اب بھارتی ٹیم بھی پاکستان کا دورہ کرے
پاکستانی کھلاڑیوں نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا‘ جس کا پھل انھیں جیت کی صورت میں مل گیا۔
پاکستان نے روایتی حریف بھارت کو کلکتہ میں کھیلے جانے والے دوسرے ایک روزہ میچ میں با آسانی 85 رنز سے ہرا کر تین میچوں کی سیریز 2-0 سے جیت لی۔ جیسے ہی پاکستانی کھلاڑیوں نے میچ میں کامیابی حاصل کی' کراچی'لاہور' راولپنڈی' اسلام آباد'فیصل آباد اور پشاور میں منچلوں نے ڈھول کی تھاپ پر رقص کیا اور شہریوں نے مٹھائیاں تقسیم کیں۔ گرین شرٹس نے7 برس بعد روایتی حریف کے خلاف ون ڈے سیریز میں کامیابی اپنے نام کی، اس سے قبل پاکستان نے2004-05ء میں بھارت کے خلاف ون ڈے سیریز جیتی تھی۔
ناصرجمشید اور محمد حفیظ نے اوپننگ شراکت میں ٹیم کو141 رنز کا جاندار آغاز فراہم کیا جس کی وجہ سے وہ بھارت کو فتح کے لیے 250 رنز کا ہدف دینے میں کامیاب رہا۔ ناصر جمشید نے بھارت کے خلاف مسلسل دوسری سنچری بھی مکمل کی، وہ 106 رنز بنا کر ٹاپ اسکورر رہے۔ میچ میں بہترین کارکردگی پر ناصر جمشید کو مین آف دی میچ قرار دیا گیا ۔ کپتان مہندرا سنگھ دھونی کے سوا بھارت کا کوئی بھی کھلاڑی پاکستانی بائولرز کو جم کر نہ کھیل سکا اور پوری ٹیم 48 اوورز میں165 رنز پر ڈھیر ہو گئی۔ ایم ایس دھونی 54رنز بنا کر ناٹ آئوٹ رہے ، پاکستان کی جانب سے سعید اجمل اور جنید خان نے تین تین' عمر گل نے2 جب کہ حفیظ اور شعیب ملک نے ایک ایک وکٹ حاصل کی۔
کرکٹ ایک کھیل ہے اور اس میں ہار جیت ہوتی رہتی ہے' پاکستانی کھلاڑیوں نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا' جس کا پھل انھیں جیت کی صورت میں مل گیا۔ اصل بات یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کرکٹ سیریز کا آغاز ہوا جس کا برصغیر کے عوام کو شدت سے انتظار تھا۔ اس سے دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان اعتماد میں مزید اضافہ ہو گا۔ بلاشبہ پاکستان میں دہشت گردی کا باعث حالات کشیدہ ہیں' لاہور میں سری لنکا کی کرکٹ پر دہشت گردوں کا حملہ پاکستان کی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے' اس کے بعد پاکستان میں عالمی کرکٹ میچ نہیں ہو سکے' عالمی کرکٹ ٹیمیں اگر پاکستان میں آ کر کھیلنے پر تیار نہیں ہوتیں تواس کا کسی حد تک جواز موجود ہے ۔
لیکن بھارت کا معاملہ اس کے برعکس تھا' بھارت نے پاکستان آنے سے نہیں بلکہ پاکستان کے ساتھ کھیلنے سے ہی انکار کر رکھا تھا' یہ سب کچھ ممبئی میں ہونے والے دہشت گردوں کے حملے کا ردعمل تھا' یہ امر خوش آیند ہے کہ اب بھارت کی حکومت کو احساس ہو گیا ہے کہ دہشت گردی میں ریاست پاکستان کسی طور ملوث نہیں' نان اسٹیٹ ایکٹرز کسی بھی جگہ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ یہ نان اسٹیٹ ایکٹرز بھارت میں بھی سرگرم ہیں اور پاکستان میں بھی اور افغانستان میں بھی آپریٹ کر رہے ہیں۔ بھارت میں دہشت گردی کی ایسی واداتیں بھی ہوئی ہیں جو وہاں کی انتہا پسند تنظیموں کی کارستانی تھی۔ شاید انھی حقائق کی بنا پر بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے ذہن تبدیل ہوا ہے۔ یوں دیکھا جائے تو پاکستان کرکٹ ٹیم کا بھارت میں جا کر کھیلنا ایک اہم پیش رفت ہے۔
بھارت کے دورے سے پاکستان میں کرکٹ کے کھیل میں نئی جان پیدا ہو گئی ہے۔ اب اگلا مرحلہ غیر ملکی ٹیموں کا یہاں آ کر کھیلنا ہے۔ یہ ایک انتہائی مشکل مرحلہ ہے۔ پاکستان میں دہشت گرد جس طرح کارروائیاں کر رہے ہیں' انھیں سامنے رکھا جائے تو غیر ملکی کھلاڑیوں کو سیکیورٹی فراہم کرنا یقیناً ایک مشکل کام ہے لیکن یہ بھی یاد رکھنے والی بات ہے کہ لاہور میں کبڈی کا ایشیاء کپ پر امن انداز میں ہو چکا ہے۔ حکومت نے بہترین حفاظتی اقدامات کیے۔ اس کے علاوہ سیاسی جماعتوں کے رہنما آئے روز لاکھوں کے جلسے کر رہے ہیں' یہاں بھی حالات پرامن رہتے ہیں' اس سے یہ نتیجہ نکلتاہے کہ پاکستان میں کرکٹ بھی ہو سکتی ہے' ضرورت صرف عزم اور حوصلے کی ہے۔ بنگلہ دیش کے کرکٹ بورڈ نے اپنی ٹیم پاکستان بھجوانے سے انکار کر دیا ہے۔
پاکستان کو خاصی حد تک یقین تھا کہ بنگلہ دیش کی کرکٹ ٹیم پاکستان آ جائے گی' یوں یہاں انٹرنیشنل کرکٹ بحال ہو جائے گی' بنگلہ دیش کے انکار کے بعد صورتحال پھر مشکل ہو گئی ہے۔ کرکٹ کے کھیل کو زندہ رکھنے کے لیے پاکستان میں ٹیسٹ' ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی میچز ہونا انتہائی ضروری ہے۔ غیر ملکی دوروں یا غیر جانبدار ملک میں کھیلنے سے کام نہیں بنے گا' پاکستان کرکٹ بورڈ نے بھارت کے ساتھ کرکٹ بحال کر کے اچھا کام کیا ہے' اب اگر بھارت کی ٹیم پاکستان کا دورہ کرے تو صورتحال میں انقلابی تبدیلی آ سکتی ہے' اس مقصد کے لیے بھارت کے کرکٹ بورڈ' کھلاڑیوں اور حکومت کو جرات مندی کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ پاکستان کے عوام کرکٹ کے شیدائی ہیں' ان کا دہشت گردوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
ادھر حکومت پاکستان کا فرض ہے کہ وہ بھارت اور دنیا میں یہ تاثر مستحکم کرے کہ گو پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتیں ہو رہی ہیں تاہم مجموعی طور پر ملک میں اتنے بھی حالات خراب نہیں جتنا غیر ملکی ذرایع ابلاغ پراپیگنڈہ کر رہے ہیں۔ بھارت کی اسٹیبلشمنٹ کو بھی اس حقیقت کا ادراک کرنا چاہیے کہ جنوبی ایشیاء میں امن کے قیام کے لیے انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کو شکست دینا انتہائی ضروری ہے۔ پاکستان دہشت گردوں کے خلاف برسرپیکار ہے۔ بھارتی حکومت پاکستان کے مسائل بڑھانے کے بجائے اسے کم کرنے کی کوشش کرے۔ اگر بھارتی کرکٹ بورڈ اور حکومت اپنی کرکٹ ٹیم کو پاکستان بھیجنے کا اعلان کر دے تو یہ انتہا پسندوں پر نفسیاتی دبائو ڈال دے گا۔ حکومت پاکستان فول پروف حفاظتی انتظامات کرے تو یہاں دونوں ٹیموں کے درمیان کرکٹ میچ ہونا نہ ممکن نہیں ہے۔
ناصرجمشید اور محمد حفیظ نے اوپننگ شراکت میں ٹیم کو141 رنز کا جاندار آغاز فراہم کیا جس کی وجہ سے وہ بھارت کو فتح کے لیے 250 رنز کا ہدف دینے میں کامیاب رہا۔ ناصر جمشید نے بھارت کے خلاف مسلسل دوسری سنچری بھی مکمل کی، وہ 106 رنز بنا کر ٹاپ اسکورر رہے۔ میچ میں بہترین کارکردگی پر ناصر جمشید کو مین آف دی میچ قرار دیا گیا ۔ کپتان مہندرا سنگھ دھونی کے سوا بھارت کا کوئی بھی کھلاڑی پاکستانی بائولرز کو جم کر نہ کھیل سکا اور پوری ٹیم 48 اوورز میں165 رنز پر ڈھیر ہو گئی۔ ایم ایس دھونی 54رنز بنا کر ناٹ آئوٹ رہے ، پاکستان کی جانب سے سعید اجمل اور جنید خان نے تین تین' عمر گل نے2 جب کہ حفیظ اور شعیب ملک نے ایک ایک وکٹ حاصل کی۔
کرکٹ ایک کھیل ہے اور اس میں ہار جیت ہوتی رہتی ہے' پاکستانی کھلاڑیوں نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا' جس کا پھل انھیں جیت کی صورت میں مل گیا۔ اصل بات یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کرکٹ سیریز کا آغاز ہوا جس کا برصغیر کے عوام کو شدت سے انتظار تھا۔ اس سے دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان اعتماد میں مزید اضافہ ہو گا۔ بلاشبہ پاکستان میں دہشت گردی کا باعث حالات کشیدہ ہیں' لاہور میں سری لنکا کی کرکٹ پر دہشت گردوں کا حملہ پاکستان کی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے' اس کے بعد پاکستان میں عالمی کرکٹ میچ نہیں ہو سکے' عالمی کرکٹ ٹیمیں اگر پاکستان میں آ کر کھیلنے پر تیار نہیں ہوتیں تواس کا کسی حد تک جواز موجود ہے ۔
لیکن بھارت کا معاملہ اس کے برعکس تھا' بھارت نے پاکستان آنے سے نہیں بلکہ پاکستان کے ساتھ کھیلنے سے ہی انکار کر رکھا تھا' یہ سب کچھ ممبئی میں ہونے والے دہشت گردوں کے حملے کا ردعمل تھا' یہ امر خوش آیند ہے کہ اب بھارت کی حکومت کو احساس ہو گیا ہے کہ دہشت گردی میں ریاست پاکستان کسی طور ملوث نہیں' نان اسٹیٹ ایکٹرز کسی بھی جگہ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ یہ نان اسٹیٹ ایکٹرز بھارت میں بھی سرگرم ہیں اور پاکستان میں بھی اور افغانستان میں بھی آپریٹ کر رہے ہیں۔ بھارت میں دہشت گردی کی ایسی واداتیں بھی ہوئی ہیں جو وہاں کی انتہا پسند تنظیموں کی کارستانی تھی۔ شاید انھی حقائق کی بنا پر بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے ذہن تبدیل ہوا ہے۔ یوں دیکھا جائے تو پاکستان کرکٹ ٹیم کا بھارت میں جا کر کھیلنا ایک اہم پیش رفت ہے۔
بھارت کے دورے سے پاکستان میں کرکٹ کے کھیل میں نئی جان پیدا ہو گئی ہے۔ اب اگلا مرحلہ غیر ملکی ٹیموں کا یہاں آ کر کھیلنا ہے۔ یہ ایک انتہائی مشکل مرحلہ ہے۔ پاکستان میں دہشت گرد جس طرح کارروائیاں کر رہے ہیں' انھیں سامنے رکھا جائے تو غیر ملکی کھلاڑیوں کو سیکیورٹی فراہم کرنا یقیناً ایک مشکل کام ہے لیکن یہ بھی یاد رکھنے والی بات ہے کہ لاہور میں کبڈی کا ایشیاء کپ پر امن انداز میں ہو چکا ہے۔ حکومت نے بہترین حفاظتی اقدامات کیے۔ اس کے علاوہ سیاسی جماعتوں کے رہنما آئے روز لاکھوں کے جلسے کر رہے ہیں' یہاں بھی حالات پرامن رہتے ہیں' اس سے یہ نتیجہ نکلتاہے کہ پاکستان میں کرکٹ بھی ہو سکتی ہے' ضرورت صرف عزم اور حوصلے کی ہے۔ بنگلہ دیش کے کرکٹ بورڈ نے اپنی ٹیم پاکستان بھجوانے سے انکار کر دیا ہے۔
پاکستان کو خاصی حد تک یقین تھا کہ بنگلہ دیش کی کرکٹ ٹیم پاکستان آ جائے گی' یوں یہاں انٹرنیشنل کرکٹ بحال ہو جائے گی' بنگلہ دیش کے انکار کے بعد صورتحال پھر مشکل ہو گئی ہے۔ کرکٹ کے کھیل کو زندہ رکھنے کے لیے پاکستان میں ٹیسٹ' ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی میچز ہونا انتہائی ضروری ہے۔ غیر ملکی دوروں یا غیر جانبدار ملک میں کھیلنے سے کام نہیں بنے گا' پاکستان کرکٹ بورڈ نے بھارت کے ساتھ کرکٹ بحال کر کے اچھا کام کیا ہے' اب اگر بھارت کی ٹیم پاکستان کا دورہ کرے تو صورتحال میں انقلابی تبدیلی آ سکتی ہے' اس مقصد کے لیے بھارت کے کرکٹ بورڈ' کھلاڑیوں اور حکومت کو جرات مندی کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ پاکستان کے عوام کرکٹ کے شیدائی ہیں' ان کا دہشت گردوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
ادھر حکومت پاکستان کا فرض ہے کہ وہ بھارت اور دنیا میں یہ تاثر مستحکم کرے کہ گو پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتیں ہو رہی ہیں تاہم مجموعی طور پر ملک میں اتنے بھی حالات خراب نہیں جتنا غیر ملکی ذرایع ابلاغ پراپیگنڈہ کر رہے ہیں۔ بھارت کی اسٹیبلشمنٹ کو بھی اس حقیقت کا ادراک کرنا چاہیے کہ جنوبی ایشیاء میں امن کے قیام کے لیے انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کو شکست دینا انتہائی ضروری ہے۔ پاکستان دہشت گردوں کے خلاف برسرپیکار ہے۔ بھارتی حکومت پاکستان کے مسائل بڑھانے کے بجائے اسے کم کرنے کی کوشش کرے۔ اگر بھارتی کرکٹ بورڈ اور حکومت اپنی کرکٹ ٹیم کو پاکستان بھیجنے کا اعلان کر دے تو یہ انتہا پسندوں پر نفسیاتی دبائو ڈال دے گا۔ حکومت پاکستان فول پروف حفاظتی انتظامات کرے تو یہاں دونوں ٹیموں کے درمیان کرکٹ میچ ہونا نہ ممکن نہیں ہے۔