بحران کو زائل کریں

14جنوری کی تاریخ کا تذکرہ کچھ ایسے ہو رہا ہے کہ جیسے اس روز صور پھونکا جائے گا۔

www.facebook.com/syedtalathussain.official

MUZAFFARABAD:
جب سے ڈاکٹر محمد طاہر القادری کینیڈا سے نازل ہوئے ہیں، ہر طرف ہنگامہ برپا ہے۔ سیاسی کڑھی میں ایسا غضب کا ابال اس سے پہلے دیکھا اور نہ ہی سننے میں آیا۔ ذرایع ابلاغ پر انٹرویوز کی بھرمار اتنی غیر معمولی نہیں۔ میڈیا آج کل قحط کے سے ماحول سے دو چار ہے۔ اگر مولانا جیسا تازہ اور خبروں سے بھرا ہوا پھل خود سے گود میں گر جائے تو سب ہی اس سے استفادہ کرنا چاہیں گے۔ اصل میں حیرت انگیز پہلو وہ سیاسی گہما گہمی ہے جو خدشات، سراسیمگی اور آنے والے دنوں میں بڑے اور برُے واقعات کی پیشین گوئیوں سے بھری ہوئی ہے۔

14جنوری کی تاریخ کا تذکرہ کچھ ایسے ہو رہا ہے کہ جیسے اس روز صور پھونکا جائے گا اور اسلام آباد کے پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح اڑتے پھریں گے۔ اس روز ڈنکا بجے گا تو صرف ایک شخص کا۔ جو اپنی مخملی عبا اور ترکی عمامہ نما ٹوپی میں ملبوس ہو کر یا تو نئی جمہوریت کی بنیاد رکھ دے گا یا پھر وہ ہنگامہ مچائے گا کہ پونے پانچ سال سے قائم یہ نظام ریت کی دیوار کی طرح زمین بوس ہو جائے گا۔ اِس کی جگہ یا تو فوجی آمریت لے لے گی اور یا پھر عدلیہ کی مدد سے ایک نیا نظام بنایا جائے گا جو جمہوریت میں سرایت بدعنوانی اور اقربا پروری کی پیپ کو دبا دبا کر دو سال میں باہر نکال دے گا۔

طاہر القادری کی آمد اور اُن کے دھمکی آمیز لانگ مارچ کے گرد گھومتی ہوئی یہ قومی بحث دلچسپ تو ضرور ہے مگر اصل نقطے سے کہیں دور ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی پاکستان میں موجودگی پر غور کرنے کے بجائے ہر کوئی14 جنوری کے نتائج پر غور کر رہا ہے۔ میری ناقص رائے میں ہم نے ڈاکٹر قادری کے آئین، قانون اور جمہوریت سے متعلق بلند بانگ دعوئوں کو غیر ضروری اہمیت دے کر اُن ممکنہ خطرناک نتائج سے نظر ہٹالی ہے جن کے حصول کی خاطر ڈاکٹر قادری کو تمام جاہ و جلال کے ساتھ میدان میں اتارا گیا ہے اور جن سے شاید وہ خود بھی پوری طرح واقف نہیں۔

یاد رہے ڈاکٹر صاحب کا قومی خدمت کا ریکارڈ کچھ ایسا ہی ہے جیسا جمہوریت سے الفت کا۔ آپ 80ء اور 90ء کی دہائیوں میں اپنے بیانات، ارشادات، خوابوں اور اپنی سیاست کے بدلتے ہوئے رنگوں کی وجہ سے کافی متنازعہ رہے۔ اگر ِاس تاریخ کو مخالفین کے عناد اور حاسدوں کی چشمک پر مبنی قرار دے کر یکسر رد بھی کر دیں تو بھی پچھلے چند سالوں میں قومی سطح پر ڈاکٹر صاحب کسی اہم معاملے میں عوام کی خاطر کہیں بھی منہ پر تلوار کھاتے نظر نہیں آئے۔ پچھلے دس برسوں میں زلزلے، سیلاب اور دہشت گردی کے طوفان میں موصوف نے حقیقی حصہ ڈالنے اور قربانی دینے سے گریز فرمایا۔

انھوں نے وہ وقت مغرب کی ٹھنڈی میٹھی فضائوں میں اپنے پیر جمانے پر صرف کیا۔ اس وقت کو قوم کی ڈھارس دلانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا تھا۔ جنرل مشرف کے خلاف وکلاء تحریک میں آنے والے تمام تکلیف دہ مراحل (بشمول ذرایع ابلاغ پر ظالمانہ پابندیاں اور صحافیوں کی ٹھکائی) پر زبان کو بند رکھا۔ اُن جج صاحبان کی حوصلہ افزائی میں ایک لفظ بھی نہیں بولا جن کے لیے تمام قوم اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔ پچھلے پانچ سال میں کراچی میں کشت و خون پر نظر نہیں دوڑائی۔ بلوچستان کو یکسر نظر انداز کیا اور کرپشن اور بدعنوانی پر ہندوستان کے انا ہزارے کی طرح کوئی تحریک نہیں چلائی۔


مگر اب جب اس ملک کے باسیوں نے موجودہ حکومت کے تمام عذاب جھیلنے کے بعد اس ٹوٹے پھوٹے ہوئے نظام میں آیندہ انتخابات کی صورت میں بہتری کا کمزور سا اہتمام کرنا شروع کیا ہے تو ڈاکٹر قادری نے اڑن کھٹولے پر بیٹھ کر احتجاج کی اذان دینا شروع کر دی ہے ۔

ظاہر ہے اگر ان کو جمہوریت سے کوئی غرض ہوتی تو یہ عرش سے اتر کر فرش پر آتے اور سیاست میں حصہ لیتے۔ اگر آئینِ پاکستان اِن کے لیے مقدس ہوتا تو اس وقت جلوہ افروز ہوتے جب اٹھارویں، انیسویں اور بیسویں ترامیم کا معاملہ گرم تھا۔ اگر سر زمین پاکستان سے وفاداری کا جذبہ ٹھاٹھیں مار رہا ہوتا تو کینیڈا کی شہریت کے بدلے ملکہ الزبتھ کے ہاتھ پر بیت کیوں کرتے۔ یہ حقیقت ہے کہ ڈاکٹر صاحب فکری، ذہنی، ذاتی اور عملی طور پر اس ملک کو خیر باد کہہ چکے تھے۔ لہذا ان کے اچانک وارد ہونے کو آئینی اور جمہوری معاملات سے جوڑنا احمقانہ حد تک سادہ لوحی پر مبنی ہے۔

ڈاکٹر صاحب کی پاکستان واپسی کو بیرونی عناصر کی اس دیرینہ اور پر زور کوشش کے پیرائے میں دیکھنا ہو گا جس کے توسط سے وہ اہم اسلامی ممالک میں مذہبی منافرت کو فروغ دے کر وہ صورتحال پیدا کرنا چاہتے ہیں جس میں اُن کا اثر و رسوخ ناقابل شکست ہو جائے۔ آج سے چند سال پہلے امریکا کی سابق سفیر این پیٹرسن نے صوفیائے کرام کے مزاروں اور سجادہ نشینوں کے آستانوں کا دورہ شروع کیا۔ وہ امریکا جو ایک وقت ایک خاص مسلک کے ذریعے افغانستان میں روس کو شکست دینے پر پیسہ پانی کی طرح بہا چکا تھا، اس نئے دور میں ایک دوسرے مسلک کا رفیق بن کر سامنے آنے لگا۔

شیعہ سنی فساد، جس نے کئی اسلامی ممالک کو عملاََ دو لخت کر دیا ہے اور سعودی عرب سمیت کئی دوسرے ممالک میں ایک سنگین خطرے کے طور پر ابھر رہا ہے، باوجود تمام خونریزی کے پاکستان میں کامیاب نہیں ہو پایا۔ ہماری اپنی تمام کوتاہیوں اور غلطیوں کے باوجود فرقہ ورانہ فسادات نے ا بھی تک ملک کی جڑوں کو نہیں ہلایا، اب اگر کوئی جنگ پاکستان کو اندرونی طور پر کھو کھلا کر سکتی ہے تو وہ مسلکی فتنہ ہے جو عقائد کے اعتبار سے اس قوم کو متحارب گروہوں میں بانٹ د ے گا۔ ڈاکٹر قادری ایک مسلک کے ایک خاص حصے کی نمایندگی کرتے ہیں۔

اِن کی طرف سے تمام قوم کے جذبات اور احساسات کی نمایندگی کا دعویٰ یقیناً دوسری طرف سے شدید ردعمل کا باعث بنے گا۔ اِدھر سے بھی فتویٰ جاری ہو گا اور اُدھر سے بھی۔ مسلک کی وہ لکیریں جن کی بنیاد پر ہر محلے میں علیحدہ علیحدہ مساجد بنی ہوئی ہیں، گہری کھائیوں میں تبدیل ہو جائیں گی۔ ایک باقاعدہ محاذ بن جائے گا جو پاکستان کے دوسرے حصوں سے کہیں زیادہ وسطی پنجاب میں خونریز فساد کا باعث بن سکتا ہے۔ اگر14جنوری کے مارچ کے دوران خودکش حملے ہوتے ہیں اور بڑا جانی نقصان ہوتا ہے تو آپ خود ہی سوچ لیں کہ یہاں سے لگنے والی آگ کے شعلے کہاں تک پھیلیں گے۔

اس ا لا ئو میں بچی کھچی قومی یکجہتی بھسم ہو جائے گی۔ یہ سب کچھ جِنوں پریوں کی کہانی نہیں ہے۔ عراق کا حال آپ کے سامنے ہے۔ شام کو آپ نے خود دیکھ لیا۔ پاکستان کے اندر یہ فساد پھیل سکتا ہے اور پھیلایا جا رہا ہے اور اگر اس دوران ایران پر حملہ کر دیا گیا تو اس سے نکلنے والے خطرناک نتائج سے بھی یہ ملک نہیں بچ سکے گا۔ ڈاکٹر قادری کے مارچ کو آئینی اور قانونی معاملات کہہ کر چھوٹ دینے والے سیاستدان اُس فکری اور عقلی کمزوری کا اظہار کر رہے ہیں جس کی وجہ سے ڈاکٹر صاحب کے بیانات باوزن محسوس ہوتے ہیں۔ ورنہ پاکستان میں ان کی آمد اور لندن سے اِن کی بھرپور پذیرائی کوئی ایسا معمہ نہیں ہے جس کو سمجھا نہ جا سکے۔ پاکستان کو ایک خطرناک بحران کی زد میں لایا جا رہا ہے۔ اس کو روکنا اہم ترین قومی ضرورت ہے۔
Load Next Story