس اہم ترین عہدے پر براجمان شخص کو قانون قطعی طور پر یہ اجازت نہیں دیتا کہ وہ کسی کے بارے میں جو چاہے الزامات لگادے۔
اِس حوالے سے ارکان اسمبلی کو بھی چاہیئے کہ وہ خاموش تماشائی نہ بنے رہیں، بلکہ اِن الزامات پر آئی جی سندھ سے شواہد طلب کریں اور معاملے کو حل کی طرف لے کر جائیں، لیکن اگر ارکان اسمبلی اِس حوالے سے خاموشی اختیار کئے رہے تو ہم یہ سمجھنے میں حق بجانب ہونگے کہ 'دال میں واقعی کچھ کالا' ہے۔
ویسے سچ پوچھئے تو ذاتی رائے یہی ہے کہ آئی جی سندھ جن (معزز) ارکان پر پولیس افسران کے قتل کا اشارہ کر رہے ہیں انہیں اشارہ کرنے کے بجائے فوری کارروائی کرنی چاہیئے تھی، کیونکہ شہید پولیس افسران کے قتل کے مقدمات بھی درج ہیں اور آئی جی سندھ کے پاس اختیارات بھی موجود ہیں اِس لئے الزامات لگا کر نتائج کا انتظار کئے بغیر اپنے منصب کے ساتھ انصاف کرتے ہوئے انہیں اپنے محکمہ کے شہداء کو انصاف دلانا چاہیئے تھا۔
آئی جی صاحب کو معلوم ہونا چاہیئے کہ 90ء کی دہائی میں پاک فوج نے اندرون سندھ ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن شروع کیا، جس کا دائرہ کار بعد میں کراچی تک بڑھادیا گیا اور جب گھمبیر صورتحال پر قابو پالیا گیا تو فوج واپس بیرکوں میں چلی گئی اور تمام تر ذمہ داری رینجرز اور پولیس کے کاندھوں پر ڈال دی گئی۔ 1996ء میں آپریشن مکمل ہونے کے بعد رینجرز نے آپریشن کا حصہ بننے والے اپنے افسران کے تبادلے کردیئے لیکن پولیس کی نئی کمان نے بہادر افسران کو بیچ راہ میں چھوڑ دیا اور وہ اپنی مدد آپ کے تحت تن تنہا جانیں بچاتے بچاتے گولیوں کا نشانہ بنتے رہے۔
آئی جی صاحب اگر آپ 90ء کی دہائی میں شہید ہونے والے پولیس کے بہادر جوان انسپکٹر اسلم حیات، توفیق زاہد، ذیشان کاظمی، حیدر بیگ، امداد کھٹیان، اعجاز شاہ، ناصر الحسن، بہاؤالدین بابر اور اُن جیسے دیگر سپوتوں کے قاتلوں کو نہیں پکڑ سکتے تو کم از کم گزشتہ 5 سال کے دوران شہید ہونے والے پولیس افسران کے اصل قاتلوں کو تو کٹہرے میں لے آئیں۔ محکمہ پولیس سندھ کے سربراہ اگر اپریل 2014ء میں اپنے گھر کے باہر ٹارگٹ ہونے والے انسپکٹر شفیق تنولی کے اصل قاتلوں کو ہی کٹہرے میں لے آئیں تو شاید اُمید ہوچلے کہ ایوان میں بیٹھے لوگ بھی قانون کے کٹہرے میں آسکتے ہیں۔
آئی جی سندھ پولیس تو فرسودہ قانون پر بات کرتے ہوئے انتہائی خوبصورت انداز میں کہہ گئے کہ پولیس کو 1861ء کا قانون ہاتھ میں تھما کر 21ویں صدی کی توقعات کس طرح کی جاسکتی ہیں؟ لیکن شاید آئی جی صاحب یہ بھول گئے کہ 1861ء کے قانون میں یہ بات کہیں موجود نہیں کہ پولیس افسران سیاسی جماعتوں کے لئے کام کریں یا اغواء برائے تاوان، اسمگلنگ، منشیات اور فحاشی کے اڈوں کی سرپرستی کرنے کو ڈیوٹی کا حصہ سمجھیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ عوام کا پولیس سے اعتماد اٹھتا جارہا ہے اور پولیس کو رینجرز کی بیساکھیوں کی ضرورت پڑ رہی ہے۔
اِس لئے میں بطور اِس ملک کا شہری آئی جی صاحب سے یہ اُمید کرتا ہوں کہ وہ بھی معاشرے میں بگڑتی روش کا شکار نہیں ہونگے، وہ بھی محض الزام لگا کر خاموش نہ ہوجائیں بلکہ انہوں نے قتل ہونے والے پولیس افسران کے مبینہ قاتلوں کے بارے میں جو بات کہی ہے اُس پر نہ صرف ثابت قدم رہیں بلکہ قتل کروانے والے لوگوں کو منظرِ عام پر لاکر سخت سے سخت سزا دلوائیں تاکہ نہ صرف پولیس افسران کا مورال بلند ہو بلکہ عوام کو بھی اپنے محافظوں پر یقین ہوچلے کہ ہاں پولیس بھی ہماری حفاظت کرسکتی ہے، لیکن اگر یہ بیانات محض بیانات تھے اور حقیقت سے اِس کا کوئی تعلق نہیں تو پھر معزز ارکانِ اسمبلی کو اِس حوالے سے کوئی ایکشن لینا ہوگا، کیونکہ اگر یہ بات یہی دب گئی تو پھر مستقبل میں ہم کسی کو بھی بغیر ثبوت الزامات لگانے سے نہیں روک سکیں گے اور یوں معاشرے میں کوئی ایک فرد بھی عزت دار نہ ٹھہرایا جاسکے گا۔
[poll id="1317"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ جمہوریت کی اساس سمجھے جانے والے سیاستدان اور امورِ مملکت کو احسن طریقے سے چلانے والے بیوروکریٹ ہی اگر اِس عادت کا شکار ہوجائیں تو ریاست کا چلنا کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہ ہوگا۔
پانامہ لیکس کا ہی کیس لے لیجئے، جہاں ایک سیاسی جماعت کی جانب سے شواہد فراہم کئے بغیر الزامات کی بوچھاڑ جاری ہے لیکن جب شواہد مانگے جاتے ہیں تو یہ جواب ملتا ہے کہ شواہد اکٹھے کرنا اُن کا کام نہیں ہے۔ چلیں اُس حوالے سے تو معاملہ سپریم کورٹ میں ہے اور بہتر فیصلہ جج حضرات کرلیں گے۔
مگر گزشتہ روز بھی الزامات کی ایسی ہی بوچھاڑ سننے کو ملی جب انسپیکٹر جنرل (آئی جی) سندھ اللہ ڈنو خواجہ عرف اے ڈی خواجہ نے کراچی میں ایک تقریب کے دوران ایوانوں میں بیٹھی (معزز) شخصیات پر انتہائی سنگین الزامات لگائے کہ جن پولیس افسران نے تن تنہا کراچی میں اپنی جانوں پر کھیل کر 1996ء میں کامیاب آپریشن کیا لیکن انہیں بعد میں چن چن کر قتل کرادیا گیا اور قتل کرانے والے آج ایوانوں میں بیٹھے ہیں۔
بظاہر یہ الزام ایسا ہی معلوم ہوتا ہے جس طرح آئے روز میڈیا پر الزامات سننے کو ملتے ہیں لیکن ایک محکمہ کا سربراہ اگر اِس طرح کے سنگین الزامات لگانا شروع کردے تو پھر یہ لازم ہے کہ وہ اپنے الزامات کے حوالے سے شواہد دیں اور اصل مجرمان کو ایوانوں سے نکال کر کٹہرے میں ڈالا جائے، لیکن اگر یہ صرف الزام کی حد تک ہے تو آئی جی سندھ کے خلاف ضرور کارروائی ہونی چاہیئے کیوںکہ اِس اہم ترین عہدے پر براجمان شخص کو قانون قطعی طور پر یہ اجازت نہیں دیتا کہ وہ کسی کے بارے میں جو چاہے الزامات لگادے۔
اِس حوالے سے ارکان اسمبلی کو بھی چاہیئے کہ وہ خاموش تماشائی نہ بنے رہیں، بلکہ اِن الزامات پر آئی جی سندھ سے شواہد طلب کریں اور معاملے کو حل کی طرف لے کر جائیں، لیکن اگر ارکان اسمبلی اِس حوالے سے خاموشی اختیار کئے رہے تو ہم یہ سمجھنے میں حق بجانب ہونگے کہ 'دال میں واقعی کچھ کالا' ہے۔
ویسے سچ پوچھئے تو ذاتی رائے یہی ہے کہ آئی جی سندھ جن (معزز) ارکان پر پولیس افسران کے قتل کا اشارہ کر رہے ہیں انہیں اشارہ کرنے کے بجائے فوری کارروائی کرنی چاہیئے تھی، کیونکہ شہید پولیس افسران کے قتل کے مقدمات بھی درج ہیں اور آئی جی سندھ کے پاس اختیارات بھی موجود ہیں اِس لئے الزامات لگا کر نتائج کا انتظار کئے بغیر اپنے منصب کے ساتھ انصاف کرتے ہوئے انہیں اپنے محکمہ کے شہداء کو انصاف دلانا چاہیئے تھا۔
آئی جی صاحب کو معلوم ہونا چاہیئے کہ 90ء کی دہائی میں پاک فوج نے اندرون سندھ ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن شروع کیا، جس کا دائرہ کار بعد میں کراچی تک بڑھادیا گیا اور جب گھمبیر صورتحال پر قابو پالیا گیا تو فوج واپس بیرکوں میں چلی گئی اور تمام تر ذمہ داری رینجرز اور پولیس کے کاندھوں پر ڈال دی گئی۔ 1996ء میں آپریشن مکمل ہونے کے بعد رینجرز نے آپریشن کا حصہ بننے والے اپنے افسران کے تبادلے کردیئے لیکن پولیس کی نئی کمان نے بہادر افسران کو بیچ راہ میں چھوڑ دیا اور وہ اپنی مدد آپ کے تحت تن تنہا جانیں بچاتے بچاتے گولیوں کا نشانہ بنتے رہے۔
آئی جی صاحب اگر آپ 90ء کی دہائی میں شہید ہونے والے پولیس کے بہادر جوان انسپکٹر اسلم حیات، توفیق زاہد، ذیشان کاظمی، حیدر بیگ، امداد کھٹیان، اعجاز شاہ، ناصر الحسن، بہاؤالدین بابر اور اُن جیسے دیگر سپوتوں کے قاتلوں کو نہیں پکڑ سکتے تو کم از کم گزشتہ 5 سال کے دوران شہید ہونے والے پولیس افسران کے اصل قاتلوں کو تو کٹہرے میں لے آئیں۔ محکمہ پولیس سندھ کے سربراہ اگر اپریل 2014ء میں اپنے گھر کے باہر ٹارگٹ ہونے والے انسپکٹر شفیق تنولی کے اصل قاتلوں کو ہی کٹہرے میں لے آئیں تو شاید اُمید ہوچلے کہ ایوان میں بیٹھے لوگ بھی قانون کے کٹہرے میں آسکتے ہیں۔
آئی جی سندھ پولیس تو فرسودہ قانون پر بات کرتے ہوئے انتہائی خوبصورت انداز میں کہہ گئے کہ پولیس کو 1861ء کا قانون ہاتھ میں تھما کر 21ویں صدی کی توقعات کس طرح کی جاسکتی ہیں؟ لیکن شاید آئی جی صاحب یہ بھول گئے کہ 1861ء کے قانون میں یہ بات کہیں موجود نہیں کہ پولیس افسران سیاسی جماعتوں کے لئے کام کریں یا اغواء برائے تاوان، اسمگلنگ، منشیات اور فحاشی کے اڈوں کی سرپرستی کرنے کو ڈیوٹی کا حصہ سمجھیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ عوام کا پولیس سے اعتماد اٹھتا جارہا ہے اور پولیس کو رینجرز کی بیساکھیوں کی ضرورت پڑ رہی ہے۔
اِس لئے میں بطور اِس ملک کا شہری آئی جی صاحب سے یہ اُمید کرتا ہوں کہ وہ بھی معاشرے میں بگڑتی روش کا شکار نہیں ہونگے، وہ بھی محض الزام لگا کر خاموش نہ ہوجائیں بلکہ انہوں نے قتل ہونے والے پولیس افسران کے مبینہ قاتلوں کے بارے میں جو بات کہی ہے اُس پر نہ صرف ثابت قدم رہیں بلکہ قتل کروانے والے لوگوں کو منظرِ عام پر لاکر سخت سے سخت سزا دلوائیں تاکہ نہ صرف پولیس افسران کا مورال بلند ہو بلکہ عوام کو بھی اپنے محافظوں پر یقین ہوچلے کہ ہاں پولیس بھی ہماری حفاظت کرسکتی ہے، لیکن اگر یہ بیانات محض بیانات تھے اور حقیقت سے اِس کا کوئی تعلق نہیں تو پھر معزز ارکانِ اسمبلی کو اِس حوالے سے کوئی ایکشن لینا ہوگا، کیونکہ اگر یہ بات یہی دب گئی تو پھر مستقبل میں ہم کسی کو بھی بغیر ثبوت الزامات لگانے سے نہیں روک سکیں گے اور یوں معاشرے میں کوئی ایک فرد بھی عزت دار نہ ٹھہرایا جاسکے گا۔
[poll id="1317"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔