اداروں میں کریڈٹ اور ذمہ داری کی چومکھی جنگ ہمہ وقت جاری رہتی ہیں جو کسی بھی ادارے کے زوال کی اہم وجوہات میں سے ایک ہے۔ کامیابی کو اپنے کھاتے میں ڈالنے اور ناکامی کا بوجھ دوسروں کے کاندھے پر لادنے کی خواہش شاید انسان کی فطرت میں شامل ہے اور اسی وجہ سے کوئی کامیابی حاصل ہو تو متعلقہ ایمپلائیز زیادہ سے زیادہ کریڈٹ کے لالچ میں دانستہ طور پر دوسروں کا کریڈٹ کھانے اور منفی ہتھکنڈے اپنانے سے بھی نہیں چوکتے، جبکہ نقصان کی صورت میں فوراً الزام تراشی کا آغاز ہوجاتا ہے۔ یہ ایک عمومی رویہ ہے جو اداروں کے علاوہ نجی معاملات میں بھی اکثر نظر آتا ہے۔
اِس میں کوئی شک نہیں کہ ہر شخص اپنی محنت کی داد چاہتا ہے جو اُسے ملنی بھی چاہیئے لیکن اِس سلسلے میں دوسروں کے حق پر ڈاکہ مارنا اور اخلاقی پستی کا مظاہرہ کرنا مادہ پرستی اور خدا خوفی سے بے بہرہ ہونے کی نشانی ہے، جبکہ اپنے ہاتھوں کئے گئے نقصان کو قبول کرنے کے بجائے اُس کی ذمہ داری ناجائز طریقے سے دوسروں پر عائد کرنا کمزور شخصیت اور اخلاقی جرات کی شدید کمی کی علامت ہے۔
اگر ادارے میں ایک جدید تشخیصی نظام اور فعال ہیومن ریسورس ڈیپارٹمنٹ کے ذریعے اِس بات کو یقینی بنایا جائے کہ تمام ملازمین کے کام کو ہر اعتبار سے اچھی طرح پرکھا جائے گا، اُنہیں اپنے دفاع کا مناسب موقع دیا جائے گا اور اُنہیں پذیرائی بھی دی جائے، جس کے وہ حقدار ہیں تو اِس ناخوشگوار صورتحال سے کسی حد تک بچا جاسکتا ہے یا اُن اقدامات کے بعد کم از کم ایسے عناصر سے وہ جواز ضرور چھینا جاسکتا ہے جس کی بنیاد پر وہ کریڈٹ نہ ملنے کا برملا اظہار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جب ادارہ ہمارے کام کو خود تسلیم نہیں کرے تو پھر ہمیں ہاتھ پاؤں مارنے کیا ضرورت ہے۔
آرگنائزیشن میں ہیومن ریسورس ڈیپارٹمنٹ کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے جو ملازمین کیلئے مختلف دوستانہ پالیسیز، ترغیبی تقاریر اور رابطہ کرنے کے لئے سیشنز کے ذریعے ایک خوبصورت کلچر تشکیل دیتا ہے، جس میں ایسی بلند پایہ روایات رائج ہوجاتی ہیں جو آرگنائزیشن کے مقاصد کو آگے بڑھانے میں مدد دیتی ہیں، اور کام کرنے کے طریقہ کار کو آسان بناتی ہیں۔ یہ روایات کسی پالیسی کا حصہ نہیں ہوتیں مگر اُن کے خلاف کوئی کام کرنا معیوب سمجھا جانے لگتا ہے۔ اِن روایات کے ذریعے بھی کریڈٹ اور ذمہ داری کی غیر ضروری کشمکش سے پیچھا چھڑانے میں مدد لی جا سکتی ہے۔ ترقی کی راہ پر گامزن اداروں میں جب ایسا کلچر فروغ پا جاتا ہے تو سربراہان سے ایسی بلند درجہ اور قابل تقلید اخلاقیات کا مظاہرہ ہوتا ہے کہ انسان ششدر رہ جاتا ہے۔ ایسا ہی ایک واقعہ ہوا انڈین اسپیس ریسرچ آرگنائزیشن (ISRO) میں ہوا۔
(نوٹ: یہاں ایک ہندوستانی کی خوبی کو قابل تقلید بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ قارئین سے التماس ہے کہ اسے پاک بھارت دشمنی کے تناظر میں دیکھنے کی بجائے اِس تناظر میں دیکھیں کہ حکمت مومن کی گمشدہ معراج ہے، اُسے جہاں پائے، اپنی چیز سمجھے۔)
بھارت کے میزائل مین اور سابق صدر ڈاکٹر عبد الکلام (مرحوم) 1979ء میں Satellite launch vehicle-3 کے مشن ڈائریکٹر (MD) تھے۔ SLV-3 انڈین اسپیس ریسرچ آرگنائزیشن (ISRO) کا پراجیکٹ تھا۔ 10 سال تک سینکڑوں لوگوں کی محنتِ شاقہ کے بعد جب لانچ کا وقت آیا تو لانچ سے صرف 40 سیکنڈ پہلے ایرر ٹیلی میٹری (Error Telemetry) آگئی کہ کسی لیکیج کے سبب SLV لانچ نہیں ہوسکتی۔ لانچ سائیٹ پر ڈاکٹر عبدالکلام کے ساتھ 60 ماہرین موجود تھے۔ MD نے مشورہ کیا تو ماہرین نے اعتماد کا اظہار کیا کہ فیول ضرورت سے زیادہ مقدار میں موجود ہے اور کنٹرول سسٹم SLV کی meneuvering کامیابی سے کرلے گا۔ MD نے فیصلہ کیا اور فائر کا حکم دے دیا۔ فور اسٹیج راکٹ کی دوسری اسٹیج ناکام ہوگئی اور SLV نیچے خیلجِ بنگال میں جا گری۔
ڈاکٹر عبدالکلام کہتے ہیں کہ چئیرمین ISRO، ستیش دھاون ایک گریٹ مین اور ایک گریٹ لیڈر تھے، انہوں نے مجھے بلایا اور پریس کانفرنس کا انتظام کرنے کو کہا۔ میں ڈر گیا کہ اتنی بڑی ناکامی کے بعد میں کیسے میڈیا کا سامنا کیا جائے گا۔ انتظامات ہوگئے تو ستیش دھاون نے خود پریس کانفرنس کی اور ناکامی کی ذمہ داری یوں قبول کی،
''ہم آج ناکام ہوگئے ہیں مگر ہماری ٹیم بہت اچھی ہے اور ہم اگلے سال کامیاب ہوں گے''
اگلے سال 1980ء میں اُسی ٹیم اور اُسی MD نے ISRO کو SLV-3 کی کامیاب لانچ کا خوبصورت تحفہ دیا۔ چئیرمین ISRO ستیش دھاون نے دوبارہ ڈاکٹر صاحب کو پریس کانفرنس کا انتظام کرنے کو کہا۔ جب انتظام ہوگیا تو ستیش دھاون نے ڈاکٹر صاحب کو کہا کہ اب کی بار پریس کانفرنس کی نظامت وہ کریں۔
ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں،
When failure occurred, the leader took it up
When success came, he gave it to his team
آپ نوٹ کریں کہ کیا ہوا،
- مشن کی ناکامی کے بعد MD تبدیل نہیں کیا گیا
- ٹیم کو ذلیل نہیں کیا گیا
- ناکامی کو سامنے آکر قبول کیا گیا
- کامیابی کی شیرینی ساری کی ساری بانٹ دی گئی
- اپنے ماتحت کی شہرت و قابلیت سے خود کو غیر محفوظ تصور نہیں کیا گیا
ڈاکٹر صاحب جیسے قابل انسان کی زبان سے ستیش دھاون نے اپنے لئے گریٹ مین اور گریٹ لیڈر کے القابات لے لئے اور سب سے بڑی بات یہ ہوئی کہ اپنی قائدانہ صلاحیتوں سے بھارت کو SLV کی کامیاب لانچ دی۔
جب نیت ہی یہ ہو کہ ناکامی کی ذمہ داری میں نے خود لینی ہے اور کریڈٹ دوسروں کو دینا ہے تو ملازمین خود بخود ادارے کیلئے کام کرتے ہیں کیونکہ کریڈٹ کا لالچ سرے سے ہی ختم ہوچکا ہوتا ہے اور اُس کی جگہ ذمہ داری لے چکی ہوتی ہے، لیکن جن اداروں میں ایمپلائیز کا یہ مائنڈ سیٹ ہو کہ،
- ادارے کے ہر پراجیکٹ کی ٹیم میں اپنا نام لیڈنگ رول میں چاہیئے،
- جس پراجیکٹ میں میرا نام نہیں ہوگا، میں اُس میں نہ صرف روڑے اٹکاؤں گا بلکہ اُس کی ناکامی پر خوشی کے شادیانے بھی بجاؤں گا،
- ہر سال ایوارڈ چاہیئے،
- ستارے، تمغے بھی چاہئیں،
- اپنے نام کے ڈنکے بھی چاہئیں،
- رعب دبدبہ بھی چاہیئے،
- زیادہ سے زیادہ اختیارات اور ماتحت بھی چاہئیں،
- بہترین سہولیات سے مزین اچھا سا آفس بھی چاہیئے،
- کارکردگی دکھانے کیلئے یہ سب کچھ ضرور چاہیئے ورنہ میں پُرسکون نہیں ہوپاتا ہوں، (حالانکہ جانفشانی سے کام کرنے کیلئے ہر ماہ کی یکم کو تنخواہ کا مل جانا بھی کافی ہے)۔
تو اِس کا مطلب یہ ہوا کہ ہیومن ریسورس ڈیپارٹمنٹ پوری طرح اپنی ذمہ داریاں ادا نہیں کررہا۔
لہذا اگر واپڈا، ریلوے، پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) اور دیگر سرکاری اداروں نے ترقی کرنی ہے تو اور بہت سارے مطلوبہ اصلاحی اقدامات کے ساتھ ساتھ کریڈٹ اور ذمہ داری کی ''ستیش دھاون اسپرٹ'' بھی اوپر سے نیچے تک سب کے سب ملازمین جذب کرلیں۔ یعنی تمام ملازمین کریڈٹ بھول کر ذمہ داری اٹھالیں، آپ کامیاب ہوجائیں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ
[email protected] پر ای میل کریں۔