بہادری شجاعت اور سورمائیت

کسی بھی جنگ کو مقدس بنانے کے لیے بہت سی چیزیں بھی مشہور کر دی گئی ہیں جن میں مذہب تو سرفہرست ہے


Saad Ulllah Jaan Baraq January 04, 2013
[email protected]

یہ تو ہم اکثر سنتے اور پڑھتے ہیں کہ جھوٹ اگر تسلسل کے ساتھ بولا جائے تو ایک دن اس پر سچ کا گمان ہونے لگتا ہے، یہی سلسلہ برائیوں اور اچھائیوں کا بھی ہے۔کسی برائی کی مسلسل تعریف کی جائے، بار بار کی جائے اور زمانوں تک کی جاتی رہے تو وہ اچھائی بن جاتی ہے۔ شجاعت، بہادری اور سورمائیت کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ہے، ہو رہا ہے اور ہوتا رہے گا۔

شاعروں، صورت گروں اور افسانہ نویسوں نے اس کے اتنے گن گائے، اتنا اچھالا ہے اور تسلسل کے ساتھ ایک صفت بنا کر پیش کیا ہے کہ اب اسے عیب ثابت کرنا بہت مشکل ہو گیا ورنہ بہادری اور شجاعت کیا ہے، دوسروں کو مارنا، قتل کرنا، مٹانا ۔۔۔ اس کے علاوہ بہادری اور شجاعت کی اور کیا تعریف کی جا سکتی ہے۔ جتنے بھی بڑے بڑے سورما ہیرو اور شجاع و بہادر گزرے ہیں اور جن کی مدح سرائی اور قصیدہ گوئی کی جاتی ہے، اس میں ''مارنے'' کے سوا اور کیا ہوتا ہے۔جس نے جتنے زیادہ انسان مارے، زیادہ تباہیاں مچائیں، آبادیاں روندیں اتنا ہی زیادہ قابل تعریف ٹھہرا۔

اگر کوئی انسان زندگی بھر کسی سے لڑا ہو نہ کسی کو تھپڑ مارا ہو نہ کوئی دل آزاری کی ہو، وہ بزدل، نکما اور بے صفت ہوتا ہے۔ دراصل یہ بہادری، شجاعت اور سورمائیت بھی حکمرانیت ،بادشاہت اور عسکریت کا تراشا ہوا ،گھڑا ہوا اور تصنیف کیا ہوا وہ عظیم الشان جھوٹ ہے جس کے ستونوں پر حکم رانی کی عمارت کھڑی ہوتی ہے، اگر یہ جھوٹ نہ ہوتا تو حکم رانوں کے لیے کوئی اپنے جیسے انسانوں سے کیسے لڑتا اور کیوں لڑتا، کسی ایک ملک یا مذہب یا قوم کے عام فرد نے کسی دوسری قوم یا ملک یا مذہب کے عام فرد یا سپاہی کا کیا بگاڑا ہوتا ہے۔

وہ تو ایک دوسرے کو جانتے بھی نہیں ہوتے بلکہ اگر ایک دوسرے کو جان لیں تو ایک دوسرے کو نہیں ماریں گے کیوں کہ کوئی اپنے آپ اور اپنے جیسے کو کیوں مارے گا لیکن صدیوں کے مسلسل پروپیگنڈے نے ''مارنے'' کو ایسے خوب صورت اور پرکشش معنی دیے ہیں کہ سامنا ہوتے ہی دونوں ایک دوسرے کو مارنے لگتے ہیں، یہ تو ممکن ہی نہیں کہ ساری دنیا کے سارے انسان ایک قوم، ایک مذہب، ایک نسل یا ایک ملک کے ہو جائیں، قدم قدم پر اختلاف، رنگ و نسل، ملک و قوم، مذہب و نظریہ موجود ہے جسے قرآن نے ''پہچان'' کا ذریعہ بتایا ہے۔

ہم نے تم کو شعوب و قبائل میں تقسیم کیا
تا کہ ایک دوسرے کو شناخت کر سکو

ایک ہی باپ کے ایک ہی گھر میں بھی اس کے بیٹوں کا ''ایک نام'' نہیں ہوتا کیوں کہ سب کو ''بیٹا'' کہا جائے تو پہچان کیسے ہو چنانچہ پہچان اور شناخت کے لیے ان کے نام رکھے جاتے ہیں لیکن یہ کہاں کا انصاف ہے یا معقولیت ہے کہ ان میں سے ایک تلوار اٹھا کر مارنا شروع کر دے کیوں کہ دوسرے اس سے مختلف نام رکھتے ہیں، یہی شناخت کا دائرہ آگے چل کر شعوب و قبائل، ممالک، مذاہب تک پھیل جاتا ہے۔ ان میں سے کسی کا بھی حق نہیں ہے کہ پہچان کے اس فرق کو بنیاد بنا کر دوسروں کو مارنا شروع کر دے، لیکن حاکمیت، حکمرانیت اور عسکریت نے یہ کمال دکھایا ہے کہ اس فرق کو لڑائی کی بنیاد بنایا ہے۔

اپنے اپنے شاعروں، صورت گروں اور افسانہ نویسوں کی مدد سے اس نے اس کھلی درندگی کو صفت میں تبدیل کر لیا ہے، یہ ایک ایسا جادو ہے جو انسانیت کے سر چڑھ کر بولا ہے اور ایسا بولا ہے کہ دوسری کسی بھی آواز کو بلند ہونے کا موقع نہیں دیا ہے۔ بہادری، بہادری، شجاعت، یہ سورما وہ سورما یہ ہیرو وہ ہیرو ۔۔۔ جو جتنا زیادہ قتل و قتال کرتا ہے، وہ اتنا ہی بڑا فاتح اور شجاع مانا گیا ہے، بشرطیکہ فتح یاب بھی ہو اگر شکست کھائے تو اس کی ساری صفات عیوب میں بدل جاتی ہیں۔ قدیم مصر میں ایک فرعون گزرا ہے اخناتون ۔۔۔ وہ اگرچہ بہت ساری انسانی صفات کا حامل تھا لیکن مصر کی تاریخ سب سے زیادہ ناکام فرعون اسی کو قرار دیا گیا ہے کیوں کہ وہ نہ کسی سے لڑا تھا نہ کسی پر حملہ کیا تھا اور اس کے دور میں اردگرد کے بادشاہوں نے مصر کے علاقوں پر قبضہ کیا تھا۔

مغلیہ دور سلطنت کا بادشاہ شاہ جہان چونکہ صلح کل قسم کا تعمیری مزاج والا بادشاہ تھا، اس لیے اس کو عین درمیان میں اس کے شجاع اور ھمہ صفت موصوف بیٹے نے معزول کر کے بارہ سال تک قیدی بنایا اور جہاں کہیں بھی کوئی امن پسند حکمران ہوا ہے، وہ بزدل اور ناکام قرار دیا گیا ہے جب کہ سکندر، ہنی بال، داریوش، چنگیز، ہلاکو، تیمور اور بابر کے چہرے انسانی لہو سے سرخ کر کے حسین بنائے گئے ہیں، حکمرانوں کے ہوس اقتدار اور جوع الارض کے لیے یہ ضروری تھا کہ جنگ و جدل مرنے مارنے اور خون بہانے جیسی درندگی کو پرکشش بنایا جائے چنانچہ انھوں نے بے وقوف لڑاکوں کو دنیاوی معاوضوں کے ساتھ ساتھ مرنے مارنے اور جان لینے اور دینے کو شجاعت کا نام دے کر اسے اتنا پرکشش بنا دیا کہ عیب ہوتے ہوئے بھی اسے صفت بلکہ اعلیٰ ترین صفت بنا دیا۔

اس حد تک سپہ گری اور جنگ جوئی ایک نہایت ہی اعلیٰ اور قابل فخر پیشہ بنا دیا گیا کیوں کہ حکمرانوں کی ہوس اقتدار کو مقدس بنانے کے لیے ان کے شاعر و صورت گر اور افسانہ نویس ہمیشہ ہوتے تھے جو شاہوں کی خوشنودی کے گن گانے کو ہی فن سمجھتے تھے چنانچہ دنیا بھر میں جس بھی زمانے کا ادب اٹھایئے، اس میں شجاعت کے ترانے گائے گئے ہوں گے۔ ایک بڑھیا کے چار بیٹے وطن پر قربان ہوئے تو اس نے پانچویں کو بھی وطن پر قربان ہونے کے لیے بھیج دیا لیکن اس کے بعد کا قصہ نہیں سنایا گیا کہ اس وطن میں اس بڑھیا کا کیا حال ہو گیا تھا، یقیناً اسے اسی وطن کی اسی گلیوں میں بھیک مانگنا پڑی ہو گی اور اسی وطن کے حکمرانوں اور شرفاء کے دربانوں نے دھکے دیے ہوں گے یا کتوں نے کاٹا ہو گا کیونکہ فتح کے بعد تو حکمرانوں کو یاد بھی نہیں رہتا کہ قربان ہونے والوں کے مدفن کہاں ہیں یا ہیں بھی یا نہیں ہیں۔

نہ مدعی نہ شہادت حساب پاک ہوا
کہ خون خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا

ہاں البتہ ان کے خاندانوں کے لیے بعض اوقات بعد از مرگ تمغہ جات بھی دیے جاتے ہیں، پلوں، سڑکوں اور کچھ عمارتوں کے نام بھی ان کے ناموں پر رکھے جا تے ہیں اور شہید کہہ کر ان کا مقام اونچا کیا جاتا تھا، اس لیے نہیں کہ ان کو مرنے والوں کی فکر ہوتی تھی بلکہ اس لیے کہ آیندہ کے لیے بھی اقتدار کے کارخانے کے لیے ''خام مال'' دستیاب رہے، بعض شہروں میں ''گمنام سپاہی'' کی یادگاریں بھی تعمیر ہوتی ہیں جو سب سے بڑا مذاق ہوتا ہے جنہوں نے دور بیٹھ کر ان مرغوں کو لڑایا ہوتا ہے وہ تو اقتدار کے مزے لوٹتے ہیں، ان کے پورے خاندان شہزادے شاہزادیاں وطن کے وسائل پر عیش اڑاتے ہیں۔

کسی بھی جنگ کو مقدس بنانے کے لیے بہت سی چیزیں بھی مشہور کر دی گئی ہیں جن میں مذہب تو سرفہرست ہے حالانکہ اگر خدا کی یہی مرضی ہوتی کہ سارے انسان ایک ہی مذہب کے پیرو کار ہوں تو اس سے زیادہ اس کام پر اور کون قادر ہو سکتا ہے کہ سارے انسان چشم زدن میں ایک مذہب پر جمع ہو جائیں وہ ان کے دل بھی پلٹ سکتا ہے، منکر ہونے کی صورت میں آسانی سے مار بھی سکتا ہے بلکہ پیدا ہی کیوں کرتا ہے اور پھر پالتا کیوں ہے، وہ چاہے تو سارے منکر تڑپ تڑپ کر مر جائیں، اس طرح وطن، نسل، قوم، نظریہ وغیرہ دوسرے نام ہیں جن کے ذریعے گرما کر شجاعت کی داد دلوائی جاتی ہے، مطلب کہنے کا یہ ہے کہ شجاعت اس کے سوا اور کیا ہے کہ دوسرے کو مارا جائے اور جو سب سے زیادہ انسان مارے وہ سب سے زیادہ ''شجاع'' مانا جائے ۔کل ملا کر جان لینے کا نام ہی شجاعت ہے۔

بہانہ کچھ بھی ہو، وجہ کوئی بھی بتائی جائے، دشمنی کی بنیاد کچھ بھی ہو نتیجہ اور حاصل تو وہی ایک ہوتا ہے، مارنا یا پھر مرنا۔ اب سب سے بڑا سوال یہ کہ اگر کوئی انسان زندگی دے نہیں سکتا تو وہ زندگی لینے کا حق دار کیسے ہو سکتا ہے، اس کا حق دار تو صرف وہی ہے جو زندگی دیتا ہے اور لیتا بھی ہے تو کیا زندگی لینا انسان کے لیے جائز ہے جو کسی بھی طرح کسی ایک کو زندگی دے نہیں سکتا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں